اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-01

میرے والد ! مکرم بشیر الدین ننگلی صاحب

( نور الدین نوری مربی سلسلہ نظارت نشرواشاعت قادیان)

افسوس میرے بہت ہی پیارے والدمحترم بشیر الدین ننگلی صاحب قادیان مورخہ 5جنوری2024بروز معۃ المبارک صبح 4:30بجے اچانک حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔
1956 میں آپ کی فیملی پاکستان فیصل آباد گئے تھے والدہ صاحبہ کا پاسپورٹ گم جانے کی وجہ سے کچھ عرصہ فیصل آباد کے گاؤں بکّو والا میں رکنا پڑا جہاں 6؍ اکتوبر 1956ء کو آپ کی ولادت ہوئی ۔خلیفۃ  المسیح  الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ کا نام بشیرالدین تجویز فرمایا۔ آپ کےوالد محترم کا نام دین محمد ننگلی صاحب درویش مرحوم اور والدہ کانام مکرمہ صغریٰ بیگم صاحبہ تھا۔آپ محترم محمد رمضان صاحب مرحوم آف امبالہ، ہریانہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نواسے تھے ۔ آپ کا نام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے بشیر الدین تجویز فرمایا تھا ۔
1965ء میں آپ اپنے چھوٹے بھائی اور والدہ کے ہمراہ پاکستان گئے ہوئے تھے اُن دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ بیمار تھے ۔ملنے کی اجازت نہ تھی ۔حضور کو یہ بتانے پر کہ قادیان سے آئے ہیں اجازت ملی ۔ کمرہ میں حضور نے کروٹ لے کر ان کی طرف دیکھا ۔آپ حضور کے پلنگ کا چکر لگا کر کمرے سے باہر آ گئے ۔ اس طرح  آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بھی زیارت کی توفیق ملی ۔ الحمد للہ ۔
1982ءمیں آپ پاکستان گئے ہوئے تھے اپنی اہلیہ اور بڑے بیٹے ناصر الدین کے ہمراہ حضرت خلیفۃ  المسیح الثالث رحمہ اللہ سے شرف ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی ۔ ملاقات کے چند یوم بعد حضور کی وفات ہو گئی آپ کو حضور کے جنازہ مبارک میں شامل ہونے کی بھی سعادت نصیب ہوئی ۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ جب خلیفہ منتخب ہوئےتو آپ کو ربوہ میں اُن کی بیعت کرنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی ۔
والد صاحب بہت پیار کرنے والے، ہمدرد، ملنسار اور دکھ سکھ میں سب کے کام آنے والے بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ اپنی ساری زندگی نہایت سادگی، ایمانداری اور وفا کے ساتھ گزاری ۔
والد صاحب نے سن 1976 سے سن 2010تک ایک لمبا عرصہ فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان میں بہت محنت اور وفا کے ساتھ خدمت کی توفیق پائی ۔آپ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے ارشاد پر 7؍اپریل 1992ءکو 3ماہ کیلئے پریس کی مشین کا کام سیکھنے ربوہ پاکستان گئے۔اُس وقت پیارے حضور انور حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ناظر اعلیٰ ربوہ تھے ۔ کئی بار حضور سے آپ کی ملاقات ہوئی ۔ الحمد اللہ ۔
دسمبر 2006میں اچانک گردے فیل ہوگئے جس پر محترم میاں صاحب مرحوم (حضرت مرزا وسیم احمد صاحب ) کے مشورہ اور ہدایت پر پاکستان کا ویزہ حاصل کرکے وہاں گئے اور لاہور میں رشید ہسپتال میں کامیاب کڈنی ٹرانسپلانٹ کا آپریشن ہوا۔موصوف صحتیاب ہوتے ہی واپس فضل عمر پرنٹنگ پریس میںخدمت کیلئے حاضر ہوگئے ۔آپریشن کے بعد جسم کچھ کمزور ہو گیا تھا اور پریس میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کے نقصان کی وجہ سے موصوف کاتبادلہ 2010میں دفتر بہشتی مقبرہ قادیان میں ہو گیا اور سال 2016اپنی ریٹائرمنٹ تک موصوف دفتر بہشتی مقبرہ قادیان میں خدمت سر انجام دیتے رہے ۔
والد صاحب سلسلہ کی خدمت کا بے انتہا جذبہ رکھتے تھے آپ ایک طویل عرصہ اپنے حلقہ میں بطور سیکریٹری مال کے عہدہ پر خدمت کی توفیق پاتے رہے ۔ وفات سے قبل بھی آپ اپنے میں حلقہ میں سیکریٹری وقف جدید اور محصل مجلس انصار اللہ کی خدمت سر انجام دیتے رہے ۔صد سالہ جوبلی کا چندہ بھی بڑی محنت لگن سے آپ نے وصول کیا۔ جب بھی نماز کیلئے مسجد جاتے یا باہر کسی کام سے جاتے تو رسید بُک آپ کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ نماز کے بعد اکثر محلہ کے داخلی حصہ میں کرسی پر بیٹھ جایا کرتے تھے تا کہ چندہ کی وصولی کر سکیں ۔ گردے فیل ہونے کے بعد جب آپ کا ڈائلیسز ہوتا تھا تو دائیں ہاتھ کی کلائی میں آپریشن کر کے پائپ ڈالا گیا جس سے آپ کا ہاتھ کمزور ہو گیا تھا اور کانپتا تھا گھر والے منع کرتے تھے کہ اس ہاتھ سے پین نہ پکڑیں رسید ہم کاٹ دیتے ہیں لیکن آپ کہتے نہیں یہ رسیدیں میں ہی کاٹوں گا ۔ اپنی وفات سے 2دن قبل تمام رسیدات کی رقم محاسب میں جمع کروا دیں ۔
فن کتابت کی صلاحیت حاصل کی اخبار بدر قادیان کی کتابت اور بہشتی مقبرہ قادیان کے بعض مزار ، یادگاری کتبہ جات کی کتابت آپ کی یادگار ہیں ۔
آپ جلسہ سالانہ قادیان پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کا اپنے گھر پر قیام و طعام کا اہتمام بہت شوق اور اخلاص کے ساتھ کیا کرتے تھے اور اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں کسی مہمان کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہ جائے بعض سالوں میں گھر میں مہمانوں کی تعداد 60سے بھی زائد ہو جاتی تھی ۔ایک بڑی تعداد ایسے مہمانوں کی تھی جو رشتہ دار نہیں تھے لیکن کسی نہ کسی کے توسط سے آ جاتے تھے اور رہائش کیلئے آپ کبھی کسی کو منع نہیں کرتے تھے ۔جب مہمان واپس گھروں کو جاتے تو اُن کو قادیان کےتبرک کے طور پر کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور دیتے۔کڈنی ٹرانسپلانٹ کے بعد جسم میں کمزوری آگئی تھی۔ اسکے باوجود جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کا استقبال کرنے انکا سامان اٹھوانے انہیں قیام گاہ تک پہنچانے اور بعد میں انہیں رخصت کرنے خود چل کر جایا کرتے تھے۔اور مہمانوں کے جانے تک اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں کسی مہمان کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہ جائے اور اپنی توفیق اور استطاعت کے ساتھ یہ سلسلہ اپنی وفات تک جاری رکھا ۔
وفات کے بعد بے شمار مہمانان کرام جو کبھی آپ کے گھر میں ٹھہرے تھے کی طرف سےتعزیت کے فون آئے جو اُن کی وفات پر رو رہے تھے اور کہتے تھے کہ یہ شخص بے انتہا محبت کرنے والا شخص تھا کبھی محسوس نہ ہونے دیا کہ ہم اپنے گھر میں ہیں یا کسی غیر کے گھر میں ۔ ایک مہمان نے بتایا کہ2012میںوہ ہمارے گھر ٹھہرے تھے اوروالد صاحب کی مہمان نوازی کی رو رو کر تعریفیں کیں اور کہا کہ میں بیان نہیں کر سکتا کہ ان کی وفات سے میں کس غم میں ہوں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا خود کا باپ فوت ہو گیا ہو ۔
والد صاحب کا خلافت کے ساتھ محبت اور وفا کا خاص تعلق تھا۔ 2014 میں جلسہ سالانہ لندن پر قادیان دارالامان سے جانے والے وفد میں شامل تھے۔ حضور انور کے ساتھ کئی بار شرف ملاقات نصیب ہوئی۔ آپ نے بتایا کہ ایک بار لندن میں حضور انور سے ملاقات ہوئی جس میں ناصر الدین بڑا بیٹا بھی شامل تھا ۔ حضور نے بچوں کے بارے میں پوچھا تووالد صاحب نے عرض کیا کہ میرا ایک بیٹا اور بیٹی جرمنی میںرہتے ہیں۔ حضور نے از راہ شفقت بڑے بیٹے ناصر الدین سے پوچھا کہ والد صاحب کو جرمنی بلایا؟ناصر الدین نے بتایا کہ حضور ویزہ اپلائی کیا تھا نہیں ملا۔ اس پر حضور نے فرمایا اب دوبارہ اپلائی کرو۔ حضور کے ارشاد پر دوبارہ اپلائی کیا تو انٹرویو کے بغیر ہی ویزہ لگ گیا۔الحمد اللہ۔اور پھر حضور انور سے جرمنی میں بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
موصوف پنج وقتہ نمازی اور دعاگو تھے ۔ کوئی بھی پریشانی پیش آتی تو مرحوم بیت الدعا میں جا کر اس وقت تک تسلسل کے ساتھ دعا کرتے جب تک پریشانی دور نہ ہوتی ۔ نہ صرف ہم عزیز و اقارب اور احباب کیلئے بلکہ جس کسی نے بھی ان سے دعا کیلئے کہا ان کیلئے دعا کیا کرتے تھے اور اللہ تعالی کے فضل سے اکثر دعائیں قبول ہوتی تھیں۔
مرحوم نے درویشی دور کا ابتدائی غربت کازمانہ بھی دیکھا اور بعد میں خلافت احمد یہ کی برکت کے طفیل آسودگی کا وقت بھی گزارا مگر ہر حال میں صبر اور شکر کا دامن نہ چھوڑا۔ شکر وقناعت اور استقامت کے ساتھ سادہ زندگی بسر کی۔
آپ نہایت خوش مزاج، ہمدرد،ملنساراور ہر ایک کی دلجوئی کرنے والے اور بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور گھریلو کاموں میں بھی نہ صرف دلچسپی لیتے بلکہ اس میں خوب سے خوبتر کرنے کی کوشش میں رہتے۔
آپ کی نماز جنازہ 6؍ جنوری 2024 کو بعد نماز عصر جنازہ گاہ بہشتی مقبرہ قادیان میں محترم محمد انعام غوری صاحب امیر مقامی وناظر اعلیٰ قادیان نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد دعا کروائی۔
آپنے اپنے پیچھے والدہ صاحبہ مکرمہ زکیہ بیگم کے علاوہ دو بیٹے مکرم محمد ناصر الدین صاحب آف جرمنی ، خاکسار نور الدین نوری صاحب مربی سلسلہ نظارت نشرواشاعت قادیان اور ایک بیٹی مکرمہ نصرت جہاں صاحبہ اہلیہ مکرم محمد اظہر صاحب آف جرمنی یادگار چھوڑے ہیں۔
تمام بچے اللہ کے فضل سےمختلف رنگوں میں سلسلہ احمدیہ کی خدمات کی توفیق پا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین۔

٭٭٭