اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-22

میری پیاری اُمی جان !محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ عبد القدیر صاحب درویش مرحوم کاذکر خیر

(ناصر وحید ، قائمقام ایڈمنسٹریٹرنور ہسپتال قادیان)

خاکسار کی والدہ محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ عبد القدیر صاحب درویش مرحوم مورخہ 20؍ ستمبر 2022ء بعمر80سال بقضائے الٰہی وفات پاگئیں۔ انالله وانا الیہ راجعون۔ آپ کا تعلق جموں کشمیر کے علاقہ راجوری کے گائوں چارکوٹ سے تھا۔آپ کے والد محترم میاںشیرمحمد صاحب نے ایک لمبا عرصہ صدر جماعت چارکوٹ رہنے کی توفیق پائی ۔احمد یت کا نزول آپ کے خاندان میں آپ کے دادا محترم سخی محمد صاحب کے دور میں ہوا۔ موصوف کو جب امام مہدی کے آنے کا پیغام ملا تو آپ نے اپنے خاندان سے محترم قاضی اکبر صاحب اور چند دوسرے ساتھیوں کو حقیقت معلوم کرنے کی غرض سے قادیان بھجوایا ۔قادیان آنے پر ان لوگوں نے دعویٰ کو سچا پایا اور بیعت کرکے واپس اپنے وطن جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی تصدیق کی جس پر والدہ محترمہ کے دادا نے اپنے خاندان کے ساتھ احمدیت میں شمولیت اختیار کرلی۔بعد ازاں والدہ محترمہ کےایک چچا محترم میاں صلاح محمد صاحب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں قادیان تشریف لائے اور مسجد مبارک میں مؤذن کے طور پر خدمت کی توفیق پائی تاحیات قادیان میں ہی رہے اور بعد وفات بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔آپ کو چاند اور سورج گرہن کا عینی شاہد ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔
ایک درویش کی شریک حیات ہونے کے ناطے خاکسار کی والدہ نے اپنی تمام زندگی بہت سادگی اور محنت کے ساتھ گزاری۔ فراخی میں بھی کبھی کھانے میں دو پکوان استعمال نہیں کئے۔
خاکسار کی والدہ مرحومہ نہایت منکسر المزاج، صابرہ وشاکرہ اور بےضرر خاتون تھیں۔ تہجد گذارصوم وصلوٰۃ کی پابند بہت زیادہ تلاوت قرآن کریم کرنے والی اور خلافت کی شیدائی تھیں۔ جب تک صحت نے اجازت دی قادیان کے بچوں کو قرآن مجید پڑھاتی رہیں۔ اپنے بچوں کو بھی نماز اور تلاوت کا پابند بنانے کے لئے بہت محنت کرتیں چنانچہ جب آپکا کوئی بچہ کم سنی میں نماز فجر دیر سے ادا کرتا تو ناشتہ دیتے وقت اس سے منہ پھیر کر کہتیں کہ آج تم نے نماز وقت پر ادا نہیں کی اس لئے میرا دل نہیںچاہتا کہ تمہارا چہرہ دیکھوں ہم بھائی بہنوں پر اس بات کا اتنا اثر ہوتا کہ ہم کوشش کرتے کہ آئندہ ایسا نہ ہو ۔ قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا اتنا شوق تھا کہ جب چکروں کی شدت کی وجہ سے خود قرآن مجید نہیں پڑھ سکتی تھیںاورآپکے نواسے نواسیاں آ پکے گھرقادیان آئے توانکوکہتیںکہ میرے گھر میں قرآن کریم اونچی آواز میں پڑھا کرو تا کہ گھر میں قرآن کریم کی آواز گونجے۔ وفات سے قبل ماہ مارچ میں خاکسار کی بڑی بہن والدہ سے ملنے آئی وہ نماز فجر پڑھ کر بہشتی مقبرہ چلی جاتی اور اسکی واپسی تک والدہ مرحومہ نماز پڑھ کر سو چکی ہوتیں والدہ مرحومہ کے آرام میں ہرج نہ ہو اس لئے وہ لائٹ نہ جلاتی اور تلاوت نہ کر پاتی۔ چوتھے روزوالدہ اس کو کہنے لگیں کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ آجکل تم تلاوت قرآن کریم نہیں کر رہی۔ چنانچہ اپنی وفات تک وہ اپنے بچوں کو باقاعدہ نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن کریم کرنے کی توجہ دلاتی رہیں۔ انکی انہیں خوبیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مشکل حالات میں بھی اپنی تائید و نصرت فرماتا رہا ۔اللہ تعا لیٰ کی تائید ونصرت کا یک واقعہ والدہ صاحبہ اکثر ہمارے ایمان میں اضافہ کیلئے ہمیں یاد کرواتی رہتی تھیں ۔مالی تنگدستی میں والدہ صاحبہ ہم سب کیلئے تھوڑا دودھ خریدتی تھیں اس وقت عام لوگوں کے پاس فرج کی سہولت موجود نہیں تھی اسلئے والدہ صاحبہ دودھ باورچی خانہ میں کسی اونچی جگہ پر جالی سے ڈھک کر رکھ دیتیں ۔صبح جب روزانہ دیکھتیں تو دیگچی سے جالی تھوڑی ہٹ کر ہوتی اور دودھ بھی کافی کم ہوتا والدہ صاحبہ بڑی بہنوں سے اس تعلق میں دریافت کرتیں کہ کیا رات کو کسی نے دودھ لیا تو کوئی بھی حامی نہ بھرتا ۔کچھ عرصہ کے بعد ایک دن اس جگہ کی صفائی کے دوران جب والدہ صاحبہ نے اس جگہ پر رکھاہوا لکڑی کا تختہ اٹھایا تو کیا دیکھتی ہیں کہ دودھ کی جگہ کے ٹھیک نیچے ایک کالا پھنیئر سانپ بیٹھا ہوا تھا جو صفائی کے دوران بھاگ گیا ۔اس کے بعد قادیان کے ایک بزرگ درویش محترم فضل الٰہی خانصاحب سے سارے حالات کا ذکر کیا گیا تو ان بزرگ نے پانی دم کر کے دیا کہ اس جگہ پر ڈال دیںا نشاءاللہ اب سانپ نہیں آئے گا،نیز والدہ صاحبہ کو بھی دم دیا اور فرمایا کہ یقیناًدودھ وہی سانپ ہی پیتا ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سانپ کو دودھ میں زہر چھوڑنے سے روکے رکھا ،جس وجہ سے خاکسار جو اس وقت وہی دودھ پیتاتھا اور باقی گھر کے لوگ جو اس سے بنی چائے پیتے تھے محفوظ رہے ۔الحمدللہ۔
بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ تنگ دستی میں بھی دنیاوی تعلیم دلائی ۔صوبہ جموں کشمیر سے تعلق کی وجہ سے والدہ صاحبہ ہندی اور پنجابی نہیں جانتی تھیں قادیان میں شادی کے بعد والدہ صاحبہ نے بچوں کی تعلیم کی غرض سے خود ہندی اور پنجابی سیکھ کر بچوں کو پڑھایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سبھی چاروںبچوں کو والدہ صاحبہ نے اپنی محنت سے پوسٹ گریجویٹ مکمل کروائی ۔والدہ صاحبہ کی اسی محنت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے سبھی بچے کسی نہ کسی رنگ میں خدمت دین کی توفیق پارہے ہیں۔الحمد للہ علیٰ ذالک
خلافت کے ساتھ بہت محبت رکھتی تھیں اور خلیفہ وقت کی طرف سے کی گئی ہرتحریک پر دل و جان سے عمل کرنے کی کوشش کرتیں ،جب میں ابھی چھوٹا ہی تھا اسوقت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ کی تحریک پر قادیان میں باجماعت تہجد کا اہتمام ہوتا تھا۔ میری والدہ اپنے چھوٹے بچوں کی وجہ سے مسجد جاکر تہجد میں شامل نہیں ہوسکتی تھیں لیکن انکوخلیفہ وقت کی اطاعت کا اتنا جنون تھا کہ وہ میری دوبڑی بہنوں کو جو اسوقت اسکول کی طالبات تھیں روزانہ مسجد مبارک قادیان میں باجماعت تہجد پڑھنے بھیجتیں اور اسطرح اپنے دل کی تسکین پاتیں۔
خلیفہ وقت کی طرف سے کی گئی تمام تحریکات چاہے مالی تحریک ہو، دعاؤں کی تحریک ہو یا خلیفہ وقت کو خط لکھنے کی تحریک ہو والدہ مرحومہ دل و جان سے اس کی اطاعت کرتیں اور ہمیں بھی اسکا پابند بناتیں کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرتیں اور اگر کوئی ان سے ناراض ہو جاتا توہمیشہ صلح کرنے میں پہل کرتیں جھوٹ سے انتہائی نفرت کرتیں ۔خاکسار نے اپنی زندگی میں والدہ صاحبہ کو کبھی کسی سے بحث مباحثہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہمارے بچپن میں غربت کے باوجود بھی کسی فقیر کو خالی نہ جانے دیتیں۔ ہمارا گھردارالمسیح کے قریب ہونے کی وجہ سے جلسہ سالانہ قادیان کے دنوں میںمہمانوں کا مرکز ہوتا۔ میری والدہ مرحومہ بہت خوش اخلاقی سے انکا استقبال کرتیں اور مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑتیں۔ عام دنوں میں بھی لوگوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتیں اور مہمانوں کے گھر آنےپر بہت خوش ہوتیں۔ گھر میں کام کرنے والی خادمہ سے بھی ہمیشہ حسن سلوک کیا ان سے کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرتیں جب بھی کا م والی گھر آتی اس کو پانی پلاتیں اور اگر کھانے کا وقت ہوتا تو کھانے میں اسے ضرور شریک کرتیں۔اگر کسی وجہ سے طے شدہ کام سے زیادہ کام کرواتیں تو اسی وقت اس کام کی اجرت دے کر اس کو روانہ کرتیں۔اپنی آخری بیماری بہت صبر کے ساتھ گذاری اور کسی قسم کی تکلیف کی نہ تو شکایت کی اور نہ ہی چڑچڑا پن دکھایا اور ہر حال پوچھنے والے کو الحمدللہ کہا۔
الله تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ ہماری پیاری والدہ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے انہیں اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کی نیکیاں زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

…٭…٭…٭…