اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-14

میری والدہ مکرمہ سیدہ خدیجہ بیگم صاحبہ

(فضل الرحمن فضل احمدی ، جماعت احمدیہ چنئی)

میری والدہ محترمہ مورخہ 13 اپریل 2023ء بروز جمعرات 21ویں رمضان کو صبح 4 بج کر 45 منٹ پر قادیان دارالامان میں 98 برس کی عمر میں وفات پاگئیں ۔ اسی روز بعد نماز عصر بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔ محترم ناظر صاحب اعلیٰ و امیر مقامی قادیان نے نماز جنازہ پڑھائی فجزاھم اللہ احسن الجزا۔
مورخہ 25 فروری 1925ء کو بروز بدھ بھاگلپور کے ایک فدائی احمدی سید موسیٰ رضا صاحب کے گھر پیدا ہوئیں ۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہی ملی۔ چھٹیوں کے ایام میں نانا اپنی فیملی کو قادیان بھیج دیا کرتے تھے جسکی وجہ سے میری والدہ محترمہ کو صحابیات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خاص کر حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دیگر مستورات خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو قریب سے دیکھنے کا وافر موقع ملا ۔ اللہ کے فضل سے 1934 میں جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ تحریک جدید کے اجراء کا اعلان فرمارہے تھے اس وقت میری والدہ محترمہ قادیان میں موجود تھیں۔
نیز 1944 میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اپنے مصلح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو آپؓنے جماعت سے کہا کے میرے مصلح موعود ہونے کے سلسلے میں اگر کوئی خواب یا رئویا دیکھے تو وہ میرے علم میں لائے۔ میری والدہ محترمہ نے بھی اس سلسلہ میں ایک خواب دیکھا تھا اور اسے رقم کرکے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت اقدس میں بھیج دیا جسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اخبار الفضل میں شائع کروا یا ۔ یہ خواب 23 اپریل 1944کے روزنامہ الفضل کے صفحہ 4 میں ’’حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے رویا کی مصدق احباب جماعت کی خوابیں ‘‘ کے زیر عنوان خواب نمبر 49 کے تحت شائع ہوا تھا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری والدہ صوم و صلوۃ کی پابند اور موصیہ تھیں، اللہ تعالیٰ نے حج اور عمرے کی سعادت نصیب فرمائی۔ میں نے کبھی والدہ صاحبہ کو تہجد چھوڑتے نہیں دیکھا ۔ اللہ تعالیٰ نے والدہ صاحبہ کو کمال کا صبر عطا کیا تھا، شکر کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، ہمدردی انتہا کی تھی،بے حد مہمان نواز تھیں۔ جماعت کیلئے نہایت ہی درد، تڑپ اور غیرت رکھنے والی، خلافت کی امین اور خلیفہ وقت سے والہانہ محبت رکھنے والی شخصیت تھیں۔
جب میں صرف 5 برس کا تھا تو جلسہ سالانہ قادیان 1969 کیلئے جاتے ہوئے میرے والد محترم مولوی فضل کریم صاحب کو دل کا دورہ پڑا امرتسر کے اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں چند دنوں کے علاج کے بعد آپ اپنے مولیٰ حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میرے والد مرحوم کو جامعہ احمدیہ قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے کلاس فیلو ہونے کا شرف حاصل تھا۔
نانی صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کے میری پانچ بیٹیوں میں خدیجہ بچپن سے ہی سب سے زیادہ دیندار ہے۔ والد صاحب کی وفات کے وقت والدہ محترمہ اور ہم آٹھ بھائی بہنوں کے علاوہ دو پھوپھیاں اور ایک غیر از جماعت ضعیف خاتون کو ملا کر بارہ افراد کا خاندان تھا اور کمانے والا کوئی نہیں تھا نہ کوئی جائداد تھی نہ نقد روپیہ تھا۔سر پر جو چھت تھی وہ بھی ٹین کی اور نہ ہی گھر میں کوئی بجلی کا پنکھا ۔ دنیاوی نظر سے دیکھیں تو گھر میں سوائے مفلسی اور ویرانی کے کچھ بھی نہ تھا۔ پر نہیں ! میرے والد صاحب نےاس گھر میں ربّ رحیم کے فضلوں ، رحمت للعالمین ﷺ پر بھیجی گئی درود کی رحمت ، مسیح الزمان علیہ السلام اور ان کے خلفاء کی دعائوں کا کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ چھوڑا تھا اور اس خزانے کی حفاظت کیلئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مسیح موعود ؑ اور آپ کی جماعت سے بے لوث محبت رکھنے والی اور خلیفہ وقت سے تعلق اور رابطہ رکھنے والی ایک پاک سیرت زوجہ کو چھوڑا تھا۔ ہم تمام بھائی اور بہنیں اللہ تعالیٰ کے مقدس نام کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کے میری ماں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروکار لاتے ہوئے نہایت ہی احسن رنگ میں اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی حفاظت اور تربیت کی۔
میں یہ لکھنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جب گھر میں کچھ بھی نہیں تھا تو پھر میری والدہ صاحبہ نے گھر کیسے چلایا۔میرے والد محترم جس کمپنی میں کام کرتے تھے وہ انگلستان کی ایک کنسٹر کشن کمپنی تھی، جس کے مالک ایک یہودی تھے۔جب کمپنی کے مالک ہمارے گھر آئے تو وہ ہمارا ٹین کی چھت والا گھر دیکھ کر دنگ رہ گئے ۔ جاتے وقت والدہ سے یہ کہہ کر گئے کہ اپنے بیٹے کو میرے دفتر بھیج دینا۔ کمپنی کے مالک نے دفتر پہنچتے ہی آفس کے کارکنان کو بلا کر کہا کہ میں ابھی فضل کریم کے گھر سے آرہا ہوں ۔ اگر فضل چاہتا تو اپنا ذاتی مکان بنوا سکتا تھا، بہت مال و دولت جمع کر سکتا تھا پر اسکی ایمانداری نے اسے ایسا کرنے نہ دیا ۔ فضل کی ایمانداری کی خاطر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس کی تنخواہ اسی طرح جاری رہے گی ۔ والد صاحب کی وفات کو ابھی چند سال ہی ہوئے تھے کہ کمپنی کے مالک ایک ہوائی حادثے میں چل بسے۔ میری والدہ پر ایک بار پھر امتحان کی گھڑی آگئی ۔جب بھائی پیسے لینے دفتر پہنچے تو اکائونٹنٹ نے یہ کہہ کر بھگا دیا کے صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ۔ اب سے آپکو پیسے نہیں ملیں گے۔ یہ سن کر بھائی اپنا اداس چہرہ لیکر اکاوئنٹنٹ کے کمرے سے نکل رہے تھےتو خدا کی رحمت ایک بار پھر جوش میں آئی ۔صاحب کی بیگم جو کمپنی کی مالکہ تھیں نے بھائی کو پریشان اور غمگین دیکھ کر دریافت کیا کہ یہ بچہ کون ہے اور کیوں آیا ہے؟ مالکن کو سارا ماجرہ بتایا گیا اس نے کہا کہ میرے شوہر نے اپنی زندگی میں یہ وصیت کی تھی کے میرے بعد بھی فضل کی تنخواہ جاری رہے گی تو وہ جاری رہنی چاہئے لہٰذا ہر ماہ کی تنخواہ اس بچے کو کمپنی کے اکائونٹ سے مل جانی چاہئے ۔ جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو۔
روزانہ کھانا پکانے کیلئے جب میری والدہ چاول نکالتیں تو ان چاولوں سے ایک مٹھی چاول چندے کی نیت سے الگ ڈبے میں رکھ دیتیں ۔ اس طرح والدہ صاحبہ تحریک جدید اور وقف جدید کا چندہ ادا کرتیں۔
بچپن سے ہی ہماری ماں ہمیں کہتی تھیں کہ ہمیں کس بات کی فکر ہےخلیفہ کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ راتوں کو جب ہم دنیا و مافیہا سے آزاد ہو کر نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں تو اس وقت ہمارا پیارا خلیفہ اپنی راتوں کی نیندوں اور آرام کو ترک کرکے آستانہ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ رب رحیم کے حضور ہماری بگڑی اور نصیب بنانے کیلئے تڑپتا ہے اور گڑ گڑاتا ہے اور ہمارے لئے اس سے اس کا فضل طلب کرتا ہے۔
پاکستان کی نیشنل اسمبلی نے 1974 میں جب جماعت کو غیر مسلم قرار دیا اس وقت میرے محلے کے ایک صاحب خوشی میں اترا اترا کر ہمارے دروازے کے سامنے اس کا اعلان کر رہے تھے۔ والدہ صاحبہ نے انہیں بلا کر کہا کہ اترائو مت تصویر کا دوسرا رخ بھی جلد ہی دیکھو گے ۔ 4 اپریل 1979 کا دن جلد ہی آگیا یہ وہ دن تھا جب بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی۔ والدہ صاحبہ نے اسے بلوا کر اس بد انجام سے آگاہ کیا۔
والد مرحوم کے چھوٹے بھائی محترم فضل الرحیم صاحب مرحوم کہا کرتے تھے کہ خدیجہ میری بھابی نہیں بلکہ ماں ہیں۔ ہماری بڑی پھوپھی ہمیشہ کہتی تھیں کہ بھابی نے ہمیں کبھی نند نہیں سمجھا۔تمام بہوئو ں کے ساتھ والدہ محترمہ کا سلوک بیٹیوں جیسا تھا۔ہمارے بڑے بھائی محترم اقبال احمد صاحب مرحوم کی اہلیہ محترمہ بشریٰ بیگم صاحبہ کی وفات 1997ءمیں ہوئی۔بھابی ایک بیٹی(9برس)اور ایک بیٹا(7برس)یادگار چھوڑ گئیں۔ ان دونوں بچوں کو والدہ صاحبہ نے کبھی ماں کی کمی محسوس ہونے نہیں دی۔
ہمارے گھر کے ساتھ والے گھروں میں چند ہندو چمار فیملی رہتی تھی ۔جب کبھی ان کی کوئی خاتون ہمارے گھر آتی تو بیٹھنے کا کہتے ہی وہ زمین پر بیٹھ جاتی والدہ محترمہ انہیں اوپر بیٹھنے کو کہتیں تو وہ کہتی کہ ہماری جگہ نیچے ہی ہے اس پر والدہ محترمہ انہیں اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر اوپر بیٹھاتیں۔
والدہ صاحبہ کی چھوٹی بہن کے بیٹے عبدالخالق صاحب بنگالی لکھتے ہیں:اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری خالہ جان خلافت پر جان فدا کرنے والی ، دعا گو ، بہت صابر و شاکر اور اپنے رب کریم پر کامل توکل رکھنے والی اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اسکے بندوں کا شکر ادا کرتے ہوئے زندگی بسر کی۔ اللہ تعالیٰ اعلیٰ علین میں شامل کرے ۔آمین۔
والدہ صاحبہ کی بڑی بہن کے بیٹے سید ریاض احمدآف بنگلہ دیش لکھتے ہیںکہ:میری خالہ جان کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین تھا اور مضبوط ایمان کے ساتھ وہ آخری سانس تک اس پر قائم رہیں۔1995ء میں جب میں اپنی بیوی کے علاج کے تعلق سے اپنے بچوںکے ساتھ کلکتہ گیا تو خالہ جان نے ایک ماں کی طرح نہایت ہی پیار اور محبت کا سلوک کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی جزا ہمیشہ دیتا رہے۔آمین
میری والدہ کو 3 بیٹیوں اور 5 بیٹوں سے اللہ تعالیٰ نے نوازا ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے درجنوں پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں اور ان کی اولادیں ہیں۔تین بیٹیوں میں سے دو بیٹیاں باحیات ہیں اور دونوں کراچی میں رہتی ہیں۔پانچ بیٹوں میں بڑے بیٹے اقبال ا حمد صاحب وفات پاچکے ہیں۔دوسرے بیٹے مکرم احسان اللہ کریم صاحب اللہ کے فضل سے زعیم مجلس انصاراللہ کلکتہ کے طور پر جماعت کی خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔تیسرے بیٹے مکرم شکیل احمد صاحب سلسلہ کے خادم تھے اب ریٹائر ہیں اور قادیان دارالامان میں رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں والدہ محترمہ کی زندگی کے آخری ایام میں خوب خدمت کی توفیق عطا فرمائی ۔ والدہ محترمہ گزشتہ ڈھائی برس سے موصوف کے پاس رہ رہی تھیں ۔چوتھے بیٹے مکرم عبدالحمید کریم صاحب وقف زندگی ہیں بطور انسپکٹر بیت المال آمد قادیان خدمت انجام دے رہے ہیں ان کی اہلیہ محترمہ بشریٰ جہاں صاحبہ بھی وقف زندگی ہیں اور نشر و اشاعت قادیان کے تحت بنگلہ ڈیسک میں خدمت بجا لا رہی ہیں ۔ انہیں کافی عرصہ صوبائی صدر لجنہ اماءاللہ بنگال و آسام کے طور پر خدمت کرنے کی توفیق ملی ہے۔ الحمد للہ۔پانچواں بیٹا خاکسار فضل الرحمٰن فضل بطور زعیم مجلس انصاراللہ چنئی خدمت کی توفیق پارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو جماعت کی مرکزی ویب سائٹ الاسلام کیلئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب روحانی خزائن کے سرچ انجن بنانے والی ٹیم کی قیادت کی سعادت نصیب فرمائی۔ ہمارے کام کا ذکر پیارے حضور پُر نور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 31 دسمبر 2010ء کے خطبہ جمعہ میں کیا تھا۔
مورخہ 22؍جون 2023کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسلام آباد (یو .کے) میں  آپ کی نماز جنازہ غائب ادا کی۔ اللہ تعالیٰ والدہ صاحبہ کے درجات کو بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین

۔ …٭…