اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-29

مکرم نور احمد صاحب مرحوم آف جکور، بنگلور کا ذکر خیر

(محمد کلیم خان ، مبلغ سلسلہ مڈیکری، صوبہ کرناٹک)

محترم نوراحمدصاحب سے خاکسارکی پہلی ملاقات 1994ءمیں بنگلورکے ایک محلہV. Nagan Halli میں ہوئی تھی۔ جہاں آپ کو بیجاپور سے آئے ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھےاور جہاں آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کرایہ کے گھر پر رہائش پذیر ہوئے تھے۔ آپکی پیدائش 1948ء کو شہر شولاپور میں ہوئی۔1951ءمیں ان کا خاندان صوبہ کرناٹک کے شہر بیجاپور میں آباد ہوگیا۔ انکا تعلق اہل حدیث فرقہ سے تھا۔انہیںایک کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام کسی کے ذریعہ ملی۔ آپ نے اس کتاب کا مطالعہ کیا۔ بڑے بھائی محترم محمد اسماعیل صاحب مرحوم پہلے ہی ایک احمدی مکرم بہادر خان صاحب آف بیجاپور کے ذریعہ احمدی ہو چکے تھے۔ پھر محترم نور احمد صاحب نے مولانا حکیم محمدالدین صاحب مرحوم، مولوی فیض احمد صاحب درویش اور حاجی جمال الدین صاحب ساگر کی موجودگی میں والدہ سمیت بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں 1966میں شامل ہوگئے الحمدللہ۔V. Nagan Halli سے پھر ایک دوسرے محلہ میں جس کا نام جکور ہے ایک چھوٹاساذاتی مکان خرید کر آباد ہوئے۔ خاکسار کا جب2003میں دوبارہ بنگلور تبادلہ ہواتو جکور بنگلور جماعت کا ایک حلقہ ہواکرتاتھا۔ جب پہلی بار جکور میں خاکسارکو جانے کا موقعہ ملا تو سب سے پہلے محترم نوراحمد صاحب سے ہی ملاقات ہوئی۔ آپ نے ایک خواب کا ذکر کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ سورج کی روشنی میرے گھر پر پڑ رہی ہے اور پھر میرے مکان سے چاروں طرف پھیلتی جاری ہے۔ آپ کی یہ خواب اس رنگ میں پوری ہوئی کہ سب سے پہلے جکور میں آپ مقیم ہوئے۔ اور پھر آپ کے تعاون سے کئی مکانات آباد ہوگئے۔ نیز سب سے پہلے ایم ٹی اے مکرم نوراحمد صاحب کے مکان پر لگایاگیا پھر بذریعہ کیبل دوسرے افراد جماعت کے گھر میں پہنچا۔الحمدللہ۔آپ نے اپنے گھر میں باوجود چھوٹا ہونے کےاحمدی افراد کیلئے نماز سنٹر بھی بنایا ہواہے جہاں افراد جماعت پانچوں نمازیں باجماعت اداکیاکرتے ہیں۔ اور مرکزی نمائندگان جب بھی جکور جاتے محترم نوراحمد صاحب کے مہمان ہوتے۔ ان کے اہل خانہ بھی مرکزی نمائندگان کی دل سے مہمان نوازی کرتے اور ان کا احترام کرتے۔ اور اسی چھوٹی سی جگہ پر جماعتی اجلاسات ہواکرتے۔ایک دن خاکسار سے کہنے لگے کہ میری دلی خواہش ہے کہ میرے گھر میں ایم .ٹی. اے کی ڈش لگی ہو اور غیراحمدی احباب میرے گھر آئیں اور ایم .ٹی .اے کے ذریعہ پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات وخطابات سنیں اور جماعت احمدیہ کی ان کو تبلیغ کروں۔ مگر میری مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ میں فوری طورپر ایم ٹی اے لگاسکوں۔ اللہ کے فضل سےجلد ازجلد وہاں ایم ٹی اے کا انتظام ہوگیا اور احباب جماعت کے کئی گھروں میں بھی بذریعہ کیبل ایم .ٹی. اے دیکھا جانے لگا اور غیراز جماعت دوستوں کا بھی آناجانا شروع ہوگیا۔ سارے علاقہ میں سب کو پتہ لگ گیا کہ اس محلہ میں احمدیہ جماعت کے افراد آباد ہورہے ہیں۔ جماعتی سرگرمیوں کا مرکز محترم نوراحمد صاحب کا ہی گھر رہا۔ تبلیغی پروگرام بنائے جانے لگے۔ خدمت خلق بھی ہونے لگی۔ اس محلہ میں دس گھر احمدیوں کے ہوگئے۔ کچھ کے ذاتی مکان اور کچھ کرائے پر گھر لیکر آباد ہوگئے۔ مرکز سے درخواست کی گئی کہ اس محلہ میں کرایہ پر ایک نماز سنٹر کا ہونا ضروری ہے۔ مرکز نے درخواست کو منظور کیا۔ اور نماز سنٹر بھی بن گیا اور ساتھ ہی ایک معلم صاحب کی تقرری ہوگئی۔ الحمدللہ۔حلقہ جکور میں جو گھر احمدی احباب کے ہیں وہ گورنمنٹ کی زمین پر واقع ہے۔ گورنمنٹ کی طر ف سے پلان تیار کیاگیا کہ تمام گھروں کو منہدم کردیاجائے۔ کچھ لوگ پریشان ہوگئے کہ اب ہم کہاں جائیں گے۔ اس بات پر محترم نوراحمد صاحب نے بلند آواز سے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ سب سے پہلے اپنے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی خدمت اقدس میں دعا کی غرض سے خط لکھیں اورخود بھی دعا کریں۔ حضورانور کی خدمت میں دعائیہ خط لکھاگیا۔ کچھ ہی دنوں میں گورنمنٹ کا پلان تبدیل ہوگیا۔ اور آج بھی سبھی احمدی افراد اپنے اپنے گھروں میں مقیم ہیںاور اب پختہ مکانات تعمیر کئے جاچکے ہیں اور حکومت کی جانب سے پختہ کاغذات بھی مکانات کے حاصل ہوچکے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اَیَّدْ اِمَامَنَابِرُوْحِ الْقُدُسْ وَبَارِکْ لَنَافِی عُمْرِہٖ وَاَمْرِہٖ۔
محترم نوراحمدصاحب پر مندرجہ ذیل شعر بالکل صادق آتا ہے

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا


اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سےحلقہ جکور مستقل جماعت بن گئی ہے۔ ایک دن خاکسار نے محترم نوراحمد صاحب سے کہا کہ آپ وصیت کیوں نہیں کرتے۔ تحریک کرنے کی دیرتھی کہ خود اور اہلیہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ فوری طورپروصیت کے نظام میں شامل ہوگئے اور تاحیات اپنا چندہ بروقت خود اداکیاکرتے تھے اور ہر مدمیں کچھ نہ کچھ چندہ دینے کی کوشش کرتے۔بنگلور شہر کے قریب ہسوربنڈا میں کچھ افراد نے بیعت کی ۔ وہاں کے معلم صاحب ایک ماہ کی رخصت پر گئے ہوئے تھے۔ خاکسار نے آپ کوتحریک کی کہ ایک ماہ کیلئے وہاں منتقل ہوجائیں اور نومبائعین کی تعلیم وتربیت کریں۔ اپنا کاروبار وغیرہ سب کچھ چھوڑ کر اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ وہاں ایک ماہ کیلئے چلے گئے اور جب تک معلم صاحب وہاں واپس نہیں آئے موصوف وہیں رہے۔وفات سے کچھ عرصہ پہلے سے بیمار رہنے لگے فالج کا حملہ ہوا۔ بیماری کی حالت میں بھی باقاعدہ نمازاداکیاکرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور مورخہ21؍ اپریل 2022کو اللہ تعالیٰ کے حضورحاضر ہوگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بغرض دعا ان کے بیٹے منور احمد صاحب نے خط لکھا ۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ جسکی رپورٹ 25؍ اگست 2022ء کے ہفت روزہ اخباربدر میں شائع ہوئی۔آپ کو 1966میں بیعت کی سعادت ملی۔ مرحوم صوم وصلوٰۃ کے پابند، تہجد گزار، دعاگو، متوکل علی اللہ، سادہ مزاج اور اعلیٰ اخلاق کے حامل نیک انسان تھے۔ خلافت سے والہانہ محبت تھی۔ چندوں میں باقاعدہ تھے۔ مرحوم جکور کے بارہ سال صدر رہے۔ اور جس وقت یہ یہاں آباد ہوئے وہاں کوئی احمدی نہیں تھا۔ اور اب ایک صد کی تجنید ہے۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔جکور سے آپ کے بیٹے مکرم منور احمدصاحب جنازہ قادیان لے کر آئے۔ جہاں جنازہ گاہ میں نماز جنازہ کے بعد بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں لائی گئی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹے رکھے۔ اور اپنے قرب خاص میں مقام عطافرمائے آمین۔ پسماندگان میںآپ کی اہلیہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے مکرم منوراحمدصاحب اورمکرم مظفر احمد صاحب اور تین بیٹیاں،مکرمہ منیرہ بیگم صاحبہ، مکرمہ مبشرہ بیگم صاحبہ اور عزیزہ مہک صاحبہ ہیں۔نیز گیارہ نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے بزرگ محترم نوراحمد صاحب مرحوم کی نیکیوں کو زندہ رکھنے کی توفیق عطافرمائے اور یہ سب اسی طرح احمدیت کے شیدائی بنیں جس طرح ان کے بزرگ تھے آمین ثم آمین۔

…٭…٭…٭…