اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-22

سود ہر صورت میں منع ہے

(خطبہ جمعہ سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ 7؍ا پریل 1916ء)

تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی۔
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّيَۃُ وَالنَّطِيْحَۃُ وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ۝۰ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ۝۰ۭ اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ۝۰ۭ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَۃٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ۝۰ۙ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
فرمایا : کھانے پینے کی چیزوں میں سے بعض اشیاء سے اسلام نے منع فرمایا ہے اور ان کے کھانے کی اپنے پیروؤں کو اجازت نہیں دی۔ وہ سب چیزیں اسی قسم کی ہیں جو انسان کے جسم و انسان کی عقل اخلاق دین اور روح کیلئے مضر ہو سکتی ہیں اور جب کوئی انسان ان میں سے کسی چیز کو کھاتا ہے تو آہستہ آہستہ اسکا اثر اس کے جسم پر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور انسان کی کمزوری اور نقص کیوجہ سے ایک مدت کے بعد اس کی روح پر بھی اثر ہونے لگتا ہے اسی وجہ سے اسلام نے اپنے پیروؤں کو ایسی چیزیں کھانے سے روک دیا ہے۔
ہاں بعض صورتوں میں ان کے کھانے کی اجازت بھی دی ہے اور وہ یہ جب کوئی انسان مجبور اور مضطر ہو جائے لیکن اس وقت بھی اتنے ہی کھانے کی اجازت دی ہے جتنا اس کیلئے اشد ضروری ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں فرمایا مَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ(174-2)اور یہاں فرمایا فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَۃٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ۙدونوں جگہ مطلب ایک ہی ہے ۔ فرمایا جو مضطر ہووہ کھا لے مگر یاد رہے کہ باغی اور عادی نہ ہو ۔ باغی قوانین حکومت کو توڑنے والے کو کہتے ہیں۔ وہ انسان جو خدا تعالیٰ کے کسی قانون کو توڑتا ہے وہ بھی باغی ہوتا ہے۔ کھانے کے متعلق اس طرح باغی ہو جاتا ہے مثلاً ایک شخص جان بوجھ کر بھوکا رہے اور جب مضطر ہو جائے تو ان چیزوں میں سے کوئی کھا لے ۔ عادی اس شخص کو کہیں گے کہ جو کسی ایسے ملک میں چلا گیا جہاں اسے سور کے سوا اور کچھ نہیں مل سکتا اور بھوک کی وجہ سے مضطر ہے اس وقت اس کیلئے اس کا کھانا جائز ہے۔ لیکن اگر وہ یہ کہے کہ اب مجھے موقع مل گیا ہے شاید پھر کبھی ایسا موقع ملے یا نہ ملے اس لئے خوب سیر ہو کر اور پیٹ بھر کر کھالوں تو وہ عادی ہوگا ۔ پس خدا تعالیٰ نے ان اشیاء کو کھانے کی اجازت دینے کے ساتھ یہ دو شرطیں لگا دی ہیں ۔
بعض لوگوں کو اس اجازت کے حکم کو دیکھ کر دھو کہ لگا ہے اور انہوں نے اس کو وسیع کر لیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب مضطر کیلئے مردہ ، خون ، سور کا گوشت اور مَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِکھانے کی اجازت ہوگئی ہے تو اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ دوسرے احکام کے متعلق بھی مضطر کو اجازت ہے۔
چند ہی دن ہوئے کہ ایک شخص نے مجھ سے سود کے متعلق فتویٰ پوچھا تھا میں نے اسے لکھا یا کہ سود کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا ۔ اب اسکا خط آیا ہے کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ اصل حالت میں تو یہ فتویٰ ٹھیک ہے کہ سود جائز نہیں لیکن مضطر کیلئے یہ فتویٰ درست نہیں ہے اور ساتھ یہ مثال دی ہے کہ ایک شخص کو شادی کرنے کیلئے روپیہ کی سخت ضرورت ہے روپے کہیں سے اسے مل نہیں سکتے ۔ اگر وہ سودی روپیہ لے کر شادی پر لگائے تو اس کیلئے جائز ہے۔ میں نے پہلے بھی اسی قسم کے واقعات سنے تھے۔ چنانچہ جو لوگ اہل قرآن کہلاتے ہیں انہوں نے اسی قسم کے فتوے دیئے ہیں ۔
لیکن اس قسم کے تمام فتوے قرآن کریم کے احکام کو نہ سمجھنے کی وجہ سےدیئے گئے ہیں۔ انہوں نے سمجھا ہی نہیں کہ قرآن کریم کسی چیز سے کیوں روکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ گناہ جو براہ راست انسان کی روح پر اثر ڈالتے ہیں ان کا جسم پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ مثلاً جھوٹ اگر کوئی ساری عمر بولتا رہے تو اس سے اس کے جسم کوکوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ یہ گناہ براہ راست اس کی روح پر اپنا بداثر ڈالے گا۔ دوسرے وہ گناہ ہوتے ہیں جو جسم میں سے ہو کر روح کو خراب کرتے ہیں۔ یعنی ان کا پہلے جسم پر اثر پڑتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ روح پر۔ چنانچہ ان اشیاء کے کھانے کی ممانعت کی گئی ہے وہ ایسی ہی ہیں جو دوسری قسم کے گناہوں میں شمار کی جاتی ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی مردہ کھالے یا خون پی لے تو اسکا پہلے جسم پر اثر پڑے گا اور پھر روح پر ۔ یا اگر کوئی کسی ایسے جانور کا گوشت کھالے جو بتوں وغیرہ کیلئے ذبح کیا جائے تو اس طرح چونکہ اس ذبح کرنے والے کی تائید کرتا ہے اس لئے منع کر دیا تا کہ ایسے لوگ ہی نہ ہوں جن کو اللہ کے سوا اوروں کیلئے جانور ذبح کرنے کی جرأت ہو۔ پس یہ تمام احکام ایسے ہیں کہ جن کا گناہ انسان کی روح تک دوسروں کے واسطے سے پہنچتا ہے یعنی یا تو اس کے جسم کے ذریعہ سے یا اور لوگوں کی وجہ سے۔ اب ظاہر ہے کہ ان چیزوں کے منع کرنے سے یا تو انسان کے جسم کی حفاظت مد نظر ہے اور یادوسروں کی اصلاح۔ اس لئے اگر کوئی ایسا وقت آبنے جبکہ جسم تباہ ہوتا ہو اور سوائے ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے کے وہ بچ نہ سکتا ہو تو ان کے کھانے کی اجازت دے دی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ دو شرطیں بھی لگا دی ہیں کہ اس اجازت سے فائدہ اٹھانے والا انسان باغی اور عادی نہ ہو ۔ پس اگر کوئی شخص ان اشیاء میں سے کوئی ایک کھائے گا، تو ایسی حالت میں کھائے گا جبکہ وہ نہایت اضطرار میں ہوگا اور پھر ایک قلیل مقدار میں قلیل عرصہ کیلئے کھائے گا اس لئے وہ نقصان جسکی وجہ سے ان کا کھانا بند کیا گیا تھا وہ اسے نہیں پہنچے گا لیکن وہ چیزیں جو براہ راست روح پر اثر ڈالنے والی ہوتی ہیں ان کو ہر صورت میں خدا تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور کسی حالت میں بھی ان کو جائز قرار نہیں دیا۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر کوئی گناہ گناہ ہی نہ رہتا ۔ مثلاً چور چوری کرتا ہےکیوں ؟ اس لئے کہ اسکے اپنے گھر مال نہیں ہوتا ہے ۔ گوا یسے بھی چور ہوتے ہیں جو مالدار ہوتے ہیں اور عادتاً چوری کرتے ہیں ۔مگر اکثر ایسے ہی لوگ چوری کرتے ہیںجو مفلس اور کنگال ہوتے ہیں اور اضطراب کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو اسی لئے کہ مقتول کی وجہ سے اسے کسی نہ کسی قسم کا اضطرار ہوتا ہے۔ غرضیکہ ہر ایک گناہ کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ اضطرار کے وقت کیا گیا ہے یہی سود کا حال ہے۔ تجارت کرنے کیلئے تو اب دو سو برس سے سو د لیا یا دیا جاتا ہے اس سے پہلے تو یہ بھی اضطرار ہی کی حالت میں لیا جاتا تھا کسی شخص کو جب کہیں سے قرضہ نہ ملتا اور ضرورت سے مجبور ہو جاتا تو سود پر روپیہ لے لیتا، ورنہ کسی کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ اپنے پاس روپیہ ہوتے ہوئے یا بغیر سخت مجبوری کے کچھ روپیہ لیکر اس سے زیادہ دیتا۔ تو سود بھی جائز ہو گیا اور قرآن کریم نے جو یہ حکم دیا تھا کہ نہ لیا کرووہ نعوذ باللہ لغو ہو گیا کیونکہ جب سود لیتا ہی وہ ہے جو مضطر ہو اور مضطر کیلئے جائز ہے کہ ایسا کرے توپھر اس سے منع کرنے کے کیا معنی ۔
لیکن یاد رکھو کہ قرآن کریم نے انہی چیزوں کی اضطرار کے وقت اجازت دی ہے جو کھانے پینے کے متعلق ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں صاف طور پر فرمایا کہ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَة یعنی ایسا اضطرار جو بھوک کی وجہ سے ہو اس کیلئے اجازت ہے نہ کہ ہر ایک اضطرار کے وقت ہر ایک نہی روا ہو سکتی ہے۔ وہ چیزیں جو کھانے کے متعلق ہیں ان کی تو اسلام نے اضطرار کے وقت اجازت دے دی ہے مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر اضطرار ہو تو چوری بھی کر لو یا کوئی اور کسی قسم کا فعل کر لو ۔ فقہاء نے یہ تو اجازت دی ہے کہ اگر علاج کیلئے شراب کی ضرورت پڑے تو مریض کو استعمال کرا دو۔ مگر یہ کہیں اجازت نہیں دی کہ اگر کسی کی زندگی سے تمہیںاپنی جان کےمتعلق اضطرار ہو تو اسے قتل کر دو۔ پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ اضطرار کے وقت کوئی ایسی چیز جائز ہو سکتی ہے جس کااثر براہ راست روح پر پڑتا ہے یا جو کھانے پینے کے متعلق نہیں ہے۔ البتہ ایسے وقت میں ان چیزوں کے کھانے کی اجازت دی گئی ہے جو روح سے براہ راست تعلق نہیں رکھتیں یا ایسے گناہ جن کا تعلق انسان کا اپنے سے نہیں ہوتا بلکہ اسکے ذریعہ دوسروں کا تعاون پایا جاتا ہے اور یہ بھی کھانے پینے ہی کے متعلق ہیں اور یہ اجازت اس لئے ہے تاکہ جسم قائم رہے۔ ایسے وقت میں اس بات کا خیال نہیں رکھا جائے گا کہ روح کو کسی قدر نقصان پہنچے گا بلکہ یہ مدنظر ہوگا کہ جسم سلامت رہ سکے ۔پس یہ صرف کھانے پینے کے متعلق مضطر کیلئے اجازت ہے ورنہ اگر ہر ایک بات میں مضطر کو اجازت ہوتی تو کوئی بھی گناہ گناہ نہ کہلا سکتا۔
تم اس بات کو خوب یاد رکھو حضرت مسیح موعودؑ سے بھی بار ہا سود کے متعلق پوچھا گیا ۔ آپ نے ہر دفعہ منع فرمایا ۔ وہی لوگ جو اَب ہم سے علیحدہ ہو گئےہیں انہیں میں سے ایک نے دفتر سیکرٹری میں بیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعودؑکی وفات کے بعد ایک دفعہ کہا :واہ او مرزیا - لوکاں نے بھی بڑا زور لگایا کہ سود جائز ہوجائے پر تو نے نہ ہی ہون دتّا۔یعنی لوگوں نے (یہ لوگوں کا لفظ محض پردہ کیلئے تھا ور نہ وہ زور مارنے والے بھی وہیں موجود تھے)بڑا زور ما را کہ کسی طرح سود جائز ہو جائے لیکن آپ نے ہر گز اجازت نہ دی۔سود لینا اور دینا دونوں کو برا بر گناہ فرمایا۔
شریعت کوئی ٹھٹھا نہیں ہے کہ ہر ایک انسان استنباط کرنے لگ جائے۔وہ لوگ جنہوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ اضطرار کے وقت سود جائز ہے ، جب انہیں معلوم ہوگا کہ اضطرار کے ساتھ مخمصہ کا لفظ ہے تو انہیں اپنی غلطی معلوم ہو جائے گی ۔ لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ ایک بات کے جواز کیلئے جو سبب ہو وہی اگر دوسری جگہ پایا جائے تو اس کے جائز ہونے کا قیاس ہو سکتا ہے۔ مگر ایسا ہو سکتا ہے کہ دوسری جگہ سبب ہی اور ہو اور سمجھا اور جائے۔ اوّل تو قرآن کریم کے احکام میں قیاس کا دخل نہیں ہے اور اگر دخل بھی ہو تو قرآن کریم کے الفاظ پر خوب غور و فکر کرنا چاہئے۔ یہ اجازت کھانے پینے کے متعلق ہے نہ کہ ہر ایک بات کیلئے ۔ ایک جگہ قرآن کریم میں کفر کے متعلق بھی فرمایا ہے ۔ مگر یہ پسندیدہ امر نہیں فرمایا ۔ اگر کو ئی بہت تو بہ اور استغفار کرے گا تو اس کا گناہ معاف ہوگا اور یہ اسلئے فرمایا کہ ایسی حالت میں وہ اسلام سے نکل جاتا ہے ہاں اسکی توبہ قبول ہوسکتی ہے ، اور یہ دروازہ ہروقت کھلا ہے گویا اجازت وہاں بھی نہیں دی گئی ۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اور دوسروں کو بھی سمجھ دےتا وہ قرآن کریم کے الفاظ پر غور کریں اور اسکے احکام کی حکمت اور منشا کو سمجھیں اپنے ارادہ اور خواہش کے مطابق اسکے الفاظ کو بگاڑ کر اَور مطلب نہ نکالیں۔

(مطبوعہ اخبار الفضل 11؍اپریل 1916)
…٭…٭…٭…