اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-22

قبروں پر پھول چڑھانا 

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاداور اس ارشاد کی حکمت

(حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ)

چند دن ہوئے نظارت اصلاح ارشاد ربوہ کی طرف سے الفضل مورخہ 12 ؍اگست میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا ایک فتوی قبروں پر پھول ڈالنے کے متعلق شائع ہوا تھا۔ یہ فتوی اپنی حالت میں بہت خوب ہے مگر یہ فتوی صرف ایک خاص پہلو کو مدنظر رکھ کر دیا گیا تھا ۔کیونکہ فتوی پوچھنے والے نے صرف اس جہت سے فتوی پوچھا تھا کہ کیا میت کی روح کو راحت پہنچانے کی غرض سے قبر پر پھول ڈالنا جائز ہے جسے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے بدعت قرار دے کر ناجائز اور خلاف شریعت گردانا ۔لیکن اس فتوے کے بعد بھی مسئلہ کا یہ پہلو قابل تشریح رہتا ہے کہ روح کو خوشی پہنچانے کی غرض سے نہ سہی لیکن کیا ویسے ہی زینت وغیرہ کے خیال سے قبروں پر پھول نہ رکھے جا سکتے ہیں؟ سو اسکے متعلق مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کا ارشادیاد آیا ہے جس میں مسئلہ کے اس پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے اس کی تفصیل یہ ہے :
جب 1938 ء میں (غالباً یہ 38ء کا سال ہی تھا) لندن سے عزیز سعید احمد مرحوم پسر مرزا عزیز احمد صاحب ایم .اے کا تابوت آیا اور وہ بچوں والے مقبرہ میں دفن کیا جانے لگا تو اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی جنازہ کے ساتھ قبرستان تک تشریف لے گئے تھے ۔جب قبر تیار ہو گئی تو حاضر الوقت احباب میں سے کسی نے زینت اور اکرام کے خیال سے قبر پر کچھ پھو ل بکھیرنے چاہے ۔لیکن حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے اسے روک دیا اور فرمایا( غالبًا اسی قسم کے الفاظ تھے) کہ
’’یہ جائز نہیں اس طرح بدعت کا رستہ کھلتا جاتا ہے۔‘‘
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے اوپر والے فتوے کے ساتھ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ کا یہ فتوی مل کر ایک مکمل فتوی بن جاتا ہے ۔جس میں اس مسئلہ کے سارے پہلو آجاتے ہیں ۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ گو کسی قبر پر پھول ڈالنا بظاہر ایک معصوم سی بات نظر آتی ہے بلکہ اس میں بظاہر میت کا اکرام بھی پایا جاتا ہے لیکن غور کرنے والا انسان سمجھ سکتا ہے کہ اس میں دو قسم کی خرابیوں کے پیدا ہونے کا بھاری خطرہ ہے۔
(1)اول یہ کہ اس طرح آہستہ آہستہ شرک کا رستہ کھلتا ہے اور شروع میں عام اکرام کی نیت سے ابتدا ہو کر بالآخر قبروں کے غیر معمولی اجلال و احترام بلکہ قبر پرستی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں لاکھوں مسلمان قبروں کو سجدہ کر کے اپنی عاقبت تباہ کرتے ہیں حالانکہ جن بزرگوں کی قبروں پر سجدہ کیا جاتا ہے وہ ہرگز اس طریق کےمؤید نہیں تھے اور جانتے تھے کہ اس کا انجام اچھا نہیں۔ ہمارےآقا صلی اللہ علیہ وسلم نے نشہ آور چیزوں کے معاملہ میں کیا حکیمانہ ارشاد فرمایا ہے کہ
مَا اَسْکَرَ کَثِیْرُہٗ فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ ’’یعنی جو چیز بڑی مقدار میں نشہ پیدا کرے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے‘‘
اس لطیف ارشاد میں یہی حکمت ہے کہ چیزوں کی ابتداء بظاہر چھوٹی اور معمولی ہوتی ہے اور بات بالکل معصوم نظر آتی ہےلیکن چونکہ ان کا مال اور انجام تباہ کن ہوتا ہے اور انسان ضعیف البنیان فطرتاً ایک چھوٹی سی بات کی ابتداء کر کے قدم آگے ہی آگے بڑھانے کا رحجان رکھتا ہے اس لئے شریعت نے کمال حکمت سے جڑھ پر ہاتھ رکھ کر اس کے بظاہر معصوم حصہ کو بھی منع فرما دیا ہے تا لوگ ہر قسم کی امکانی ٹھوکر سے بچ جائیں۔اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا تھا کہ’’ دیکھنا میرے بعد میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بنا لینا۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ آپ کے صحابہ ہرگز ایسا نہیں کریں گے مگرآپ دُور کے خطرات کو دیکھ رہے تھے۔
دوسرا نفسیاتی نقطہ اس ارشاد میں یہ ہے کہ اگر مرنے والا خدا کے فضل سے نیک اور جنتی ہے تو اس کی قبر پر پھول چڑھانا اس لیے کوئی حقیقت نہیں رکھتا کیونکہ جو روح جنت میں پہنچ گئی اور جنت کی عدیم المثال نعمتوں میں داخل ہو گئی یا کم از کم اس کے رستہ پر پڑ گئی اس کیلئے یہ ارضی پھول کیا حقیقت رکھتے ہیں ؟ اور اسےان پھولوں سے کیا خوشی پہنچ سکتی ہے !بلکہ وہ تو جنت کے پھولوں کے سامنے ان پھولوں کو اپنے لیے موجب ہتک سمجھتی ہوگی ۔دوسری طرف اگر خدانخواستہ مرنے والا دوزخی ہے تو اسے پھول ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں دے سکتے بلکہ اس کی روح (اگر علم ہو)خیال کرتی ہوگی کہ میرے عزیز اور میرے وارث میری ہنسی اڑارہے ہیںکہ میں تو دوزخ کی آگ میں ہی جل رہی ہوں اور وہ مجھ پر پھول پھینک رہے ہیں !!!پس کسی جہت سے بھی دیکھا جائے قبروں پر پھول ڈالنا یا چڑھانا ایک بدعت ہے، جس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ وہ سراسر نقصان دہ ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ مرنے والوں کیلئے اذیت کا موجب ہے اور دوسری طرف وہ شرک کا رستہ بھی کھولتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اوائل میں آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کے زمانہ میں کسی مومن نے کبھی اس قسم کی بات نہیں کی۔
بے شک اسلام میں قبر کے واجبی اکرام کا حکم ہے اور ہدایت دی گئی ہے کہ ان پر بیٹھنے یا ان پر پائوں رکھنے سے اجتناب کرو اور انہیں حتی الوسع صاف اور ستھرااور…خوشنما بنایا جاسکتا ہے مگر یہ صرف واجبی اکرام کی حد تک ہے تاکہ مرنے والوں کی تخفیف اور تذلیل نہ ہواور ان کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے جذبات کو بھی ٹھیس نہ لگے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں اور اس سے آگے بڑھنا بدعت میں داخل ہے جس میں مرنے والوں کی کوئی عزت نہیں بلکہ جیسا کہ میں نے اوپر تشریح کی ہے اس میں حقیقۃً ان کی دل آزاری ہے اور ایسی بدعتوں کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا۔ قبروں کی زیارت کا صرف یہ مقصد ہونا چاہئے کہ تا مرنے والے کی مغفرت اور بلندئ درجات کیلئے دعا کی جائے۔نیک مقاصد کی کامیابی کیلئے اپنے آسمانی آقا کے سامنے ہاتھ پھیلائے جائیں ۔اس کی آل و اولاد کی حفاظت اور ترقی کیلئے خدا کے حضور دعا کی جائے ۔ اور اپنی موت کو یاد کر کے اپنے اچھے انجام کے واسطے لمبی دعا مانگی جائے۔
ہاں قبروں کے زیارت کی ایک غرض سیاسی بھی ہوا کرتی ہے۔ اور وہ یہ کہ مختلف قومیں اپنے بانیوں اور خاص خاص لیڈروں کی قبروں کو ایسے رنگ میں تعمیر کرتی ہیں کہ تا دوسری قوموں کے لوگ وہاں جا کر اپنی عقیدت اور احترام کے پھول چڑھائیں۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طریق قوموں کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کی زیارت کا اصل مقصد دعا نہیں ہوتا (بلکہ زائرین بیشتر لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو دعا کے قائل ہی نہیں ہوتے) اور صرف قومی اور سیاسی رنگ میں احترام اور باہم قدر شناسی کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں دنیا کا رواج ہے کہ جب بڑے لوگ کسی غیر ملک میں جاتے ہیں تو اس ملک کے بانی یا کسی اور مخصوص لیڈر کی قبروں پر جا کر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں ۔ سو یہ ایک سیاسی طریق ہے جسے اس مذہبی فتوے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔واللہ اعلم ۔

(مطبوعہ اخبار الفضل 28؍ اگست 1958ء)