اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-12-07

تقویٰ کی باریک راہیں

حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ عنہ

(قسط دوم ،آخری)

چوتھی مثال

متقی اور غیر متقی دونوں بازاروں اور عام گزرگاہوں اور مجمعوں میں عورتوں کی طرف سے اپنی نظر نیچی رکھتے ہیں مگر جب کسی تنہا جگہ کوئی عورت مونہہ کھولے ہوئے گزرے ، جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو، تو غیر متقی خدا کی طرف سے غض بصر کرکے اس عورت کی طرف ارادی نظر ڈال لیتا ہے مگر متقی ہر ایسے موقعہ پر زیادہ قوت کے ساتھ غض بصر پر عمل کرتا ہے کیونکہ اس کو وہ عورت اکیلی سامنے نظر نہیں آئی بلکہ اسکے پیچھے ایک اور وجود بھی ساتھ ساتھ آتا ہوا نظر آتا ہے جسے خدائے علیم و بصیر کہتے ہیں۔

پانچویں مثال

ایک احمدی دوست تھرڈ کلاس میں سفر کررہے تھے۔ راستہ میں ان کے ایک ملنے والے ریل میں مل گئے جو سیکنڈ کلاس میں تھے ۔ انہوں نے ان کو بلالیا اور ایک دو سٹیشن تک وہ ان کے ساتھ ہی سیکنڈ کلاس میں سوار چلے گئے۔ پھر اپنے ڈبہ میں آگئے۔ سفر ختم ہوا اور وہ صاحب ٹکٹ دے کر باہر چلے گئے ۔ گھر آکر اور حساب کرکے انہوں نے وہ رقم جو ان دو سٹیشنوں کے درمیان سیکنڈ اور تھرڈ کے کرایہ کا فرق تھا، ایجنٹ این ڈبلیوآر کے نام بھیج دی اور لکھ دیا کہ ایک ضرورت کی وجہ سے مَیں نے اپنے سفر میں دو سٹیشن تک سیکنڈ کلاس میں سفر کرلیا تھا، یہ اس کا کرایہ ارسال ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ تھرڈ کلاس کے مسافر کو 25 سیر سے زیادہ وزن ارادۃً بغیر تلوائے اور کرایہ ادا کئے ریل میں لے جانا اور بغیر اجازت سٹیشن ماسٹر کے یا پلیٹ فارم ٹکٹ خریدنے کے سوا چالاکی سے اندر پہنچ جانا اور ہوشیاری کے ساتھ سٹیشن کی دوسری طرف سے باہر نکل جانا ایسے افعال ہیں جن سے ایک متقی شرماتا ہے۔

چٹھی مثال

ایک ماسٹر صاحب تھے۔ وہ باوجود اس سرکاری حکم کے کہ ٹیوشن بغیر اجازت ہیڈ ماسٹر کے نہ لی جایا کرے، خود خفیہ خفیہ ایسی ٹیوشنیں لے لیا کرتے تھے۔ ایک شاعر جو کسی اور شاعر کا شعر اپنی غزل میں اپنا کرکے ملا لیتے تھے۔ یا ایک مصنف صاحب جو دوسروں کی تصنیف کو اپنے مضمون میں بلا تسلیم کرنے مصنف کے نام کے شامل کرلیا کرتے تھے۔ ایک بارسوخ طالب علم جو کسی امتحان کے پرچہ کا ناجائز طور پر چند روز پہلے پتہ لگالیا کرتے تھے۔ ایک وکیل صاحب جو پورا محنتانہ لے کر بھی پیشی کے وقت غیر حاضر ہوجایاکرتے تھے۔ ایک ڈاکٹر صاحب جو خصوصاً نوجوان عورتوں کو طبی مشورہ کے وقت سینہ بین لگاکر اور اچھی طرح ٹھوک بجاکر دیکھنا لازمی سمجھتے تھے۔ ایک صاحب جو بغیر جائز حق کے دوسروں کے خطوط کا مضمون پڑھ لیا کرتے تھے۔ ایک ملّاجی جو لوگوں کے سامنے مسجد میں تو بہت سنوار سنوار کر نماز پڑھتے تھے مگر اکیلے میں وہ بات ان سے صادر نہ ہوتی تھی۔ ایک پیشہ (مثلاً درزی، سنار، لوہار) جو وعدہ کرکے پھر اس وعدہ پر اپنا کام پورا کرکے نہیں دیتے تھے۔ ایک ملازم جو اپنی تنخواہ کے وقت تو پوری رقم کا مطالبہ کیا کرتے تھے مگر خود کام کرنے کے وقت باریک محاسبہ نہیں رکھتے تھےکہ آیا میں  معاہدہ کے مطابق چل رہا ہوں یا کچھ غفلت کررہا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے سب لوگ دنیا داروں کی نظروں  میں خواہ بڑے ہوشیار کہلائیں مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ متقی ہونے کا امتیازی طرہ نہیں پاسکتے۔ متقی وہی ہے جو ایسے کام نہیں کرتے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔

ساتویں مثال

ایک شخص جو شہوانی خیالات کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہےاور نامحرموں کے حسن و شمائل میں اپنے دل کو مشغول کرتا ہے یا اپنے بکس میں حسین عورتوں کی تصاویر کو خزانہ آرٹ کہکر مقفل کرکے رکھتا ہے یا ہمسایہ کے گرامو فون میں کسی عورت کے گانے کی آواز کو مزے لے لے کر سنتا رہتا ہے یا اَمْرد اور حسین لڑکوں سے بلا ضرورت صاحب سلامت اس لئے رکھتا ہے کہ ان کا قرب اسے کچھ لطف دیتا ہے یہ اور ایسی اور ہزاروں باتیں تقویٰ کی جڑ کو کاٹ ڈالنے والی ہیں گو وہ آج کل کی تہذیب کا ایک جزو اعظم بنی ہوئی ہیں۔ اسی طرح ایک ایسا شخص جو جسمانی صفائی سے لاپرواہ ہے اسکے جسم سے بدبو آتی ہے اور اسکے کپڑے گندے رہتے ہیں ناپاک چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا اپنے دانت صاف نہیں رکھتا جس کی وجہ سے اسکے منہ سے بدبو آتی ہے کچا لہسن اور پیاز یا مولی یا ہینگ کھاکر مسجد میں آجاتا ہے اور نمازیوں کو ایذا دیتا ہے کوئی قابل تعریف متقی نہیں ہے۔

آٹھویں مثال

وہ شخص جو اپنے جسم کو خدا کی امانت نہیں سمجھتا اور اپنی صحت اور قویٰ کو خدمت دین کیلئے درست رکھنے کی طرف سے لاپروائی کرتا ہے۔ عادی بدپرہیز ہے ۔ جائز اور حلال لذتوں میں منہمک رہتا ہے۔ وقت جیسے قیمتی متاع کو ضائع کرتا ہے ۔ بہت ہنستا ہے۔ غربت بیماری یا زمانہ کی شکایت کرتا رہتا ہے ۔یا اکثر رنجیدہ رہتا ہے اور جماعت پر عموماً بدظن رہتا ہے۔ نہایت خشک مزاج ہے۔ معمولی تکالیف پر بے صبری ظاہر کرتا ہے۔ اور تھوڑی نعمت کو حقیر سمجھ کر اس کا شکر ادا نہیں کرتا۔ وہ ابھی تقویٰ کی باریک راہوں سے دُور ہے چہ جائیکہ باریک تر اور باریک ترین راہوں کا واقف سمجھا جائے۔

نویں مثال

ایک شخص جو کسی بُری بات کو اس لئے چھوڑتا ہے کہ لوگ اس بات کو بُرا سمجھتے ہیں وہ اس بات میں متقی نہیں ہے بلکہ متقی وہ ہے جو ترک معاصی صرف خدا تعالیٰ  کے خوف سے کرے۔ یعنی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ علیم بذات الصدور ہے۔ وہ سب سے زیادہ محبت اور عزت کے قابل ہے۔ اس نے اس بات کو ناجائز قرار دیا ہے کہ اگر میں یہ کام کرونگا تو اس ذات والا صفات سے میرا تعلق کم ہوجائے گا۔ اس یقین کی وجہ سے کسی گناہ کی بات سے پرہیز کرنے والا اصل متقی ہے۔ بدی کو بدی سمجھ کر ترک کرنا یا نیکی کو نیکی کی وجہ سے اختیار کرنا یہ دہریوںاور یورپین فلاسفروں کا کلّیہ ہے جسے ایک مسلمان فلاسفر کسی صورت میں قبول نہیں کرسکتا۔ مسلمان اگر بدی سے بچتا ہے تو صرف خدا کے خوف کی وجہ سے ۔ اور نیکی کرتا ہے تو صرف خدا کی محبت کے سبب سے نہ کہ دہریوں کی طرح اپنے دنیاوی فائدہ کیلئے یا اپنے نفس کو لطف اور لذت دینے کیلئے کیونکہ خدا تعالیٰ نے کھانے پینے کی اشیاء کی طرح نیکی کے اندر بھی ایک بڑی لذت رکھی ہے۔

دسویں مثال

ایک لیکچرار لیکچر دے رہا ہے ۔ اس نے اپنا مضمون خوب تیار کیا اور خوب اچھی طرح پورا سنا دیا۔ مگر خاتمہ پر حاضرین سے اس نے یہ کہا کہ ’’صاحبان وقت تنگ ہوگیا ہے میری طبیعت اچھی نہیں ہے اس لئے میں اس مضمون کو پورا تیار نہیں کرسکا اور اب بھی اسکا بہت سا حصہ باقی ہے (حالانکہ اسکے ذہن میں قطعاً کوئی حصہ باقی نہیں ہے۔ اور اس نے تیاری بھی پوری کرلی تھی) مجبوراً اپنا لیکچر ختم کرتا ہوں اور آپ سے رخصت ہونے کی اجاز ت چاہتا ہوں۔‘‘یہ فقرہ ایک باریک بین متقی کبھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ تو ان الفاظ کو غلط اور ناجائز جان کر ان سے اجتناب کرے گا۔

گیارہویں مثال

چونکہ بعض گناہ صرف دل سے تعلق رکھتے ہیں اسلئے اپنے دل میں کسی کی نسبت مخفی حقارت، بدظنی، عداوت، یا نفرت رکھنا جسمانی نقائص ، ذات اور قوم کے سبب سے یا علم و عقل اور مال و دولت کی کمی کی وجہ سے کسی کو ادنیٰ اور ذلیل سمجھنا، کسی کا قصور معاف کرنے کے بعد بھی اس سے کدورت رکھنا، بدخواہی ، چغلی، یا عیب چینی کرنا، گاہے بگاہے ریاکاری کا مظاہرہ لوگوں کے سامنے کرتے رہنا، تمسخر یا دلآزاری یا طعن کی صورت میں کسی سے بظاہر اچھا کلام کرنا، ایسی مجلسوں میں دلچسپی محسوس کرنا جہاں خدا رسول کے ارشادات کے مخالف باتیں یا دین پر مخفی استہزا ہوتا ہو، علم کو اپنی نفسانی بڑائی کا ذریعہ بنانا، دین کی آڑ لیکر ایسی حرکات کرنا جو مومن کے وقار کے شایاں نہ ہوں۔ مثلا نماز کے سامنے سے گزرنے والے کو بجائے ہاتھ کے اشارہ سے روک دینے کے دو قدم آگے بڑھ کر اس زور اور اس جوش سے چھاتی پر مُکّا مارنا کہ اُسے چھٹی کا دودھ یاد آجائے،نفس کے تمام سفلی جذبات اور کج اخلاقیوں پر نظر نہ رکھنا، اور جس بات میں ذرا بھی شُبہ ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہے اسکے ترک کرنے میں غفلت کرنا وغیرہ وغیرہ، یہ سب باتیں باریک بین متقیوں کی شان سے بعید ہیں۔

محسن حقیقی کو پسند آنے والی ادائیں

ممکن ہے کہ بعض لوگ ان سطور کو پڑھ کر ہنس دیں کہ یہ تو معمولی اور عامیانہ باتیں ہیں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہی وہ ادائیں ہیں جن کو محسن اصلی پسند فرماتا ہے اور یہی وہ تقویٰ کی آن ہے جس کی وجہ سے بڑے بڑے انعام اس قدردانِ حقیقی کی درگاہ سے عطا ہوتے ہیں۔ اور یہی وہ کیفیت ہے جس کا نتیجہ کبھی بھی نقصان کی شکل میں ظاہر نہیں ہوتابلکہ ایسا انسان دین اور دُنیا دونوں میں ہمیشہ فائدہ میں رہتا ہے کیونکہ تقویٰ کا نتیجہ نہ صرف آخرت میں مغفرت اور جنت ہے بلکہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے متقی کو علم و معرفت ، مصائب سے نجات اور غیبی رزق کا وعدہ فرمایا ہے جیسا کہ اس نے خودہی کہا ہے کہ مَنْ يَّـتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۝ وَّيَرْزُقْہُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
دیکھو میں ذرا سے باریک تقویٰ پر ایک عظیم الشان اجر ملنے کا نظارہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوںوہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ بعض  لوگوں  کے اصرار پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے کسی اخلاقی مسئلہ میں مباحثہ کا ارادہ کیا لیکن بحث سے پہلے جب ان کے متعلقہ عقائد تفصیل سے سُنے تو فرمایا کہ مولوی صاحب کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل اعتراض ہو اور خالصۃً للہ اس بحث کو ترک کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس رات خداوند کریم نے اپنے الہام میں اس ترک بحث کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ :
’’ تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘

خلاصہ کلام

خلاصہ کلام یہ کہ ناظرین کیلئے یہ صرف چند نمونے بیان کئے ہیں لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر ارادہ اور ہر عمل کے وقت تقویٰ اور غیر تقویٰ کی بحث آپڑتی ہے اور انسان کو اپنے ہر حرکت اور سکون پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے تب ایسا ہوتا ہے کہ اسکی زندگی پر ایک تغیر آجاتا ہے اور وہ ایک نئی زندگی اپنے اندر محسوس کرتا ہے اور اسکا پرانا وجود مر کر ایک نیا وجود اسکی جگہ قائم ہوجاتا ہے اور یہی تقویٰ کا مقصد ہے۔
آخر میں مَیں ایک بات بیان کرنی ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ لوگ جو ہمیں بظاہر نیک اور متقی نظر آتے ہیں ان کی چار قسمیں ہیں۔
پہلی قسم تو ٹھگوں کی ہے جو حقیقتاً بد ہیں اور نیکی دکھاکر لوگوں کو دھوکہ دینا اور ٹھگنا ان کا پیشہ ہے۔
دوسری قسم ان کی ہے جو دُنیا کو خوش رکھنے کیلئے معروف قسم کی نیکیاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ خدا کے نیک نہیں بلکہ دُنیا کے نیک ہیں۔
تیسری قسم میں وہ لوگ داخل ہیں جو واقعی دین کیلئے آئے اور نیک اور صالح ارادے رکھتے تھے مگر پھر روپیہ دیکھا ، دُنیا کے زرق برق سامانوں اور جاہ و تنعم کے مزے چکھے اور آخر کار پھسل گئے۔
چوتھے اور قابل ستائش اور قابل تقلید وہ سعید لوگ ہیں جو خدا کیلئے نیک بنے پھر انہوں نے خدا سے ہی مدد مانگی اور خدا تعالیٰ نے بھی محض اپنے فضل سے ان کی دستگیری کی اور ان کو نہ چھوڑا جب تک کہ وہ اس دُنیا سے گزر نہیں گئے۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی دوستی کو لازم پکڑنا چاہئے اور ایسا بننے کیلئے جتنی فرصت بھی ملے حضرت خلیفۃ المسیح علیہم السلام کی صحبت اور قرب میں آکر رہنا چاہئے تاکہ زندہ خدا کے زندہ نشانات سے کچھ حصہ ملے۔ ایمان مضبوط ہو ، تاریکیوں کے پردے پھٹ جائیں، تقویٰ کی باریک راہیں سوجھنے لگیں اور انسان کا خاتمہ اس کے مالک کی مرضی کے مطابق ہو ۔آمین۔

(بحوالہ الفضل قادیان29؍ستمبر1936ء)