اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-30

تقویٰ کی باریک راہیں

حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ عنہ

 

تقویٰ کی راہوں سے ناواقفیت کی وجہ

ایک مسلمان کیلئے پہلا یا ابتدائی راستہ خدا تعالیٰ سے ملنے کا جو شریعت نے تجویز کیا ہےوہ تقویٰ ہے۔ یعنے خدا کے خوف کی وجہ سے گناہوں سے بچتے رہنا۔ اس سے اگلا اور اعلیٰ راستہ محسن بننے کا ہے یعنی وہ طریقہ جس میں خدا کی محبت اور عشق کی وجہ سے مومن نیکیوں میں ترقی کرتا ہے ۔یہ تقویٰ کا لفظ ہماری جماعت کے بچہ بچہ کے زبان سے سنا جاتا ہے کیونکہ یہ احمدی جماعت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے اور بغور دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ واقعی یہ جنس گرانقدر دنیا میں آجکل اور کسی جگہ دستیاب نہیں ہو سکتی ۔مگر باوجود اس لفظ کے کثرتِ استعمال اور کثرتِ تذکیر کے پھر بھی جو حق اسکے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا تھا وہ ادا نہیں  ہوا اور تقویٰ کی باریک راہوں کا تو کیا ذکر اس کی شاہراہ یا موٹی موٹی راہوں سے بھی بعض لوگ ناواقف نظر آتے ہیں ۔اور یہ صرف اس لئے کہ اجمال تو موجود ہےمگر تفصیل کا علم نصیب نہیں ہوا ۔کیوں نصیب نہیں ہوا؟ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یا حضرت خلیفۃ المسیح علیہ السلام کی صحبت زیادہ نہیں ملی اور ان مقدس لوگوں کے طریقِ عمل کو غور سے نہیں دیکھا گیا اور احمدیت کیلئے صرف بیعت کے ایک خط یا قدرے لٹریچر کے مطالعہ کو مکتفی سمجھ لیا گیا ۔یا زیادہ سے زیادہ جلسہ اور کانفرنس پر حاضر ہونا بالکل کافی خیال کر لیا گیا۔ برخلاف اسکے جس کسی کو یہ سعادتِ صحبت حاصل ہو گئی اس پر تو پھر خود بخود معرفت کے دروازے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں اور تقویٰ کی موٹی راہوں کے طے کرنے کے بعد باریک راہوں کیلئے اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو براہ راست اپنی تربیت میں لے لیتا ہے اور ایک نور معرفت اور علم لدُنّی کی ہر ضروری امر کے متعلق ان کے دل و دماغ میں آسمان کی طرف سے جاری ہو جاتی ہے ۔اور جو امر خلافِ تقویٰ ہوتا ہے اس سے انہیں روک دیا جاتا ہے اور جو موافق تقویٰ ہوتا ہے اس کی تحریص یا اجازت مل جاتی ہے ۔اس وقت بندہ کی حالت اس دُنیا سے اتنی ارفع اور بلند ہو جاتی ہے کہ دنیا کی عقلوں میں جو اعمال یا خیالات معمولی اور بے ضرر ہوتے ہیں وہ ان میں خطرہ اور ہلاکت دیکھتا ہے اسکی دو کی جگہ چار آنکھیں ہو جاتی ہیںاور جو بات عوام کیلئے نیکی ہوتی ہے وہ اس کیلئے بعض اوقات بدی میں داخل ہو جاتی ہے ۔اور ایسی نمائشی نیکی سے وہ اسی طرح بچتا ہے جس طرح عام لوگ گناہ سے پرہیز کرتے ہیں اور اس وقت وہ شخص اس با برکت وجود کی ظلیت میں داخل ہو جاتا ہے جس نے دعویٰ کیا تھا کہ
من تربیت پذیر ز رب مہیمن ام

متقی کی بصیرت

مگر اس حالت یا اس سے بڑھ کر کیفیات سے پہلے بھی ایک مبتدی متقی انسان کی خود اپنی بصیرت بہت روشن ہونی شروع ہو جاتی ہے ۔اور اس کا فہم خدا کی رضامندی کی راہوں میں بہت تیز ہو جاتا ہے اور جو باتیں عرفاًبے عیب اور مخلوقات میں علی الاعلان دائر و سائر نظر آتی ہیں وہ ان سے بچنے لگتا ہے صرف اس لئے کہ اس کے اندر مصنوعی تقویٰ نہیں بلکہ حقیقی تقویٰ کی وہ روح موجود ہوتی ہے جس کیلئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ وَيُعَلِّمُكُمُ اللہُ یعنی اگر تم بکوشش تقویٰ کو اختیار کر لوگے تو اللہ تعالیٰ تمہاری تعلیم کو براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لیگا اور پھر تم گمراہ نہیں ہو سکو گے ۔سو وہ حالت ان کو میسر آجاتی ہے ہاں یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص کو تفصیلی عقلی دلائل اور براہین کسی چیز کے جائز یا ناجائز ہونے کے بھی معلوم ہو جائیں ۔البتہ اتنا ضرور ہو جاتا ہے کہ متقی کو امر جائز اورامر ناجائز میں تمیز کر نے کی حسّ عطا ہو جاتی ہے اور وہ ایک اچھے کام کو ایک بُرے کام سے اسی طرح الگ کر دیتا ہے جس طرح ایک جوہری سچے موتیوں کو جھوٹے موتیوں سے اور ایسا انسان خدا تعالیٰ کی نافرمانی کو بظاہر عمدہ اعمال کے اندر اسی طرح سونگھ لیتا ہے جس طرح ہم مردار کی بدبو کو ۔

تقویٰ کی باریک راہوں پر عمل کرنے کے معنے

اب میں اصلی مطلب کی طرف آتا ہوں وہ یہ کہ مثالوں سے تقویٰ کی بعض باریک باتوں کا ذکر کروں جن سے شایقین کو کچھ علم اس راہ کا ہو۔ حقیقۃً یہ باتیں بہت باریک نہیں مگر مبتدیوں کے سمجھنے کیلئے میں انکو باریک ہی کہونگا کیونکہ موٹے گناہ تو عموماً قتل چوری زنا جھوٹ ہی سمجھے جاتے ہیں ۔حالانکہ اوپر چلکر خود انہی گناہوں کی اتنی قسمیں اور اتنی شاخیں ہو جاتی ہیں کہ عام آدمی انکو تمیز نہیں کر سکتا کہ یہ کوئی گناہ بھی ہے یانہیں کیونکہ باریک در باریک قسمیں انہی باتوں کی دنیا میں اس قدر رائج ہو گئی ہیں کہ سو سائٹی میں ان کو کوئی معیوب بات خیال ہی نہیں کیا جاتا بلکہ وہی شخص عقلمند ، زیرک اور دور اندیش مشہور ہو جاتا ہے جو ایسے باریک گناہ دل کھول کر کرتا ہے اور ایسے ایسے طریقے ایجاد کر تا رہتا ہے کہ وہ ان پر زیادہ سے زیادہ کامیابی سے عمل کر سکے قرآن مجید نے گناہوں کی ان باریک قسموں کی طرف کنایتہ ایک اشارہ کیا ہے ۔چنانچہ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ۝۰ۚیعنی نہ صرف ظاہری فحشاء سے بچو بلکہ ان بے حیائیوں سے بھی بچتے رہو جو باریک اور مخفی اور دل کے اندر کے خانوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں ۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ نہ صرف انسان کے آلات تناسل ہی زنا کرتے ہیں بلکہ اس کی آنکھ بھی زنا کرتی ہے اسکے کان بھی زنا کرتے ہیں اس کے ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں اسکے پیر بھی زنا کرتے ہیں اس کا دل بھی زنا کرتا ہے ۔غرض اس حدیث میں ایک مشہور اور موٹے گناہ کی شاخوں اور باریک رستوں کو بھی واضح کر کے بتا یا گیا ہے ۔اسی طرح اور گناہوں کا حال ہے ۔چنانچہ جس طرح کسی کے ہاں نقب لگا کر اسکا زیور نکال لینا چوری کہلاتا ہے اسی طرح ایک احمدی طالب علم کے نزدیک امتحان کے پرچہ میں نقل کر لینا بھی چوری ہے اور جس طرح رسہ گلے میں ڈال کر پھانسی سے مر جانا خود کشی ہے اسی طرح ایک احمدی متقی بیمار کے نزدیک غذا کی ایسی بد پرہیزی کر لینا جس سے بیماری کے بڑھ جانے کا یقینی خطرہ ہو ایک قسم کی خود کشی ہے ۔اور جس طرح کسی انسان کا قتل کر دینا دنیا داروں کے نزدیک ایک خوفناک جرم ہے اسی طرح ایک احمدی خاوند کے نزدیک بے ضرورت شرعی برتھ کنٹرول پر عمل کرنا بھی اسی ضمن میں کا ایک گناہ ہے علی ہذا القیاس۔
اگر زنا کرنا ایک موٹے فہم کے مسلمان کے نزدیک الٰہی نافرمانی ہے تو ایک احمدی نوجوان کے نزدیک علاوہ حلال اور جائز طریقہ کے کسی اور طرح سے اپنی شہوات کو پورا کرنا بھی زنا کے حکم میں داخل ہے۔ پس تقویٰ کی باریک راہوں پر عمل کرنے کے یہ معنے ہونگے کہ ان گناہوں کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے خوف کی وجہ سے چھوڑ دینا جو زیادہ باریک بین اور سرسری اور موٹی نظر والوں یا اہل ظاہر کو نظر نہیں آتےاور جن کی بابت دنیاوی عقل تو جواز کا فتویٰ دے سکتی ہے مگر متقی کا ضمیر ان کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا ۔یاد رہے کہ یہ باتیں عام لوگوں کو صرف اتنا بتا دینے سے سمجھ میں نہیں آجاتیں کہ تم قتل نہ کرو ،چوری نہ کرو ،زنا نہ کرو اور جھوٹ نہ بولو بلکہ اس وقت سمجھ میں آتی ہیں  جب کچھ باریک تفاصیل بھی ان کو سمجھائی جائیں کیونکہ جس قدر علم انسان کے دماغ میں امثلہ اور تفاصیل سے داخل ہوتا ہے اتنا کبھی مجمل بیانات سے داخل نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں ایک ہی بات کو کئی کئی پیرایوں میں اور نئے نئے سیاق و سباق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اسکی مختلف شاخوں کومختلف طریقوں سے واضح کیا گیا ہے ۔
اس تمہید کے بعد اب میں چند نمونے متقیانہ افعال و اعمال کے بیان کرتا ہوں اور مزید تفاصیل خود ناظرین کے اپنے غور و فکر کیلئے چھوڑ دیتا ہوں ۔

پہلی مثال

حضرت امیر الموءمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ۔ناقل) ایک دفعہ کشمیر تشریف لے گئے ۔ریچھ مارنے کا لائسنس لیا ہوا تھا ۔دوران سفر میں ایک ایسی جگہ فروکش ہوئے جہاں احمدیوں کی آبادی تھی ۔وہاں حضور شکار کیلئے ایک پہاڑی جنگل میں داخل ہوئے ۔لوگوں نے ہانکنا شروع کیا ۔ایک مشک والا ہرن ہانکے سے نکلا اور بالکل سامنے آکر کھڑا ہو گیا رائفل حضور کے کندھے کے ساتھ لگی ہوئی تھی اور نالی شکار کی طرف ۔ہمراہی بیقرار تھے کہ ایسا عجیب نایاب شکار سامنے کھڑا ہوا ہے کیوں نہیں فائر کیا جاتا ۔حضور نے یکدم رائفل نیچے کر لی ۔وہ ہرن بھاگ گیا فرمایا کہ اس کا خاص لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے میرے لئے اس پر فائر کرنا جائز نہ تھا۔ گھر واپس ہونے پر بعض لوگ جو ساتھ تھے کہنے لگے کیسا عمدہ شکار سامنے آیا تھا ہم تو کبھی ایسے عمدہ شکار کو نہیں چھوڑا کرتے ۔اگر ایسی احتیاطیں کرنے لگیں تو بس شکار ہو چکا ۔مگر ان بیچاروں کو معلوم نہ تھا کہ اگر ایسی احتیاطیں نہ کی جائیں تو بس تقویٰ ہو چکا ۔

دوسری مثال

میرے ایک بزرگ ہیں ۔ ان کے پاس رفتہ رفتہ 90 کے قریب کھوٹے روپے جمع ہوگئےجن میں کچھ تو ایسے کھوٹے تھے جن کا ایک حصہ چاندی کی وجہ سے قابل فروخت تھا اور کچھ ایسے تھے جو محض مصنوعی اور ناکارہ تھے۔ انہوں نے ناکارہ تو سب تالاب میں پھنکوادئیے اور جو دوسرے تھے، وہ بکنے بھیج دئیے اور لے جانے والے سے کہہ دیا کہ انہیں کسی سُنار کے ہاتھ فروخت کرکے انہیں اپنے سامنے اسی سے کٹوادینا تاکہ پھر بطور سکّہ کے نہ چلائے جاسکیں۔ سنار نے یہ بات مان کر ان کو خرید لیااور مقررہ قیمت ادا کردی لیکن جب ان کے ملازم نے کاٹنے کا مطالبہ کیا تو سنار لڑنے لگا کہ جب میں نے مول لے لئے ہیں تو اب تمہارا کیا کام۔ میں ان کو ثابت ہی بیچ لوں گامگر انہوں نے نہ مانا۔ آخر واپس لے لئے گئے۔ اس پر سنار نے کہا کہ اچھا اس شرط پر کاٹوں گا کہ ان کی قیمت اتنی کم کردو۔ یہ بات انہوں نے فوراً مان لی ا ور بہت تھوڑی رقم معاوضہ میں لے لی۔ مگر ایک ایک روپیہ کٹواکر چھوڑا۔ حالانکہ عام لوگ اوّل تو کھوٹا روپیہ خود ہی کوشش کرکے چلا دیتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوسکے تو کسی ہوشیار آدمی کی معرفت اس کو بازار میں چلوادیتے ہیں یا دلّالوں کے ہاتھ کچھ کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں کہ آگے وہ اسے چلا لیں۔ اور بعض ظالم تو جیب میں یا دکان میں ہر وقت ایسے کھوٹے روپے تیار رکھتے ہیں۔ جب کوئی سادہ طبع دیہاتی سودا خریدنے آجاتا ہے تو اس کا اچھا روپیہ لے کر چالاکی سے فوراً اپنا خراب روپیہ اسے دیکر کہتے ہیں کہ بھائی صاحب یہ آپ کا روپیہ ٹھیک نہیں ہے اسے بدل دیجئے۔غرض یہ فرق ہے متقی اور غیر متقی میں۔ ایک ان میں سے نعوذ باللہ خدا کو اندھا سمجھتا ہے اور دوسرا اُسے بینا یقین کرتا ہے ۔ پس کیا تم یقین کرسکتے ہو کہ خدا کو اندھا سمجھنے والا اس کی ذات سے کوئی روحانی فیضان حاصل کرسکتا ہے۔

تیسری مثال

ایک شخص کو ڈاک میں ایک خط ملا۔ اتفاقاً اس کے ٹکٹ پر مہر لگانا یا تو ڈاکخانہ والا ہی بھول گیا یا لگائی تو کوئی نقش مہر کا نمودار نہ ہوا۔ غرض ٹکٹ بالکل کورا رہا۔ اس شخص کے لڑکے نے وہ ٹکٹ اتار کر اس سے کہا کہ ابا جان دیکھئے یہ ٹکٹ پھر استعمال ہوسکتا ہے۔ اس نے لڑکے سے ٹکٹ لیکر پھاڑ کر پھینک دیا کہ اب ہمارے لئے اس ٹکٹ کا دوبارہ استعمال ناجائز ہے۔ کوئی غیر متقی ہوتا تو اس ٹکٹ کا استعمال نہ صرف جائز سمجھتا بلکہ اپنی ایسی ہوشیاری کو فخریہ بیان کرتا۔ (باقی آئندہ)

(بحوالہ الفضل قادیان29؍ستمبر1936ء)
…٭…٭…٭…