اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-09

سیّدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کا خدادادعلمِ قرآن اور خدمتِ قرآن

(مامون الرشید تبریز ، نائب انچارج شعبہ تاریخ احمدیت قادیان)

انسان کی طبیعت میں یہ بات خدا تعالیٰ نے ودیعت کی ہوئی ہے کہ جس چیز سے اسے محبت ہو اس کے بارے میں ہر طرح سے تحقیق کرتا ہے کہ اسکی معرفت حاصل ہو جائے۔ اگر ہم قرآن کریم کی بات کریں تو اس سے محبت کا دعویٰ کرنے والا بھی یقیناً ایسا ہو گا جو قرآن کریم کے لفظ لفظ پر غور کرنے والا اور ان میں سے معرفت الٰہی کے نکات چننے والاہوگا۔ پھر ایسا وجود ہی خدمت قرآن کر سکتا ہے جسے قرآن کریم سے بے پناہ محبت ہو اور ایک زکی نفس رکھتا ہو۔ اسکے بغیر قرآن کریم میں موجود روحانی علوم کی عقدہ کشائی ممکن نہیں۔ چنانچہ یہ وہ پیمانہ ہے جو ایک عاشق قرآن کیلئے ہے اور زمانہ گواہ ہے کہ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اسی پیمانہ کے مطابق ایک سچے عاشق قرآن تھے۔
قارئین کرام!عشق سرچڑھ کر بولتا ہے اور آپؓ کے عشق قرآن کے نتیجہ میں ہمیں آپؓ کے ذریعہ قرآن کریم کے وہ علوم حاصل ہوئے جن سے مسلمان اب تک بے بہرہ ہیں۔پیشگوئی مصلح موعود ؓ میں ذکر ہے کہ مصلح موعود ؓکے ذریعہ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوگا۔ ہم جب سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بیس یا اکیس سال کی چھوٹی عمر میں ہی آپؓ نے قرآن کریم کا درس دینا شروع کردیا تھا اور آپؓکے مخاطبین اُس وقت کے جلیل القدر صحابہ کرام تھے جن میں سے قرآنی علوم کے ماہرین اور ہندوستان کے بڑے بڑے علمی اداروں سے تعلیم یافتہ بزرگان تھے۔ ایسے صحابہ کرامؓ کی موجود گی میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1910ء میں قرآن کریم کا درس دینا شروع کردیا تھا اور وسط 1913ء سے آپ نے دن میں دو دفعہ درس دینا شروع کردیا ۔ اس وقت آپؓکی عمر 23سال کے قریب تھی۔ آپؓ نماز فجر اور ظہر کے بعد درس دیا کرتے تھے۔ (بحوالہ سوانح فضل عمر ،جلد1، صفحہ 301، مطبوعہ قادیان 2005ء)
آپؓنے اپنا پہلا خطبہ جمعہ 29؍جولائی 1910ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ارشاد فرمایا۔ جس میں آپؓ نے اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ کی اچھوتی اور ایمان افروز تفسیر بیان فرمائی ۔
ہندوستان کے نامور عالم اور وقائع نگار مولانا عبد الماجد دریابادی نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا :
’’قرآن اور علومِ قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جوکوششیں انہوںنے سرگرمی اور اولوا العزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں، ان کا اللہ انہیں صلہ دے ۔ علمی حیثیت سے قرآنی حقائق ومعارف کی جو تشریح و تبیین وترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند وممتاز مرتبہ ہے۔ ‘‘
(سوانح فضل عمر ،جلد3،صفحہ168)
خدمت قرآن میں آپ کی مایۂ ناز تفسیر جسے ’’تفسیر کبیر ‘‘اور ’’تفسیر صغیر‘‘کے نام سے عالم احمدیت میں جانا جاتا ہے ، غیروں کی زبان پر بھی آپؓکی تعریف کے کلمات جاری کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ چنانچہ ہندوستان کے مشہور عالم ادیب علامہ نیاز فتح پوری مرحوم ومغفور کے مطالعہ میں جب حضرت مصلح موعود کی تفسیر کبیر سورہ ہود آئی تو آپ پھڑک اٹھے اور وجد کی کیفیت میں آپ نے برملا اس کایوں اظہار کیا :
’’تفسیر کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے اور مَیں اسے بڑی نگاہِ غائر سے دیکھ رہاہوں اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیاز اویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے۔ جس میں عقل ونقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے ۔ آپ کےتجر علمی ، آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیر معمولی فکر وفراست ، آپ کا حسنِ استدلال، اسکے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ مَیں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا۔ کاش کہ مَیں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا ۔ کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط ؑپر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا۔ آپ نے ہٰٓؤُلَاءِ بَنَاتِيْ کی تفسیرکرتے ہوئے عام مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے، اس کی داد دینامیرے امکان میں نہیں ۔ خدا آپ کو تادیر سلامت رکھے۔ ‘‘ (ایضاًصفحہ163)
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو الٰہی پیشگوئیوں کے مطابق قرآن کریم کا علم خدا تعالیٰ نے سکھایا ۔ بچپن سے ہی آپ کو خدا تعالیٰ نے قرآنی علوم سکھانے شروع کردیئے تھے۔ خود سیدنا حضرت مصلح  موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’مَیں چھوٹاہی تھا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا مَیں مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوں اورسامنے میرے ایک وسیع میدان ہے ۔ اس میدان میں اس طرح کی ایک آواز پیدا ہوئی جیسے برتن کو ٹھکورنے سےپیدا ہوتی ہے ۔یہ آوازفضا میں پھیلتی گئی اور یوں معلوم ہوا کہ گویا وہ سب فضا میں پھیل گئی ہے۔ اسکے بعد اس آواز کا درمیانی حصہ مُتَمَثَّلْ ہونے لگااور اس میں ایک چوکھٹا ظاہر ہونا شروع ہوا جیسے تصویروں کے چوکھٹے ہوتے ہیں ۔ پھر اس چوکھٹے میں کچھ ہلکے سے رنگ پیدا ہونے لگے ۔آخر وہ رنگ روشن ہو کرایک تصویر بن گئے اور اس تصویر میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ ایک زندہ وجود بن گئی اور مَیں نے خیال کیا کہ یہ ایک فرشتہ ہے۔ وہ فرشتہ مجھ سے مخاطب ہوا اور اس نے مجھے کہا کہ کیامَیں تم کو سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں ؟ تو مَیں نے کہا کہ ہاں آپ مجھے ضرور اسکی تفسیر سکھائیں۔ پھر اس فرشتے نے مجھے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کی یہاں تک کہ وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْن تک پہنچا ۔ یہاں پہنچ کر اس نے مجھے کہا کہ اس وقت تک جس قدر تفاسیر لکھی جا چکی ہیں وہ اس آیت تک ہیں ۔ اسکے بعد کی آیات کی کوئی تفسیر اب تک نہیں لکھی گئی۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا کیا مَیں اس کے بعد کی آیات کی تفسیر بھی تم کو سکھاؤں اور مَیں نے کہاہاں۔ جس پر فرشتہ نے مجھے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ اور اس کے بعد کی آیات کی تفسیر سکھانی شروع کی اور جب وہ ختم کر چکا تو میری آنکھ کھل گئی اور جب میری آنکھ کھلی تو مَیں نے دیکھا کہ اس تفسیر کی ایک دوباتیں  مجھے یاد تھیں لیکن معاًبعد مَیں سو گیا اور جب اُٹھا تو تفسیر کا کوئی حصہ بھی یاد نہ تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے ایک مجلس میں اس سورۃ پر کچھ بولنا پڑااور مَیں نے دیکھا کہ اسکے نئے نئے مطالب میرے ذہن میں نازل ہو رہے ہیں اور مَیں سمجھ گیا کہ فرشتہ کے تفسیر سکھانے کا یہی مطلب تھا چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک ہمیشہ اس سورۃ کے نئے نئے مطالب مجھے سکھائے جاتے ہیں ۔ جن میں سے سینکڑوں مَیں مختلف کتابوں اور تقریروں میں بیان کرچکا ہوںاور اسکے باوجود وہ خزانہ خالی نہیں ہوا۔ ‘‘ (تفسیر کبیر، سورۃ فاتحہ ،صفحہ6)
ایک اور موقع پر آپؓ نے فرمایا:’’خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کیلئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے وہم اور گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے ۔ وہ علم جو خدا نے مجھے عطافرمایااور وہ چشمہ روحانی جو میرے سینے میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ مَیں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دُنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو مَیں  ہروقت اس سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن مَیں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو۔ ‘‘ (سوانح فضل عمر،جلد3صفحہ138)
خدا تعالیٰ نے جو قرآن کریم کا روحانی علم آپؓکو دیا تھا اسکے ساتھ آپؓ نے مخالفین احمدیت کو تفسیر قرآن کا چیلنج دیا اور فرمایا:
’’آئیں بالمقابل بیٹھ کر قرآن کریم کی کسی آیت یا رکوع کی تفسیر لکھیں اور دیکھیں کہ کون ہے جس کیلئے خدا تعالیٰ معارف اور حقائق کے دریا بہا تاہے اور کون ہے جس کو اللہ تعالیٰ علوم کا سمندر عطا کرتا ہے۔ مَیں تو ان کے نزدیک جاہل ہوں ، کم علم ہوں ، بچہ ہوں ، خوشامدیوں میں گھرا ہوا ہوں ، ناتجربہ کار ہوں، پھر مجھ سے ان کا مقابلہ کرنا کون سا مشکل کام ہے ۔ وہ کیوں  مردمیدان بن کر خدا تعالیٰ کی کتاب کے ذریعہ فیصلہ نہیں کر لیتے اور کیوں گیدڑوں اور لومڑیوں کی طرح  چھپ چھپ کر حملے کرتے ہیں۔ ‘‘(تقریر جلسہ سالانہ 1919ء مرتبہ شیخ رحمت اللہ صاحب ، مطبوعہ ستمبر 1934ء)
مخالفین جب اس پر راضی نہ ہوئے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ان کیلئے مزید آسانی پیدا کی اور فرمایا :
’’مَیں نے بھی کئی بار چیلنج دیا ہے کہ قرعہ ڈال کر کوئی مقام نکالو۔ اگر یہ نہیں تو جس مقام پر تم کو زیادہ عبور ہو یہاں تک کہ تم ایک مقام پر جتنا عرصہ چاہوغور کرلواور مجھے نہ بتاؤ ۔ پھر میرے مقابل پر آکر اسکی تفسیر لکھو۔ دنیا فوراًدیکھ لے گی کہ علوم کے دروازے مجھ پر کھلتے ہیں یا ان پر مگر کسی کو جرأت نہیں ہوتی کہ سامنے آئے۔‘‘ (اخبار الفضل 7؍مارچ1938ء)
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بڑی عمیق نگاہ سے قرآن کریم کی تفسیر کی۔ باوجود اسکے کہ آپؓکی صحت خراب رہاکرتی تھی مگر یہ عشق قرآن ہی تھا جو آپؓنےخدمت قرآن کا یہ عظیم کارنامہ کردکھایا۔ آپ کے سلسلہ دروس القرآن کو تفسیر کبیر کے نام سے 10جلدوں میں شائع کیا گیا ۔ اس کے علاوہ تفسیرصغیر کے نام سے قرآن کریم کا بامحاورہ ترجمہ آپ کاایک عظیم کارنامہ ہے۔ آپؓکے ذریعہ قرآن کریم کی تفسیر میں ایک نیارنگ دیکھنے کو ملا۔ آپ نے قرآن کریم کی آیات سے متعلق پہلے مفسرین کی غلطیوں کو بھی نمایاں کیا اور دوران تفسیر غیر وں کے اعتراضات اور الزامات کو واضح کرتے ہوئےان کا ردّاور دندان شکن جواب بھی پیش کیا۔ پھر یہی نہیں آپؓکے ذریعہ ہونے والی تفسیر میں تفصیل کے ساتھ سورتوں اور آیتوں کی ترتیب اور ان کا قرآن کریم کی دوسری سورتوں اور آیات سے تعلق بھی واضح کیا گیا ہے۔ سورتوں اور آیات کے نزول کا پس منظر اور قرآنی پیشگوئیوں کا تفصیلی ذکر اور ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کی تفصیل تاریخی حوالوں کے ساتھ بیان کی گئی ہے ۔ غرض یہ کہ آپؓکا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک آپؓ کی اس عظیم خدمت کے پیش نظر مسلمانوں کے دلوں میں آپؓکی قدر ومنزلت بنائے رکھےگا ۔ ہمیشہ آپؓکیلئے ہر احمدی کے دل سے یہ دعا نکلے گی ؎ ملّت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
…٭…٭…٭…