اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-09

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے بابرکت وجود پر ایک طائرانہ نظر

(دلاور خان ، خادم سلسلہ نظارت اصلاح وارشاد مرکزیہ قادیان)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بکثرت ایسی پیشگوئیاں بطور نشان عطا فرمائیں جو اپنے وقت پر بڑی شان سے پوری ہوئیں اور آپؑ کی صداقت کا نشان ٹھہریں ۔ ان پیشگوئیوں میں سے ایک عظیم الشان پیشگوئی سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے۔
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی جماعت احمدیہ مسیح موعود و مہدئ معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسلام کی تمام ادیان پر برتری کا کام کر رہے تھے۔ آپؑ نے عیسائیت کے اُمڑتے ہوئے سیلاب کو روکنے کیلئے اسکے آگے ایک بند باندھ دیا۔ آپ نے 22 جنوری 1886ء کو ہوشیار پور کا سفر اختیار کیااورہوشیار پور میں ہی اللہ تعالیٰ کے اذن اور اسکی منشاء کے مطابق عبادت وریاضت کیلئے چلّہ کشی کی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کواسلام کی ترقی کے متعلق بہت سی بشارات دیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے ’’مصلح موعود ‘‘ کے بارے میں ایک عظیم الشان پیشگوئی فرمائی۔ اور اپنے قلم سے 20فروری 1886ء کو ایک اشتہار ’’رسالہ سراج منیر بر نشان ہائے ربّ قدیر‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا، جو اخبار ریاض ہند امرتسر یکم مارچ 1886ء میں بطور ضمیمہ شائع ہوا۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 2011ء میںفرماتے ہیں:
’’یہاں یہ بھی بتا دوں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیشگوئی شائع فرمائی تو اس وقت پنڈت لیکھرام نے نہایت گھٹیا زبان استعمال کرتے ہوئے ہر پیشگوئی کے مقابلے پر اپنی دریدہ دہنی اور اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیا…حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا ناکہ میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤ ں گا تووہ لکھتاہے کہ ’’ آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائیگی ۔غایت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی۔‘‘ …چنانچہ اس بد زبانی نے پسر موعود سے متعلق پیشگوئی کی ایک ایک صفت کو اپنے تجویز کردہ الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر پوری بے حجابی سے لکھا (اور یہاں تک لکھ دیا کہ) خدا کہتا ہے کہ جھوٹوں کا جھوٹا ہے ۔ میں نے کبھی اس کی دعا نہیں سنی اور نہ قبول کی۔‘‘
اور پھر جب اسکا انجام ہوا وہ تو ساری دنیا کو معلوم ہے…اسی طرح کچھ عیسائی پادریوں نے بھی جو اسلام کے مخالف تھے، اس قسم کی باتیں کیں۔ لیکن بعض مسلمان کہلانے والوں نے بھی اپنی دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا ۔ ان لوگوں کی باتیں کو سن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک اشتہار شائع فرمایا۔ اس میں آپ نے اس موعود بیٹے کی پیشگوئی کی عظمت کے بارہ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ آنکھیں کھولکر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّ شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤوف و رحیم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کیلئے ظاہر فرمایا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 2011)
یہودکی کتاب طالمودکی پیشگوئی
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے بھی بہت عرصہ قبل جہاں مختلف مذاہب نے آخری زمانہ میں اپنے اپنے مذہب کے ایک موعود کی خبر دی ہے، وہاں آخری زمانہ میں مسیح اور اسکے بیٹے کے بارہ میں بھی پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں۔
یہود کی شریعت کی کتاب طالمود میں لکھا ہے کہ:
It is also said that he (The Messiah) shall die, and his kingdom descent to his son and grandson.
ترجمہ: یہ بھی ایک روایت ہے کہ مسیح (موعودؑ) کے وفات پانے کے بعد اسکی بادشاہت (یعنی آسمانی بادشاہت ) اس کےفرزند اور پھر اس کے پوتے کو ملے گی۔(طالمود، باب پنجم از جوزف بار کلے ایل . ایل.ڈی مطبوعہ لندن 1879ء صفحہ 37)
مخبر صادق حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا: یَنْزِلُ عِیْسٰی اِبْنِ مَرْیَم اِلَی الْاَرْضِ یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ
( مشکوٰۃ کتاب الفتن ، باب نزول عیسیٰ الفصل الثالث جلد سوم ترجمہ صفحہ 49 حدیث 4/5272)
یعنی حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام دنیا میں آئیں گے تو وہ شادی کریں گے اور ان کو اولاد دی جائے گی۔
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
اور یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود کی اولاد ہوگی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اس کی نسل سے ایک ایسے شخص کو پیدا کرے گاجو اس کا جانشین ہوگا اور دین اسلام کی حمایت کرے گا جیسا کہ میری بعض پیشگوئیوں میں یہ خبر آچکی ہے۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 325)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو پوتے کی بشارت
اس بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو کئی الہام ہوئے ۔ مارچ 1906ء میں الہام ہوا:
اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَا مٍ نَّا فِلَۃً لَّکَ( ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا)
( روزنامہ الفضل ربوہ صفحہ1 ، 12 مارچ 1983 ء حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نمبر)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ستمبر 1907ء میں اس موعود بیٹےکے بارے میں بتایا گیا ’’اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَا مٍ حَلِیْم یعنی ہم تجھے ایک حلم والے لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں ۔‘‘
یہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے بارے میں عظیم خدائی بشارات ہیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ صفحہ 1 جلد37/72 شمارہ نمبر 59 ، 12 مارچ 1983ء،حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒنمبر )
’’(الغرض)سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ صحف سابقہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سیدنا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی پیشگوئیوں اور متعدد بشارتوں کے مصداق تھے اور اپنی اس مخصوص حیثیت اور مقام کے لحاظ سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پانچویں موعود بیٹےنافلہ موعود اور موعود خلیفہ ہونے کے علاوہ ناصر الدین کے نہایت معزز آسمانی لقب سے ملقب تھے۔ پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند ہونے کی وجہ سے آپکی خلافت کا زمانہ خود حضرت المصلح موعودکا ہی زمانہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت کے منصب جلیل پر فائز کر کے ممتد کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا حضرت مصلح موعود کی صفات خاصہ ایک رنگ میں آپ کے وجود میں بھی جلوہ گر ہوئیں۔ چنانچہ تعلق باللہ اور قرب الٰہی کی نعمتوں سے آپ کو حصہ وافر عطا ہوا، علوم ظاہری و باطنی آپ کو عطا کئے گئے، اور خاص طور پر اولوالعزمی آپ کو بطور نشان ودیعت ہوئی ۔اسی لئے حضرت مصلح موعود کے زریں عہد خلافت کی برکات خاصہ کے ظہور کا سلسلہ آپ کے عہد خلافت میں بڑی شان کے ساتھ جاری وساری رہا۔‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ صفحہ 2، 12 مارچ 1983 حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒنمبر)
پیشگوئی مصلح موعودؓکے مصداق ہونے کا اعلان
خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قیام لاہور کے دوران 5۔6 جنوری 1944ء کو ایک عظیم الشان رؤیا کے ذریعہ آپ پر یہ انکشاف فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 20 فروری 1886ء کو جس موعود بیٹے کی پیدائش کا اعلان ہوشیارپور کی سرزمین سے فرمایا تھا اور جس کے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ وہ مسیحی نفس ہوگا، جلد جلد بڑھے گا، علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی وغیرہ وغیرہ ،اس پیشگوئی کے مصداق آپ ہی ہیں۔
خدائے ذوالعرش کے اس انکشاف کے بعد حضرت مصلح موعودؓ27 جنوری 1944ء کو قادیان تشریف لائے اور اگلے روز 28 جنوری 1944 ء کو مسجد اقصیٰ قادیان کے منبر پر رونق افروز ہوکر ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں پہلے تو اپنی تازہ رؤیا بالتفصیل بیان فرمائی اور پھر یہ پر شوکت اعلان فرمایا کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں ۔
چنانچہ حضر ت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد اپنا رؤیا تفصیل سے بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اس وقت میری زبان پر جو فقرہ جاری ہوا وہ یہ ہے۔ وَاَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہُ وَ خَلِیْفَتُہُ اور میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اسکا مثیل اور اسکا خلیفہ ہوں۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 512- 519، ماہنامہ احمدیہ گزٹ کینیڈا فروری 2015ء صفحہ 7۔8)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیل تھے
چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کے بعض رؤیا اور کشوف بھی ہیں جن سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو بھی اسی طرح مبشر اولاد کی بشارتیں دی گئیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبشر اولاد کی بشارتیں ملی تھیں ۔
حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد ابھی تین سال کے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو الہاماً بتا دیا تھا کہ:
’’طاہر ایک دن خلیفہ بنے گا‘‘
(ایک مرد خدا، صفحہ 208)
جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت کا تعلق ہے ،حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1984ء میں اضطراری طور پر ہجرت فرمائی تو اس ہجرت کے بارہ میں آپؒنے مکرمہ صالحہ صفی صاحبہ (بنت مولانا عبد الکریم صاحب آف لندن) کی ایک رؤیا کا ذکر کیا ۔ بہر حال 29 اپریل 1984ء کو آپؒنے اضطراری حالات میں پاکستان سے انگلستان کیلئے ہجرت فرمائی اور خدا تعالیٰ کی خاص اعجازی حفاظت میں 30 اپریل 1984ء کو بخیریت لندن پہنچ گئے۔ الحمد للہ۔
( ماخوذ از احمدیہ گزٹ کینیڈا، فروری 2013ء صفحہ 20)
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے متعلق فرماتے ہیں :
’’مَیں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں ۔میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اسکی خبر دی تھی ۔ گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں کہ جماعت احمدیہ اسے رائیگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور سر خرو ہو جائے ۔ جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے روز نہیں آتے۔‘‘
(رپورٹ مجلس مشاورت 1936ء)
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے
عظیم الشان کارناموں پر ایک سرسری نظر
حضرت مسیح موعودؑ کا وصال اور آپ کا عزم :
جب 26 مئی 1908ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قضائے الٰہی کے تحت اس دنیا سے کوچ فرمایا تو یہ وہ نازک وقت تھا کہ ہر فرد جماعت غم سے نڈھال اور فکر مند تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ ایسے موقعہ پر ایک نوجوان جس کی عمر 19 سال تھی وہ آپ کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑا ہوکر بآواز بلند یہ عہد کرتا ہے کہ:
’’اگر سارے لوگ بھی آپ کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا رہ جائوں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہیں کروں گا۔‘‘ ( تاریخ احمدیت، جلد سوم، صفحہ 560)
واقعی میں یہ عہد آپ کی اولوالعزمی اور غیرت دینی کی ایک روشن دلیل ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آپؓنے اس عہد کو خوب نبھایا اور آپ کے حق میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی کہ ’’زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیںاس سے برکت پائیں گی۔‘‘
منکرین خلافت کا فتنہ:
خلافت ثانیہ میں اٹھنے والا پہلا فتنہ منکرین خلافت کا فتنہ تھا ۔یہ لوگ جماعت سے کٹ کر پیغامی کہلائے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ 13؍ مارچ 1914ء کو اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے تو جماعت پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑاتھا ۔ احباب مسجد نور قادیان میں جمع تھے تو حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مختصر سی تقریر کی اور فرمایا:
’’یہ ایک نازک وقت ہے اور جماعت کیلئے ایک بھاری ابتلاء کی گھڑی درپیش ہے۔سب لوگ گریہ و زاری کے ساتھ اپنے خدا کے حضور دعائیں کریں کہ وہ اس اندھیرے وقت میں جماعت کیلئے روشنی پیدا فرمائے اور ہمیں ہر رنگ میں ٹھوکر سے بچا کر اس راستہ پر ڈال دے جو جماعت کیلئے بہتر اور مبارک ہے…اس تقریر نے سکینت اور تسلی کی ایک لہر دلوں میں دوڑادی اور سبھی اپنے خدا کے حضور جھکتے ہوئے اسی سے فضل کی التجا کرتے ہوئے عاجزانہ دعاؤں میں لگ گئے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے منکرین خلافت کو مخاطب کر کے فرمایا: آپ خلافت کے اصول کو تسلیم کر لیں پھر چاہے خلیفہ جو بھی بن جائے ہم سب دل و جان سے اسکی اطاعت کریں گے۔ مولوی محمد علی صاحب نے کسی کی ایک نہ مانی …تو 14 مارچ 1914ء بروز ہفتہ قادیان میں حاضر الوقت احمدی احباب عصر کی نماز کے بعد انتخاب کیلئے مسجد نور میں جمع ہوئے۔ دو ہزار کا مجمع تھا۔ پورے مجمع نے بالا تفاق اور بالاصرار اور دل و جان کے ساتھ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
انتخاب کے بعد آپؓنے مجمع عشاق خلافت کو خطاب فرمایا ۔ اس میں سے صرف چندسطور آپ کے سامنے رکھتا ہوںحضور نے فرمایا:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرا جو اجماع ہواوہ خلافت حقہ راشدہ کا سلسلہ ہے۔خوب غور سے دیکھ لو اور تاریخ اسلام میں پڑھ لو کہ جو ترقی اسلام کی خلفائے راشدین کے زمانے میں ہوئی جب وہ خلافت محض ملوکیت کے رنگ میں تبدیل ہوگئی تو گھٹتی گئی یہاں تک کہ اب جو اسلام کی حالت ہے تم دیکھتے ہو۔تیرہ سو سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس منہاج نبوت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کے موافق بھیجا اور ان کی وفات کے بعد پھر وہی سلسلہ خلافت راشدہ کا چلا ہے…پس جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا اسلام مادی اور روحانی طور پر ترقی کرتا رہے گاــ‘‘
بالآخر تقدیر الٰہی نے خلافت اولیٰ اور خلافت ثانیہ کے سنگم پر منکرین خلافت کی جڑوں کو قادیان کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکا…اپنی باون سالہ خلافت کے درخشندہ دور میں بھی آپ نے خلافت احمدیہ کے استحکام کیلئے عظیم الشان جدوجہد کی … وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا کا وعدہ ایک بار پھر پورا ہوا ایک بار پھر یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ اسلام کی زندگی اسکی تمکنت اور اسکا امن ہمیشہ کیلئے نظام خلافت سے وابستہ ہو چکا ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں :
’’پیغامی کس زور سے اٹھے کس شان سے اٹھے کن زبردست ارادوں سے اٹھے ۔ کیا کیا تدبیریں تھیں جو انہوں نے ہمیں زیر کرنے کیلئے اختیار نہ کیں اور کیا کیا منصوبے تھے جو انہوں نے ہمیں ذلیل کرنے کیلئے نہ باندھے جو شوکت اور جو رتبہ اس وقت ان لوگوں کو جماعت میں حاصل تھا آج جو بعد میں آنے والے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے… جماعت کی تمام اہم چیزیں انہی کے قبضہ میں تھیں جب کہ جماعت کے تمام اہم ادارے انہی کے پاس تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کے ساتھ مجھ پر الہام نازل کیا اور فرمایا کہ ’’ کون ہے جو خداکےکام کو روک سکے‘‘
خلافت ثانیہ میں اٹھنے والا دوسرا فتنہ مستریوں کا فتنہ تھا اور تیسرا فتنہ مصریوں کا فتنہ تھا یہ دونوں فتنے اپنی موت آپ مرگئے ۔
حضرت مصلح موعودؓ کی انتھک محنت اور کاوش اور طویل تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے اندر خلافت کا قیام ایسا واضح ہو گیا اور قلوب کی گہرائیوں میں اسکے شجرئہ طیبہ کی جڑیں ایسی مضبوطی کے ساتھ پیوستہ ہوگئیں کہ فتنوں کی تیز و تند آندھیاں پھر کبھی ان کے پائے ثبات کو لرزانہ سکیں۔ (ماخوذ از دو ماہی انصار اللہ قادیان جنوری/فروری 2003ء صفحہ 17 تا 21)
ہر کام کو احسن رنگ میں سرانجام دینے کیلئے پلاننگ اور تنظیم کی صلاحیت کمال درجہ تک اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اپنی جناب سے عطا فرمائی تھی ۔ چنانچہ آپؓنے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے ایک ماہ بعد احمدی نمائندگان کی ایک خصوصی مجلس شوریٰ طلب فرمائی ۔ غور و فکر ،مشورہ اور دعاؤں کے بعد آپؓنے تدریجی ،اصلاحی ،تنظیمی اور تبلیغی کاموں کا بیک وقت آغاز کر دیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خلافت ثانیہ میں مجموعی طور پر 46 ملکوں میں جماعت کو تبلیغی مراکز قائم کرنے کی توفیق ملی۔بیرونی ممالک میں 311 مساجد کی تعمیر مکمل ہوئی ۔ آپ نے جماعت کو تحریک کی کہ نوجوان خدمت دین کیلئے اپنی زندگیاں اس طور پر وقف کر یں کہ ان کا کوئی مطالبہ نہیں ہوگا اور وہ ہر کام کیلئے ہمیشہ تیار رہیں گے ۔ یہ انقلابی تحریک تھی۔ آپ نے اپنا قابل تقلید نمونہ بھی پیش فرمایااور فرمایا کہ:
’’میرے تیرہ (13) لڑکے ہیں اور تیرہ کے تیرہ دین کیلئے وقف ہیں۔‘‘
چنانچہ آپؓکے دور میں 164 واقف زندگی مجاہدین نے دیار غیر میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دیا۔تبلیغ اسلام کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت کیلئےآپؓنے افریقن ممالک کی طرف توجہ فرمائی کیونکہ وہاں تعلیمی اور طبی سہولتوں کا فقدان پایا جاتا تھا۔آپ کے دور خلافت میں 24 ممالک میں 74 تعلیمی مراکز ،اسکولز اور کالجز کا قیام ہوا۔28 دینی مدارس جاری ہوئے اور 17 ہسپتالوں کا قیام عمل میں آیا۔( ملخص از الفضل انٹرنیشنل 19 فروری تا25 فروری 2010ء صفحہ 9)
جماعت کے نظام کو مستحکم
اور منظم کرنے کا عظیم الشان کارنامہ :
اس کام کی فہرست بہت طویل ہے جماعت کے انتظامی ڈھانچہ کو مستحکم کرنے کیلئے آپ نے 1919ء میں صدر انجمن احمدیہ میں نظارتوں کے نظام کو وسعت دی ۔ جماعت کے مردوں اور عورتوں کو مختلف ذیلی تنظیموں میں تقسیم کرکے اپنے اپنے دائرہ کار میں متحرک اور فعال بنانا بھی آپؓکا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ 1922ء میں لجنہ اماءاللہ اور 1928ء میں ناصرات الاحمدیہ کا نظام قائم فرمایا۔خدام الاحمدیہ کا قیام 1938ء میں ہوا جبکہ اطفال الاحمدیہ کی تنظیم 1940ء میں بنائی گئی ۔ اسی سال مجلس انصاراللہ کا قیام بھی عمل میں آیا۔ نظام خلافت کے بعد مجلس شوریٰ کا نظام سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔اسکا آغاز 1922ءسے فرمایا۔آپ نے باقاعدہ وقف زندگی کی تحریک 1917ء میں کی اور ان واقفین کی تعلیم و تربیت کیلئے 1928ء میں جامعہ احمدیہ قائم فرمایا۔دارالقضاء کا قیام 1925ء میں عمل میں آیا۔
(ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل 19،25 فروری 2010ء صفحہ 12)
شدھی کی تحریک کے موقع پر آپ کا عظیم کارنامہ:
’’بیسویں صدی کے اوائل میں بعض مخلص مسلمان رہنماؤں کو یہ رُوح فرساخبر ملی کہ ندوۃ العلماء اور علی گڑھ کی ’’مسلم یونیورسٹی ‘‘کے اردگرد بسنے والے بعض ملکانہ راجپوتوں کو ہندو پنڈت ’’شدّھ‘‘کر کے اسلام سے منحرف کررہے ہیں…
مارچ 1923ء کی ایک نامسعود صبح مسلمانانِ ہند پر اس حال میں طلوع ہوئی کہ آریہ سماجی رہنما اپنی فتح کے شادیانے بجارہے تھے اور اسلام کا شدید معاند شردھانند بڑے فخر سے یہ اعلان کررہاتھا کہ
’’نواحِ آگرہ میں راجپوتوں کو تیز رفتاری سے شدھ کیا جا رہاہے اور اب تک چالیس ہزار تین سو راجپوت ملکانے ، گوجراور جاٹ ہندو ہو چکے ہیں  … ایسے لوگ ہندوستان کے ہر حصے میں ملتے ہیں ۔ یہ پچاس ساٹھ لاکھ سے کم نہیں اور اگر ہندو سماج ان کو اپنے اندر جذب کرنے کاکام جاری رکھے تو مجھے تعجب نہ ہوگاکہ ان کی تعداد ایک کروڑ تک ثابت ہو جائے۔ ‘‘
یہ اعلان کیا تھا ایک بم کاخوفناک دھماکہ تھا جس نے مسلمانانِ ہند کو شرق سے غرب تک ہلاکر رکھ دیا اور اس عجیب حال میں بیدار کیا کہ سینے چاک اور دل فگار تھے۔‘‘(سوانح فضلِ عمر ؓ، جلد دوم، صفحہ311تا312، مطبوعہ 2006ءقادیان)
چنانچہ مسلمانوں کو مرتد ہونے سے بچانے کیلئے سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جو کارنامہ سرانجام دیا اس تعلق میں محض دو اخبارات کے حوالے ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اور ہندوؤں دونوں کو اعتراف تھا کہ جماعت احمدیہ کے امام سیدنا مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس تعلق میں جو اسلامی غیرت کا مظاہرہ کیا ہے اور جو کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ کسی اسلامی جماعت کو انجام دینے کی توفیق نہیں ملی۔
اخبار زمیندار لاہورنے29؍جون 1923ء کی اشاعت میں یہ اعتراف کیا کہ
’’قادیانی احمدی اعلیٰ ایثار کا اظہار کررہے ہیں ۔ ان کا قریباً ایک سو مبلغ امیر وفد کی سرکردگی میں مختلف دیہات میں مورچہ زن ہے ۔ ان لوگوں نے نمایاں کام کیا ہے ۔ جملہ مبلغین بغیر تنخواہ یا سفر خرچ کے کام کررہے ہیں ۔ ہم گو احمدی نہیں لیکن احمدیوں کے اعلیٰ کام کی تعریف کئے بغیرنہیں رہ سکتے۔ جس اعلیٰ ایثار کا ثبوت جماعت احمدیہ نے دیا ہے اس کا نمونہ سوائے متقدمین کے مشکل سے ملتا ہے۔ ان کاہر ایک مبلغ غریب ہویا امیر بغیر مصارف سفر وطعام حاصل کئے میدان عمل میں گامزن ہے۔ شدید گرمی اور لُوؤں میں وہ اپنے امیر کی اطاعت میں کام کررہے ہیں ۔‘‘
’’آریہ پتریکابریلی نے یکم اپریل 1923ء کی اشاعت میں لکھا:
اس وقت ملکانے راجپوتوں کو …اپنی پُرانی راجپوتوںکی برادری میں جانے سے باز رکھنے کیلئے (یعنی مرتدہونے سے بچانے کیلئے۔ناقل)جتنی اسلامی انجمنیں اور جماعتیں کام کررہی ہیں ان میں احمدیہ جماعت قادیان کی سرگرمی اور کوشش فی الواقع قابل دار ہے۔ ‘‘
(سوانح فضلِ عمر ؓ، جلد دوم، صفحہ328، 331، مطبوعہ 2006ءقادیان)
احرار کی مخالفت اور ناکامی اور حضرت مصلح موعود ؓکی خدائی تائید:
ایک ابتلاء 1934ء میں احرار کی مخالفت کی شکل میں ظاہر ہوا۔ جماعت احمدیہ کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کرنے کے ساتھ ان کے لیڈر یہ بھی کہہ رہے تھے کہ جماعت احمدیہ اب چند دنوں کی مہمان ہے اس وقت کی حکومت بھی ان کی پشت پنا ہی کر رہی تھی ۔
’’حضرت مصلح موعود ؓ کی ڈاک پر سنسر شپ بٹھا دی ، یہ گویا جماعت احمدیہ کے مقدس امام کی ایک قسم کی ناکہ بندی تھی جس سے حکومت کا مقصد واضح تھا کہ وہ کسی نہ کسی بہانے سے حضورؓ پر گرفت کرنے پر تلی ہوئی تھی…تب ڈاک ہی نہیں بلکہ حضورؓ کے منہ سے نکلنے والے ایک ایک حرف پر نگاہ رکھی جاتی تھی ، آپ کے خطبات اور تقاریر کو زبردست ناقدرانہ نگاہ سے دیکھا اور پرکھا جاتا تھا ، سی آئی ڈی کے افسر ہر وقت پیچھے لگے رہتے تھے ۔ حکومت کے افسر اور گورنر روزانہ میٹنگ اور مشورے کرتے تھے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات ہاتھ لگ جائے مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل، 16 تا 22 فروری 2021، مصلح موعود نمبر ،صفحہ 56 کالم 4)
ایسے نازک وقت میںحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس فتنہ کے نتائج جماعت کیلئے زیادہ کامیابی اور ترقیات کا موجب ہونگے۔‘‘ (الفضل، 12 ؍جنوری 1935ء)
پھر فرمایا: ’’خدا مجھےاور میری جماعت کو فتح دے گا کیونکہ اس نے مجھے جس راستے پرکھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے جو تعلیم مجھے دی ہے وہ کامیابی تک لے جانے والی ہے اور جن ذرائع کے اختیار کرنے کی اس نے مجھے توفیق دی ہے وہ کامیاب و بامراد کرنے والے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے اور شکست کو ان کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں وہ جتنے زیادہ منصوبے کرتے ہیں اور اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہیں اتنی ہی نمایاں مجھے انکی موت نظر آرہی ہے۔‘‘
(الفضل، 20؍ مئی 1935ء)
چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں مسجد شہید گنج لاہور کا معاملہ اٹھ کھڑا ہوا اور احرار کیلئے ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ ان کو سخت ذلت کا منہ دیکھنا پڑا اور نا کام و نامراد ہونا پڑا اور احمدیت کی ترقی کا یہ سامان ہوا کہ خدا نے وہ ذرائع جن سے اسلام و احمدیت کا دفاع اور ترقی ہونا مقصود تھا حضور ؓکو القاء کئے چنانچہ آپ نے تحریک جدید جیسی اہم تحریک کو جاری کیا جس کے نتیجے میں جماعت احمدیہ کو وہ عظمت حاصل ہوئی جس کو دیکھ کر سب لوگوں کی آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں اور اِن شاءاللہ تعالیٰ ہوتی رہیں گی۔(ماخوذ از ہفت روزہ بدر قادیان مصلح موعودؓنمبر، 16 ؍فروری 1984ء صفحہ 10)
تقسیم برصغیر کے وقت آپ کا کارنامہ :
برصغیر ہند و پاک کی تقسیم کے وقت ’’…مرکز احمدیت قادیان اور پنجاب کے دوسرے اضلاع میں رہنے والے احمدیوں کو بھی وہاں سے ہجرت کرنا پڑی اور پاکستان جانا پڑا … قتل و غارت اور ظلم و سفّا کی کے ماحول میں تبادلہ آبادی کا یہ دردناک سانحہ پیش آیا… جماعت کو اپنے اولوالعزم مصلح موعود ؓ نے کمال فراست سے نہایت ضبط اور اعلیٰ انتظام کے تحت بخیر وعافیت پاکستان پہنچایا … دوسرے عام اور غیر منظم مسلمان لاکھوں کی تعداد میں مارے گئے اور جو گرتے پڑتے لٹ لٹا کر وہاں پہنچے بھی تو ان کی حالت زار نا گفتہ بہ تھی اور ایسے مہاجر ین مدتوں مہاجر کیمپوں میں نہایت درجہ خستہ حالات میں پڑے رہے اور حکومت بھی اٹھا رہ سال تک ان کی آباد کاری نہ کر سکی اس کے مقابل پر جماعت احمدیہ کے خلیفہ حضرت مصلح موعودؓ نے نہایت قلیل عرصے کے اندر ضلع جھنگ میں چنیوٹ کے نزدیک ایک وسیع مگر ویران بے آب و گیاہ بنجر علاقہ حکومت وقت سے خرید کر وہاں اجتماعی طور پر ایک شہر کی بنیاد ڈالی اور اپنی خدا داد انتظامی قابلیت کی بدولت اکثر احمدی مہاجرین کو ایک خاص سکیم کے تحت وہاں آباد کر دیا ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اس میں شامل نہ ہوتی تو ایک بے آب و گیاہ بنجر اور ویران علاقہ ایک سرسبز اور متمدن شہر میں کیسے تبدیل ہوتا جس میں موجود ہ زمانے کی تمام سہولیات میسر ہیں۔‘‘
(ماخوذاز ہفت روزہ بدر قادیان مصلح موعودؓ نمبر 16 فروری 1984ء صفحہ 10 کالم 3)
جنگل کو منگل ، ویرانہ کو آبادی اور بہترین شہر میں تبدیل کر دینا، ساری ضروریات زندگی کا دستیاب ہونا اور اسی شہر سےساری دنیا کی راہنمائی اور نگرانی کرنا حضرت مصلح موعود ؓ کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ چنانچہ حضورؓخود فرماتے ہیں:
’’میں حیران ہوں کہ وہ کون سی طاقت ہے جس نے تمہیں یہاں لاکر آباد کر دیا ہے ۔ اسے دیکھ کے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب ابراہیم ؑ نے اسماعیلؑ کو جنگل میںلاکر آباد کیا تو خدا نے وہ دائمی شہر آباد کر دیا اور یہ وہ جگہ تھی جسکو حکومت اور کئی قومیں آباد کرنے میں ناکام ہوچکی تھیں ۔‘‘
(ماخوذاز مشکوۃ ماہنامہ قادیان، جنوری فروری 2008ء صفحہ 41)
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 18ستمبر 1894ء کو الہام ہوا
’’داغ ہجرت‘‘
(تذکرہ، صفحہ656،مطبوعہ قادیان 2006ء)
اللہ تعالیٰ نے ’’داغ ہجرت ‘‘ کا الہام حضرت مصلح موعودؓ کی بابرکت قیادت میں پورا کیا اور جماعت کو ایک نیا مرکز ربوہ عطا کیا اور یہ دھکا جو ہجرت کا دھکا تھا، سب نے یہی محسوس کیا تھا کہ جماعت کی جڑ یں ہل گئی ہیں لیکن آج دنیا نے دیکھ لیا کہ جماعت احمدیہ 213 ممالک میں احمدیت کا پیغام پہنچا رہی ہے۔
1921ء میں حنفی اور اہل حدیث علماء کا فتنہ:
حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں :
’’1921ء میں حنفی اور اہل حدیث مسلک کے علماء نے مشترکہ اعلان کیا کہ وہ قادیان کو فتح کرنے کیلئے وہاں ایک مشترکہ جلسہ کریں گے۔ دیگر اعلانات کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ہم مرزا صاحب کی قبر کھود کر دیکھیں گے اور اگر ان کے جسم کو قبرمیں کوئی گزند نہ پہنچا ہو تو ہم ان کے دعوی کی صداقت کو تسلیم کر لیں گے۔ ایسے اعلانات کی وجہ سے حفظ امن اور شعائر اللہ کی حفاظت کے متعلق جماعت پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی…مخالفین کا جلسہ صبح سے رات گئے تک جاری رہتا…اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ ان تین دنوں میں حضور ؓ کو نیند کیلئے کوئی وقت میسر آیا کہ نہیں ۔‘‘
حضرت مصلح موعود ؓ پر قاتلانہ حملہ
مخالفین نے جماعت کے سپہ سالار کو ختم کرنے کیلئے ایک شخص کو بھجوایا اور 10 مارچ 1954ء کو اس بدبخت نے آپ پر چاقو سے حملہ کرکے آپ کی گردن پر بہت گہرا زخم لگایا۔ پیشگوئی مصلح موعود میں حضور رضی اللہ عنہ کو ’’فضل عمر ‘‘ بھی کہا گیا تھا ۔حضرت عمرؓپر بھی حملہ ہوا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے مشابہت بھی پوری کر دی ۔
معزز قارئین! یہ تھےحضرت مصلح موعود ؓ کے عظیم الشان کارناموں میں سے چند ایک واقعات۔ آپ نے خدائی تائید و نصرت سے شدید مخالفت اور خطرات کے طوفانوں میں کمال فراست، نہایت ضبط اور اعلیٰ انتظام کے تحت مخالفین کی ہر ناپاک کوشش کو ناکام بنا دیا۔ اپنوں اور غیروں نے اس کا مشاہدہ بھی کیا کہ:’’وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا‘‘۔’’خدا کا سایہ اس کے سرپر ہوگا‘‘اور اولوالعزمی کے اس پیکر کو غیروں نے بھی خراج تحسین پیش کیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اولوالعزمی کے اس پیکر کو وہ مشاہیر بھی خراج تحسین پیش کئے بغیر نہ رہ سکے جو دوستوں کے زمرہ میں شامل نہ تھے۔ چنانچہ خواجہ حسن نظامی شدید مخالفانہ حالات میں آپ کے ثبات قدم سے متاثر ہوکر لکھتے ہیں :
’’مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان سے کام کر کے اپنی مغلئی جوانمردی کو ثابت کر دیا ہے۔‘‘
(ماخوذ از ہفت روزہ بدر قادیان، 9 ؍ فروری 2012ء ، صفحہ 15 کالم 1تا 2)
معزز قارئین ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور پیشگوئی مصلح موعود کے پورے ہونے کی روشن دلیل کیلئے تو آنکھیں کھول کر دیکھنا ہوگا ۔ جیسے جب آفتاب چمک رہا ہو تو کوئی آنکھیں بند کر لے تو ایسے انسان کا علاج کیا جائے ؟ذرا غور کریں ! کیسے کیسے حالات پیدا کئے گئے ۔ جماعت کے سپہ سالار خلیفہ وقت کو ختم کر کے ہمیشہ کیلئے جماعت احمدیہ کو مٹانے کا عزم لیکر نکلنے والے آج خود ہی مٹ گئے ۔ اور آئندہ بھی کوئی سربراہ حکومت جماعت احمدیہ مسلمہ کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا انجام بھی فرعون جیسا ہوگا ۔آج خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقیات کی منازل طے کر رہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی ۔(انشاءاللہ)
حضرت مصلح موعود ؓ کے بعد آنے والے خلفائے احمدیت کی مخالفت کرنے والوں کا انجام بھی دنیا کے سامنے ہے۔ محترم ثاقب زیروی صاحب نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے ایسے ستم برپا کرنے والوں کے انجام کا کہ:
پستے ہیں بالآخر وہ اک دن اپنے ہی ستم کی چکی میں
انجام یہی ہوتا آیا فرعونوں کا ہامانوں کا
سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ کی یادیں
حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ فرماتی ہیں :’’وہ پاک روح جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا تھا جس کا اس دنیا میں آنا ازل سے مقدر تھا…جس کی برکتوں سے قوموں نے زندگی پائی، وہ اس دنیا میں آیا ایک کمزور بچہ کی شکل میں جس کی صحت خاصی کمزور تھی ۔ آنکھیں دکھتی رہتی تھیں ۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی عارضہ لگا رہتا تھا ۔ پڑھائی کی طرف خاص توجہ نہ تھی ۔اسکولوں کے امتحان میں سے شاید کوئی بھی امتحان پاس نہ کر سکا ۔ دنیاوی نقطہ نگاہ سے کسی کو خیال بھی نہ آسکتا تھا کہ یہ بچہ کوئی بڑی ہستی بنے گا ۔ لیکن خدا کا وعدہ تھا وہ جلد جلد بڑھے گا ہم اپنی روح اس میںڈالیں گے ۔ خدا کے فضل کا سایہ اس کے سر پر ہوگا وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا۔ دنیا کی نظر میں یہ سب باتیں انہونی تھیں…وہ ناتواں بچہ جب اپنی جماعت کی پتوار ہاتھ میں سنبھالتا ہے تو ساری دنیا انگشت بدنداں رہ جاتی ہے۔ہم نے کیا سوچا تھا اور کیا ہوگیا ۔ قوموں کو للکارا ۔ دشمنوں کو شکست دی ہر مشکل پر فتح پائی ۔ہر روک دور ہوئی۔ منجدھار میں سے اپنی کشتی کو نکالتا ہوا ساحل تک لے آیا ۔ خدا کی بات پوری ہوئی ۔ دنیا کے کونے کونے تک (دین حق) کا پیغام پہنچایا۔ ملک ملک میں جماعتیں قائم ہوئیں ۔ بھٹکی ہوئی روحوں نے اسکے ذریعہ اپنے ربّ سے تعلق قائم کیا ۔دنیا کے ہر کونہ سے اس کیلئے سلامتی کی دعائیں بلند ہوئیں …آپ کی ساری زندگی ایک عظیم الشان جدوجہد کی زندگی تھی…آپکا عظیم الشان کارنامہ استحکام خلافت ہے۔ جماعت کے ہر فرد مرد عورت اور بچہ کے دل میں یہ ایمان پیدا کر دیا کہ… ترقی، وحدت ِقومی کے ساتھ وابستہ ہے اور وحدت قومی کی جان خلافت ہے …
حضرت سیدہ موصوفہ اس مبارک وجود کی مدحت شان میں فرماتی ہیں :’’اَے جانے والے تیرا نام ہی محمود نہ تھا تیرا کام بھی محمود تھا ۔‘‘
(ماہنامہ انصار اللہ فروری 2001ء صفحہ 10،11)
اے فضل عمر تجھ کو جہاں یاد کرے گا
’’اللہ تعالیٰ نے ہی آپؓکو مصلح موعود کے مقام پر فائز فرمایا تھا جو باون عظیم الشان پیشگوئیوں کا مظہر تھا جو باون سال تک اپنی جلالی اور جمالی شان کے ساتھ مسند خلافت پر جلوہ افروز رہا۔ جس کے بارہ میں ایک پیشگوئی یہ بھی تھی کہ ’’نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔‘‘ اور یہ پیشگوئی اپنی پوری شان و شوکت سے پوری ہوئی…‘‘
( ماخوذ از احمدیہ ماہنامہ گزٹ کینیڈا فروری 2012ء صفحہ 21 کالم 1،2)
اچھل کود میں اپنی ذمہ داریوں کو فراموش مت کرو
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جماعت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
’’بے شک آپ لوگ خوش ہو سکتے ہیں کہ خدا نے اس پیشگوئی کو پورا کیا بلکہ میں کہتا ہوں آپ کو یقیناً خوش ہونا چاہئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود لکھا ہے کہ تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی ۔ پس میں تمہیں خوش ہونے سے نہیں روکتا بے شک تم خوشیاں مناؤ اور خوشی سے اچھلو اور کودو ۔ لیکن میں کہتا ہوں اس خوشی اوراچھل کود میں تم اپنی ذمہ داریوں کو فراموش مت کرو۔‘‘ (الموعود، انوار العلوم، جلد 17، صفحہ 648)
وہ ذمہ داریاں کیا ہیں ؟
آپؓفرماتے ہیں :
شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں سے
حاکم تمام دنیا پہ میرا مصطفےٰ ہو
اللہ تعالیٰ ہم سب کواس اہم ذمہ داری کو نبھانے کی توفیق دے۔آمین!
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 28 دسمبر 1961ء کو جلسہ سالانہ ربوہ کے موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’میرا نام ہمیشہ دنیا میں قائم رہے گا!‘‘
’’میں خدا کے فضلوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرا نام ہمیشہ دنیا میں قائم رہے گا اور گو میں مر جائوں گا،مگر میرا نام کبھی نہیں مٹے گا ۔ یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہوچکا ۔ وہ میرے نام اور میرے کام کو دنیا میں قائم رکھے گا۔‘‘
(روح پرور خطاب صفحہ 15، ہفت روزہ بدر قادیان 16 ؍فروری 1984ء ،مصلح موعود نمبر صفحہ 2)
جلسہ یوم مصلح موعود ؓ
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی جدائی کا عرصہ نصف صدی سے زائد کا ہے ۔ دنیا میں بسنے والی ہر ملک اور ہر خطہ کی احمدی مسلم جماعتیں ہر سال پر خلوص جذبہ اخلاص و وفا کے ساتھ موعود خلیفہ کی یاد میں جلسہ یوم مصلح موعود منعقد کرتی ہیں۔اس طرح آپ کی یاد تازہ ہوتی رہتی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا خوب فرمایا کہ یہ ’’پر شوکت پیشگوئی تھی۔‘‘
آپ فرماتے ہیں : ’’بہر حال یہ پرشوکت پیشگوئی تھی جس نے حضرت مصلح موعود کی خلافت کے باون سالہ دور میں ثابت کر دیا کہ کس طرح وہ شخص جلد جلد بڑھا ؟ کس طرح اس نے دنیا میں اسلام کے کام کو تیزی سے پھیلایا؟ مشن قائم کئے،مساجد بنائیں۔ آپ کے وقت میں باوجود اسکے کہ وسائل بہت کم تھے، مالی کشائش جماعت کو نہیں تھی دنیا کے چونتیس پینتیس ممالک میں جماعت کا قیام ہو چکا تھا۔ کئی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوچکا تھا ، مشن کھولے جا چکے تھے ۔ اسی طرح جماعتی نظام کا یہ ڈھانچہ حضرت مصلح موعود ؓنے ہی بنایا تھا جو آج تک چل رہا ہے اور اس سے بہتر کوئی ڈھانچہ بن ہی نہیں سکتا تھا۔ اسی طرح ذیلی تنظیمیں ہیں اس وقت کی بنائی ہوئی ہیں وہ بھی آج تک چل رہی ہیں ۔ ہر کام آپ کی ذہانت اور فہم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قرآن کریم کی تفسیر ہے اور دوسرے علمی کارنامے ہیں جو آپ کے علوم ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کا ثبوت ہیں۔‘‘
( خطبہ جمعہ 18؍ فروری 2011ء )
اللہ تعالیٰ آپ کی روح پر ہمیشہ ہمیش رحمتیں نازل کرتا چلا جائے اور ہم سب فرزندان احمدیت کو آپؓکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دیتا چلا جائے تا اللہ تعالیٰ کی پیار کی نظر ہم سب پر ہو۔ آمین
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے