اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-09

احمدی مبلغین کی روانگی کا ایمان پرور نظارہ اور بائیس احمدی مبلغین کی روانگی

(ماخوذ از الفضل قادیان)

24؍مارچ دن کے دس بجے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو امیر وفد احمدیہ دعوت وتبلیغ قادیان متعینہ آگرہ کا تار موصول ہوا کہ ہمیں فوری مزید بیس مبلغین کی ضرورت ہے۔ حضور نے اسی وقت قادیان کے تمام احمدی آبادی میں اطلاعیں بھجوادیں کہ احمدی احباب مسجد مبارک میں فوری جمع ہو جائیں ، یہ خبر ایک بجلی کی لہر تھی جو قادیان کے طول وعرض میں پھیل گئی او ر دم کے دم میں مسجد مبارک احمدی احباب سے پُر تھی۔حضور کو اطلاع ہوئی کہ خدام حاضر ہیں۔
مجلس مشاروت سے اُٹھ کر مسجد مبارک میں تشریف لائے اور تمام ارکان مجلس ہمراہ تھے ۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کے ہاتھ میں ضروری کاغذات کا پولندہ تھا۔ سالار اسلام آیا ۔تمام مسجد ایسی ہو گئی گویا کہ خالی ہے اور بیٹھنے والے آدمی نہیں بت ہیں ۔
حضور نے محراب مسجد میں قیام فرمایا ۔ شہادت توحید اوراظہار رسالت ختمیت مآب کے بعدسورۃ فاتحہ کی تلاوت کی اور دین کیلئے مال واوقات کی قربانی کا وعظ فرمایا ۔جو فرض اور فرض کفایہ اور نوافل کے متعلق اظہار حقائق تھا ۔ بتایا کہ عمارت ایمانی کی تکمیل کیلئے نوافل جو انسان کی مرضی پر رکھے گئے ہیں ادا کرنا ضروری ہیں ۔یہ تقریر پوری چھپ چکی ہے اور احباب نے اس کو ملاحظہ کرلیا ہےآخر میں حضور نے مطالبہ کیا کہ بیس خدامِ اسلام کی ضرورت ہے ۔جن پر سورج قادیان سے باہر غروب ہو ۔
حضور کی زبان سے اس مفہوم کے الفاظ کا نکلنا تھا کہ تمام حاضرین پر ایک حالت وجد طاری ہو گئی۔ اور جوش خدمت دین سے چہرے چمک اٹھے اور ہر چھوٹا اور بڑا چاہتا تھا کہ مَیں ہی سب سے پہلے اس خدمت کیلئے آگے بڑھوں اور ان جانے والے سرفروشوں میں میرا ہی نام قبول کیا جائے ۔ ہر طرف سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ ’’حضور مَیں حاضرہوں‘‘’’مجھے بھیج دیجئے ‘‘یا ’’حضرت مجھے حکم دیجئے‘‘’’حضرت میری درخواست قبول ہو ۔‘‘’’آپ کا غلام حاضر ہے۔‘‘حضور نے فرمایا کہ جو احباب درخواست کرتے ہیں وہ اپنا نام لکھ کر دیں۔ اس پر کاغذوں اور پنسلوں کی تلاش ہوئی۔ کوئی کاپی پھاڑتا ہے۔ کوئی کتاب کا گوشہ ۔کوئی لفافہ کی ایک کتر لے کر اسی پر نام لکھ رہاہے۔ کاغذ کافی نہیں تو ایک ایک پرزہ پر دودو نام لکھے جا رہے ہیں ۔ جب اس طرح بھی جوش نہیں تھمتااور کاغذ اور قلمیں ختم ہو جاتی ہیں تو اخبارات کے حاشیوں پر فہرستیں مرتب ہو جاتی ہیں۔ باپ کہتا ہے میرا بیٹا حاضر ہے۔ بڑا بھائی اپنے آپ کو پیش کرتا ہے اور ساتھ ہی عرض کرتا ہے حضور میرے بھائی کو بھی بھیج دیجئے۔ ارشاد ہوتا ہے خود پیش کرے ۔ عرض کی جاتی ہے کہ مَیں یہاں آنے لگا تھا تواس کو فلاں کام پر لگا آیا تھا ۔ مجھے معلوم ہے کہ و ہ جانے کیلئے تیار ہے۔ جواب صاف ہے کہ ہر ایک اپنے آپ کو خود ہی پیش کرے ۔ نام لکھے جا چکے ہیں۔ رقعے حضرت امام کے ہاتھ میں پہنچ جاتے ہیں ۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو حکم ہوتاہے کہ جن کے نام بولتا ہوں لکھتے جایئے۔ حضور نام بولتے ہیں اور حضرت صاحبزادہ صاحب نام لکھتے ہیں ۔
ہم 25؍مارچ کے الفضل کے مدینۃ المسیح میں  لکھ چکے ہیں کہ ساٹھ ستر درخواستیں تھیں مگر اب شمار کرنے پر معلوم ہواہے کہ ایک سو انیس (119) احباب نے اسی دن عصر سے پہلے جانے کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔منتخبہ احباب کی فہرست مرتب ہو گئی۔ حضورنے فرمایا کہ اب میں پہلے ان احباب کے نام سناتا ہوں جن کے رقعے مجھے پہنچ چکے ہیں۔ چنانچہ پہلے سب پیش ہونے والوں کے نام سنائے گئے اور پھر ان کے جن کو منتخب کیا گیا تھا یہ بیس احباب الگ تھے اور اس تار کے آنے سے پہلے ہی دو احباب کے بھیجے جانے کی تجویز منظور ہو چکی تھی ۔ یعنی ایک جناب مولوی چوہدری محمد عبد السلام خان صاحب کاٹھ گڑھی فاضل ہندو لٹریچر اور دوسرے صاحب مولوی عبد الصمد صاحب پٹیالوی مصنف ’’نہہ کلنک اوتار ‘‘ انہوںنے اس وقت بھی نام پیش کئے اور وفد کے ساتھ ان کو بھی تیاری کا حکم دیا گیا۔
اسکے بعد حضور نے دعا فرمائی جانے والوں کیلئے ۔عازموں کیلئے اور جو وہاں ہیں ان کیلئے ۔ان کیلئے بھی جنہوںنے کسی نہ کسی وجہ سے اپنے نام نہیں پیش کئے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی خدمت دین کی توفیق دے ۔ ان کے راستہ سے روکیں جس قسم کی بھی ہوں دور کر دے ۔دعا دیر تک ہوتی رہی ۔ مجلس برخاست ہو گئی ۔ جانے والے خوش تھے کہ خدمت دین کیلئے جا رہے ہیں۔ اور وہ جنہوںنے نام تو پیش کئے تھے مگر ضرورت پوری ہونے یا کسی اور وجہ سے ان کو اس دفعہ انتخاب نہیں کیا گیا اُداس تھے ۔چنانچہ ایک کی زبان سے یہ شعر نکلا؎
یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محو نالہ جرس کارواں رہے
گو اپنی قسمت کا فیصلہ سن کر اداس تھے کہ ان کو سبقت کا موقع نہ ملا لیکن اُن بھائیوں کی خوش قسمتی پر خوش تھے کہ یہ جانے والے ہمارے ہی بھائی ہیں جو مقابلہ کی پہلی صف میں کام کریں گے۔ چنانچہ ہر طرف سے جانے والوں کو مبارکبادمبارکبادکہا جاتا تھا۔ گلے لگائے جاتے تھے ۔ دعاؤں کی درخواست کی جاتی تھی کہ جانے والوں کیلئے دعائیں کرو۔ جو ابھی نہیں جا سکےیہ بھی جلد آگے خدمت کیلئے بھیجے جائیں ۔ جانے والے نشہ خدمت اسلام میں مست تھے ۔ احباب سے ملتے تھے اور خوش ہوتے تھے ۔ اپنی فرخندہ فال پر پھولے نہیں سماتے تھے ۔ غرض ایک کیفیت تھی جس کے الفاظ متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔ ہاں آنکھوں نے اس نظارے کو دیکھا اور دل پر تصویر کھینچ دی۔
مبارک سلامت کا شور ختم ہوا ۔جانے والے تیاری کرنے کیلئے گھروں کو چلے گئے اور 2بجنے سے پہلے مسجد مبارک کے نیچے جمع ہونا شروع ہو گئے ۔ان لوگوں میں ایسے بھی ہیں جن کا سفر قلیوں کے سہارے ختم ہواکرتا ہے۔ مگر ان کے سامان کے مختصر ہونے کی یہ حد تھی کہ ایک نیچے بچھانے کا کپڑا اور چند پہننے کے کپڑے جو وہ بھی عموماً بستر ہی میں بندھے ہوئے تھے یا چند ضروری کتابیں تھیں۔ ہاں اکثر نے قرآن کریم گلے میں حمائل کئے ہوئے تھے ۔ اتنے میں عصر کا وقت آگیا۔ مسجد مبارک نمازیوں سے پُر ہو گئی۔ اور اوپر چھت پر بھی صفیں بن گئیں ۔ نماز حضرت خلیفۃ المسیح  ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پڑھائی اور مسجد کے نیچے کا چوک احباب قادیان سے معمور تھا۔ اس لئے کے جانے والے قافلہ کی مشایعت کریںچنانچہ سالار اسلام اپنے عزیز خدام کو رخصت کرنے کیلئے مکان سے نکلا۔اور آدمیوں کے دریا میں لہریں پیدا ہوگئیں اور وہ سب سے آگے تھا۔ اب جوش وعقیدت محبت و اخلاص کا یہ عالم تھا کہ آدمی پر آدمی گرا پڑتا تھا۔سب کی کوشش یہی تھی کہ مَیں ہی اپنے مطاع وامام کے پاس رہوں۔ چونکہ حضور تیز قدم سے چلتے تھے اس لئے احباب کو بھی تیز قدم ہی چلنا پڑتا تھااور ساتھ ہی یہ کوشش بھی پیہم جاری تھی کہ ہر ایک آگے بڑھے اور حضور کی باتیں سنیں ۔ اس لئے گرد اٹھتی تھی اور آسمان پر گرد سے ایک بادل سا بن گیاتھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس سے حضور کو تکلیف تو ہوتی تھی مگر اخلاق کی عظمت دیکھئے کہ ان محبت کے پروانوں کی طرف اس نظر سے دیکھا بھی نہیں کہ ان کے دل چھوٹے نہ ہو جائیں۔
ڈیڑھ پونے دو میل کا راستہ اسی طرح ختم ہوا ۔ اثناء راہ میں حضور نے بعض نصائح ارشاد فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
موڑ کے کنوئیں پر پہنچ گئے ۔حلقہ بن گیا ۔ سالار اسلام حلقہ کے اندر کھڑا ہو گیا۔ احباب کو بٹھلادیا گیا جانےو الے حلقہ کے اندر بلا کر بٹھلا دیئے گئے۔ قادیان کی طرف منہ کر کے جو دیکھا تو دور تک سفید پگڑیاں ہی پگڑیاں حرکت کرتی نظر آتی تھیںانتظار کیا گیاکہ سب احباب جمع ہو جائیں ۔ جانے والوں کے امیر وفد نے حاضری لی تو معلوم ہوا کہ دو تین ابھی پیچھے چلے آرہے ہیں۔ان کو بآواز بلند پکارا گیاوہ بھی آئے اور حلقہ میں بیٹھ گئے ۔ وقت تنگ ہو رہاتھا۔ الوداع کہنے کیلئے موڑ پر آنے والوں کا سلسلہ ابھی جاری تھا اس لئے حضور نے اللہ کی حمد کے ساتھ وعظ شروع فرمایا جس میں خدا تعالیٰ کا شکر کرنے کی تلقین کی اور بتایا کہ الحمد للہ کہنے کے ہم ہی مستحق ہیں کہ ہمیں اسکے دین کی خدمت کا موقع ملتا ہے۔ پھر دعائیں بکثرت کرنے پر زور دیا کہ بغیر خدا کے استعانت کے کوئی کام نہ بابرکت ہوتا ہے نہ مفید نہ اس میں کامیابی یقینی ہے ۔بتایا کہ تم کمزور ہو مگراس زور آور سے پیوند کرو کہ آسمان سے قوت پاؤکیونکہ آریہ اخبارات نے اب بطور پیش بندی ایک نئی شرارت شروع کی ہے یعنی لکھتے ہیں کہ احمدی ہر جگہ فساد پر آمادہ ہیں ۔حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ کوئی بھی شہر نہیں جس میں احمدیوں کی تعداد نہایت ہی اقل قلیل نہیں ہے ۔ حتیٰ کے سیکڑوں سے زیادہ کسی بھی شہر میں نہیں اور یہ بھی دو تین شہر ہیں ۔ ورنہ پنجاب جو احمدیوں کا مرکز ہے اس میں بھی اکثر شہروں میں تھوڑی تعداد میں احمدی آباد ہیں ۔رہے دیہات ان کی بھی یہی حالت ہے۔ اگر شمار کیا جائے تو بمشکل ایک دہاکہ ایسے دیہات ہوں گےجن کے رہنے والے سارے کے سارے احمدی ہوںاور بیس تیس ایسے گاؤں ہوں گے جن میں نصف یا نصف سے زیادہ احمدی ہوں گے ورنہ دیہات میں بھی احمدیوں کی تعداد دیگر اقوام کی نسبت کم ہے۔بر خلاف اسکےہندوؤں کی ہر جگہ کثرت ہےاور مال ودولت کے لحاظ سے احمدی تو کیا دیگر مسلمانوں پر بھی ان کو تفوق حاصل ہے۔
دوسرے احمدی جماعت اپنے کیرکٹرکے لحاظ سے کس قسم کی ہے اس کو دوست ودشمن سب جانتے ہیں۔ ان کو فساد سے بچنے اور شرارت کے مقابلہ میں شرارت نہ کرنے کی تعلیم زور سے دی گئی ہےاور خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت احمدیہ کا اس پر عمل ہے ۔ مخالفین کی سختیوں کا مقابلہ نرمی سے کرتے ہیں۔ ان کے پتھروں کا جواب ہنس کر اور نرم باتوں سے دیتے ہیں ۔ ان کی گالیوں کے جواب میں دعائیں دیتے ہیں۔ یہی ایک رمز ہےجس کی وجہ سے احمدی جماعت دن دونی رات چوگنی ترقی کررہی ہے اور انشاء اللہ کریگی۔ اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مشہور مصرعہ کے مطابق ۔ع
پیاروآموختہ درس وفاخام نہ ہو
جانے والوں کو سختیوں پر صبر کرنے ، ظالمانہ دست درازیوں کا مقابلہ نہ کرنے کا وعظ کیااور کہا کہ ماریں کھانا مگر ہاتھ نہ اٹھانا۔ گالیاں سننا اور دعا ئیں دینا کہ اسی میں تمہاری کامیابی ہے۔ تقریر کا یہ حصہ بڑا ہی پُرزور اور رقت انگیز تھااور آخر میں فرمایاکہ قاعدہ ہے کہ رخصت ہونے والے عزیزوں کو تحفہ دیا جاتا ہے۔ مَیںنے چاہاکہ مَیں بھی تحفہ دوں اس لئے ہمارے گھر والوں (جس میں حضرت ام المومنین اور حضرت اقدس مسیح موعود کی ہر دو صاحبزادیاں اور حضرت امام کے اہل بیت وغیرہ سب شامل ہیں)نے دیئے ہیں ۔جو ان عزیزوں کے صدقہ کے طور پر بھائی عبد الرحیم صاحب کے سپرد کرتا ہوں کہ آپ راستہ میں خیرات کریں اور وہاں کی بعض خیراتی ضروریات میں بھی سرف کریں ۔ اس پر تمام احباب نے کچھ نہ کچھ اس صدقہ میں حصہ لیا۔ ہر ایک شخص ماحضراپنے امام کے ہاتھ میں دیتا تھااور حضور جزاکم اللہ کہہ کر قبول فرماتےاور اپنے ہاتھ سے امیر وفد کے دامن میں  ڈالتے جاتے تھے ۔کسی نے نقد دیا ،کسی نے رومال ، کسی نے بٹوا، کسی نے چاکو، بعض نے خرما پیش کئے، ایک احمدی بزرگ نےمبلغین کیلئے تین چار سیر وزن کی مٹھائی بطور ناشتہ پیش کی۔یہ رقم جو بطور صدقہ جمع ہوئی مبلغ دو صد روپیہ کے قریب تھی ۔اسکے بعد حضور نے دیر تک قافلہ کیلئے دعا فرمائی،آنکھیں پُر نم تھیں، قلوب سینوں میں عرش الٰہی کے سامنے سجدہ ریز تھے ۔ بعض احباب جو کسی وجہ سے نہ جا سکے تھے آہیں بھرتے اور روتے تھے۔ دعا کے بعد سب کو سکینت ہوئی ۔ امام محترم نے ارکان وفد سے مصافحہ کیا اور ان کو رخصت کرنے کیلئے سڑک پر آگئے ۔ احباب سڑک پر دُور دُور کھڑے ہو گئے ۔ قافلہ والے احباب کی صفوں سے پرے مگر اپنے امام کی نگاہوں کے آگے کھڑے ہو گئے ۔حکم ہوا کہ قافلہ چل پڑے ۔ سب بآواز بلند السلام علیکم کہہ کر سفر پر روانہ ہو گئے ۔ قائد حزب اللہ اپنے فرزندوں کو ٹکٹکی لگائے دیکھتا اور دعائیں کرتا رہا جب تک کہ قافلہ نظر سے اوجھل نہ ہوگیا۔ واپسی اسی طریق پر عمل میں آئی جیسا کہ پہلے قافلہ کے وقت تھی یعنی چار چار کی لائنیں بنادی گئی اور قصبہ میں داخل ہوتے ہوئے دودوکی۔ فالحمد للہ ۔
یہ ہے جماعت جس کو دنیا کافر کہتی اور نعوذ باللہ دجال کی جماعت کہتی ہے ۔ کیا اس کی نظیرہے کہ کوئی جماعت خدمت دین کیلئے اس جوش سے آگے بڑھتی اور ان کا امام اس والہیت کے ساتھ ان کو خدمت کیلئے آگے بڑھاتا ہواگر ہے تو پیش کی جائے۔ پیسہ لے کر کام کرنے والے تو مل سکتے ہیں مگر ایسے لوگ کہاں سے ملیں گے جن میں سے ہر ایک اس شرط کے ماتحت جاتا ہے کہ نہ خود ایک پیسہ لیگا ،نہ اپنے بچوں کیلئے لیگا، بلکہ اپنی ضروریات بھی خود مہیا کریگااور اپنے گھر والوں کی بھی اور پھر کام اس طرح کریگا جس طرح زرخرید غلام بھی نہیں کرتا ۔کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ یہ جماعت ایک صادق کی جماعت ہے۔ صلی اللہ علیہ وعلی مطاعہ علیہ السلام ۔ (اخبار الفضل قادیان دارالامان ، مورخہ 2؍اپریل1923ءصفحہ3)
…٭…٭…٭…