اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-09

تحریک شدھی اور اس کاپیشگوئی مصلح موعود کے ساتھ ایک خاص تعلق 

(حضرت مرزا طاہر احمدخلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ)
(ماخوذ از سوانح فضل عمر ،جلد دوم)

بیسویں صدی کے اوائل میں بعض مخلص مسلمان رہنماؤں کو یہ روح فرسا خبر ملی کہ ندوۃ العلماء اور علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹی کے ارد گر دبسنے والے بعض ملکانہ راجپوتوں کو ہندو پنڈت ’’شدھ‘‘ کر کے اسلام سے منحرف کر رہے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کو اس خبر سے ایسا شدید دھچکا لگا کہ ان کا غم و غصہ بے ساختہ ان لفظوں میں ڈھل گیا :
’’جس وقت مَیں یہاں سے چلا ہوں میری جو حالت تھی، یہ طلبہ ندوہ کے جو یہاں بیٹھے ہیں وہ اس کے شاہد ہوں گے کہ مَیں نے اس وقت کوئی گالی نہیں اُٹھا رکھی تھی، جو مَیں نے ان ندوہ والوں کو نہ سنائی ہوگی کہ اَے بے حیاؤ ! اور اَے کم بختو ! ڈوب مرو۔ یہ واقعات پیش آئے ہیں ۔ ندوہ کو آگ لگا دو اور علی گڑھ کو بھی پھونک دو۔یہی الفاظ مَیں نے اُس وقت بھی کہے تھے اور آج بھی کہتا ہوں۔‘‘
(حیات شبلی، صفحہ557،558)
اس صورتِ حال سے مؤثر طور پر نمٹنے کیلئے انہوں نے اپریل 1912ءمیں لکھنؤ کے مقام پر تمام ہندوستان کے مسلمان مشاہیر کی ایک کا نفرنس طلب فرمائی۔ علامہ شبلی کے سوانح نگار مولانا سید سلیمان ندوی اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ مولانا یہ چاہتے تھے کہ اشاعت کے کام تمام فرقے مل کر کریں۔ اسی لئے مرزا بشیر الدین محمود احمد (صاحب) جواب خلیفہ قادیان ہیں اور خواجہ کمال الدین صاحب تک کی شرکت سے انکار نہیں کیا گیا اس پر اسی جلسہ کے دوران میں مولانا پر یہ الزام رکھا گیا کہ انہوں نے قادیانیوں کو جلسہ میں کیوں شریک کیا ؟ اور ان کو تقریر کی اجازت کیوں دی؟‘‘
(حیات شبلی، صفحہ569)
اس کا اثر مولانا شبلی پر یہ ہوا کہ:
’’ مولانا بیمار اور پراگندہ خاطر ہو کر مولوی عبدالسلام صاحب اور سیرت کو لے کر بمبئی روانہ ہو گئے اور دو چار ماہ کے غور و فکر کےبعد جولائی 1913ء کو ندوہ سے مستعفی ہو کر سبکدوش ہو گئے اور کام کی ساری تجویزیں درہم برہم ہو کر رہ گئیں۔‘‘
(حیات شبلی ،صفحہ573)
اس واقعہ کے بعد ملکانہ کے ہندو پنڈت تو مسلسل مسلمانوں کو ’’شدھ ‘‘کرنے میں مشغول رہے لیکن مسلمان علماء اس عظیم فتح کی خوشی میں اطمینان سے اپنے گھروں میں جا سوئے کہ وہ ’’قادیانیوں‘‘ کو اسلامی جہاد میں شرکت سے باز رکھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ مارچ 1923ء کی ایک نامسعود صبح مسلمانان ہند پر اس حال میں طلوع ہوئی کہ آریہ سماجی رہنما اپنی فتح کے شادیانے بجا رہے تھے اور اسلام کا شدید معاندشردھانند بڑے فخر سے یہ اعلان کر رہا تھا کہ :
’’نواح آگرہ میں راجپوتوں کو تیز رفتاری سے شدھ کیا جا رہا ہے اور اب تک چالیس ہزار تین سو راجپوت ملکانے ، گوجر اور جاٹ ہندو ہو چکے ہیں … ایسے لوگ ہندوستان کے ہر حصے میں ملتے ہیں ۔ یہ پچاس ساٹھ لاکھ سے کم نہیں اور اگر ہند و سماج ان کو اپنے اندر جذب کرنے کا کام جاری رکھے تو مجھے تعجب نہ ہوگا کہ ان کی تعداد ایک کروڑ تک ثابت ہو جائے ۔‘‘
(اخبار پرتاپ لاہور،16؍مارچ1923ءصفحہ4)
یہ اعلان کیا تھا ایک بم کا خوفناک دھما کہ تھا جس نے مسلمانان ہند کوشرق سے غرب تک ہلا کر رکھ دیا اور اس عجیب حال میں بیدار کیا کہ سینے چاک اور دل فگار تھے۔ ہندوؤں نے صرف اسی اعلان پر اکتفا نہ کی بلکہ شدھی کی تحریک کو سارے ہندوستان میں پھیلا دینے کیلئے ایک عام بگل بجا دیا ۔ جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں ہر طرف ایک شور آہ و بکا بپا ہو گیا اور مسلمان اخبارات بڑے مؤثر اور پُر دَرد انداز میں اپنے علماء اور دیگر راہ نماؤں سے اپیلیں کرنے لگے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو بھلا کر خدمت اسلام کیلئے آگے آئیں اور جس فرقے کو جس قدر توفیق ملے ملکانہ کے مسلمانوں کو مرتد ہونے سے بچانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ مختلف مسلمان فرقوں کی طرف سے متعدد مہمات کا آغاز کیا گیا اور لکھو کھا رو پیہ چندہ جمع کرنے کی اپیلیں جگہ جگہ شائع ہونے لگیں اسی طرح جانی قربانی کیلئے بھی مجاہدین کو بلایا گیا ۔ شیعوں نے ایک الگ مہم کا آغاز کیا کہ وہ اپنے طور پر ارتداد کی اس خوفناک رو کو پلٹ سکیں۔ اس وقت ایک مشہور اخبار کےمدیر نے نام لے کر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو بھی پکارا کہ اَےہمد ردیٔ اسلام کادعویٰ رکھنے والو! آج تم کہاں ہو۔ آج اسلام کیلئے قربانی کے میدان تمہیں اپنی طرف بلا رہے ہیں۔ آج وقت ہے کہ تم اور تمہاری جماعت اپنے دعووں کی صداقت کا ثبوت دو اگرچہ اس دعوت سے ایک روز قبل ہی یعنی 7؍مارچ 1923ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اسی موضوع پر جماعت کو مخاطب فرما چکے تھے اور یہ ہدایت دے چکے تھے کہ جماعت ہر قربانی کیلئے تیار ہو جائے اور ایک ایسی سکیم کا بھی تعارف کرواچکے تھے جو آپ نے پہلے سے ہی فتنہ ارتداد کے سدباب کیلئے تیار کرلی تھی لیکن وکیل امرتسر کی اس دعوت پر غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے فوری طور پر بذریعہ اشتہار 9؍مارچ کو اس کا جواب لکھا اور ان کوششوں سے مختصراً اہلِ اسلام کو آگاہ کیا جو پہلے ہی اس بارہ میں شروع کی جاچکی تھیں ۔نیز اس سلسلہ میں مسلمانان ہند کو20 لاکھ روپے چندہ اکٹھا کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا کہ سب فرقے اپنے اپنے حصے کی رقم خود ہی اکٹھی کریں اور خود ہی اپنے زیر انتظام خرچ کریں اسی طرح ہر فرقے کے زیر انتظام مجاہدین کے الگ الگ دستے اس مشترکہ ذمہ داری کو ادا کرنے کیلئے روانہ ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا اگرچہ تعداد کے اعتبار سے20 لاکھ میں سے باقی مسلمانوں کے مقابلہ میں جماعت احمدیہ کا حصہ 160 واں یعنی صرف تیرہ ہزار روپے بنتا ہے لیکن جب مندرجہ ذیل دو اُمور کو ملحوظ رکھا جائے تو اس قربانی میں جماعت کا حصہ اور بھی کم مقرر ہونا چاہئے ۔
اول : جماعت میں کروڑ پتی تو الگ رہے، لکھ پتی بھی کوئی نہیں جبکہ دوسرے تمام مسلمان فرقوں میں متعدد کروڑ پتی یا لکھ پتی موجود ہیں ۔
دوم: ماضی قریب میں جماعت احمدیہ کی خواتین خدمت اسلام کی ایک نہایت اہم ذمہ داری قبول کر چکی ہیں یعنی تعمیر مسجد برلن کے ضمن میں پچاس ہزار روپے پیش کرنے کا وعدہ کر چکی ہیں اور اس وقت وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں مصروف اور زیر بار ہیں۔
تا ہم کمی کے مندرجہ دونوں تقاضوں کے باوجود حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس عزم کا اظہار فرمایا کہ تیرہ ہزار روپے میں سے کچھ کم کرنے کی بجائے آپ اپنی جماعت کے خلوص اور قربانی کے معیار کے پیش نظر تحریک شدھی کے ضمن میں پچاس ہزار روپے جمع کرنے کا اعلان کرتے ہیں جو اسلام کے حق میں تحریک شدھی کا رُخ پلٹنے کیلئے خرچ کئے جائینگے۔
جس وقت حضرت خلیفۃ المسیح نے فتنہ ارتداد کے سدباب کیلئے جماعت احمدیہ کی طرف سے پچاس ہزار روپے کا وعدہ کیا ، مناسب ہوگا کہ جماعت کی اس وقت کی عمومی مالی حالت کا بھی کچھ جائزہ لے لیا جائے تاکہ کچھ اندازہ ہو سکے کہ اس وعدہ کی کیا حیثیت تھی۔ آج کے معیار سے دیکھا جائے تو پچاس ہزار روپے کی رقم ایک ایسی معمولی رقم ہے کہ جماعت احمدیہ میں متعدد ایسے افراد مل جائیں گے جو انفرادی طور پر ہی اس سے بہت زیادہ رقم خدمت دین کیلئے پیش کر سکتے ہیں اور کرتے رہے ہیں لیکن اس وقت کے حالات آج سے بالکل مختلف تھے ۔ اول تو اُس وقت اور آج کے روپے کی قیمت میں ہی زمین آسمان کا فرق ہے۔ دوسرے جماعت کی مالی حالت فی ذاتہ بھی بہت خراب تھی اور ذرائع آمد نہایت قلیل اور محدود تھے۔
تحریک شدھی سے صرف ایک سال قبل یعنی مارچ 1922ء کی مشاورت کی رپورٹ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ باقاعدہ ایجنڈے پر یہ مسئلہ برائے غور پیش تھا کہ جماعت احمدیہ جس شدید مالی بحران میں سے گزر رہی ہے اسکا سدباب کیسے کیا جائے ۔ انجمن کی غربت کا عالم یہ تھا کہ کارکنوں کو تنخواہیں دینے کیلئے بھی پیسے موجود نہیں تھے ،کارکنوں کی کئی کئی ماہ کی تنخواہوں کا قرض انجمن پر چڑھا ہوا تھا اور انجمن کا قرضہ کم ہونے کی بجائے روز بروز خطرناک رفتار کے ساتھ بڑھ رہا تھا۔ جماعت اپنی غربت اور بے سر و سامانی کے باوجود جس عالمگیر غلبہ اسلام کی جدوجہد میں مشغول تھی اسکے مالی تقاضے تمام ترپورے کرنے تو درکنار ادنی ضرورتیں پوری کرنے کی بھی جماعت میں طاقت نہ تھی اور احمدی مبلغین نہایت درد ناک حالات میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ ممالک بیرون میں مبلغ بیمار پڑے تو علاج کیلئے دوا تک کے پیسے نہ ہوتے تھے۔ اس مالی بحران کے دوران جماعت احمدیہ کا سالانہ بجٹ جس طرح بنایا گیا اور سخت تنگی سے بنائے ہوئے بجٹ کے باوجود جماعت کو جن شدید مشکلات سے گزرنا پڑ رہا تھا ان کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مجلس شوری کی تقریر میں ان الفاظ میں کیا :
’’ایک اور کمیٹی بٹھائی جس نے3-4 ہزار کی اور کمی کی پھربجٹ میرے پاس آیا ۔مَیں نے اس میں 30ہزار کی کمی کی مگر با وجود اس کے کہ اس قدر کمی کی اور لڑکوں کے وظائف میں اس قدر کمی کی کہ اس سے کم نہیں ہو سکتی تھی اور باوجود اسکے کہ پہلے ہی جو تنخواہ باہر ملتی ہے اس سے بہت کم کام کرنے والوں کو ملتی ہے۔ اب ان کی تنخواہ میں اور بھی کمی کر دی گئی ہے ۔ غرباء کو بچانے کیلئے جن غرباء کوقحط الاؤنس ملتا تھا وہ بند نہ کیا بلکہ جن کی تنخواہ 60 سے اُوپر تھی ان کو پندرہ فیصدی اور جن کی 100 سے اوپر تھی اُنکی بیس فیصدی کم کر دی گئی۔ میں نے کہا ان کو قربانی کرنی چاہئے اور سب نے خوشی سے منظور کر لیا اور باوجودیکہ یہاں کے لوگوں کو کم تنخواہیں ملتی ہیں اور گورنمنٹ نے دگنی تگنی کر دی ہیں مگر ہم نے اور کم کر دی ہیں ۔ مگر بجائے اس سے بوجھ کم ہو جانے کے ابھی تک کئی ماہ کی تنخواہیں نہیں دی گئیں ۔ پہلے تین ماہ کی تنخواہیں باقی تھیں اور اب پانچ پانچ ماہ کی ہیں اور اب حالت یہاںتک ہوگئی ہے کہ چونکہ انہوں نے قرض لے کر کھایا ہے اس لئے دکانوں کا دیوالہ نکل گیا۔ ادھر پانچ پانچ ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں ادھر دکانوں پر سرمایہ نہیں رہا…یہاں ایسا ہو رہا ہے کہ کئی لوگوں کو کئی کئی دن کا فاقہ ہوتا ہے۔ ابھی ایک شخص نے بتایا کہ میرے پاس سے ایک شخص گزر رہا تھا جو فاقہ سے تھا۔ میں نے اس کی شکل سے اسے پہچانا اور فی الواقعہ کئی دن کا اسے فاقہ تھا۔ اس نے کچھ دیا مگر آدھا ایک اور کو راستہ میں دے دیا ۔ اسی طرح ایک اور کے متعلق سنا کہ فاقہ سے بیہوش ہو گیا اور میں نے گھر کا کھانا اسے بھیجا اور آدمی کو کہا کہ کھلا کر آنا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ایسے مخلص ہیں کہ بھوک سے مرجائیں گے اور کام نہ چھوڑیں گے مگر کیا ہماری جماعت کیلئے یہ دھبہ نہ ہوگا کہ ایسے کا رکن بھوکے مرگئے ۔ تو مالی لحاظ سے نہایت نازک وقت آیا ہوا ہے ۔‘‘
(رپورٹ مجلس مشاورت1922ء صفحہ18،19)
یہ وہ حالات تھے جن میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جماعت احمدیہ کی خواتین کے سامنے تعمیر مسجد برلن کی سکیم پیش فرمائی ۔ آپ نے جماعت پر واضح کیا کہ ہم اپنی مالی مشکلات کو دینی ضروریات کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے۔ آپ نے انہیں بتایا کہ آج جرمنی میں خدمت اسلام کا ایک نیا اور وسیع میدان کھلا ہے جس کے تقاضوں کو کسی قیمت پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ عظیم کے بعد جرمن قوم میں نفسیاتی لحاظ سے ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ یورپ کے دیگر ممالک کی نسبت اس میں اسلام قبول کرنے کا امکان زیادہ روشن نظر آتا ہے۔ پس آپ نے اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ جماعت پہلے ہی شدید مالی مشکلات میں گرفتا ر ہے مسجد برلن کی تعمیر کیلئے چندہ کی تحریک فرمائی اور احمدی مستورات کو اس بات کا پابند کر دیا کہ وہ پچاس ہزار روپے کی خطیر رقم مسجد برلن کی تعمیر کیلئے خالصۃً اپنے ذرائع سے پیش کریں اور اپنے خاوندوں سے کوئی مطالبہ نہ کریں ۔ یہ پابندی اس لئے تھی کہ واقعۃً جماعت کے مردوں میں اس وقت مزید مالی بوجھ برداشت کرنے کی طاقت نظر نہ آتی تھی اور عورتوں سے یہ توقع تھی کہ وہ اپنے اندوختے اور زیورات فروخت کر کے اسلام کی اس اہم ضرورت کو پورا کر دیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا لیکن یہ ایک الگ داستان ہے جس کا کچھ ذکر اپنے محل پر کیا جائے گا۔ فی الوقت اس کا ذکر محض اس لئے کیا گیا ہے کہ آج شدھی کے حالات کا مطالعہ کرنے والا قاری یہ اندازہ کر سکے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ملکانہ کے جہاد کیلئے جس جماعت سے پچاس ہزار روپے کا مطالبہ کیا وہ کن حالات میں سے گزر رہی تھی اور یہ مطالبہ اپنی ذات میں کیا قیمت اور کیا مقام رکھتا تھا یہ دونوں مطالبات جہاں ایک طرف آپ کے صاحب عزم ہونے پر دلالت کرتے ہیں وہاں اس بات کی بھی شہادت دیتے ہیں کہ آپ کو اپنے ربّ کے فضلوں اور نصرت پر غیر معمولی ایمان اور توکل تھا اور یقین تھا کہ یہ خدا ہی کے کام ہیں اور وہی ان کے پورا کرنے کے سامان کرے گا۔ پس دنیا نے یہ عجیب معجزہ دیکھا کہ فاقہ کشوں کی اس جماعت نے اسلام کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دی اور قربانی کے ہر مطالبہ پر پہلے سے بڑھ کر جوش اور صدق دل کے ساتھ لبیک کہا۔ یقیناً یہ خدا ہی کا فضل تھا لیکن فضل محمود کے ذریعہ ظاہر ہوا تھا۔ جماعت کو خدا نے ایک ایسا عظیم رہنما عطا کیا تھا کہ جو خدمت اسلام کیلئے ان فدائیوں کے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر پیش کرنے کیلئے تیار تھا ۔وہ ایک ایسا ر ہنما تھا جو قربانی کے ہر میدان کی طرف پہلے خود قدم بڑھاتا اور پھر جماعت کو اپنے پیچھے قدم بڑھانے کی دعوت دیتا ۔ اسکے کردار میں ایک عجیب بلندی تھی۔ اس کی زبان میں ایک عجیب جادو تھا۔ جب وہ خدمت اسلام کیلئے قربان گاہوںکی طرف جماعت کو بلاتا تو دلوں کی عجیب کیفیت ہوجاتی ۔ جوشِ خدمت سے سینے پھٹنے لگتےاور دل اچھل اچھل کردین محمدؐپر نچھاور ہونے کیلئے ہنسلیوں سےسر ٹکرانے لگتے۔ جماعت والہانہ اسکے پیچھے دوڑ پڑتی اور ہراحمدی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا۔ جوکمزور تھے گرتے پڑتے گھسٹتے قربان گاہوں کی طرف روانہ ہوجاتےاور جو لا چار اور معذور تھے وہ زبان حال سےیہ دردناک گیت الا پا کرتے ۔
وہ خوش قسمت ہیںاُس مجلس میں جو گرپڑ کےجاپہنچے
کبھی پاؤں پہ سر رکھا کبھی دامن سے جا لپٹے
مرے ہمراز پر وہ پر شکستہ کیا کریں جن کے
ہوا میں اڑگئے نالے گئیں بیکار فریادیں
جس رنگ میں آپ نے اس تحریک کو جماعت احمدیہ میں چلایا اور آریہ سماج کے مقابلے میں مٹھی بھر فدائیوں کو ایک عجیب شان ایمانی کے ساتھ صف آرا کیا یہ سرگزشت تاریخ احمدیت میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔
سب سےپہلے تو آپ نے کام کا ایک باقاعدہ منصوبہ تیار کیا اور فوری طورپر حالات کا جائزہ لینے کیلئے بعض ذہین تعلیم یافتہ نوجوانوںکو ملکانہ کے علاقے میں روانہ کیا۔ اسکے بعد خطبات اور تقاریرکے ذریعہ جماعت کواس مسئلہ کی نوعیت سے پوری طرح آگاہ کیا۔ مشکلات سے خبردارکیا ۔ خوب اچھی طرح واضح کر دیا کہ ایک انتہائی طاقتور دشمن کا سامنا ہے جوکیا بلحاظ جمعیت اور کیا بلحاظ مال و دولت اتنابڑا ہے کہ دنیوی لحاظ سے جماعت احمدیہ کو اس سے کوئی نسبت نہیں۔ اسکے بعد اسلام کے دور اول کے مسلمان مجاہدین کی عظیم قربانیاں یاد دلاکر ان کے دلوںمیں ایک ایسی ہل چل مچادی کہ بڑے اور چھوٹے مرد اور عورتیں، جوان اور بچے سبھی اپناسب کچھ اسلام کیلئے قربان کرنے کو تیار ہو گئے لیکن آپ نے ان کے ان جذبات کو بےمحابا سڑکوں پربے لگام نہ ہونے دیا اور عوامی مظاہروں کی صورت میں ان کے ولولوں کوضائع ہونے کی اجازت نہ دی۔قادیان کی گلیوں میں پُرجوش نعروں کی کوئی آواز بلند نہ ہوئی اور آریہ سماج کےخلاف دشنام طرازی کی کوئی مہم نہ چلائی گئی۔ البتہ قوم عزم صمیم کا پیکر بنی ہوئی عملِ پیہم کیلئے تیار ہو گئی ۔ سب سے پہلے آپ نے جماعت کی توجہ کا رُخ دعا کی طرف پھیرا اور ان پر خوب واضح کر دیا کہ دُعا کے بغیرنتیجہ خیز عمل تو الگ رہا محض عمل کی توفیق بھی نہیں مل سکتی۔ اور ہر مرد اور ہر عورت بوڑھا اور بچہ اپنی اپنی استعداد کے مطابق دعاؤں میں مصروف ہو گیا۔ تمام احمدی آبادیاں شب زندہ دار ہوگئیں اور راتوں کو خدا کے حضور کی جانے والی گریہ وزاری کا شور گھر گھر سے بلند ہونے لگا۔ تہجدوں میں سربسجود ہو کر غلبہ اسلام کیلئے دعائیں کی جانے لگیں اور اللہ کے دین کی نصرت اور حمایت کیلئے آگے قدم بڑھانے والے اللہ ہی سے نصرت اورحمایت کی بھیک مانگنے لگے۔
دعا کی طرف توجہ دلانے کے بعد آپ نے جماعت کو مال اور جان کی قربانی کی طرف بلایا اور پیش آنے والی مشکلات سے بھی اچھی طرح آگاہ کر دیا۔ ہر قسم کے خطرات کی نشاندہی کی اور خوب کھول کر انہیں بتا دیا کہ اس راہ میں بہت سخت وقت آئیں گے، بعض اوقات کبھی بھو کے اور کبھی پیا سے، کبھی دھوپ میں اور کبھی سردی میں کبھی ننگے پاؤں اور کبھی پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ، کبھی اپنا سامان اٹھاتے ہوئے اور کبھی دوسروں کا بوجھے لئے ہوئے تمہیں دنوں، ہفتوں، مہینوں گزر اوقات کرنی پڑے گی ۔ فقیرانہ گاؤں گاؤں پھر کر اپنے غلطی خوردہ بھائیوں کو دوبارہ اسلام کی طرف بلانا ہوگا۔ گالیاں کھا کر صبر کرنا ہوگا، ماریں کھا کر دعا دینی ہوگی۔ دوا کے بغیر ہرقسم کی بیماریاں کاٹنی پڑیں گی۔ کمر توڑ مشقت کے کام کرنے ہوں گے ۔ بیوی بچوں اور گھروں کے آرام کا خیال تک دل سے نکال دنیا ہو گا ۔ یہ سب کچھ واضح کر دینے کے بعد آپ نے انہیں یقین دلایا کہ اگر تم خدمت اسلام کی ان قربانگاہوں کی طرف بڑھنے کی ہمت پاتے ہو تو میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہوگا اور دنیا کی کوئی طاقت اپنی ظاہری عظمت ، مال و دولت اور جمعیت کے باوجود تمہیں شکست نہیں دے گی۔ تم خدا کے پیارے ہو جاؤ گے اور دین و دنیا کی سعادتیںاور برکتیں تمہیں نصیب ہوں گیں ۔
آپ نے جماعت سے ایسے صاحب عزم و استقلال مجاہدین کا مطالبہ کیا جو مصائب ومشکلات کی اتھاہ گہرائیوں میں بے دھڑک کود پڑنے کیلئے تیار ہوں ۔ آپ نے پہلے ہی سے ان کو خبردار کر دیا کہ تمہارا مقابلہ صرف بیرونی دشمن ہی سے نہیں ہوگا خود تمہارے اپنے بھائیوں میں سے مسلمان کہلانے والے علماء تمہارے خلاف فتووں کی ایسی مہم چلائیں گے کہ تمہارے سامنے بھی ایک دشمن ہوگا اور پیچھے بھی ایک دشمن ہوگا اور ہر طرف سے تم پروار کئے جائیں گے۔ تمہیں کافر وملحدو دجال قراردیا جائے گا اور یہ کہا جائے گا کہ تمہاری تبلیغ سےمتاثر ہو کراسلام قبول کرنے سے بدرجہ بہتر ہے کہ مرتد ہونے والے ملکانے آریہ، برہمو سماج یاعیسائی ہوجائیں لیکن کسی احمدی کےذریعہ کلمہ توحید کا اقرارنہ کریں لیکن جہاں ایک طرف آپ دنیوی خطرات سے خوب متنبہ کرتے وہاں خدا کی عظمت اور جلال کانقشہ بھی اس انداز میں کھینچتے کے دل خشیت اللہ سے بھر جاتے اور دنیا کی زندگی اور دنیوی آرام و آسائش سے دل اچاٹ ہوجاتے اورآپ کے خطبات کوسننے والا ہر شخص اور آپ کےتحریکات کوپڑھنے والا ہرقاری برضا و رغبت والہانہ جذبۂ قربانی کے ساتھ اپنی زندگی اور تمام متاع زندگی اس خدمت کیلئے پیش کردیتا ۔
اس موقع پر آپ جماعت سے جس عظیم مالی قربانی کی توقع رکھتے تھے اورجس انتہائی اقدام کیلئے آپ تیار کھڑے تھے اس کا اندازہ حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر بی. اے.ایل .ایل.بی کی روایت سے ہوتا ہے جو ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ حضرت شیخ صاحب فرماتے ہیں :
’’ 1923ءکی مجلس مشاورت میں خاکسار موجود تھا۔ حضور نے شدھی کےمتعلق تقریر کی اورایک موقع پریہ بھی فرمایا کہ اگر آریہ قوم اپنے مال ودولت کے بل بوتے پرشدھی کو کامیاب کرناچاہتی ہے تومیرا اندازہ ہے کہ اس وقت میری جماعت کی کل جائیداد کی قیمت کا اندازہ دوکروڑ روپیہ کےقریب ہوگا۔ میری جماعت یہ سب املاک وجائیداد اس تحریک شدھی کے خلاف قربان کرنے سے دریغ نہ کرے گی۔ اس بات سےحضور کااولوالعزم ہونا اور جماعت کی ایسی تربیت کرنا اوریہ یقین کہ جماعت خوشی سے اپنا سب کچھ قربان کر دے گی ثابت ہے۔ چنانچہ بعد کےواقعات اسی اطاعت کو ثابت کرتے ہیں سَـمِعْـنَا وَاَطَعْنَا کے مطابق۔ مجھے نہیں معلوم کہ حضور کی تقریر کے یہ فقرات کہیں شائع یا درج ہوئے ہیں یانہیں لیکن مجھے یہ اچھی طرح یاد ہیں اورمَیں کئی موقعوں پر دوستوں اور دیگر اشخاص سے یہ ذکر کرتا رہا ہوں ۔1923ءکی مشاورت کے بعد خاکسار کوبھی شدھی کےعلاقے میں کام کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نےدی ۔‘‘
پس بہترین اور کامیاب رہنما وہی ہوا کرتا ہے جو عقل اور جذبات میں توازن قائم رکھے۔ آپ نے اس تمام عرصہ میں اس توازن کواس عمدگی کے ساتھ قائم رکھا کہ کا نظارہ کرنے والا بے اختیار ہو کر مرحبا، اللہ اکبرکا نعرہ بلندکرنے لگتا ہے۔ ایک طرف تو ایسا عمدہ اور معقول منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا جو باقاعدہ منظم صورت میںجماعت کیلئے ایک پروگرام پیش کرتاتھا اور جذباتی اور تخیلی اثرات سے پاک خالصۃً عقل اور تجربات کی دنیاسے تعلق رکھتا تھا۔ یہ ایک نہری نظام کے مشابہ تھا جسے بڑے فکر و تدبر سے،بڑی محنت اور جانکا ہی کے ساتھ اس طرح تیار کیاگیا کہ ہر طرف آبپاشی کا ایک جال بچھ جائے اور پانی کاایک ایک قطرہ فصلوں کی نشو نماکیلئے استعمال ہو۔ دوسری طرف آپ نے جذبات میںاپنی شعلہ نوائی سے ایک ایسا ہیجان پیدا کردیا کہ ہرسینے میںقربانی کے ولولے موجزن ہوگئے۔ پھر آپ نے ان کونظم و ضبط کاایک عظیم بند باندھ کر اس طرح محفوظ کرلیا کہ وہ سیلاب کی صورت میں غارت گری کرنے کی بجائے نظم وضبط کی نہروں میں بہتے ہوئے جن زمینوں کارخ کریں حیات آفرینی ہی کا موجب بنیں۔ اگر چہ وفور جذبات کا یہ عالم تھاکہ آپ چاہتے توہزار ہا مخلصین کارزار شدھی میںجھونک دیتے لیکن آپ جانتے تھے کہ اس طرح فائدہ کی بجائے نقصان کا احتمال زیادہ ہے اور تھوڑے عرصہ ہی میں قوم کی ساری طاقت استعمال ہو کر جوش ٹھنڈے پڑ جائیں گے چنانچہ آپ نے ابتدا میں صرف ڈیڑھ سو مجاہدین طلب کئے ۔اگرچہ تھوڑے ہی عرصہ میں ڈیڑھ ہزار کے قریب نوجوانوں اور بوڑھوں نےاپنے آپ کو پیش کر دیا لیکن آپ نے بڑےحزم واحتیاط کے ساتھ حالات کےتقاضوں کے مطابق انتخاب فرمایا اورا نہیں مختلف گروہوں میںتقسیم کر کے ہرگروہ کاایک امیر مقرر فرمایا کہ وہ اپنے علاقہ میں رہ کر مفوضہ فرائض انجام دے۔ ان سب پر مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا گیا۔جواصولی ہدایات دی گئیں ان کا خلاصہ یہ تھا کہ امیر کی اطاعت ہرحال میں فرض ہوگی ۔نفسانی جوشوں کو دبانا پڑیگااور شدید آزمائش کےباوجود فتنہ وفساد سے بچنا ہوگا ۔ماریں کھانے کے باوجود ہاتھ اُٹھانے کی اجازت نہ ہو گی۔ کم ازکم تین ماہ کیلئے وقف کرنا ہوگا اور اس عرصہ میں ہر قسم کے اخراجات خودبرداشت کرنے ہوں گے ۔علاقے کے باشندوں پرکسی قسم کا مالی یاذاتی بوجھ ڈالنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اگر کھانا میسر نہیںتو چنے چبا کر اور اگر چنے بھی میسر نہیں تو درختوں کے پتے کھا کر زندگی کا رشتہ قائم رکھنا پڑ ےگا۔ مقامی باشندوں سے مانگ کر کھانے کا خیال ہی دل میں نہیں آنا چاہئے ۔ صرف زبانی نصائح سے کام نہیں لینا بلکہ جہاں تک ممکن ہو علاقے کے مفلوک الحال اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنا اور ان کی مدد کرنی ہے۔ ان اصولی ہدایات کی مشعل لئے جتنے قافلے اس مہم پر روانہ ہوئے سبھی نے نظم وضبط کا حیرت انگیز مظاہرہ کیا اور قربانیوں کی ایسی شاندار مثالیں قائم کر دیں کے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ۔
اگر چہ مجاہدین نے سو فیصدی اپنا خرچ خود برداشت کیا لیکن ان اخراجات کے علاوہ بھی جو مجاہدین کو میدان عمل میں اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے کرنے پڑتے تھے مرکزی انتظامی ضروریات کیلئے لٹریچر کی اشاعت اور دنیا کو صورت حال سے باخبر رکھنے کیلئے اور پھر عند الضرورت مقدمات کی پیروی اور حکام وقت سے رابطہ قائم رکھنے کیلئے ایک خطیر رقم کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے جماعت میں پچاس ہزار روپے چندہ کی تحریک فرمائی اس تحریک پر بھی جماعت نے حیرت انگیز قربانی کا مظاہرہ کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس مطالبہ کو پورا کر کے ایک دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔ اس وقت یہ مالی تحریک اتنا بڑا مطالبہ سمجھا جاتا تھا کہ ہندوستان کے غیر احمدی اور غیر مسلم پریس نے بھی اس بات کا نوٹس لیا اور نظریں اس طرف لگ گئیں کہ آیا یہ چھوٹی سی جماعت اتنے بڑے مطالبہ کو پورا کر سکتی ہے یا نہیں ؟ بلاشبہ جماعت کی اس وقت کی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ بہت بڑا مطالبہ تھا۔ ایک معمولی عزم و ہمت کا انسان گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ قلیل اور غریب جماعت اتنی بڑی قربانی دے سکتی ہے لیکن دنیا نے بڑی حیرت سے دیکھا کہ جماعت نے ہر رنگ میں آپ سے تعاون کیا اور ہر آواز پر لبیک کہا۔ قربانیاں پیش ہی نہیں کیں بلکہ اس شان اور اخلاص اور جذبہ ایمان کے ساتھ پیش کیں کہ ان کے ذکر پر آج بھی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں اور دل کی گہرائیوں سے خود بخود ان مجاہدین کیلئے دعائیں نکلتی ہیں۔ الفضل 15 ؍مارچ1923ء میں ایک بوڑھے باپ کے جذبات کا ان الفاظ میں ذکر ہے :
’’10؍مارچ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ عصر کی نماز کے بعد مسجد میں رونق افروز ہوئے تو قاری نعیم الدین صاحب بنگالی نے جو ایک معمر اور سن رسیدہ بزرگ ہیں کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہی اور اجازت ملنے پر اپنی بنگالی اُردو میں ایک پُر جوش تقریر کی۔
قاری صاحب نے کہا… گو میرے بیٹے (مولوی) ظل الرحمن اور مطیع الرحمن (متعلم بی.اے.کلاس) نے مجھ سے کہا نہیں مگر مَیں نے اندازہ کیا ہے کہ حضور نے جو کل راجپو تانے میں جا کر تبلیغ کرنے کیلئے زندگی وقف کرنے کی تحریک کی ہے اور جن حالات میں وہاں رہنے کی شرائط پیش کی ہیں شاید ان کے دل میں ہو کہ اگر وہ حضور کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کریں گے تو مجھے جو اُن کا بوڑھا باپ ہوں تکلیف ہوگی لیکن مَیں حضور کے سامنے خدا تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ مجھے ان کے جانے اور تکالیف اٹھانے میں ذرا بھی غم یارنج نہیں ۔میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر یہ دونوں خدا کی راہ میں کام کرتے ہوئے مارے بھی جائیں تو اس پر ایک بھی آنسو نہیں گراؤں گا بلکہ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کروں گا۔ پھر یہی دونوں نہیں میرا تیسرا بیٹا محبوب الرحمن بھی اگر خدمت اسلام کرتا ہوا مارا جائے اور اگر میرے دس بیٹے ہوں اور وہ بھی مارے جائیں تو بھی میں کوئی غم نہیں کروں گا۔ شاید یہ خیال ہو کہ بیٹوں کی تکلیف پر خوش ہونا کوئی بات نہیں۔ بعض لوگوں کو ایسی بیماری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی موت پر بھی ہنستے رہتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر میں بھی خدا کی راہ میں مارا جاؤں تو میرے لئے عین خوشی کا باعث ہوگا ۔
مَیں جانتا ہوں کہ ریا اور نمود ہلاکت کی باتیں ہیں اس لئے میں حضور سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے دل کو ریا اور عجب سےجو کہ ایمان کیلئے زہر ہیں بچائے اور مجھے اخلاص عطا فرمائے ۔ بنگالی لوگ دل کے مضبوط نہیں ہوتے مگر مسیح موعود پر ایمان لانے سے ہم لوگوں کے قلوب قوی ہو گئے ہیںاور ایمان نے ہماری کمزوری کو دور کر دیا ہے۔‘‘
(اخبار الفضل15؍مارچ1923ء صفحہ11)
ایسی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ جن کے پاس دینے کیلئے کچھ نہیں تھا انہوں نے اپنے مکان یا زمین یا اثاثے بیچ کر اس جہاد میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر منظور احمد صاحب کے پاس صرف ایک بھینس تھی وہی اونے پونے پر بیچ دی اور اگر چہ سودا گھاٹے کا تھا مگر بڑی خوشی سے اسکا ذکر کرتے تھے کہ وقت پر گاہک مل گیا۔ بعض غرباء نے خطوط کے ذریعہ اجازت طلب کی کہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے فروخت کر کے زادِ راہ بنائیں اور میدان جہاد میں پہنچ جائیں۔ زیرہ فیروز پور کے ایک غریب دوست علی شیر صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا:
’’آپ کا حکم سنا ۔مَیں ایک غریب آدمی ہوں حضور کی شرائط قبول کرنےکے ناقابل ہوں جس کا مجھے افسوس ہے۔ چالیس روپے کا مقروض ہوں مگر ایک مکان ہے اگر حکم ہو تو اس کو فروخت کرکے یا رہن رکھ کے میدان ارتداد میں جلدی چلا جاؤں ۔
خاکسار علی شیر- زیرہ فیروز پور‘‘
(کارزار شدھی ،مصنفہ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم ، صفحہ45)
عورتوں میں بھی مسجد برلن کے چندہ کی ذمہ داری کے باوجود بے حد جوش تھا وہ اپنے کپڑے اوردوپٹے وغیرہ اپنی ملکانہ بہنوں کیلئے تحفے کے طور پر بھجوا رہی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی اس کار خیر میں حصہ لے رہی تھیں ۔ ہماری ہمشیرہ امتہ القیوم بیگم جو ہمارے عم زاد ایم ایم احمد سابق وزیر خزانہ حکومت پاکستان کی اہلیہ ہیں ، ان دنوں چھ سال کی تھیں۔ انہوں نے بھی اپنا ایک چھوٹا سا ڈوپٹہ پیش کر دیا کہ کسی چھوٹی ملکانی کو دے دیا جائے۔ عموماً دوسری احمدی بچیوں کا بھی یہی حال تھا اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنی مجلسوں میں بیٹھے ملکانے کی باتیں کیا کرتے تھے ۔ احمدی خواتین کی جہاد کی تمنا صرف اسی بات میں محدود نہ تھی کہ مال وزر کے ذریعہ مجاہدین کی مدد کریں بلکہ سخت بے قرار تھیں کہ کسی طرح میدان کا رزار میں خود پہنچ کر اس عظیم اسلامی جہاد میں حصہ لے سکیں۔ بہن عمر بی بی نے آگرہ سے حضور کی خدمت میں لکھا :
’’حضور میں صرف قرآن مجید جانتی ہوں اور تھوڑا سا اُردو۔ اپنے بیٹے سے سناہے کہ مسلمان مرتد ہو رہے ہیں اور حضور نے وہاں جانے کا حکم دیا ہے مجھے بھی اگر حکم ہو تو فورا ًتیار ہو جاؤں ۔ بالکل دیر نہ کروں گی ۔ خدا کی قسم اٹھا کر کہتی ہوں ہر تکلیف اٹھانے کو تیار ہوں ۔‘‘ (کارزار شدھی، صفحہ46)
امۃ الرحمن صاحبہ مڈ وائف بھیرہ ہسپتال نے اس طرح اپنے جذبہ شوق کا اظہار کیا :
’’حضور میرا باپ عاشق مسیح موعود تھا۔ دنیا میں دو لڑکے اور ایک لڑکی چھوڑ گیا۔ میرے دونوں بھائی عبد الرحیم و عبد اللہ سرفروشوں میں حضور کے حکم سے کام کررہے ہیں۔ اس عاجز کا بھی دل تڑپ رہاہے۔ یہ بھی تین ماہ کیلئے زندگی وقف کرتی ہے۔ ‘‘
(کارزار شدھی، صفحہ46تا47)
تحریک شدھی کے دوران جماعت احمدیہ نے جس والہانہ انداز میں قربانیاں پیش کیں اور یوپی کے کئی متاثرہ اضلاع میں جس کامیابی کے ساتھ آریہ سماج کا مقابلہ کیا اور ہر میدان میں ان کو شکست فاش دی، ایک طویل اور دلچسپ داستان ہے جسکا اصل تعلق تاریخ احمدیت کے ساتھ ہے اور کسی حد تک تاریخ احمدیت میں اس پر روشنی ڈالی بھی جاچکی ہے۔ ہماری نظر اس وقت اس تحریک کے ان پہلوؤں پر ہے جسکا تعلق براہِ راست حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی شخصیت، کردار اور صلاحیتوں سے ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپ نے ایک فتح نصیب جرنیل کے طور پر اس تحریک کی قیادت کی اور ہر میدان میں مظفر و منصور ہوئے، اسکا کچھ ذکر آئندہ کیا جائے گا یہاں فی الوقت صرف اسی پر اکتفا کی جاتی ہے کہ تحریک خلافت کے دوران آپ کے کردار اور تحریک شدھی کے دوران آپ کے کردار میں جو فرق نظر آتا ہے وہ یہی ہے کہ اگر چہ اس وقت آپ نے بروقت تنبیہ اور نہایت قیمتی مشورے دے کر اپنے فرض کو ادا کر دیا لیکن حالات کچھ اس قسم کے تھے کہ عملی جدوجہد کے میدان میں ایک کامیاب جرنیل کے طور پر امت مسلمہ سے آپ کا تعارف نہ ہو سکا۔ شدھی کی تحریک نے وہ موقع فراہم کر دیا اور آپ کو ربّ العزت سے یہ توفیق ملی کہ اپنے مشوروں کی صداقت اور قدر و قیمت کو عمل کے میدان میں بھی درست ثابت کر دکھائیں۔ دنیا نے ایک نئے انداز فکر کے ساتھ عوامی جذبات اور جوشوں کی تسخیر ہوتی ہوئی دیکھی۔ اس موقع پر ایک اور پہلو آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کا یہ سامنے آیا کہ ایسے وقت میں جبکہ جماعت شدید اقتصادی بحران کا شکار تھی آپ اس پر مزید مالی بوجھ ڈالنے سے نہ ہچکچائے بلکہ پے در پے ایسی تحریکات کیں جن کا پورا ہونا بظاہر محال دکھائی دیتا تھا۔ وہ جماعت جو اپنے کارکنوں کی ماہانہ تنخواہ دینے کی بھی طاقت نہ رکھتی تھی صرف اسکی مستورات ہی سے پچاس ہزار روپے کی گرانقدر رقم کا مطالبہ کرنا اور بغیر کسی انتظار کے فوراً بعد ہی مزید پچاس ہزار روپے کی ایک اور تحریک جاری کر دینا یقیناً بہت بڑی ہمت کا کام تھا بظاہر تو اس کا نتیجہ یہ نکلنا چاہئے تھا کہ جماعت ان مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام رہے بلکہ آئندہ چندوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرے لیکن واقعۃً نتیجہ اسکے بالکل برعکس نکلا۔ بعد کے حالات نے یہ ثابت کر دیا کہ جماعت کے مالی نظام کی بنیادیں در اصل اسی دور میں مضبوط اور مستحکم ہوئیں اور اسی بحران میں ان دونوں تحریکات کے نتیجہ میں اور انہی کی برکت سے جماعت میں مالی قربانی کی صلاحیتیں پوری طرح بیدار ہوئیں۔ نئی اُمنگیں اُبھریں اور حوصلوں کو نئی وسعتیں عطا ہوئیں اور جماعت من حیث المجموع مالی قربانی کے ایک ایسے بلند معیار پر قائم ہو گئی کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے مبارک دور کے سوا دنیا کے پردے پر اس کی کوئی دوسری مثال نظر نہ آئے گی۔
خلاصہ کلام یہ کہ1923ء ہی در اصل وہ سال ہے جبکہ ملکانہ کے جہاد اور چندہ مسجد برلن کی تحریکات کی برکت سے جماعت احمدیہ پہلی مرتبہ مالی لحاظ سے مستحکم ہوئی اور اسکی ایسی کایا پلٹ گئی کہ گویا منصہ شہود پر ایک نئی جماعت اُبھری ہے۔
شدھی کے معرکے میں اگر چہ دوسرے مسلمانوں نے بھی کسی حد تک کام کیا لیکن جماعت احمدیہ کیلئے یہ مقابلہ ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا تھا۔ آریہ سماج ، ہندومت کے احیائے نو کی ایک ملک گیر اور طاقتور تحریک تھی جو خصوصاً اہلِ اسلام کے خلاف بڑے جارحانہ اور خوفناک عزائم رکھتی تھی ۔ دوسری طرف مسلمانوں کی طرف سے اگر اس تحریک کے مقابلے کی کوئی طاقت رکھتا تھا تو وہ جماعت احمدیہ کے سوا کوئی نہ تھا۔ نہ کوئی اس حد تک منظم تھا ،نہ کسی کو ایسا با خدا اور مدبر رہنما میسر تھا، نہ کسی کو اپنے وسائل مجتمع کر کے بروئے کار لانے کی قدرت تھی۔نہ تنظیم تھی ،نہ مرکزیت، نہ سلیقہ ،نہ کام کو مستقل مزاجی کے ساتھ چلانے کی صلاحیت تھی۔ پس جماعت احمدیہ ہی وہ مسلمان فرقہ تھا جسے اس دور میں فی الحقیقت تمام عالم اسلام کی نمائندگی کا موقع ملا اور ہر میدان مقابلہ میں اس نے اپنے دشمن کو شکست پر شکست دی۔ یہاں تک کہ ناکام اور خائب و خاسر ہو کر اسے میدان مقابلہ سے فرار کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا ۔
یہ سب کچھ ہوا لیکن کسی کا خیال اس طرف نہ گیا کہ دراصل یہ اُسی مقابلہ کی ایک نئی شکل ہے جو ایک لمبا عرصہ پہلے حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام اور آریہ رہنما پنڈت لیکھرام کے مابین ہوا تھا۔ اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ لیکھرام بڑی تعلّی کے ساتھ جس موعود بچے کے خلاف ایک منحوس پیشگوئی کر رہا ہے خود اس کی اپنی قوم ہی ایک دن اس کی برتری اور عظمت کا ڈھنڈورا پیٹے گی ؟ اس وقت جب لیکھرام یہ ا علان کر رہا تھا کہ آریہ سماج کے خدا نے اسے مطلع کیا ہے کہ اگر یہ بچہ پیدا ہو بھی گیا تب بھی تین سال کے اندر اندر اس کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا ۔ قادیان سے باہر اس کا شہرت پانا تو در کنار خود قادیان میں بھی اس کے نام سے کوئی آشنا نہ رہے گا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ وہی بچہ ایک دن آریہ سماج کے مقابلے پر قرآن کی تلوار لے کر اس شان کے ساتھ نکلے گا کہ ہر طرف اس کے نام کی دھوم مچ جائے گی اور غیر تو غیر خود آریوں کو اس بات کا برملا اقرار کرنا پڑے گا کہ اس عظیم رہنما کی قیادت میں تحریک احمدیت آریہ سماج کیلئے ایک انتہائی مہلک خطرہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کون اس وقت یہ کہہ سکتا تھا کہ جس بچے کے متعلق یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ خود اس کے اپنے گاؤں میں بھی اس کے نام سے کوئی واقف نہیں رہے گا،وہ دن دور نہیں کہ وہ صرف ایک گاؤں یا ضلع یا صوبہ میں ہی نہیں بلکہ تمام بر صغیر ہندوستان میں شہرت پائے گا اور اس پیشگوئی کرنے والے کے متبعین ہی خود اس شہرت کا ذریعہ بنائے جائیں گے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ اگر چہ ہندوستان کے مسلمانوں میں تو حضرت مرزا محمود احمد کارزار شدھی سے پہلے بھی روشناس تھے لیکن ہندوستان میں بسنے والے ہندوؤں کی اکثریت آپ کے نام سے نا آشنا تھی بلکہ جماعت احمدیہ کے وجود سے بھی ناواقف تھی۔ تحریک شدھی ہی ملک گیر شہرت کا وہ پہلا زینہ ثابت ہوئی جسے طے کرتے ہوئے تمام ہندوستان میں آپ کا شہرہ بام عروج پر جا پہنچا اور دشمن بھی آپ کی عظیم قیادت کو خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو گیا ۔
تحریک شدھی اس پہلو سے بھی ایک دلچسپ مطالعہ کا مواد پیش کرتی ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی ولادت سے قبل آریہ سماج اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مابین ایک فیصلہ کن مجادلہ ہوا۔ اس موقع پر بد قسمتی سے خود مسلمان علماء اور مشاہیر بھی احمدیت کے مقابل پر آریہ سماج کا ساتھ دے رہے تھے ۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرزند موعود کی پیشگوئی فرمائی تو آریوں کی طرف سے اس پیشگوئی پر جب بھی کوئی پھبتی کسی جاتی مسلمان علماء آریوں کے ساتھ مل کر آپ پرہنستے اور چھینٹے اڑاتے۔ جب بھی لیکھرم کوئی تعلّی کرتا تو قہقہوں کی آوازوں میں مسلمان علماء کی آوازیں نمایاں ہو کر سنائی دیتیں۔ جب بھی وہ آپ کی تکذیب میں اخبارات ور سائل کے چہرے سیاہ کرتا مسلمان صحافیوں کے قلم اس کی تائید میں رواں دواں نظر آتے اور ہر ایسے موقع پر ہندوستان کی فضا میں آریوں کی طرف سے بھی اور مسلمانوں کی طرف سے بھی یہ شور بلند ہوتا کہ (نعوذ باللہ) مرزا قادیانی کی پیشگوئی جھوٹی نکلی لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا اور ایک ایسا بھی وقت آنا تھا کہ خود اسی موعود بیٹے کے ہاتھوں زک اٹھا کر آریوں نے بھی بزبانِ حال یہ گواہی دینی تھی کہ لیکھرام اپنی ہر بات میں جھوٹا نکلا اور مرزا غلام احمد اپنے ہر قول میں صادق و مصدوق ثابت ہوا اور مسلمان را ہنماؤں نے بھی اس موعود بیٹے کی تائید میں کھڑے ہو کر اعلان پر اعلان کرنا تھا کہ اسلام کا یہ بطل جلیل ہر میدان مقابلہ میں آریہ دشمن کو مات دے گیا اور لیکھرام کے مذہب کی ذلت اور رسوائی اُسی بیٹے کے ہاتھوں ہوئی جس کے نابود ہونے کی حسرت لئے وہ اس دنیا سے کوچ کر گیا۔ اس مضمون پر قلم اٹھاتے ہوئے زمیندار اخبار نے اپنی24 جون1923ء کی اشاعت میں لکھا:
’’جو حالات فتنہ ارتداد کے متعلق بذریعہ اخبارات علم میں آچکے ہیں ان سے صاف واضح ہے کہ مسلمانان جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں ۔ جو ایثار اور کمر بستگی نیک نیتی اور توکل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگرہندوستان کے موجودہ زمانے میں بے مثال نہیں تو بے اندازہ عزت اور قدردانی کے قابل ضرور ہے ۔ جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں اس اولو العزم جماعت نے عظیم الشان خدمت کر کے دکھا دی۔‘‘ ( زمیندار لاہور،24 جون 1923ء،بیان شیخ نیاز علی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور)
پھر29؍ جون1923ء کی اشاعت میں یہ اعتراف کیا کہ:
’’ قادیانی احمدی اعلیٰ ایثار کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کاقریباً ایک سو مبلغ امیر وفد کی سرکردگی میں مختلف دیہات میں مورچہ زن ہے۔ ان لوگوں نے نمایاں کام کیا ہے۔ جملہ مبلغین بغیر تنخواہ یا سفر خرچ کے کام کر رہے ہیں ۔ ہم گو احمدی نہیں لیکن احمدیوں کے اعلیٰ کام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ جس اعلیٰ ایثار کا ثبوت جماعت احمدیہ نے دیا ہے اس کا نمونہ سوائے متقدمین کے مشکل سے ملتا ہے۔ ان کا ہر ایک مبلغ غریب ہو یا امیر بغیر مصارف سفر و طعام حاصل کئے میدان عمل میں گامزن ہے ۔ شدید گرمی اور لوؤں میں وہ اپنے امیر کی اطاعت میں کام کر رہے ہیں۔‘‘
(زمیندار لاہور، 29؍ جون1923ء)
اخبار مشرق گورکھپور نے لکھا:
’’ جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ آریہ خیالات پر بہت بڑی ضرب لگائی ہے اور جماعت احمدیہ جس ایثار اور دَرد سے تبلیغ و اشاعت اسلام کی کوشش کرتی ہے وہ اس زمانے میں دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتی ہے۔‘‘
(اخبار مشرق ، گورکھپور،15؍مارچ1923ء)
چند دن بعد پھر اسی اخبار نے یہ اعترافِ حقیقت کیا کہ :
’’جماعت احمدیہ کے امام و پیشوا کی لگاتار تقریروں اور تحریروں کا اثر ان کے تابعین پر بہت گہرا پڑا اور اس جہاد میں اس وقت سب سے آگے یہی فرقہ نظر آتا ہے اور باوجود اس بات کے کہ احمدی فرقہ کے نزدیک اس گروہ نو مسلم کی تائید کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس فرقے سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر اسلام کا نام لگا ہوا تھا اس لئے اس کی شرم سے امام جماعت احمدیہ کو جوش پیدا ہو گیا ہے اور آپ کی بعض تقریریں دیکھ کر دل پر بہت ہیبت طاری ہوتی ہے کہ ابھی خدا کے نام پر جان دینے والے موجود ہیں اور اگر ہمارے علماء کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ جماعت احمدیہ اپنے عقائد کی تعلیم دے گی تو وہ اپنی متفقہ جماعت میں… ایسا خلوص پیدا کر کے آگے بڑھیں کہ ستو کھائیں اور چنے چبائیں اور اسلام کو بچائیں ۔ جماعت احمدیہ کے ارکان میں ہم یہ خلوص بیشتر دیکھتے ہیں ۔ دیانت ، ایفاء عہد، اپنے امام کی اطاعت میں یہ جماعت فرد ہے ۔ جناب مرزا صاحب اور ان کی جماعت کی عالی حوصلگی اور ایثار کی تعریف کے ساتھ ہم مسلمانوں کو ایسے ایثار کی غیرت دلاتے ہیں۔ دیانت اور امانت جو مسلمانوں کی امتیازی صفتیں تھیں آج وہ ان میں نمایاں ہیں ۔ جماعت احمدیہ کی فیاضی اور ایثار کے ساتھ ان کی دیانت اور آمد و خرچ کے ابواب کی درستگی اور باقاعدگی سب سے زیادہ قابل ستائش ہے اور یہی وجہ ہے کہ با وجود آمدن کی کمی کے یہ لوگ بڑے بڑے کام کر رہے ہیں۔‘‘
(اخبار مشرق گورکھپور،29؍مارچ1923ء)
اسی طرح اخبار وکیل امرتسر نے لکھا:
’’ احمدی جماعت کا طرز عمل اس بات میں نہایت قابل تعریف ہے جو با وجود چھیڑ چھاڑ کے محض اس خیال سے کہ اسلام کو چشم زخم سے محفوظ رکھا جائے ان خانہ جنگیوں کے انسداد کی طرف خود مسلمانوں کے لیڈروں کو تو جہ دلاتے ہیں اور ہر طرح کام کرنے کو تیار ہیں… ہم علی وجہ البصیرت اعلان کرتے ہیں کہ قادیان کی احمدی جماعت بہترین کام کر رہی ہے۔‘‘
(اخبار وکیل امرتسر،3؍مئی 1923ء)
مولوی ممتاز علی صاحب ایڈیٹر اخبار تہذیب النسواں لاہور نے لکھا:
’’مَیں نے سنا ہے کہ میدان ارتداد میں ہر فرقہ اسلام نے تبلیغ کیلئے اپنے اپنے نمائندے بھیجے ہیں۔ مناسب جانا کہ میں جس گرو ہ کے مبلغین کو زیادہ کامیاب دیکھوں ان میں سے ایک اپنے لئے منتخب کرلوں ۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ تبلیغ کے کام میں سب سے زیادہ کامیابی احمدی مبلغوں کو ہوئی ہے۔ اس لئے میں نے چاہا کہ اگر تہذیبی بہنوں کو اعتراض نہ ہو تو وہ ان میں سے کسی ایک مبلغ کا خرچ اپنے ذمہ لیں۔ مگر اسی اثناء میں ہمارے علماء نے اعلان شائع کیا کہ احمدی فرقہ کے لوگ سب کا فر ہیں ۔ ان کا کفر ملکانہ را جپو توںکے کفر سے بھی زیادہ شدید ہے۔‘‘
(رسالہ تہذیب النسواں لاہور، 2؍مئی1925ء)
یہ تو مسلمان اخبارات کی شہادت تھی ۔ ہندو اخبارات کے بعض اعترافات بھی پڑھنے کے لائق ہیں۔ اسلام کے دفاع میں کون سب سے بڑھ کر ان پر چوٹیں لگاتا رہا یہ انہی کا دل جانتا تھا اور کس کے وار ان کے سینے چھلنی کرتے رہے یہ بھی وہی بہتر بیان کر سکتے تھے ۔ لیجئے سنیے ۔
دیو سماجی اخبار جیون نت لاہور نے لکھا :
’’ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کی تحریک کو روکنے اور ملکانوں میں اسلامی مت کا پرچار کرنے کیلئے احمدی صاحبان خاص جوش کا اظہار کر رہے ہیں۔ چند ہفتے ہوئے قادیانی فرقہ کے لیڈر مرزا محمود احمد صاحب نے ڈیڑھ سو ایسے کام کرنے والوں کیلئے اپیل کی تھی جو تین ماہ کیلئےملکانوں میں جا کر مفت کام کرنے کیلئے تیار ہوں، جو اپنا اور اپنے اہل وعیال کا وہاں کے کرایہ وغیرہ کا کل خرچہ برداشت کرسکیں اور انتظام میںجس لیڈر کے ماتحت جس کام پر انہیں لگایا جاوے اسے وہ خوشی خوشی کرنے کیلئے تیار ہوں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس اپیل پر چند ہفتوں کے اندر چار سو سے زیادہ درخواستیں ان شرائط پر کام کرنے کیلئے موصول ہو چکی ہیں اور تین پارٹیوں میں 90؍ احمدی صاحبان آگرہ کے علاقہ میں پہنچ چکے ہیں اور بہت سرگرمی سے ملکانوں میں اپنا پر چار کر رہے ہیں اس نئے علاقہ کے حالات معلوم کرنے کیلئے ان میں سے بعض نے جن میں گریجویٹ نوجوان بھی شامل تھے اپنے بستر کندھوں پر رکھ کر اور تیز دھوپ میں پیدل سفر کر کے سارے علاقہ کا دورہ کیا ہے ۔ اپنے مت کے پرچار کیلئے ان کا جوش اور ایثارقابل تعریف ہے ۔‘‘
(اخبار جیون نت لاہور،24؍اپریل1923ء)
’’ آریہ پتریکا ‘‘بریلی نے یکم اپریل 1923ء کی اشاعت میں لکھا :
’’ اس وقت ملکا نے راجپوتوں کو … اپنی پرانی راجپوتوں کی برادری میں جانے سے باز رکھنے کیلئے (یعنی مرتد ہونے سے بچانے کیلئے ۔ ناقل) جتنی اسلامی انجمنیں اور جماعتیں کام کر رہی ہیں ان میں احمدیہ جماعت قادیان کی سرگرمی اور کوشش فی الواقع قابل داد ہے۔‘‘
’’ہندو دھرم اور اصلاحی تحریکیں‘‘ کے مصنف نے اعتراف کیا :
’’ آریہ سماج نے شدھی یعنی پاک کرنے کا طریقہ جاری کیا۔ ایسا کرنے سے آریہ سماج کا مسلمانوں کے ایک تبلیغی گروہ یعنی قادیانی فرقہ سےتصادم ہو گیا ۔ آریہ سماج کہتی تھی کہ وید الہامی ہے اور سب سے پہلا آسمانی صحیفہ ہے اور مکمل گیان ہے… قادیانی کہتے تھے کہ قرآن شریف خدا کا کلام ہے اور حضرت محمدؐ خاتم النّبیین ہیں اس کد و کاوش کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی عیسائی یا مسلمان اب مذہب کی خاطر آریہ سماج میں داخل نہیں ہوتا ۔‘‘ (ہندو دھرم اور اصلاحی تحریکیں، صفحہ 23،24)
کارزار شدھی کے اثرات اتنے گہرے اور دُور رس تھے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی عظیم قیادت کا رعب آریہ سماج کے راہنماؤں کے دلوں پر بیٹھ گیا۔ شدھی کی تحریک چلی اور گزر گئی لیکن سالہا سال تک آریہ راہنماؤں کے دلوں میں اس تلخ اور ہولناک تجربے کی یادیں باقی رہیں جو کار زارشدھی میں جماعت احمدیہ سے ٹکر لینے کے نتیجے میں انہیں حاصل ہوا تھا۔ چنانچہ چار سال کے بعد اخبار تیج دہلی نے یہ اعتراف کیا کہ
’’میرے خیال میں تمام دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ ٹھوس موثر اور مسلسل کام کرنے والی جماعت، جماعت احمدیہ ہے اورمَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم سب سے زیادہ اس کی طرف سے غافل ہیں اور آج تک ہم نے اس خوفناک جماعت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔‘‘ (اخبار تیج دہلی ،25؍جولائی 1927ء)
پھر اسی اخبار نے مزید لکھا:
’’ آج سےتیس چالیس سال پہلے پیچھے ہٹ جائیے جبکہ یہ جماعت اپنی ابتدائی حالت میں تھی اور دیکھئے اُس زمانے میں ہندو اور مسلمان دونوں اس جماعت کو کس قدر حقیر اور بے حقیقت سمجھتے تھے۔ ہندو تو ایک طرف رہے خود مسلمانوں نے ہمیشہ اس کا مذاق اُڑایا اور اس پر لعنت اور ملامت کے تیر برسائے ۔ اس جماعت نے اپنے ابتدائی حالات میں جن جن کاموں کے کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا آج ان میں سے اکثر انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ اُس زمانہ میں جب احمدیوں نے ان کاموں کی ابتداء کی تھی ان کو پاگل سمجھا جاتا تھا اور ان کی حماقت پر ہنسی اڑائی جاتی تھی۔ مگر واقعات یہ کہہ رہے ہیں کہ ان پر ہنسی اڑانے والے خودبے عقل اور احمق تھے۔ اس بارے میں عیسائی مشنریوں نے نہایت عقلمندی سے کام لیا … احمدیوں نے ابھی یورپ اور امریکہ میں قدم رکھا ہی تھا کہ تمام پادری ان کے مقابلہ کیلئے تیار ہو گئے۔‘‘
(اخبار تیج دہلی،25؍جولائی 1927ء)
ضمناً یہاں یہ امر بھی ذکر کے لائق ہے کہ ایسی جماعت جو تن تنہا عیسائی دنیا پر بڑی جرأت اور دلیری سے اور مومنانہ شان کے ساتھ حملہ آور ہے اور پادری اس کے مقابلہ کیلئے صف آرا ہو رہے ہیں ایسی جماعت پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ عیسائی حکومتوں کا خود کاشتہ پودا ہے۔ حق پوشی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے یا بعضوں کے نزدیک شاید اس کی کوئی حد نہیں!!!
تحریک شدھی کے چھ سال بعد جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کو ہندو ازم کیلئے ایک شدید خطرہ تصور کرتے ہوئے مہاشہ کرشن نے یوں خطرے کا الارم بجایا ۔
’’ مشکل یہ ہے کہ ہندوؤں کو اپنے ہی ہموطنوں کی ایک جماعت کی طرف سے خطرہ ہے اور وہ خطرہ اتنا عظیم ہے کہ اسکے نتیجہ کے طور پر آر یہ جاتی صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے۔ وہ خطرہ ہےتنظیم و تبلیغ کا، مسلمانوں کی طرف سے یہ کام اس تیزی سے ہورہا ہے کہ ہندوؤں کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں۔ ان کی تعداد سال بہ سال کم ہورہی ہے ۔ اگر اسے کسی طرح روکا نہ گیا تو ایک وقت ایسا آسکتا ہے جب کہ آر یہ دھرم کا کوئی بھی نام لیوا نہ رہے۔‘‘ (پرتاپ لاہور21؍اکتوبر1929ء)
غور فرمائیے ! چند ہی سال پہلے آریہ سماج کا کیا دعویٰ تھا اور کیا طنطنہ تھا مسلمانوں کو نہتا اور بے بس سمجھ کر وہ اپنی پوری قوت سے ان پر حملہ آور تھی اور اپنی طاقت کے نشہ میں بدمست ہو کر یہ اعلان کر رہی تھی :
کام شدھی کا کبھی بند نہ ہونے پائے
ہندو! تم میں ہے اگر جذبۂ ایماںباقی
بھاگ سے قوموں کو یہ وقت ملا کرتے ہیں
رہ نہ جائے کوئی دنیا میں مسلماں باقی
لیکن جونہی جماعت احمدیہ نے میدان جہاد میں قدم رکھا آریہ سماج نے اس کو اپنی ہستی کیلئے خطرہ قرار دیا اور خطرہ بھی کوئی معمولی خطرہ نہیں بلکہ اتنا عظیم کہ اسکے باشعور رہنما یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’اسکے نتیجہ کے طور پر آریہ جاتی صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے۔‘‘
کس قدر حیرت انگیز ہے یہ موازنہ کہ جس بچے کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کی خبر لیکھرام نے دی وہی بچہ اس کی قوم کیلئے ایک ایسا عظیم خطرہ بن گیا کہ ساری کی ساری قوم اس کے نتیجہ میں صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے۔ کیا اس اعترافِ حق میں اہل بصیرت کیلئے عبرت کا کوئی سامان نہیں ؟ کیا آریہ سماج کے اس اعتراف شکست میں ان لوگوں کیلئے کوئی نشان نہیں جو غور و فکر کی عادت رکھتےہیں ؟(سوانح فضل عمر ،جلد دوم، صفحہ 311 تا334، مطبوعہ 2006ءقادیان )
…٭…٭…٭…