اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-25

سب عبث ہے اگر خلافت سے وفا کا تعلق نہیں
(سیّد آفتاب عالم ، جمشیدپور، صوبہ جھارکھنڈ)

کبھی کبھی نظروں سے مخالفوں کے ایسے تبصرے گزر جاتے ہیں جن میں وہ اس حقیقت کا اعتراف کر بیٹھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ لازماً خدا ہے ۔ دراصل ایک دنیا اس ازلی حقیقت سےبے خبر ہے کہ جو خدا کی رسی یعنی خلافت کو مظبوطی سے پکڑ لیتا ہے، یہ ارض و سما اسی کا ہوجاتا ہے اور یہ رسی تھامنا قطعاً آسان نہیں ہوتا ہے ۔ آگ کے دریا سے گزرنا ہوتا ہے اور اس آگ کے دریا سے وہ ہی گذر پاتا ہے جو خدا کی راہ نمائی کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرتا ہے ۔
دراصل یہ نوع انسانی کا المیہ ہے کہ وہ اپنی عقل و سمجھ و علم پر زیادہ توکل کرتا ہے اور خدا کی راہ نمائی سے انکار کرنا اپنا حق سمجھتا ہے ۔ جو شروعات ابلیس نے کی تھی وہ ٹرینڈ آج بھی جاری و ساری ہے ۔ انسانوں کا ایک ایسا گروہ بھی ہے جو یہ تو تسلیم کرتا ہے کہ انسانوں کو خدا کی راہ نمائی ضروری ہے مگر یہ ضرورت ماضی بن چکی ہے اور حال میں قطعاً ضرورت نہیں ہے ۔ وہ اس ادراک سے محروم ہوچکے ہیں کہ خدا کی راہ نمائی کی جس طرح ماضی میں ضرورت تھی حال میں بھی اُسی طرح ضرورت ہے۔ خدا کی راہنمائی کا حال میں انکار کرکے وہ بھی اسی گروہ میں شامل ہوچکے ہیں جو خدا کی راہ نمائی کے ہی قائل نہیں ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اس یقین سے پُر ہے کہ اس کی بقا و سلامتی اور فلاح خدا کی رسی کو پوری مضبوطی اور وفا سے تھامنے میں ہی ہے ۔ ہر علم و دولت و شان و شوکت اور سجدوں کی وجہ سے ماتھے پر پڑے گٹھے وغیرہ عبث ہیں اگر خلافت سے وفا کا تعلق نہیں ہے ۔ اور ہماری پچھلی ایک سو پندرہ سالہ تاریخ خلافت بھی یہی بتا رہی ہے کہ یہ خلافت ہی ہے جس کی وجہ سے خاردار راستے بھی آسان تر ہوتے جارہے ہیں ۔ تاریخ انسانی کا ایماندرانہ تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ وقت کے دھول میں اچھے سے اچھے نظریہ پر گرہن لگ جاتا ہے ، اتنا بدل جاتا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اصل نظریہ کیا تھا۔ خلافت راشدہ کے ختم ہونے کے بعد سب سے بہترین دین اتنے ٹکروں میں بٹ کر رہ گیا کہ بقول جسٹس منیر ، دو مولوی بھی اسلام کے ایک ڈیفنیشن پر متفق نہیں ہوسکے ۔ دوسری طرف جماعت احمدیہ کے ایک سو تینتیس سو سالوں کو دیکھ لیں ۔ جو صدا آنحضور ﷺ کے فرزند جلیل اور عاشق صادق نے دی تھی ، آپ کو اس میں زیر زبر و نقطہ کا بھی فرق نہیں ملے گا ۔ گو شخصیتیں بدلتی رہیں مگر خد و خال و ہی ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے علم پاکر دی تھی اور بھلا کیوں نہ ہو کیونکہ خدا کا سورہ النور کی آیت استخلاف میں وعدہ ہے کہ وہ خلافت کے ذریعہ مومنین کو دین پر مظبوطی سے قائم کرے گا ۔ کسی بھی چیز پر انسان تبھی مظبوطی سے قائم ہوتا ہے جب وہ رد و بدل سے پاک ہو اوراس بات سے پرے ہوکر وقت کا دھول اسکے نقش کو دھندلا کر سکے یا کوئی نقصان پہنچا سکے اور یہ خلافت احمدیہ کا ہی کمال ہے کہ ہرطرف سے ، اکناف عالم سے کروڑھا انسان نہ صرف خلافت کے ہاتھ پر متحد ہیںبلکہ اس پر دل وجان سے فدا ہیں ۔ آپ قادیان کی مقدس بستی کے مکین اور یوروپ و امریکہ کے جدید معاشرہ میں بسنے والے ایک عام احمدی کا جائزہ لے لیں … آپ کو ہاؤ بھاؤ و body languge میں بھی ذرہ بھر بھی فرق نہیں ملے گا ۔ ایک ہی تعلیم ایک ہی نظریہ اور ایک ہی جنون ملے گا کہ ہم نے خلیفہ وقت کی راہ نمائی میں نوع انسانی کے دلوں کو جیتنا ہے اور آنحضور ﷺ کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے اور سب لوگوں کو اس جھنڈے تلے جمع کرنا ہے۔ پھر اسی آیت استخلاف میں خدا کا دوسرا وعدہ ہے کہ خلافت کی برکت سے خدا خوف کی حالت کو امن میں بدلے گا ۔ خلافت احمدیہ کی ایک سو پندرہ سالوں کی تاریخ نے خدا کے اس وعدہ کو پورا ہوتے دیکھا ہے ۔ انفرادی خوف جو کبھی نوکری کا ہوتا ہے تو کبھی امتحان کا ہوتا ہے تو کبھی بزنس میں ناکام ہونے کا ہوتا ہے کبھی اولاد اور رشتہ دار کے متعلق ہوتاہے وغیرہ وغیرہ ، ایسے حالات میں جب احباب اپنا دُکھ درد خلیفہ وقت کو بتاتے ہیں اور خلیفۃ المسیح ان کیلئے دعا کرتے ہیں اور ان کے حالات اچھے ہو جاتے ہیں اور مقصد پورا ہو کاتا ہے تو پھر وہ دوسروں کو بتاتے ہیں کہ حضور کو دعا کی درخواست کی اور دیکھتے ہی دیکھتے باد نسیم آگئی ۔ بظاہر ناممکن لگنے والے کام بھی ہونے لگے ۔تو یہ خلافت کی عظیم الشان برکت ہے جس سے ہر احمدی فائدہ اٹھا رہاہے۔ پھر جماعت پر کئی قومی خوف کے دور بھی آئے اور ہنوز آرہے ہیں ۔ یہ امید قوی ہے کہ جس طرح خلافت کی برکت نے ماضی کے ہر قومی خوف کے پرخچے اڑا دیے اورخوف کو امن کی حالت میں بدل دیا، انشااللہ آج بھی اور آنے والے کل میں بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ آنحضور ﷺ کے جس خدا سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں روشناس کرایا وہ اپنے وعدوں کا سچا خدا ہے ۔ جب خدا نے کہہ دیا کہ وہ خلافت کی برکت سے خوف کی حالت کو امن میں بدلے گا، تو انشااللہ ضرور بدلے گا ۔
اس جگہ مَیں اپنا ایک ذاتی تجربہ شیئر کرتاہوں ۔ جب ایک حکومت کا صدر تقدیر الٰہی سے پھانسی کے پھندے پر جھولا تو ایک بڑی بھیڑ نے احمدیہ مسجد بھاگلپور پر حملہ کیا ۔ ہم چند لوگ مسجد میںموجود تھے ۔ میرا گھر شاہی منزل مسجد کے بغل میں ہی تھا ۔ ہم نے بڑی شان سے خدا کے وعدہ کو پورا ہوتے دیکھا ۔ جب میں کھڑکی سے کود کر مسجد پہنچاتو وہاں سیکڑوں کی بھیڑ موجود تھی ۔وہ چاھتے تو میرے ساتھ کچھ بھی کرسکتے تھے مگر میں نے انہیں بدحواس ہوکر بھاگتے دیکھا ۔ میرے دوسرے بھائی بھی مسجد پہنچ چکے تھے ۔ پل بھر میں ساری مسجد خالی ہوچکی تھی ۔ سارا راستہ بلوائیوں کے جوتے چپلوں سے پٹہ پڑا تھا ۔
یہ سچ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں بتاتی ہیں کہ خدا کے فضل سے جماعت تاقیامت خلافت کی برکتوں سے مستفیض ہوتی رہے گی ان شاء اللہ ۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خدا نے سورہ النور کی آیت استخلاف میں اسے اعمال صالحہ سے منسلک کیا ہے ۔ میرے جیسا عام انسان اعمال صالحہ کے رموز سے پوری آگاہی نہیں رکھتا ہے ۔ سو میں نے اپنے بزرگان کے افعال پر گہری نظر ڈالی کیونکہ بہرحال ہم نے تو خلافت کی باد صبا کوورثہ میں پایا ہے اور ہم میں خلافت کی عظیم برکتیں تو یہی بتا رہی ہیں کہ لازماً ان کے قدم اعمال صالحہ کی طرف ہی گامزن تھے۔ ان اقدام میں عبادات کی بلندی بھی تھی تو جانی و مالی و وقت و عزت کی عظیم قربانیاں بھی تھیں تو نظام جماعت سے کامل وفا تھی تو مخلصین سے بےپناہ محبت بھی تھی ۔
میں نے بزرگان میں اس ادراک کو پھلتے و پھولتے دیکھا ہے کہ جتنی زیادہ خلیفہ وقت سے محبت ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ ان کی نظام جماعت کے ساتھ اطاعت وفرمانبرداری ہوتی ہے ۔خلیفہ وقت سے اور نظام جماعت سے محبت رکھنے والے ایسے فدائی احمدی انتہائی منکسرالمزاج ہوتے ہیں ۔ اُن کے دل کے کسی بھی گوشہ میں یہ احساس نہیں ہوتا کہ میں زیادہ قابل ہوں یا زیادہ تعلیم یافتہ ہوں یا میں بہت قربانیاں کرنے والا ہوں یا زیادہ شان و شوکت رکھتا ہوں ۔ نظام جماعت کے ایک ادنیٰ خادم کے سامنے بھی وہ اسی طرح سر تسلیم خم کرتے ہیںجیسے وہ بڑوں کے سامنے کرتے ہیں۔
مَیں نے دیکھا کہ عہدہ داروں کا بھی سابق عہدہ داروں کے ساتھ بڑا ہی مشفقانہ اور باعزت رویہ رہا ۔ تنقید کا کلیتاً فقدان ہوتااور خدمت کو فضل ربی مانتے تھے ۔
پھر واقفین زندگی مبلغین ومعلمین کرام کی عزت اور ان کا احترام بھی بہت ضروری ہے ۔ مَیں نے اپنے بزرگوں میں واقفین زندگی کی عزت و احترام کا ایک عجیب جذبہ دیکھاہے۔ میرے والد محترم مرحوم سید عاشق حسین صاحب نے میرے ایک بھائی کی ایک مبلغ صاحب سے گفتگو میں تیز آواز سنی تو دوڑ کر باہر آگئے ۔ مولوی صاحب محترم کے لاکھ کہنے پر کہ ہم کسی موضوع پر گفتگو کررہے ہیں اور گفتگو میں کبھی کبھی آواز تیز بھی ہوجاتی ہے ، والد صاحب محترم یہی کہتے رہے کہ مولوی صاحب ! وجہ کچھ بھی ہو مگر میرے بیٹے کی آواز آپ کے سامنے بلند نہیں ہونی چاہئے ۔ ہر تکلیف اور ہر خوشی پر میں نے انہیں’’ مولوی صاحب دعا کریں‘‘ کہتے سنا ہے ۔آپ نے ہم میں یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کی کہ واقفین زندگی کی خدمت کرو اور اگر خدمت کی توفیق نہیں ملتی ہے تو یہ کبھی مت کرنا کہ تمہاری وجہ سے انہیں تکلیف ہو ۔
مبلغین کرام سے ہمارے بزرگان کی محبت اور اخوت اور احترام کا ایک زمانہ گواہ ہے ۔ محترم سید فضل احمد صاحب I.G of police بہت بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود مبلغین کی بڑی عزت کرتے تھے اور ان سے بڑی محبت سے ملتے تھے ۔محترم سیّد فضل احمد صاحب کوجب پتا چلا کہ میرے چھوٹے بھائی مظفر عالم قادیان خدمت کی غرض سے جارہے ہیں، آپکا سلوک اور رویہ اور بھی زیادہ ان سے مشفقانہ اور باعزت ہوگیا ۔ بہت سےایسے واقعات موتی کی مانند بکھرے ہوئے ہیں ۔
پھراحباب جماعت کےخاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کے واقعات بے شمار ہیں جو دلوں کو گرماتے ہیں ۔ میرے والد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے حضرت مرزا وسیم احمد صاحب سے بے حد محبت تھی ۔ آپ تقریباً ہر ہفتہ حضرت مرزا وسیم احمد صاحب کو دعائیہ خط ہم سے لکھواتے تھے اور ان کا یہ فقراہ آج بھی میرے ذہن میں زندہ ہے کہ ’’ازراہ شفقت و ہمدردی دعا کریں ۔‘‘
پھر میں نے انہیں نہ صرف درویشان کرام کا ممنون و احسان مند دیکھا بلکہ ان کی اولاد سے بھی بےحد محبت کرنے والا پایا ۔ اس حقیقت سے انکار کیا ہی نہیں جاسکتا کہ درویشان کرام نے عظیم خدمت سرانجام دی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی اولاد نے بھی اپنے بزرگ درویشان کے قدم سے قدم ملا کر , قادیان کی مقدس بستی کو آباد رکھنے میں بھرپور تعاون کیا ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالہ ہمارے پیارے حضور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مبارک سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے اور اللہ کرے کہ خلافت کی لازوال برکتوں سے ہماری نسلیں تاقیامت مستفیض ہوتی رہیں۔آمین!

…٭…٭…٭…