اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-25

نظامِ خلافت اور ہماری ذمہ داریاں
(دلاور خان ، نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ قادیان)

آیتِ استخلاف ::
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں امت محمدیہ میں خلافت کا سلسلہ قائم کرنے کے متعلق فرماتا ہے :
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۝۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۵۶
ترجمہ :: اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا اور جو دین اس نے ان کیلئے پسند کیا ہے وہ ان کیلئے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور اُن کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کیلئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اسکے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیئے جائیں گے۔
قیامِ خلافت کے متعلق آنحضرتؐکی پیشگوئی ::
پیارے آقا سیّدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامِ خلافت کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
عَنْ حُذَیْفَۃَ   رَضِیَ   اللہُ  عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ   اللہِ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَکُونُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَا شَآءَ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللہُ تَعالٰی ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ مَا شَآءَ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللہُ تَعالٰی ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا فَتَکُوْنُ مَا شَآءَ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللہُ تَعالٰی ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً فَیَکُوْنُ مَا شَآءَ اللہُ اَنْ یَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللہُ تَعالٰی ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ ثُمَّ سَکَتَ( مشکوٰۃ باب الانذار والتحذیر، بحوالہ حدیقۃ الصالحین، حدیث نمبر978، مصنفہ ملک سیف الرحمٰن صاحب)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھالے گااور خلافت علیٰ منہاج النبوّۃ قائم ہوگی پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اُٹھالے گا ۔پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی (جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں  گے)جب یہ دَور ختم ہوگا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اورا س ظلم و ستم کے دَور کو ختم کردے گا ۔ اسکے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوّۃ قائم ہوگی ۔ یہ فرماکر آپؐخاموش ہوگئے۔
خلیفہ کی تعریف ::
خلافت کے لفظی معنی نیابت اور جانشینی کے ہوتے ہیں۔ عربی لغت میں خلیفہ کے معنی اس طرح  سے ہیں : اَلْاِمَامُ الَّذِیْ لَیْسَ فَوْقَہٗ اِمَامٌیعنی خلیفہ اس عظیم امام کو کہتے ہیں جس کے اوپر کوئی امام نہیں۔ خلافت وہ اعلیٰ ترین روحانی منصب ہے جس کی نظیر دُنیا کے کسی بھی نظام میں نظر نہیں آتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
خلیفہ کے معنے جانشین کے ہیں جو تجدید دین کرے۔ نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے اس کو دُور کرنے کے واسطے جو ان کی جگہ آتے ہیں انہیں خلیفہ کہتے ہیں۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 666)
خلیفہ کا انتخاب ::
نبی کا انتخاب اللہ تعالیٰ براہ راست کرتا ہے ۔ یہ اس وقت کرتا ہے جب دنیا خرابی اور فساد سے بھر چکی ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ ہیں : ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:42) یعنی فساد خشکی پر بھی غالب آگیا اور تری پر بھی۔ جب یہ حالت ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ کی قدرتِ اُولیٰ کی تجلی نبوت کے رنگ میں  ظاہر ہوتی ہے۔
قدرت ثانیہ کا ظہور خلافت کی صورت میں ہوتا ہے۔ نبی کے ذریعہ صرف تخم ریزی ہوتی ہے۔ نبی کے آنے کے بعد مومنین کی ایک جماعت قائم ہوجاتی ہے اور پھر جب نبی کی وفات ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بطور احسان اس جماعت میں خلافت کا نظام قائم فرماتا ہے۔ یہ خدا کی قدیم سنت ہے جیسا کہ اصدق الصادقین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : مَا کَانَتْ النُّبُوَّۃُ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْھَا خِلَافَۃٌ۔ (کنزالعمال الفصل الاوّل فی بعض خصائص الانبیاء حدیث نمبر 229) کہ ہر نبوت کے بعد خلافت لازمی طور پر قائم ہوتی ہے۔ دوسری بات کا یہ اشارہ ملتا ہے کہ خلافت کا قیام نبوت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  :
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے تو اس لئے کہ مسجد سے اس کی مشابہت ثابت ہو جس طرح مسجد بنائی ہی اس لئے جاتی ہے تاکہ عبادت میں اتحاد قائم رہے اسی طرح نبیوں کی جماعت قائم ہی اسی لئے کی جاتی ہے تاکہ عبودیت میں اتحاد قائم رہے۔ پس جس طرح مسجد خانہ کعبہ کی یاد کو قائم رکھتی ہے اسی طرح خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے۔ یہی وہ حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا تھا کہ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّى۝۰ۭ۔ایک خانہ خدا قائم کردیا گیا ہے اب تم بھی ابراہیمی طریق پر زندگی بسر کرو اور اس کی رُوح کو زندہ رکھو۔(سیر رُوحانی صفحہ 154)
خلافت راشدہ اور اس کے امتیازات ::
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جولائی 1958ءکواسلامی خلافت راشدہ کے امتیازات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اسلامی خلافت راشدہ کے مجموعی امتیازات سات ہیں۔
اوّل انتخابات :: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ : یہاں  امانت کا لفظ ہے۔ یہاں امانت کا لفظ ہے لیکن ذکر چونکہ حکومت کا ہے اس لئے امانت سے مُراد امانت حکومت ہے۔ آگے طریق انتخاب کو مسلمانوں پر چھوڑدیا ہے۔ چونکہ خلافت اس وقت سیاسی تھی مگر اسکے ساتھ مذہبی بھی … بہر حال خلافت انتخابی ہے اور انتخاب کے طریق کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے۔
دوم شریعت :: خلیفہ پر اوپر سے شریعت کا دباؤ ہے۔ وہ مشورہ کو ردّ کرسکتا ہے مگر شریعت کو ردّ نہیں کرسکتا گویا کانسٹی ٹیوشنل ہیڈ ہے۔ آزاد نہیں۔
سوم شوریٰ :: اوپر کے دباؤ کے علاوہ نیچے کا دباؤ بھی اس پر ہے یعنی اسے تمام اہم امور میں مشورہ لینا اور جہاں تک ہوسکے اسکے ماتحت چلنا ضروری ہے۔
چہارم اندرونی دباؤ یعنی اخلاق :: علاوہ شریعت اور شوریٰ کے اس پر نگران اس کا وجود بھی ہے کیونکہ وہ مذہبی راہنما بھی ہے اور نمازوں کا امام بھی ۔ اسی وجہ سے اسکا دماغی شعوری دباؤ اور نگرانی بھی اسے راہ راست پر چلانے والی ہے جو خالص سیاسی منتخب یا غیر منتخب حاکم پر نہیںہوتا۔
پنجم مساوات :: خلیفہ اسلامی انسانی حقوق میں مساوی ہے جو دنیا میں اور کسی حاکم کو حاصل نہیں۔ وہ اپنے حقوق عدالت کے ذریعہ سے لے سکتا ہے اور اس سے بھی حقوق عدالت کے ذریعہ لئے جاسکتے ہیں۔
ششم عصمت صغریٰ :: عصمت صغریٰ اسے حاصل ہے۔ یعنی اسے مذہبی مشین کا پرزہ قرار دیا گیا ہے۔ اور وعدہ کیا گیا ہے کہ ایسی غلطیوں سے اسے بچایا جائے گا جو تباہ کن ہوں اور خاص خطرات میں اس کی پالیسی کی اللہ تعالیٰ تائید کرے گا اور اسے دشمنوںپر فتح دے گا۔ گویا مؤید من اللہ ہے۔ اور دوسرا کسی قسم کا حاکم اس میں شریک نہیں۔
ہفتم :: وہ سیاسیات سے بالا ہوتا ہے اس لئے اس کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوسکتا۔ وہ ایک باپ کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے کسی پارٹی میں شامل ہونا اسکی طرف مائل ہونا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ  النساء آیت 59 میں فرماتا ہے وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝۰ۭ جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ یعنی جب ایسے شخص کا انتخاب ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ کامل انصاف سے فیصلہ کرے کسی ایک طرف خواہ شخصی ہو یا قومی ہو نہ جھکے۔ (بحوالہ الفرقان خلافت راشدہ نمبرجولائی 1958ءصفحہ2-3از کتاب خلافت کی اہمیت اور برکلات ، مصنف مکرم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز، صفحہ 36تا38)
قدرت ثانی کے انتظار میں دعا کرتے رہو::
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوںگے جو دوسری قدرت کا مظہرہوںگے سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعامیں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے۔(رسالہ الوصیت رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306)
اسلام میں خلافت ::
اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں اپنے دین کی سربلندی کے سامان کئے ۔ امت سے وعدہ کیا کہ ان میں روحانی خلافت کا نظام جاری فرمائے گا، جس سے دین کو تمکنت نصیب ہوگی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مسلمان مارے غم کے دیوانوں کی طرح ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر کو کھڑا کردیا جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع بن نون کو خلیفہ بنایا تھا۔ اور اللہ کا وعدہ پورا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آپؐکے بعد تیس سال تک خلافت راشدہ قائم رہی۔ اس کے بعد ملوکیت کا دور شروع ہوگیا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کو عراق، شام، ایران وغیرہ کی غیر معمولی فتوحات نصیب ہوئیں تو حضرت علیؓنے اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ اظہار کیا کہ :
اس کام میں کامیاب یا ناکام ہونے کا دارومدار نہ کثرت پر ہے اور نہ قلت پر ہے کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے غلبہ عطا فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے معزز کیا اور اس کی تائید کی یہاں تک کہ وہ اس شان کو پہنچ گیا اور ہم سے اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ فرمایا ہے کہ وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ…… الخاور اللہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے۔ (تفسیر روح المعانی از علامہ محمود آلوسی ،صفحہ 397 ،ترجمہ از عربی عبارت بحوالہ الفضل انٹرنیشنل خلافت نمبر 2020)
مگر شومیٔ قسمت کہ اسلام کی نشاۃ اولیٰ کے زمانہ میں خلافت راشدہ کا جو انعام ایمان اور عمل صالح سے مشروط کیا گیا تھا، اس کی حفاظت تیس برس سے زیادہ نہ ہوسکی۔ اسکے بعد ملوکیت کا دور جلد شروع ہوگیا۔ بے شک اس دور میں اسلام کی ظاہری شان و شوکت تو بڑھتی رہی مگر اسکے ساتھ بادشاہت کی خرابیاں بھی درآئیںاور خلافت راشدہ جیسا عادلانہ نظام نہ رہا۔ اسلام کی نشاۃ اولیٰ کی یہ تاریخ نشاۃ ثانیہ کیلئے یقیناً عبرت کا ایک عظیم سبق ہے۔ اس دور میں ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ  کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح و مہدی کی خلافت کا جاری ہونا مقدر تھا جو خدا تعالیٰ کے فضل سے 27 مئی 1908 سے قائم، جاری و ساری ہےاور جماعت کے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے پانچویں  خلیفہ ہیں۔ اسی وعدہ الٰہی کے مطابق خدا تعالیٰ نے مسیح محمدی کے ذریعہ دوبارہ یہ نعمت خلافت عطا کرکے ہم احمدیوں کو اس سے وابستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ ہم اس کا جتنا شکر کریں کم ہے۔ اور اس کا حقیقی شکرانہ یہی ہے کہ ایمان بالخلافت پر قائم رہتے ہوئے ہم نسلاً بعد نسلٍ اپنے اعمال صالحہ کی حفاظت کرتے چلے جائیں تاکہ خلافت کی برکات کا یہ زمانہ لمبا ہوتا چلا جائے اور ہم غلبہ اسلام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں  کیونکہ آج اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور تمکنت دین اسی خلافت کے ساتھ وابستہ کردی گئی ہے۔
ہاں!یہ وہی خلافت ہے جس کے بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم اپنے وقت کے خلیفہ کو پاؤ تو اس سے چمٹ جانا اور خواہ تمہیں (جنگل میں) درختوں کی جڑیں کھاکر گزارہ کرنا پڑے، یہاں تک کہ موت آجائے ۔ (صحیح بخاری کتاب ا
لفتن بابٌ کَیْفَ الْاَمْرُ اِذَا لَمْ تَکُنْ جَمَاعَۃٌبحوالہ الفضل 22؍مئی تا4؍جون 2020ء خلافت نمبر صفحہ 10)
تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے ::
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا۔ پس اس نعمت کا شکر کرو کیونکہ شکر کرنے پر ازدیاد نعمت ہوتا ہے لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم:8) لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے کہ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراہیم:8)(خطبات نور ،صفحہ 131)
خلفاء کی سنت کی پیروی لازم ہے :: 
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ تَمَسَّکُوْا بِھَا وَعَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِدِ وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔(ترمذی، کتاب العلم، باب الاخذ بالسُّنۃ، ابوداؤد، کتاب السنۃ ،باب لزوم السنۃ)
تم (ان نازک حالات میں) میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنّت کی پیروی کرنا اور اسے پکڑ لینا ۔ دانتوں سے مضبوط گرفت میں کرلینا ۔ تمہیں دین میں نئی باتوں کی ایجاد سے بچنا ہوگا کیونکہ ہر نئی بات جو دین کے نام سے جاری ہو بِدعت ہے اور بِدعت نِری گمراہی ہے ۔
ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤمنین کی جماعت کو وصیت فرمائی :
عَنْ أبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَيْكَ السَّمْعُ والطَّاعَةُ فِي عُسْرِكَ وَيُسْرِكَ، وَمَنْشَطِكَ وَمَكْرَهِكَ وَاَثَرَةٍ عَلَيْكَ(رواہ مسلم)
بات سنواور اطاعت کروتنگی میں بھی آسائش میں بھی خوشی میں بھی اور تب بھی جب کہ ناپسندیدگی اور ناراضگی کی حالت ہو اور تب بھی جب کہ تجھ پر ناحق غیر کو ترجیح دی جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
اللہ اور اسکے رسول اور ملائکہ کی اطاعت کرو۔ اطاعت ایک ایسی چیز ہے اگر دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نُور اور روح میں ایک لذّت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔ مگر ہاں شرط یہ ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام، جلد دوم، صفحہ 546)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کیلئے میں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے میری طرف سے کسی امر کا اشارہ ہوتا ہے اور وہ تعمیل کیلئے طیار۔ حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی۔جب تک کہ اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے واسطے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو۔حضرت مسیح علیہ السلام کو جو مشکلات اور مصائب اٹھانے پڑے، ان کے عوارض اور اسباب میں سے جماعت کی کمزوری اور بیدلی بھی تھی۔ چنانچہ جب ان کو گرفتار کیا گیا ،تو پطرس جیسے اعظم الحواریّین نے اپنے آقا اور مرشد کے سامنے انکار کر دیا اورنہ صرف انکار کیا،بلکہ تین مرتبہ لعنت بھی بھیج دی اور اکثر ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔اسکے برخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ نے وہ صدق و وفا کا نمونہ دکھایا،جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی،انہوں نے آپ کی خاطر ہر قسم کا دکھ اٹھانا سہل سمجھا۔یہاں تک کہ عزیز وطن چھوڑ دیا اپنے املاک و اسباب اور احباب سے الگ ہو گئے اور بالآخر آپؐکی خاطر جان تک دینے سے تامل اور افسوس نہیں کیا۔یہی صدق اور وفا تھی جس نے ان کو آخر کا ربامرا د کیا۔اسی طرح میں اب دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری جماعت کو بھی اس کی قدر اور مرتبہ کے موافق ایک جوش بخشا ہے اور وہ وفا داری اورصدق کا نمونہ دکھاتے ہیں۔(ملفوظات، جلد1،صفحہ 307-306، ایڈیشن 2018، قادیان)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
قرآن شریف میں جو یہ آیت آئی ہے اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ(الغاشیہ: 18)یہ آیت نبوت اور امامت کے مسئلہ کو حل کرنے کے واسطے بڑی معاون ہے۔اونٹ کے عربی زبان میں ہزار کے قریب نام ہیں اور پھر ان ناموں میں سے ابل کے لفظ کو جو لیا گیا ہے،اس میں کیا سر ہے؟ کیوں الی الجمل بھی تو ہو سکتا تھا؟
اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جمل ایک اونٹ کو کہتے ہیں اور ابل اسم جمع ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ کو چونکہ تمدنی اور اجماعی حالت کا دکھانا مقصود تھا اور جمل میں جو ایک اونٹ پر بولا جاتا ہے،یہ فائدہ حاصل نہ ہوتاتھا،اس لیے ابل کے لفط کو پسند فرمایا۔ اونٹوں میں ایک دوسرے کی پیروی اور اطاعت کی قوت رکھی ہے دیکھو اونٹوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے اور وہ کس طرح پر اس اونٹ کے پیچھے ایک خاص انداز اور رفتار سے چلتے ہیںاور وہ اونٹ جو سب سے پہلے بطور امام اور پیشرو کے ہوتا ہے،وہ ہوتا ہے جو بڑا تجربہ کار اور راستہ سے واقف ہو۔پھر سب اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے برابر رفتار سے چلتے ہیں اور ان میں سے کسی کے دل میں برابر چلنے کی ہوس پیدا نہیں ہوتی جو دوسرے جانوروں میں ہےجیسے گھوڑے وغیرہ میں۔گویا اونٹ کی سرشت میں اتباع امام کا مسئلہ ایک مانا ہوا مسئلہ ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ کہہ کر اس مجموعی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ اونٹ ایک قطار میں جارہے ہوں۔اسی طرح پر ضروری ہے کہ تمدنی اور اتحادی حالت کو قائم رکھنے کے واسطے ایک امام ہو۔
پھر یہ بھی یاد رہے کہ یہ قطار سفر کے وقت ہوتی ہے۔پس دنیا کے سفر کو قطع کرنے کے واسطے جب تک ایک امام نہ ہو انسان بھٹک بھٹک کر ہلاک ہو جاوے۔
پھر اونٹ زیادہ بارکش اور زیادہ چلنے والا ہے۔ اس سے صبر وبرداشت کا سبق ملتا ہے۔
پھر اونٹ کا خاصہ ہے کہ وہ لمبے سفروں میں کئی کئی دنوں کا پانی جمع رکھتا ہے،غافل نہیں ہوتا۔پس مومن کو بھی ہر وقت اپنے سفر کیلئے تیار اور محتاط رہنا چاہیے اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى(البقرہ:198)
اُنْظُرْ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیکھنا بچوں کی طرح دیکھنا نہیں ہے،بلکہ اس سے اتباع کا سبق ملتا ہےکہ جس طرح پر اونٹ میںتمدنی اور اتحادی حالت کو دکھایا گیا ہےاور ان میں اتباع امام کی قوت ہے،اسی طرح پر انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اتباع امام کو اپنا شعار بنا وے،کیونکہ اونٹ جو اسکے خادم ہیں ان میں بھی یہ مادہ موجود ہے۔(ملفوظات، جلد 1،صفحہ 393، مطبوعہ قادیان 2003)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ایک شہد کی مکّھی سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ وہ کیسی دانائی سے گھر بناتی۔ شہد بناتی۔ دانائی کو کام میں لاتی۔ قناعت بھی حد درجے کی کرتی ہے۔ محنت و کسب سے اپنے لئے کھانا مہیا کرتی ہے۔ بدبُودار چیز پر بھی نہیں بیٹھتی۔پھر اپنے امیر کی مطیع ہوتی ہے۔(حقائق الفرقان، جلد2، صفحہ 68)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :جو جماعتیں منظم ہوتی ہیں اُن پر کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور کچھ شرائط کی پابندی کرنی ان کیلئے لازمی ہوتی ہے۔ جن کے بغیر ان کے کام کبھی بھی صحیح طور پر نہیں چل سکتے۔ ان شرائط اور ذمہ داریوں میں سے ایک اہم شرط اور ذمہ داری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کرچکے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرچکے تو انہیں امم کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہ کیا کہتا ہے اور افراد کو بھی ایسے کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے جن کے نتائج ساری جماعت پر آکر پڑتے ہوں۔ پھر امام کی ضرورت اور حاجت ہی نہیں  رہتی۔ امام کا مقام تو یہ ہے کہ وہ حکم دے اور مومن کا مقام یہ ہے کہ وہ پابندی کرے۔(روزنامہ الفضل 5 ؍جون 1937 صفحہ 1،2)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
اَے دوستو! بیدار ہو اور اپنے مقام کو سمجھو اور اسکی اطاعت کا نمونہ دکھاؤ جس کی مثال دنیا کے پردہ پر کسی اور جگہ پر نہ ملتی ہو اور کم سے کم آئندہ کیلئے کوشش کرو کہ سو میں سے سو ہی کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھائیں اور اس ڈھال سے باہر کسی کا جسم نہ ہو جسے خدا تعالیٰ نے تمہاری حفاظت کیلئے مقرر کیا ہے اور اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ پر ایسا عمل کرو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح تم سے خوش ہوجائے۔ (انوار العلوم، جلد 14، صفحہ 525)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
میں نوجوانوں کو کہتا ہوں کہ وہ دین کی خدمت کیلئے آگے آئیں اور صرف آگے ہی نہیں بلکہ اس ارادہ سے آگے آئیں کہ انہوں نے کام کرنا ہے۔ گو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نوجوان آدمی تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی جگہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو کمانڈر انچیف مقرر کردیا ، اس وقت حضرت خالد بن ولید کی پوزیشن ایسی تھی کہ حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے خیال کیا کہ اس وقت ان سے کمانڈر لینا مناسب نہیں، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اپنی برطرفی کا کسی طرح علم ہوگیا، وہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کے پاس میری برطرفی کا حکم آیا ہے لیکن آپ نے ابھی تک اس حکم کو نافذ نہیں کیا۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا : خالد تم نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ اب بھی تم خدمت کرتے چلے جاؤ۔ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن خلیفہ وقت کا حکم ماننا بھی ضروری ہے۔ آپ مجھے برطرف کردیں اور کمانڈر اِنچیف کا عہدہ خودسنبھال لیں۔ میرے سپرد آپ چپڑاسی کا کام بھی کردیں گے تو مَیں اسے خوشی سے کرونگا لیکن خلیفہ وقت کا حکم بہر حال جاری ہونا چاہئے۔ حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا کمان تو مجھے لینی ہی پڑے گی کیونکہ خلیفہ وقت کی طرف سے یہ حکم آچکا ہے لیکن تم کام کرتے جاؤ۔ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا آپ حکم دیتے جائیں، میں کام کرتا چلا جاؤں گا۔ چنانچہ بعد میں ایسے مواقع بھی آئے کہ جب ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں سو سو عیسائی تھا لیکن خالد رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ یہی مشورہ دیا کہ آپ ان کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہیں۔
خدا تعالیٰ کے اس وعدہ پر یقین رکھو کہ اسلام اور احمدیت نے دنیا پر غالب آنا ہے۔ اگر یہ فتح تمہارے ہاتھوں سے آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت تمہارے لئے وقف ہوگی کیونکہ تم اسلام کی کمزوری کو قوت سے اور اس کی شکست کو فتح سے بدل دوگے۔ خدا تعالیٰ کہے گا گو قرآن کریم میں نے نازل کیا ہے لیکن اس کو دنیا میں قائم ان لوگوں نے کیا ہے۔ پس اس کی برکات تم پر ایسے رنگ میں نازل ہوں گی کہ تم اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کروگے اور وہ تمہاری اولاد کو بھی ترقیات بخشے گا۔ ‘‘(خطبہ 9 دسمبر 1955، مطبوعہ الفضل 18 دسمبر 1955)
آیتِ استخلاف کی تشریح کرتے ہوئےحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  :
پھر خلافت کے ذکر کیساتھ ہی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ یعنی جب خلافت کا نظام جاری کیا جائے تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم نمازیں قائم کرو اور زکوٰہ دو اس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو گویا خلفاء کے ساتھ دین کی تمکین کرکے وہ اطاعت رسول کرنے والے ہی قرار پائیں گے۔ یہ وہی نکتہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ مَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ پس وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ فرماکر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس وقت رسول کی اطاعت اسی رنگ میں ہوگی کہ اشاعت و تمکین دین کیلئے نمازیں قائم کی جائیں، زکوٰتیں دی جائیں اور خلفاء کی پورے طور پر اطاعت کی جائے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اقامت صلوٰۃ اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔
(تفسیر کبیر، جلد 6،صفحہ 367)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
اطاعتِ رسول بھی جس کا اس آیت میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہوسکتی کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے ایک رشتہ میں پرو دیا جائے۔ یوں تو صحابہؓ بھی نمازیں پڑھتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں۔ صحابہؓبھی حج کرتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں۔ پھر صحابہؓ اور آج کل کے مسلمانوں میں فرق کیا ہے؟ یہی ہے کہ صحابہؓ میں ایک نظام کا تابع ہونے کی وجہ سے اطاعت کی روح حدِ کمال کو پہنچی ہوئی تھی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے صحابہؓاسی وقت اس پر عمل کرنے کیلئے کھڑے ہوجاتے تھے… کیونکہ اطاعت کا مادہ نظام کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا ۔پس جب بھی خلافت ہوگی اطاعت رسول بھی ہوگی۔
(تفسیر کبیر ،جلد 6،صفحہ 369)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَااسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ کہ جہاں تک ہو سکے اپنی طاقت، قوت اور استعداد کے مطابق تقوی کی راہوں پر چلتے رہو اور تقوی یہ ہے کہ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا (بخاری کتاب الجھاد و السیر باب السمع والطاعۃ للامام)کہ اللہ تعالیٰ کی آواز سنو اور لبیک کہتے ہوئے اس کی اطاعت کرو۔ اگر تم تقوی کی راہوں پر چل کر سَمْعًا وَّ طَاعَۃًکا نمونہ پیش کرو گے۔ تو تمہیں اللہ تعالیٰ اس بات کی بھی توفیق دے گا کہ تم اپنی جانوں، مالوں اور عزتوں سب کو اسکی راہ میں قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائو اس طرح تمہیں دل کے بخل سے محفوظ کر لیا جائے گا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
اس نسخہ کو نبی کریمﷺ کے صحابہؓ نے خوب سمجھا اور پھر اس پر خوب عمل کیا دیکھو دنیا میں بھی انہیں ایسی کامیابی نصیب ہوئی کہ کسی اور قوم کو ویسی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ اور اسی زندگی میں ان کو آئندہ کے متعلق ایسی بشارتیں ملیں کہ کسی اور قوم کو ان کا حقدار قرار نہیں دیا گیا یا پھر اس نسخہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت نے سمجھا اور اس کے مطابق عمل کرکے حقیقی کامیابی اور فلاح کے حصول کیلئے جدو جہد کی اور کر رہی ہے اور آئندہ بھی اسی راہ پر گامزن رہے گی۔ انشاء اللہ ۔(خطبات ناصر، جلد1، صفحہ 244 تا245 ، خطبہ جمعہ 6؍ مئی 1966)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قیامت تک کیلئے خلافت سے اپنا دامن اس مضبوطی سے باندھ لیں کہ جیسے عُروہ وثقیٰ پر ہاتھ پڑ گیا ہو جس کا ٹوٹنا مقدر نہیں …پس آپ اگر خلافت کے ساتھ رہیں گے تو خلافت لازماً آپ کے ساتھ رہے گی اور یہی دونوں کا ساتھ ہے جو توحید پر منتج ہوگا۔(بحوالہ ماہنامہ خالد مئی 1944 صفحہ 2تا4)
سیّدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
واضح ہو کہ اب اللہ کی رسّی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود ہی ہے، آپؑکی تعلیم پر عمل کرنا ہےاور پھر خلافت سے چمٹے رہنا بھی تمہیں مضبوط کرتا چلا جائے گا۔ خلافت تمہاری اکائی ہوگی اور خلافت تمہاری مضبوطی ہوگی۔ خلافت تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آنحضرتﷺ کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے جوڑنے والی ہوگی۔ پس اس رسّی کو بھی مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ ورنہ جو نہیں پکڑے گا وہ بکھر جائے گا، نہ صرف خود برباد ہوگا بلکہ اپنی نسلوں کی بربادی کے سامان بھی کررہا ہوگا۔
اسی تسلسل میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
آج ہر احمدی کو حبل اللہ کا صحیح ادراک اور فہم حاصل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صحابہ کی طرح قربانیوں کے معیار قائم کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے۔ قرآن کریم کے تمام حکموں پرعمل کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے۔ اگر ہر فرد جماعت اس گہرائی میں جا کر حبل اللہ کے مضمون کو سمجھنے لگے تو وہ حقیقت میں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے ایک جنت نظیر معاشرے کی بنیاد ڈال رہا ہوگا۔ جہاں بھائی بھائی کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں گے، میاں بیوی کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں گے، ساسوں، بہوؤں کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں گے۔ دوست دوست کے حق ادا کرتے ہوئے اس کی خاطر قربانی دے رہا ہوگا۔ جماعت کا ہر فرد نظام جماعت کی خاطر قربانی دینے کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی کوشش کررہاہوگا۔ (خطبہ جمعہ26؍اگست2005 ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 16؍ستمبر2005صفحہ6تا7)
سیّدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 کے موقع پر مستورات سے خطاب میں فرمایا :
’’جن گھروں میں نظام کے خلاف باتیں ہوتی ہیں وہاں جماعت سے بھی دوری پیدا ہوجاتی ہے۔ اور عبادات سے بھی دوری پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض گھر جہنم کا نمونہ پیش کررہے ہوتے ہیں۔ بچوں کی تربیت خراب ہورہی ہوتی ہے۔ بعض بچے اپنے والدین کے منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ ہماری اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح کریں۔ عورت جو گھر کی نگران بنائی گئی ہے وہ اپنی دنیاوی خواہشات کے پیچھے لگ کر گھر کو تباہ کررہی ہوتی ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 19-25 مئی 2006ء صفحہ 2)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہمارے لئے ضرور ہے کہ ہم اس کے شگرگزار بندے بن کے اپنی زندگیوں کے دن گزاریں اور جماعت کے اندر اتحاد اور اتفاق کو ہمیشہ قائم رکھیں اور اس حقیقت کو نظر انداز نہ کریں کہ سب بزرگیاں اور ساری ولایت خلافت راشدہ کے پاؤں کے نیچے ہے(تعمیر بیت اللہ کے 23 عظیم الشان مقاصد، صفحہ 116)
سیّدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے امت مسلمہ کی اصلاح کے متعلق دنیا بھر کے احمدیوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا :
یہ دَور جو فساد میں بڑھتے چلے جانے کا دَور ہے، جس میں بڑی طاقتوں کی نظریں بھی اسلامی ممالک کے وسائل پر لگی ہوئی ہیں، اس میں بہت زیادہ کوشش کرکے ہم احمدیوں کو، ہر اسلامی ملک کو بھی اور مسلم امّہ کو بھی ہوس پرستوں کی ہوس سے بچانے کیلئے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اقدام کرنے چاہئیں۔(خطبہ جمعہ 17 ؍فروری 2012مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍مارچ2012صفحہ8)
مامور زمانہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک عظیم مقصد امت مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پرونا ہے۔ چنانچہ آپؑکو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا :’’سب مسلمانوں کو جو رُوئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ‘‘(الہام 20 نومبر 1905، تذکرہ، صفحہ 490)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’وحدت قائم نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے۔‘‘(تفسیر سورۃ النساء آیت نمبر60، بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 27 جولائی تا 12؍اگست 2021 اطاعت خلافت نمبرصفحہ88)
اطاعت اسلامی سنہری اصول::
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ (النساء:60) یعنی اطاعت کے حکم میں اللہ اور رسول کے علاوہ اولی الامر بھی شامل ہیں۔ اولی الامر کون ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے۔(ضرورۃ الامام روحانی خزائن جلد 13، صفحہ 493)
سیّدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’پھر نظام جماعت ہے اس میں چھوٹے سے چھوٹے عہدیدار سے لیکر خلیفہ وقت تک کی اطاعت ہے۔ اور اصل میں تو یہ تسلسل ہے اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کا۔‘‘(خطبہ جمعہ 22؍اپریل 2011 )
خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق::
نبی کی نیابت کے حوالہ سے خلیفہ کا مقام بہت بلند ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قبولیت دعا کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ جس کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت کو بڑھادیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے۔‘‘(انوار العلوم جلد 2 صفحہ 47 منصب خلافت صفحہ 32)
پس خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق بڑھانے کیلئے ہمیں باقاعدگی سے دعائیہ خطوط لکھتے رہنے چاہئیں اور ہمیشہ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پیاری جماعت کو اپنے درخت وجود کی سرسبز شاخیں قرار دیا ہے۔ دراصل یہ نصیحت ہم سب احمدیوں کیلئے ہے کہ دیکھو میرے ساتھ اور میرے بعد میرے خلفاء کے ساتھ اگر تم نے تعلق پختہ رکھا اور اطاعت کا کماحقہ حق ادا کیا تو تب ہی تم سرسبز اور شاداب رہ سکوگے۔
نظام خلافت سے وابستگی کی اہمیت کے بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  :
جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنادیا… اس سے جتنا زیادہ تعلق رکھوگے اسی قدر تمہارے کاموں میں برکت ہوگی اور اس سے جس قدر دور رہوگے اسی قدر تمہارے کاموں میں بے برکتی پیدا ہوگی۔ جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو ۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کرسکتی جو درخت سے جدا ہو۔ اسی طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کرسکے گا جتنا بکری کا بکروٹہ کرسکتا ہے(روزنامہ الفضل قادیان 20 ؍نومبر 1946، صفحہ 7)
سیّدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
خلیفۂ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے۔ ان کے ذاتی خطوط آتے ہیں جن میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہوتا ہے۔ ان روزانہ کے خطوط کو ہی اگر دیکھیں تو دنیا والوں کیلئے ایک یہ ناقابل یقین بات ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے۔ ان کیلئے خلیفۂ وقت دعا کرتا ہے۔
کون سا دنیاوی لیڈر ہے جو بیماروں کیلئے دعائیں بھی کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کیلئے بے چین اور ان کیلئے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو۔ حکومت بیشک تعلیمی ادارے بھی کھولتی ہے۔ صحت کے ادارے بھی کھولتی ہے۔ تعلیم تو مہیا کرتی ہے لیکن بچوں کی تعلیم جو اس دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی فکر صرف آج خلیفۂ وقت کو ہے۔ جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ ان کی صحت کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے۔ رشتے کے مسائل ہیں۔ غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کیلئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ مَیں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍جون 2014ء)
ایک پیاری حدیث ::
عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ  اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ خِیَارُ اَ ئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ وَیُحِبُّوْنَکُمْ ، وَتُصَلُّوْنَ عَلَیْھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ ۔(مسلم کتاب الامارۃ باب خیار الائمۃ وشرارھم)
حضرت عوف بن مالکؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ تمہارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبّت کرتے ہو اور وہ تم سے محبّت کرتے ہیں ۔ تم ان کیلئے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں ۔
پیاری بستی قادیان کے نظارے::
قادیان دارالامان کی پیاری بستی میں حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی پیاری جماعت خلیفہ وقت کیلئے نمازوں میں اور بہشتی مقبرہ میں مزار مبارک پر ہر روز دعائیں کرتی ہے اور جب کبھی بھی کوئی خاص مسئلہ درپیش ہو تو مزار مبارک پر اجتماعی دعا اور نماز تہجد باجماعت ادا کی جاتی ہے اور صدقات دئیے جاتے ہیں اور یہ ہی نظارے ساری دنیا میں اجتماعی دعا اور نوافل کے ہوتے ہیں۔ اللھم اید امامنا بروح القدس ۔ آمین۔
خلیفہ وقت اور جماعت کے افراد کا آپسی پیار و محبت کا رشتہ دنیاوی تمام رشتوں سے بالا اور پاک ہے اور اسکے علاوہ روحانیت میں جماعت کے افراد کو بڑھانے والا ہے۔خلیفہ وقت کی دعائیں افرادِ جماعت کیلئے اور پوری جماعت کیلئے قبول ہوتی ہیں تو افرادِ جماعت ایمان و ایقان میںپہلےسے زیادہ بڑھ جاتے ہیںاور اللہ اور اسکے رسول کی محبت میں کثرت سے درود پڑھتے ہیں اور خلیفہ وقت کیلئے پہلے سے زیادہ دعائیں کرتے ہیں۔ سبحان اللہ۔
ایک اہم ذمہ داری اولاد کو تلقین::
نظام خلافت کی حفاظت اور اسکے استحکام کے کاموں میں ہر ایک کو اپنی اولاد کو بھی شامل کرنا چاہئے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر حضرت مصلح موعود ری اللہ عنہ نے جماعت سے ایک عہد لیا تھا :
ہم نظام خلافت کی حفاظت اوراس کے استحکام کیلئے آخر دم تک جد و جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد دراولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے ۔ اَے خدا تُو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اللھم آمین۔ اللھم آمین۔ اللھم آمین۔(روزنامہ الفضل ربوہ 16؍فروری1960ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صد سالہ خلافت جوبلی جلسہ کے افتتاح کے موقعہ پر 27 ؍مئی 2008 کو ایکسل سینٹر لندن میں ایک عہد لیا تھا ، وہ یہ ہے :
’’اسلام احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کیلئے آخر دم تک جدو جہد کرنی ہے اور اس کیلئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہنا ہے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہنا ہے اور ان کے دلوں میں خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنی ہے۔ یہ اتنا بڑا اور عظیم الشان نصب العین ہے کہ اس عہد پر پورا اترنا اور اس کے تقاضوں کو نبھانا ایک عزم اور دیوانگی چاہتا ہے۔ ‘‘(ماہنامہ الناصر جرمنی جون تاستمبر2003صفحہ1)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیں خلافت سے سچے اخلاص و وفا کے ساتھ چمٹائے رکھے اور اس تعلق میں ہر ذمہ داری کو اپنے فضل سے نبھانے کی توفیق عطا فرماتا چلاجائے۔ آمین۔

…٭…٭…٭…