اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-25

تربیت اولاد اور احمدی ماؤں کی ذمہ داریاں، محبت الٰہی، نماز، تلاوت، خلافت سے محبت اور اعلیٰ اخلاق
( ڈاکٹر منصورہ الٰہ دین، صدر لجنہ اماء اللہ قادیان)
تقریر جلسہ سالانہ قادیان 2022ء(مستورات کے اجلاس سے)

 

رَبَّنَاھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّ ۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (سورۃ الفرقان آیت :75)
نکلیں تمہاری گود سے پل کر وہ حق پرست
ہاتھوں سے جن کے دین کو نصرت نصیب ہو
ایسی تمہارے گھر کے چراغوں کی ہو ضیاء
عالم کو جن سے نور ہدایت نصیب ہو


محترمہ صدر صاحبہ و پیاری بہنو و بچیو!!میری تقریر کا عنوان ’’ تربیت اولاد اور احمدی ماؤں کی ذمہ داریاں ، محبت الٰہی ، نماز، تلاوت، خلافت سے محبت اور اعلیٰ اخلاق ‘‘ ہے۔
جو آیت کریمہ آپ نے سماعت فرمائی اسکا ترجمہ یہ ہے کہ اَے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔
پیاری بہنو!! ہم اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر بجا لائیں وہ کم ہے کہ اُس نے ہمیں اس دور کے امام کو پہچاننے اور اس پر ایمان لانے کی توفیق بخشی۔ آج سے ایک صدی قبل جب چاروں طرف تاریکی کا دور دورہ تھا اور کشتیٔ اسلام بھنور میں پھنسی ہوئی ہچکولے کھا رہی تھی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا ۔ آپؑ نے اللہ تعالیٰ کی مدد سے مخالفتوں کی تیز و تند آندھیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کشتیٔ اسلام کو ڈوبنے سے بچایا اور خدا کے دین کی خاطر اپنے مال، عزت اور اولاد کو قربان کر دینے والی ایک ایسی جماعت قائم کر دی جس کا آج دشمن بھی معترف ہے کہ ہاں اسلام کی خدمت پر کمر بستہ اگر کوئی جماعت اِس دور میں ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہی ہے۔
پیاری بہنو! اِس جماعت کے افراد ہونے کا شرف ہم پر جو ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اُن کی طرف میں اپنی بہنوں کو توجہ دلانا چاہتی ہوں۔
یہ ایک حقیقت ہے اور تاریخ عالم شاہد ہے کہ کسی بھی قوم کے بام عروج پر پہنچ جانے کا راز عورت کی عقل و ہمت اور بلند کرداری ہی میں مضمر ہے اور اسی طرح اگر کسی قوم کے زوال کی وجوہات تلاش کی جائیں تو اُس میں بھی ہمیں عورت ہی کاہاتھ نظر آتا ہے۔ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اِسی حقیقت کے پیش نظر جماعت کی مستورات کی دینی اور علمی ترقی کیلئے لجنہ اماء اللہ کا قیام فرمایا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں مستورات کی تربیت کیلئے بے انتہا تڑپ تھی۔ آپ کی دور بین نگاہ نے یہ دیکھ لیا تھا کہ جب تک جماعت کی عورتوں کی اصلاح نہیں ہوگی اُس وقت تک جماعت ترقی نہیں کر سکتی۔ آپؓفرماتے ہیں :
’’اصل ذمہ داری عورتوں پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی ہے اور یہ ذمہ داری جہاد کی ذمہ داری سے کچھ کم نہیں ۔ اگر بچوں کی تربیت اچھی ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور قوم ترقی کرتی ہے اور اگر اُن کی تربیت اچھی نہ ہو تو قوم ضرور ایک نہ ایک دن تباہ ہو جاتی ہے۔ پس کسی قوم کی ترقی اور تباہی کا دار و مدار اس قوم کی عورتوں پر ہی ہے۔ اگر آج کل کی مائیں اپنی اولاد کی تربیت اُسی طرح کرتیںجس طرح صحابیات نے کی تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ان کے بچے بھی ویسے ہی قوم کے جاںنثار سپاہی ہوتے جیسے کہ صحابیات کی اولادیں تھیں۔ اگر آج بھی خدا نہ خواستہ جماعت احمدیہ میں کوئی خرابی واقع ہوئی تو اُسکی عورتیں ہی ذمہ دار ہوں گی۔‘‘(الازھار، صفحہ 327)
تربیت اولاد میں سب سے زیادہ اہمیت جس چیز کو حاصل ہے وہ والدین کی دعائیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے پیدائش سے پہلے سے لیکر تا دمِ حیات اولاد کیلئے دعائیں کرنے کا حکم دیا ہے ۔ پیدائش سے قبل نیک اور صالح اولاد کیلئے اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(سورۃ آل عمران :39) یعنی اَے میرے رب! اپنی جناب سے مجھے نیک اور طیب اولاد عطا فرما۔ یقیناً تو ہی دعاؤں کو سننے والا ہے۔
پھر بعد میں اولاد کو نیک اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے کیلئے بھی دعا سکھائی۔
رَبَّنَاھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (سورۃ الفرقان: 75)اَے ہمارے ربّ! ہم کو ہمارے ازواج کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔
پس ماؤں کا اوّلین فرض ہے کہ وہ اپنا پورا زور دعا پر لگا دیں۔ پیدائش سے پہلے سے دعا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں کہ اے اللہ یہ اولاد جو تونے عطا کی ہے ہم طاقت نہیں رکھتے کہ انکی صحیح پرورش اور صحیح تربیت کر سکیں تُو ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم ان کی عمدہ رنگ میں تربیت کر سکیں اور ان کو تیرے دین کے فدائی بنا سکیں اور یہ اولاد ہمارے لئے بھی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور تیری رضا بھی حاصل کریں۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بچوں کی تربیت کیلئےدعاؤں پر زور دینے کیلئے تلقین فرمائی ہے ۔ آپ علیہ السلام بچوں کو بدنی سزا دینے اور زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کرنے کو ناپسند فرماتے تھے اور اکثر یہی فرماتے تھے کہ بچوں کیلئے دعا کو اپنا معمول بنا لو۔ آپ کی عملی زندگی کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ آپ اپنی اولاد کیلئے دعا کرتے ہوئے اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں :

کر اِن کو نیک قسمت دے اِنکو دین و دولت
کر اِنکی خود حفاظت ہو اِن پر تیری رحمت
دے رُشد اور ہدایت اورعمر اور عزّت
یہ روز کر مبارک سبحان من یّرانی
شیطاں سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو
جان پرزِ نور رکھیو دل پُر سرور رکھیو
اِن پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو
یہ روز کر مبارک سبحان من یّرانی


دعاؤں کے ساتھ بچوں کو اچھی باتوں کی تلقین اور نصیحت اور اسکے ساتھ اپنا عملی نمونہ دکھانا بھی نہایت ضروری ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے:
اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ
اس میں بھی وہی فلسفہ بیان کیا گیا ہے کہ اپنی اولاد کی عزت کرو تاکہ ان کے اندر عزتِ نفس پیدا ہو۔ جب ہم اپنے بچوں کی عزت کرتے ہوئے محبت سے اُن کو نیک باتوں کی ترغیب دلائیں گے تو وہ بھی ہمیں اپنا سچا خیر خواہ سمجھیں گے اور والدین کی اطاعت کریں گے۔
حضرت اُمّ المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جس رنگ میں اپنے بچوں کی تربیت کی ،اسکے بارہ میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’بچے پر ہمیشہ اعتبار اور پختہ اعتبار ظاہر کر کے اسکی والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آپ کا بڑا اصول تربیت ہے تو بچے پر اعتبار کرو اور اس کو شک سے نہ دیکھا کریں۔ جھوٹ سے نفرت، غیرت اور غنا آپ کا اوّل سبق ہوتا تھا۔ ہم لوگوں سے بھی آپ ہمیشہ یہی فرماتیں کہ بچے میں یہ عادت ڈال لو کہ وہ کہنا مان لے۔ پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی آئےتو کوئی ڈر نہیں۔ جس وقت بھی روکا جائے گا باز آجائے گا اور اصلاح ہو جائے گی۔ فرماتیں کہ اگر ایک بار تم نے کہنا ماننے کی عادت ڈال دی تو پھر ہمیشہ اصلاح کی اُمید ہے ۔یہی آپ نے ہم لوگوں کو سکھا رکھا تھا اور کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ ہم والدین کی عدم موجودگی کی حالت میں بھی ان کے منشاء کے خلاف کر سکتے ہیں۔‘‘
حضرت اُمّ المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہمیشہ فرماتی تھیں کہ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا بلکہ زیادہ متنفر کرتا تھا۔
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو جماعت کی مستورات اور بچیوں کی تربیت کی اِس قدر فکر تھی کہ آپ نے بے شمار لیکچر عورتوں میں اس تعلق سے دیئے جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ اُن کو بار بار پڑھنا اور ان پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے۔آپ فرماتے ہیں:
قوم میں جنت ماؤں کے ذریعہ سے ہی آتی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے یہ کتنا لطیف فقرہ ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے ماں کی کس قدراہمیت بیان فرمائی ہے۔ عام طور پر لوگ اسکے یہ معنی کرتے ہیں کہ ماں کی اطاعت اور فرمانبرداری میں جنت ملتی ہے۔ یہ بھی درست ہے لیکن اسکے اصل معنی یہ ہیں کہ درحقیقت قوم میں جنت تبھی آتی ہے جب مائیں اچھی ہوں اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے والی ہوں اگر مائیں اچھی نہ ہوں تو اولاد بھی کبھی اچھی نہیں ہوگی اور جس قوم کی اولاد اچھی نہیں ہوگی اس قوم میں جنت بھی نہیں آئے گی۔
حضور انور فرماتے ہیں:’’ ہمیشہ اولاد کی فکر کے ساتھ تربیت کرنی چاہئے اور ان کی راہنمائی کرنی چاہئے۔ عورتوں کو اپنے گھروں میں وقت گزارنا چاہئے۔ مجبوری کے علاوہ جب تک بچوں کی تربیت کی عمر ہے ضرورت نہیں ہے کہ ملازمتیں کی جائیں۔ کرنی ہیں تو بعد میں کریں۔ بعض مائیں ایسی ہیں جو بچوں کی خاطر قربانیاں کرتی ہیں حالانکہ پروفیشنل ہیں، ڈاکٹر ہیں اور اچھی پڑھی لکھی ہیں لیکن بچوں کی خاطر گھروں میں رہتی ہیں اور جب بچے اس عمر کو چلے جاتے ہیں جہاں ان کو ماں کی فوری ضرورت نہیں ہوتی، اچھی تربیت ہو چکی ہوتی ہے تو پھر وہ کام بھی کر لیتی ہیں۔ تو بہر حال اس کیلئے عورتوں کو قربانی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو اعزاز بخشا ہے کہ اسکے پاؤں کے نیچے جنت ہے وہ اسی لئے ہے کہ وہ قربانی کرتی ہے ۔ عورت میں قربانی کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جو عورتیں اپنی خواہشات کی قربانی کرتی ہیں ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی 2015ء)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2004ء میں نائیجیریا میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے خطاب میں احمدی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’عورتیں یاد رکھیں کہ اُن کا اسلامی معاشرے میں ایک بلند مقام ہے ۔ اگر انہوں نے اپنے اس بلند مقام کو نہ پہچانا تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ ان کی آئندہ نسلیں ایمان پر قائم رہیں گی۔ خواتین اپنے اس مقام کو پہچانیں جو اُن کا معاشرے میں ہے۔ نہیں تو وہ اپنے خاوندوں اور آئندہ نسلوں کی نافرمان اور اُن کا حق ادا نہ کرنے والی سمجھی جائیں گی اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے پیدا کرنے والے سے بے وفائی کر رہی ہوں گی۔ پس یہ انتہائی اہم ہے کہ ہر احمدی عورت اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتی رہے اور ہمیشہ یہ دعا کرتی رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی راہنمائی کرے اور اس کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق پرورش کر سکے۔‘‘
تربیت اولاد کے حوالے سے ایک ماں کی ذمہ داریوں کے جو چند پہلو میری تقریر کا حصہ ہیں وہ پیش کرتی ہوں۔

خدا تعالیٰ سے محبت


تربیت اولاد کیلئے سب سے اوّل خدا تعالیٰ کی محبت اور اس سے کامل تعلق پیدا کرنا ہے ۔ چنانچہ ایک ماں کیلئے ضروری ہے کہ اپنے مقصد پیدائش کو سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والی اور اپنی اولاد کی اس طور پر تربیت کرنے والی ہوکہ بچے کے دل میں شروع سے ہی محبت الٰہی پیدا کرے ۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ بچوں کو پہلی بات جو سکھانی ہے وہ لا الہ الا اللہ ہے سب سے پہلا درس بچے کے کان میں خدا کی بڑائی اور کبریائی کا ہو۔نو مولود بچے کی تربیت اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ سب سے پہلے بچے کے کان میں اذان دینے کا حکم آنحضرت ﷺ نے دیا۔
جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جائیں ماؤں کا فرض ہے کہ وہ موقع کی مناسبت سے بچوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانوں کے بارہ میں بتا کر اس کا شکر ادا کرنے والے بنائیں اور اس حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت بچوں کے دلوں میں پیدا کریں۔ مثلاً کھانے پینے کے وقت اُسے سمجھائیں کہ یہ رزق ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے جو کس قدر محنت کے بعد ہم تک پہنچا ہے اس پر ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بچپن سے اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کریں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عبد الرحمٰن بنائیں۔ بچپن سے اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کریں۔ جب ذرا بات سمجھنے لگ جائیں تو جب بھی کوئی چیز دیں تو یہ کہہ کر دیں کہ یہ تمہیں اللہ میاں نے دی ہے۔ شکر کی عادت ڈالیں پھر آہستہ آہستہ سمجھائیں کہ جو چیز مانگنی ہے اللہ میاں سے مانگو۔‘‘(خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ 2003ء)
ایک ماں کی ذمہ داریوں میں دوسری اہم ذمہ داری ادائیگی نماز کی محبت بچوں کے دلوں میں پیدا کرنا ہے۔
میری پیاری بہنو! یہ ایک حقیقت ہے کہ تربیت عمل سے شروع ہوتی ہے مثلاً جب ہم فرائض کی پابندی کریں گی اور منکرات سے پرہیز کریں گی تو لا محالہ ہماری اولاد بھی ایسا ہی کرے گی ۔ہم نماز پڑھنے مسجد میں جائیں گی تو ہمارےبچے دوڑ کر ساتھ جائیں گے۔ماں گھر میں نماز پڑھے گی تو چھوٹے بچے اس کی نقّالی میں سجدے بجا لائیں گے۔ لیکن اگر ہم خود نماز کی پابند نہ ہوں گی اور بچوں کو نماز کی تلقین کریں گی اور توقع رکھیں گی کہ وہ نماز ی بن جائیں گے تو یہ محض ایک خام خیالی ہو گی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ نماز تو انسانی زندگی کی جان ہے۔ نماز نہ ہو تو کچھ بھی رشتہ خدا سے باقی نہیں رہتا ۔ تو اس کی عادت ڈالنےکیلئے بھی بچپن سے تربیت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اچانک یہ عادت بچوں میں نہیں پڑا کرتی۔ اس کا طریقہ آنحضرت ﷺ نے یہ سکھایا ہے کہ سات سال کی عمر سے اُن کو ساتھ نماز پڑھانا شروع کرو اور پیار سے ایسا کرو۔ کوئی سختی کرنے کی ضرورت نہیں ۔ کوئی مارنےکی ضرورت نہیں ۔ اس کے بعد وہ بچہ اگر دس سال کی عمر تک پیار اور محبت سے سیکھتا رہے پھر 10 اور 12 سال کے درمیان اس پر کچھ سختی کرو کیونکہ وہ کھلونڈری عمرایسی ہے کہ اس میں کچھ معمولی سزا کچھ سخت الفاظ کہنا یہ ضروری ہوا کرتا ہے بچوں کی تربیت کیلئے۔‘‘ (خطبہ جمعہ مؤرخہ 11؍فروری 2000ء)
حضرت اُمّ المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ نمازوں کی بڑی پابندی کیا کرتی تھیں۔ روزانہ صرف نمازوں کی ادائیگی ہی نہیں بلکہ وقت پر ادائیگی کی پابندی فرماتی تھیں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتی تھیں۔ آپ کا یہ حال تھا کہ نماز کا وقت ہونے پر وضو کر کے اذان کا انتظار کر رہی ہوتی تھیں اور اذان کے بعد اپنے ارد گرد کے بچوں کو کہتیں کہ میں نماز پڑھنے لگی ہوں لڑکیو تم بھی نماز پڑھو۔
اس طرح اپنے عملی نمونہ سے نصیحت فرماتی تھیں تودیکھیں یہی نصیحت کا سب سے بہتر ذریعہ ہے۔
ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نماز کا ترجمہ بھی بچپن میں سکھائیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عبادت کا تعلق محبت سے ہے اور محض رسمی طور پر ترجمہ سکھانے کے نتیجے میں عبادت آئے گی کسی کو نہیں، وہ ماں باپ جن کا دل عبادت میں ہو جن کو نماز سے پیار ہو جب وہ ترجمہ سکھاتے ہیں بچے سے ذاتی تعلق رکھتے ہوئے۔ بچہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا ہوتا ہے ان کے دل کی گرمی کو محسوس کر رہا ہوتا ہے ان کے جذبات سے اس کے اندر بھی ایک ہیجان پیدا ہو رہاہوتا ہے وہ اگر نماز سکھائیں تو ان کا نماز سکھانے کا انداز اور ہوگا…ہر احمدی کو نماز کے معاملے میں کام کرنا پڑے گا ۔محنت کرنی پڑے گی۔ اپنے نفس کو شامل کرنا پڑے گا۔ اپنے سارے وجود کو اس میں داخل کرنا پڑےگا تب وہ نسلیں پیدا ہوں گی جو نمازی نسلیں ہوں گی خدا کی نظر میں ۔‘‘ (خطبہ جمعہ 8؍نومبر 1985ء)

تلاوت قرآن کریم


اسی طرح تربیت کا ایک اور پہلو تلاوت قرآن کریم ہے اس میں بھی باقاعدگی ہونی چاہئے۔ روزانہ صبح کے وقت ہر احمدی گھر سے تلاوت کی آوازاٹھنی اور سنائی دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میںنہ صرف تلاوت کرنے کا حکم دیا ہےبلکہ تلاوت قرآن کریم کیلئےسب سے موزوں وقت بھی بتا دیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ قُرْآنَا لْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا۔(سورۃ بنی اسرائیل آیت 79)
یقیناً فجر کو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اس کی گواہی دی جاتی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں: ہماری نسلوں کو اگر سنبھالنا ہے تو قرآن کریم نے سنبھالنا ہے۔ تلاوت قرآن کریم کی عادت ڈالنا اور اسکے معنی پر غور کرنا یہ ہماری تربیت کی بنیادی ضرورت ہے اور تربیت کی کنجی ہے۔ کوئی بچہ نہ ہو جسے تلاوت کی عادت نہ ہو اس کو کہیں کہ تم ناشتہ چھوڑ دیا کرو مگر اسکول سے پہلے تلاوت ضرور کرنی ہے اور تلاوت کے وقت کچھ ترجمہ ضرور پڑھو خالی تلاوت نہ کرو۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍جولائی 1997ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اسی طرح احمدی ماؤں اور بچیوں کو میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جب آپ نمازوں کی طرف توجہ کریں تو قرآن کریم کے پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی طرف بھی توجہ کریں اس سے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پتہ چلے گا اور اُس سے آپ کو اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے کے راستے ملیں گے۔ پس قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور اسکا ترجمہ پڑھنا بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سمجھنے کیلئے بہت ضروری ہے ۔‘‘(جلسہ سالانہ ماریشس 2005ء، الازہار حصہ اوّل جلد سوم صفحہ 354-355 )
پس ہم ماؤں کی اہم ذمہ داری ہے کہ خود باقاعدگی سے تلاوت قرآن کریم کریں۔ اسکے معانی اور مطالب کو سیکھیں،سمجھیں ،اس پر عمل کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں ۔ وباللہ التوفیق

خلافت سے محبت


اسی طرح تربیت اولاد کے سلسلہ میں ایک اہم پہلو اپنے اور اپنے بچوں کے اندر خلافت سے محبت کی روح پیدا کرنا ہے۔ آج روئے زمین پر بسنے والے تمام لوگوں میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو نظام خلافت سے وابستہ ہو کر عافیت کے حصار میں ہے اور اس کی برکات و فیوض سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ برکات ہمارے اندر نسلاً بعد نسلٍ جاری رہیں تو ہم پر یہ عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم مکمل اخلاص و وفا کے ساتھ خلیفۂ وقت کی اطاعت کرنے والی ہوں اور ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، اوڑھنا، بچھونا سب امام وقت کے اشاروں پر ہو۔ یہی خلافت کا قرب پانے اور اس کی برکات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم باقاعدگی سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے تمام خطبات اور پروگرام سنیں اور باقاعدگی سے حضور انور کی خدمت میں دعائیہ خطوط لکھیں اور اپنے بچوں میں بھی یہ عادت ڈالیں اور بچوں کو تلقین کریں کہ کوئی بھی اہم فیصلہ لینے سے پہلے اپنے پیارے امام وقت سے ضرور راہنمائی حاصل کریں نیزخلیفۂ وقف سے اگر ملاقات کا موقع ملے تو اسے ضرور فوقیت دیں اور ایم ٹی اے سے اپنے بچوں کو جوڑے رکھیں اور خود بھی اسکےپروگرامز ان کے ساتھ ملکر دیکھیں۔اپنے اور اپنے بچوں میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کیلئے خاص طور پر دعا کرنے کی عادت پیدا کریں اس سے حضور انور سے وفا و محبت کا تعلق مضبوط سے مضبوط ہوتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ ۔
خلافت سے محبت کے تعلق سے جلسہ سالانہ تنزانیہ 2005ء کے موقع پر ایک خطاب میں حضور انور نے فرمایا:
’’یوگانڈا میں بھی جب ہم اترے ہیں اور گاڑی سے باہر نکلے تو ایک عورت اپنے بچے کو اٹھاتے ہوئے جو دو اڑھائی سال کا بچہ تھا ساتھ ساتھ دوڑتی جا رہی تھی۔ اسکی اپنی نظر میں بھی پہچان تھی، خلافت اور جماعت سے ایک تعلق نظر آ رہا تھا ۔وفا کا تعلق ظاہر ہو رہا تھا اور بچے کی میری طرف توجہ نہیں تھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا منہ اس طرف پھیرتی تھی کہ دیکھو اور کافی دور تک دوڑتی گئی۔ اتنا رش تھاکہ اس کو دھکّے بھی لگتے رہے لیکن اس نے پرواہ نہیں کی۔ آخرجب بچے کی نظر مجھ پر پڑ گئی تو بچہ دیکھ کر مسکرایا ہاتھ ہلایاتب ماں کو چین آیا تو بچے کے چہرہ کی جو رونق اور مسکراہٹ تھی وہ بھی اس طرح تھی جیسے برسوں سے پہچانتا ہو تو جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں ۔‘‘

اعلیٰ اخلاق


تربیت اولاد میں ماؤں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ اخلاق سے آراستہ کریں۔ جھوٹ سے بکلی اجتناب بلکہ نفرت ہونی چاہئے ۔ زبانی نصیحت کافی نہیں بلکہ خود بھی سچ بولنے کا عملی مظاہرہ کریں۔ کھیل اور مذاق میں بھی کبھی جھوٹ نہ بولیں۔ بچوں میں وقار ہونا چاہئے۔ آپس میں ایک دوسرے سے محبت، خوش خلقی سے پیش آنا ، نرم اور پاک زبان استعمال کرنا ۔ صبر و قناعت کا مادہ پیدا کرنا، وسعت حوصلہ ،غریب کی ہمدردی اور دکھ دور کرنے کی عادت، بڑوں کا ادب، اطاعت اور فرمابرداری یہ سب خُلق بچپن میں کوشش کر کے پیدا کئے جا سکتے ہیں اور ان کا سفر بھی گھروں سے شروع ہونا چاہئے کیونکہ اکثر لوگوں کے اخلاق بگاڑنے والے ان کے والدین ہیں۔ بد اخلاقی بہت ہی بڑا گناہ بن جاتی ہے کیونکہ بد اخلاق لوگوں کے متعلق جنت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :’’خواہ ماں باپ کتنی ہی کوشش کریں کہ اُن کا بچہ بد اخلاقیوں کے بد اثرات سے محفوظ رہے جب تک بچے کی صحبت و مجلس نیک نہ ہوگی اُس وقت تک ماں باپ کی کوشش بچوں کے اخلاق درست کرنے میں کارگر اور مفید ثابت نہیں ہو سکتی۔ بے شک ایک حد تک اُن کی اچھی تربیت سے بچوں میں نیک خیالات پیدا ہوتے ہیں لیکن اگر بچے کی عمدہ تربیت کے ساتھ اُس کی صحبت بھی اچھی نہ ہو تو بد صحبت کا اثر تربیت کے اثر کو اتنا کمزور کر دیتا ہے کہ اُس تربیت کا ہونا نہ ہونا قریباً مساوی ہو جاتا ہے ۔ بچپن کی بد صحبت ایسی عادات بچے کے اندر پیدا کر دیتی ہیں کہ آئندہ عمر میں اُن کا ازالہ ناممکن ہو جاتا ہے۔‘‘(الازہار جلد اوّل صفحہ 161-160)
اس لئے ہم ماؤں کا فرض ہے کہ ہم اپنے عملی نمونوں کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی نگرانی بھی رکھیں کہ وہ کہیں بُری صحبت تو اختیار نہیں کر رہے ہیں یا پھر کوئی بد اخلاقی والے پروگرام تو نہیں دیکھ رہے ہیں ۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیںکہ
’’پس اگر احمدی بچوں کی مائیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی بنی رہیں۔ آج اگر آپ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح رنگ میں ادا کرتی رہیں، آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ آپ کی ہر بات سچ اور صرف سچ پر بنیاد رکھنے والی بنی رہی تو جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلیں انشاء اللہ، اللہ سے تعلق جوڑنے والی نسلیں رہیں گی۔ پس ہر وقت اپنے ذہنوں میں اپنے اس مقام کو بٹھائے رکھیں اور اپنی عبادتوں اور اپنے عملی نمونے کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ قرآن کریم کے جتنے حکم ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ تمام اعلیٰ اخلاق جن کی طرف ہمیںاللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ نیکیاں بجا لانے کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی تلقین بھی کرتی رہیں۔ برائیوں کو ترک کرنے والی بنیں اور پھر اپنے ماحول میں برائیوں کو روکنے والی بنیں۔ معاشرے میں بھی برائیاں پھیلنے نہ دیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔ اپنی رنجشوں اور اپنی ناراضگیوں کو بھلا دیں ۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورتیں زیادہ دیر تک اپنی رنجشوں کو دلوں میں بٹھائے رکھتی ہیں ۔ اگر آپ کے دل میں بغض و کینہ پلتے رہے تو پھر خدا تعالیٰ تو ایسے دلوں میں نہیں اترتا۔ ایسے دلوں کی عبادت کے معیار وہ نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے ۔‘‘(جلسہ سالانہ اسٹریلیا 2006ء خطاب از مستورات مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون 2015ء)
پس میری پیاری بہنو! ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے کمربستہ ہونا چاہئے اور اپنی پوری طاقتوں اور پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر دعاؤں کے ساتھ تربیت کے کام میں لگ جانا چاہئے۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’آج اگر آپ مائیں بن چکی ہیں تو آپ کو آج بھی خدا تعالیٰ نے یہ استطاعت بخشی ہے کہ اپنے گردوپیش، اپنے ماحول میں خدا کی محبت کے رنگ بھرنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ مائیں نہیں بنیں تو آج وہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں تا کہ جب آپ مائیں بنیں تو اس سے پہلے ہی خدا سے محبت کرنے والی وجود بن چکی ہوں۔ وہ چھوٹی بچیاں اور وہ چھوٹے بچے جو آپ کی گودوں میں پلتے ہیں، آپ کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں آپ کے دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں یا آپ کے ہاتھوں سے دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں اسی زمانہ میں ابتدائی دور میں ان کو خدا کے پیار کی لوریاں دیں۔ خدا کی محبت کی ان سے باتیں کریں پھر بعد کی ساری منازل آسان ہو جائیں گی…آپ کے تبدیل ہوئے بغیر آپ کی اولاد تبدیل نہیں ہو سکتی، جب تک آپ کی ذات خدا کے نور سے نہ بھر جائے آپ کی اولاد کے سینے خدا کے نور سے نہیں بھر سکتے … دیکھیں آپ ایک نئی صدی کے سر پر کھڑی ہیں۔ اس صدی کی آپ مجدد بنائی گئی ہیں۔ بحیثیت قوم آپ کو خلفاء فرمایا گیا۔ آپ نے آئندہ زمانوں میں تربیت اولاد کی ضرورتیں پوری کرنی ہیں۔ یہی وہ طریق ہے جس سے آپ آئندہ زمانوں میں اولاد کی بہترین تربیت کر سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ (خطاب جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ 27جولائی 1991ء)
آخر میں اپنے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا ایک اقتباس پڑھ کر اپنی تقریر کو ختم کرتی ہوں ۔ آپ فرماتے ہیں :
’’پس اے احمدی ماؤں، وہ خوش نصیب ماؤں! جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اس زمانے کے امام کو پہچانا اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر رکھا ، دنیا کی مخالفت مول لی اور یہ عہد کیا کہ ہم ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اپنا اپنا جائزہ لیں اور دیکھیں کہیں ہم اس عہد سے دور تو نہیں جا رہے۔ ہمارا دین کو دنیا پر مقدم رکھنا صرف اپنی ذات تک ہی محدود ہو کر تو نہیں رہ گیا۔ کیا ہم اس کو آگے بھی بڑھا رہے ہیں ، کیا ہم نے اس عہد کو آگے نسلوں میں منتقل کر دیا ہے۔ کیا ہماری گودوں میں پلنے والے عباد الرحمٰن اور صالحین کے گروہ میں شامل ہونے والے کہلانے کے حقدار ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ نے جو امانت ہمارے سپرد کی تھی، وہ امانت جو اللہ تعالیٰ نے ہماری کوکھوں سے اس لئے جنم دلوائی تھی کہ ہم انہیں آنحضرت ﷺ کی امت میں شامل کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور تحفہ کے طور پر پیش کر سکیں ، ان کی تربیت کی ہے۔ کیا ہم اور ہمارے بچے خیر امت کہلانے کے مستحق ہیں؟ اگر ہاں میں جواب ہے تو مبارک ہو۔ اگر نہیں تو یہ سب کچھ حاصل کرنے کیلئے آپ کو اپنی بھی اصلاح کرنی ہوگی ۔ جہاں ضرورت ہو وہاں اپنے خاوندوں کو بھی دین کی طرف مائل کرنے کیلئے کوشش کرنی ہوگی ۔ اپنے گھروں کے ماحول کو بھی ایسا پاکیزہ بنانا ہوگا جہاں میاں بیوی کا ماحول ایک نیک اور پاکیزہ ماحول کو جنم دے اور یوں ہر احمدی گھرانہ ایک نیک اور پاکیزہ معاشرہ قائم کرنےوالا بن جائے جس سے جو بچہ پیدا ہو ، جو بچہ پروان چڑھے، وہ صالحین میں سے ہو ۔ پس اپنی قدر و منزلت پہچانیں ۔ کوئی احمدی عورت معاشرہ کی عام عورت کی طرح نہیں ہے ۔ آپ تو وہ مائیں ہیں جن کے بارہ میں خدا کے رسول نے یہ بشارت دی ہے کہ جنت تمہارے پاؤں کے نیچے ہے اور کون ماں چاہتی ہے کہ اسکی اولاد دنیا و آخرت کی جنتوں کی وارث نہ بنے ۔ پس ایک نئے عزم کے ساتھ ہمت اور دعا سے کام لیتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں۔ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ خدا کے مقدس رسول اور مسیح پاک علیہ السلام کی دعائیں بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ اے اللہ تو ہماری مدد کر اور ہماری نسلوں کو بھی اسلام پر قائم رکھ۔ اللہ کرے کہ آپ سب اپنی اولادوں کی صحیح تربیت کرنے والی اور ان کے حقوق ادا کرنے والی ہوں ۔آمین۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 29؍اگست تا 4؍ستمبر 2003ء)

وَ آخِرُ دَعْوَانَااَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن
…٭…٭…٭…