اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-25

حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے
قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات اور دعاؤں کے تعلق سے حضور انور کی تحریکات و نصائح
( عطاء المجیب لون ،صدر مجلس انصار اللہ بھارت و پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان )
تقریر جلسہ سالانہ قادیان 2022

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ۝۰ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہٗٓ اِلَيْہِ تُحْشَــرُوْنَ

( سورۃ انفال: آیت 25)


اَے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہا کرو جب وہ تمہیں بلائے تاکہ وہ تمہیں زندہ کرے اور جان لو کہ اللہ انسان اور اسکے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے اور یہ بھی جان لو کہ تم اسی کی طرف اکٹھے کئے جاؤ گے ۔
قابل صد احترام صدر اجلاس اورمعزز سامعین! خاکسار کی تقریر کا عنوان ہے ’’حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات اور دعاؤں کے تعلق سے حضور انور کی تحریکات و نصائح‘‘
قرآن مجید کی جو آیت خاکسارنے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادہ کی بعثت کی غرض روحانی طور پر مردہ لوگوں کو زندہ کرنا بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث رسول جن ذرائع سے اپنے ماننے والوں کو روحانی طور پر زندہ کرتا ہے اُن میں سے ایک اہم ذریعہ وہ دعائیں ہیں جو وہ اپنے ماننے والوں کیلئے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کو شرف قبولیت بخش کرلوگوں کی روحانی زندگی کے سامان کرتا ہے ۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ما کانت النبوۃ قط الا تبعتھا خلافۃ ( کنزل العمال، جلد1)کہ جب بھی کوئی نبی دنیا میں مبعوث ہوتاہے اُسکے بعد اُسکے کام کو جاری رکھنے کیلئے خلافت کا نظام جاری ہوتا ہے ۔
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور آنحضرت ﷺ کی بشارات کے مطابق خلافت کا نظام جماعت احمدیہ میں قائم ہے اور مطیعان خلافت اُن تمام برکات سے مستفید ہو رہے ہیں جو خلافت سے اللہ تعالیٰ نے وابستہ کر رکھی ہیں ۔اور روحانی طور پر اُن زندہ لوگوں میں شامل ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اب خلافت کے ذریعہ زندہ ہو رہے ہیں ۔قبولیت دعا کے ذریعہ جس طرح حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ماننے والوں کو روحانی طور پر زندہ کرتے رہے اُسی طرح آپؑکے بعد آپ کی جانشینی میں ہر خلیفۂ وقت بھی زندہ کرتا رہا اور اب بھی یہ سلسلہ خلافت خامسہ میں اپنی پوری شان کے ساتھ جاری ہے ۔
قبل اسکے کہ میں حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قبولیت دعا کے بعض واقعات آپ کی خدمت میں پیش کروں ۔ دعا کی افادیت ، اہمیت اور اس کی برکات کے تعلق سےحضرت مسیح موعودؑ کے بعض اقتباسات پیش کروں گا۔کیونکہ اس زمانہ میں آپ ہی وہ واحد وجود ہیں جنہوں نے دعا کے تعلق سے ہر مضمون کو نہ صرف تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے بلکہ ہر احمدی کے دل میں اس مضمون کو اس رنگ میں راسخ کر دیا ہے کہ اب ہر احمدی کی زندگی صرف دعا ہے اور یہی وہ غذا ہے جس سے وہ اپنی روحانی زندگی کے سامان کرتاہے ۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ دعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں اور دشوار گزار منزلوں کو انسان بڑی آسانی سے طے کر لیتا ہے کیونکہ دعا اُس فیض اور قوت کو جذب کرنے والی نالی ہے جو اللہ تعالیٰ سے آتا ہے۔ جو شخص کثرت سے دعاؤں میں لگا رہتا ہے وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پا لیتا ہے…یقیناً سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے۔ جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اُس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی۔ وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے ارد گرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں لیکن جو دعاؤں سے لاپروا ہے وہ اُس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی خیر ہرگز نہیں ہے۔ ایک لمحے میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی۔ اس لئے یاد رکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اُسکی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے۔ یہی دعا اُس کیلئے پناہ ہے اگر وہ ہر وقت اُس میں لگا رہے۔‘‘

(ملفوظات جلدنمبر 7صفحہ 192، مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)


قبولیت دعا کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے ربّ میں ایک تعلق جاذبہ ہے۔ یعنی پہلے خداتعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خداتعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے۔ سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہوکر خداتعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اسکے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ تب اسکی روح اُس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب میں جو اُسکے اندر رکھی گئی ہے وہ خداتعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ تب اللہ جلّشانہ اس کام کے پوراکرنے کی طرف متوجہ ہو تا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پرڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کیلئے ضروری ہیں۔مثلاً اگر بارش کیلئے دعا ہے توبعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبیعہ جو بارش کیلئے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں اورا گر قحط کیلئے بددعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ بات اربابِ کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل کی دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے یعنی باذنہٖ تعالیٰ وہ دعا عالم سفلی اور عُلوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اُس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب ہے۔‘‘

(برکات الدعا،روحانی خزائن،جلد6، صفحہ9تا10)


سامعین کرام!اب خاکسار حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیخ الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قبولیت دعا کے بے شمار واقعات میں سے صرف چند ایک واقعات وقت کی رعایت سے پیش کرے گا۔

(1)


خلافتِ احمدیہ ایسی نعمت ہے جو جہاں تشنہ روحوں کو سیراب کرتی ہے وہاں بنجر زمینوں کی آبیاری کے سامان بھی کرتی ہے۔ جلسہ سالانہ 2012ء کی دوسرے دن کی تقریر کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے براعظم افریقہ میں ظاہر ہونے والے صدہا نشانات میں سے ایک نشان کا ذکر اس طرح فرمایا:
’’امیر صاحب مالی لکھتے ہیں کہ گزشتہ سال بہت کم بارش ہوئی جس کی وجہ سے شدید مشکلات تھیں۔ انہوں نے مجھے بھی دعا کیلئےلکھا تو میں نے ان کو کہا تھا کہ نماز استسقاء پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ ہمارے ایک معلم بیان کرتے ہیں کہ ایک اسکول ٹیچر محمد طورے صاحب ان کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ باقاعدگی سے ریڈیو احمدیہ سنتے تھے لیکن جماعت سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ایک دن سنا کہ جماعت کے خلیفہ نے اس علاقے کیلئے بارش کی خصوصی دعا کی ہے۔ پھر اس نے سنا کہ مالی جماعت کا امیر ان کے علاقے میں آرہا ہے تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ خود جا کر اسے ملے۔ چنانچہ فراکو (Farako) گاؤں جہاں پروگرام تھا وہ وہاں پہنچ گیا۔ وہاں بھی اس نے امیر سے سنا کہ اس علاقے میں بارشوں کیلئے خلیفۃ المسیح نے دعا کی ہے اور پھر خصوصی نماز پڑھائی۔ اس نے اپنے دل میں رکھ لیا کہ اگر اس سال غیر معمولی بارش ہوتی ہے تو صرف دعا کا نتیجہ ہوگی۔ کیونکہ کئی سال سے اچھی بارشیں نہیں ہوئی تھیں۔ جب بارش کا موسم آیا تو اس نے دیکھا کہ ہر دوسرے تیسرے دن بہت بارش ہوجاتی ہے۔ وہ اس چیز کا گواہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں سے ایسی بارشیں نہیں ہوئیں۔ آج وہ اس لیے آیا ہے کہ احمدیت میں داخل ہو کیونکہ خدا خلیفہ کے ساتھ ہے۔ الحمد للہ۔ اب اس گاؤں میں کثرت سےلوگ بیعت کررہے ہیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 3؍اگست2018ء صفحہ18)


حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے امسال ریویو آف ریلیجنز کی طرف سے منعقدہ God Summit کے موقعہ پر اپنےخصوصی پیغام میں بعض واقعات کا ذکر فرمایا۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر کرتا ہوں۔

(2)


حضور نے فرمایاآئیوری کوسٹ کا ایک واقعہ ہمارے معلم نے لکھا۔ ایک مخلص احمدی ہیں وہاں عبداللہ صاحب ان کے بارے میں لکھا کہ میرے بھائی کو اس طرح پولیس پکڑ کر لے گئی ہے اور عدالت نے اس کو نشہ بیچنے کے جرم میں بیس سال قید کی سزا سنا دی۔ کہتے ہیں میں بڑا پریشان تھا کہ میرے بھائی کو اس طرح پولیس پکڑ کے لے گئی ہے۔ مجرم نہیں ہے۔ کہتے ہیں اس پریشانی کی حالت میں انہوں نے مجھے یہاں لندن میں خط لکھا۔کہتے ہیں خلیفۃ المسیح کو میں نے خط لکھا دعا کیلئے اور خود بھی اپنے بھائی کی رہائی کیلئے دعا شروع کر دی۔ کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ کہتے ہیں ایک دن خواب میں مَیں نے دیکھا، مجھے لکھ رہے ہیں وہ کہ خلیفۃ المسیح کو دیکھا، آپ کو دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ پریشان نہ ہو اور صبر کرو تمہارا بھائی جلدی رہا ہو جائے گا۔ صبح جب میں اٹھا تو مجھے بڑی تسلی تھی اور یقین تھا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ، اللہ کوئی معجزہ دکھائے گا اور میرا بھائی رہا ہو کے آ جائے گا لیکن بھائی نے کیا رہا ہونا تھا الٹا کچھ دن کے بعد ان کی والدہ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ان کو شہر کے بڑے ہسپتال میں لے جانا پڑا اور وہاں انہوں نے داخل کر لیا۔کہتے ہیں میں بڑا پریشان کہ پہلے ایک مصیبت تھی اب دوسری مشکل بھی آگئی۔ والدہ بیمار ہو گئی ہیں، بڑی کرب کی حالت تھی، بڑی بے بسی کی حالت تھی، بہت پریشان تھا کہ مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ پھر مَیں نے دعا کی تو کہتے ہیں رات کو سویا تو پھر انہوں نے مجھے خواب میں دیکھا اور میں نے ان کو کہا کہ اٹھو اور جا کے دروازہ کھولو۔ کہتے ہیں میں بیدار ہو گیا۔ ایک دم میں جاگا، آنکھ کھلی میری تو دیکھا دروازے پر کوئی knockکر رہا تھا۔ جا کے میں نے دروازہ کھولا تو کہتے ہیں وہاں میرا بڑا بھائی موجود تھا۔ اس نے کہا کہ پولیس نے مجھے آج رہا کر دیا ہے اور کہتے ہیں یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعاؤں کی برکت کا معجزہ ہے اور خلیفہ وقت سے تعلق کا معجزہ ہے۔

(سہ روزہ الفضل انٹرنیشنل 27 مئی 2022ء)

(3)


پھر گیمبیاکا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں : ایک دوست ہیں عمر صاحب انہوں نے 2017ء میں فیملی کے ساتھ بیعت کی تھی۔ ان کی بیوی کو یوٹرس(uterus) کا کینسر، رحم کا کینسر تھا۔ سات سال قبل بچے کی پیدائش ہوئی تھی اور اس کے بعد کینسر ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اس کا کوئی علاج نہیں اور تمہارے اولاد پیدا ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کی بیوی اس وجہ سے بڑی پریشان رہتی تھی۔ ایک بیماری بھی ہے اولاد بھی نہیں اور ہو سکتی۔ زندگی موت کا سوال ہے۔ پتہ نہیں زندگی رہتی ہے کہ نہیں۔ چھوٹا بچہ ہے اس کی بھی خوشیاں دیکھیں گی کہ نہیں۔ بہرحال بیعت کرنے کے بعد کہتے ہیں ان کی بیوی نے ایک لیف لیٹ لیا اس پر تصویر میری تھی۔ کہتی ہیں وہ تصویر دیکھ کر پتہ نہیں میرے دل میں خیال پیدا ہوا اور سکون پیدا ہوا تو میں دعا بھی کرتی رہی اور اللہ تعالیٰ سے مزید تسکین کی دعا مانگتی رہی۔ پھرانہوں نے مجھے خط لکھا اور اپنی دعا کی درخواست کے ساتھ بیماری اور اولاد کی خواہش کا بھی ذکر کیا۔ اللہ کا فضل ایسا ہوا کہ کچھ دیر کے بعد وہ حاملہ ہو گئیں اور جب ڈاکٹروں اور نرسوں نے چیک کیا تو حیران تھے۔ وہ ان کو کہہ رہے تھے کہ ہم نے تو جواب دے دیا تھا اور یہ میڈیکلی ممکن نہیں تھا کہ اب اس عورت کا بچہ پیدا ہو۔ پھر جب انہوں نے pregnancyٹیسٹ کے بعد دوبارہ کینسر کا ٹیسٹ کیا اور دیکھا تو وہ بھی بالکل نیگیٹو (negative) آیا۔ اس پر ڈاکٹر بڑے حیران تھے۔ ڈاکٹر نے اس نومبائع خاتون سے پوچھا تم نے کون سی دوائی استعمال کی ہے کہ جس سے یہ کینسر بھی ختم ہو گیا اور تمہاری یہ مشکل اور اس طرح کی تکلیف دور ہو گئی جس پر میڈیکلی تو ہمیں یقین تھا کہ نہیں ہو سکتی۔ کہنے لگی میں نے کوئی دوا نہیں استعمال کی۔ مَیں نے تو خلیفۂ وقت کو دعا کیلئے لکھا تھا اور خود بھی دعا کر رہی تھی اور یہ دعا کی برکتیں ہیں اور یہی میرا علاج ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ سے فضل فرمایا ہے۔

(سہ روزہ الفضل انٹرنیشنل 27 مئی 2022ء)

(4)


حضور فرماتے ہیں :مالدا صوبہ بنگال انڈیاکے ایک معلم صاحب ہیں ان کے گردے خراب ہو گئے۔ یہ 2005ء کی بات ہے۔ اور ڈاکٹروں نے علاج کرنے کی کوشش کی۔ کوئی صورت پیدا نہیں ہو رہی تھی۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ 2005ء میں جب مَیں قادیان گیا ہوں تو وہاں ان کی فیملی ملاقات تھی انہوں نے اپنی بیماری کا ذکر کیا۔ معلم صاحب نے دعا کی درخواست کی اور اس کے کچھ عرصہ کے بعد وہ دوبارہ چیک اپ کرانے ہسپتال گئے تو ڈاکٹر حیران رہ گئے کہ گردے غیر معمولی طور پر ٹھیک ہو گئے ہیں اور اللہ کے فضل سے اس کے بعد وہ بالکل صحت یاب ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے دعا کے بارے میں کہ
غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے

(سہ روزہ الفضل انٹرنیشنل 27 مئی 2022ء)


حضور انور کے قبولیت دعا کے بعض واقعات جو خاکسار کووکالت تبشیر لندن سےبذریعہ وکالت تعمیل و تنفیذ( برائے بھارت، نیپال ،بھوٹان) موصول ہوئے ہیں ۔ اُن میں سےچند پیش کرتا ہوں:

( موصول از وکالت تبشیر لندن بذریعہ خط T-9313-19R/14-9-22 بحوالہ WTT-46797/25-9-22)

(5)


مبلغ انچارج صاحب ضلع ’چندر پور‘مہارشٹرا‘ لکھتے ہیںکہ :جماعت احمدیہ ’بلارپور‘کے ایک مخلص نوجوان منور علی صاحب جو کہ انجینئر ہیں کئی دنوں سے نوکری کے لئے مختلف کمپنیوں میں انٹریو وغیرہ دے رہے تھے مگر کہیں بھی کامیابی نہیں مل رہی تھی ۔اسی دوران حضور نے مسجد بیت الفتوح کی renovation کیلئے تحریک فرمائی انہوں نے ایک بھاری رقم وعدہ کے طورپر لکھوادی حالانکہ ان کے پاس نوکری بھی نہیں تھی۔اس کیساتھ ساتھ وہ حضور انور کی خدمت میں دعا کیلئے بھی لکھتے رہے۔وہ کہتے ہیں کہ مجھے خدا پر یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ضرور مددفرمائے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ  نے فضل فرمایا اور انہیں قطر میں نوکری مل گئی اور جتنی رقم کا وعدہ لکھوایاتھا اتنی ہی رقم تنخواہ کے طور پر مقرر ہوئی۔

(6)


امیر صاحب برکینا فاسو لکھتے ہیں:
جیالو عبدالرحمان صاحب افسر جلسہ سالانہ برکینا فاسو کی امسال مارچ میں حضور انور سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے درخواست کی کہ ہماراجلسہ منعقد ہونے والا ہے لیکن وہاں شدید گرمی ہے۔اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’اچھا آپ کیا چاہتے ہیں کہ بارش ہوجائے ؟‘اس پر انہوں نے عرض کیا کہ جی حضور!اس پر حضور نے فرمایا’اچھا‘۔چنانچہ جب جلسہ منعقد ہوا تو پہلے روز42ڈگری درجہ حرارت تھالیکن عصر کے بعد موسم خوشگوارہوا اورہلکی سی پھوار بھی پڑی ۔پھر رات آٹھ بجے کے قریب موسلادھار بارش شروع ہوگئی اور رات گیارہ بجے کے بعد بارش تھم گئی اور ہواچلنے سے تمام جگہ خشک ہونا شروع ہوگئی اور صبح پروگرام کے مطابق تہجد اداکی گئی۔خاکسار کو بیس سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے اور جماعت کے قدیمی احباب سے بھی پوچھا سب نے بتایا کہ کبھی بھی جلسہ میں بارش نہیں ہوئی اور اس مہینے میں اس طرح بارش کا ہونا انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا۔پھر افسر صاحب جلسہ سالانہ نے تمام حاضرین کو حضور سے ملاقات اور جلسہ میں بارش کی درخواست کا بتایا تو کیفیت ہی مختلف ہوگئی سب کے دل قبولیت دعا اور خلافت احمدیت سے محبت واخلاص سے بھر گئے اور فضا دیر تک نعرہ ہائے تکبیر سے گونجتی رہی ۔

(7)


کانگوبر از اویل میں شہر پوائنٹ نوار کے مبلغ لکھتے ہیں:کانگوبر ازاویل کے شہر پوائنٹ نوار میں 2015ء میں احمدیہ مشن کے قیام کے بعد ایک دن بازارمیں پاکستانی دوست محمد اقبال صاحب سے ملاقات ہوئی۔پہلے تو بہت خوشی سے ملے اور فون نمبر بھی لیا۔ لیکن جب میں نے اپنے احمدی ہونے کا بتایا تو اچانک رویہ میں تبدیلی آگئی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاکسار جب بھی رابطہ کر کے مشن ہاؤس آنے کی دعوت دیتا تو کوئی نہ کوئی عذر کر دیتے۔ 2017ء میں اچانک انکی ملازمت ختم ہو گئی اور اچھی خاصی بڑی رقم بھی پھنس گئی۔ ساتھ ہی پاسپورٹ بھی ختم ہو گیا۔ وہ بہت ہی پریشان ہوئے اور ہر جگہ کوشش کی مگر کوئی حل نہ نکل سکا۔
پھر جنوری 2018ء میں ایک دن اچانک انتہائی پریشانی میں انکا فون آیا کہ میں آپ سے ملنے مشن ہاؤس آنا چاہتا ہوں۔ یہاں پہنچ کر اپنی پریشانی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ مجھے پاسپورٹ بنوا دیں۔ کہنے لگے کہ مجھے سب نے یہی کہا ہے کہ جماعت احمد یہ ہی تمہاری مدد کر سکتی ہے ۔
چنانچہ ان کا آن لائن پاسپورٹ اپلائی کیا گیا تو چند دنوں میں ان کا پاسپورٹ بن کر آ گیا۔ پاسپورٹ کا بننا تھا کہ انکی طبیعت میں جماعت کے لیئے نرمی آنے لگی۔ وہ اکثر مشن ہاؤس آنے لگے اور کھانا بھی ساتھ کھانے لگے۔ پھر جلسہ سالانہ کانگو 2018ء میں بھی شریک ہوئے۔ چونکہ انکی ملازمت ختم ہوگئی تھی اور ایک بڑی رقم بھی پھنس گئی تھی۔ جس کے حصول کی کوئی صورت نہیں نکلتی تھی۔ اسی تگ و دو میں 15 مہینے گزر گئے۔ اور انکی پریشانی تھی کہ بڑھتی جاتی تھی۔
ایک دن مشن ہاؤس میں بیٹھے ہوئےبہت ہی رنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ اپنی جماعت کے خلیفہ صاحب کو میری طرف سے دعائیہ خط لکھیں۔ اور بار بار اصرار کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ ہم ابھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعائیہ خط لکھ لیتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ آپ احمدی ہوں یا نہ ہوں مگر اس دعا کا قبول ہونا آپ کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے احمدیت کی صداقت کا نشان ہو گا کیونکہ آپ کو اپنی رقم ملنے کی ذرہ بھی امید نہیں۔ چنانچہ اُسی رات دعائیہ خط فیکس کر دیا اور انتظار کرنے لگا کہ اللہ تعالیٰ جلد اپنا فضل فرمائے۔
خداتعالیٰ بھی بہت شان والا ہے اور اسے بھی اپنے خلیفہ سے شدید محبت ہے۔ خداتعالیٰ کا فضل ہوا اور آخر چار دن بعد وہ مسکراتے ہوئے مشن ہاؤس آئے اور کہنے لگے کہ جس رات کو ہم نے خلیفہ صاحب کو خط فیکس کیا تھا، اس سے اگلے دن ہی مجھے دفتر سے کال آگئی تھی کہ آپ آ جائیں اور پھر سے ملازمت کریں اور انہوں نے رقم ملنے کی بھی یقین دہانی کروائی ہے۔
میں نے الحمد للہ پڑھا اور کہا کہ دیکھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور پیارے خلیفہ کی دعاؤں سے آپ کے لئے احمدیت کی صداقت کا کیسا معجزہ دکھایا ہے۔ موصوف احمدیت کے کافی قریب آگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ہدایت کے سامان پیدافرمائے۔ آمین

(وکالت تبشیر لندن)

(8)


جرمنی سے ابرار احمد صاحب تحریر کرتے ہیں: میں نے جرمنی آنے کے بعد Burgerking (فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ) میں کام شروع کر دیا ایک دن انہوں نے بلیٹین میں حضور انور کا ارشادپڑھا کہ ’’ایسے افراد جو سور کے گوشت اور الکحل والی جگہ پرکام کرتے ہیں ان سے چندہ نہیں لینا‘‘
یہ تحریر کرتے ہیں کہ حضورانور کا یہ ارشاد پڑھا تو ہوش اڑ گئے۔ ساری رات بے قراری اور نفل پڑھ کر گزاری کہ اے اللہ تو میری حالت کو جانتا ہے اسی دوران حضور انور کو بھی دعا کیلئے خطوط با قاعد گی سے لکھتارہا۔ یہ سوچتا رہا کہ اس چھوٹے شہر میں اور کون مجھے کام دے گا؟ اور اسی دوران جماعت کے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ہمیں وصیت کا کہتا ہے اب اپنی وصیت کیسے بچائے گا۔
اسی دوران حضور انور کی طرف سے خط کا جواب موصول ہوا جس میں حضور انور نے فرمایا ’’کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضر ور بابرکت کام دے گا۔ دعا بہت کر ی‘‘
لہٰذا افوراً اٹھا اور کام والوں کو کام سے جواب دے دیا اور کہا کہ یہ میرا آخری دن ہے۔ کام والوں نے ڈرایا کہ پیسے نہیں ملیں گے ، بہت مشکل ہو گی لیکن میں وہاں سے اپنا استعفیٰ دے کر واپس گھر آگیا۔ گھر آکر اپنالیٹر بکس کھولا تو POST کے محکمہ کی طرف سے خط آیا ہو ا تھا کہ کل سے کام پر آجاؤ۔ فوراً سَر خدا کے حضور جھک گیا کہ ایک دن پہلے کام ختم ہوا اور اگلے دن نیا کام مل گیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے گاڑی بھی دے دی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بطور سیکر ٹری وصایانئی وصایاکا ٹارگٹ بھی مکمل کرنے کی توفیق ملی۔ الحمد للہ۔
سامعین حضرات! یہ واقعات سن کر حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں یہی صدا دل سے نکلتی ہے کہ

قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت

اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی توہے
جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
اے میرے فلسفیو! زورِ دعا دیکھو تو


جماعتِ احمدیہ بفضلہ تعالیٰ دنیا میں واحد جماعت ہے جسے ماں باپ سے زیادہ بڑھ کر درد رکھنے والا اور دعا ئیں کرنے والا وجود حاصل ہے۔ جب رات کو سب سو جاتے ہیں تو وہ جاگتا ہے تمام عالم میں بسنے والے انسانوں کیلئے اپنے رب کے حضور مناجات کرتا ہے۔ اپنے تو اپنے غیر بھی اس بات کو محسوس کیے بغیر نہیں رہتے۔
سامعین کرام !اب خاکسار حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے دعا کے بارے میں تحریکات اورنصائح کے حوالہ سے بعض اقتباسات پیش کرے گا۔
خطبہ جمعہ فرمودہ21؍مئی2004ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’یاد رکھیں کہ وہ سچے وعدوں والا خدا ہے۔ وہ آج بھی اپنے پیارے مسیح کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا۔
وہ آج بھی اپنے مسیح سے کیے ہوئے وعدوں کو اسی طرح پورا کر رہا ہے جس طرح وہ پہلی خلافتوں میں کرتا رہا ہے۔ وہ آج بھی اسی طرح اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نواز رہا ہے۔ جس طرح پہلے وہ نوازتا رہا ہے اور انشاء اللہ نوازتا رہے گا … پس دعائیں کرتے ہوئے اور اسکی طرف جھکتے ہوئے اور اسکا فضل مانگتے ہوئے ہمیشہ اسکے آستانہ پر پڑے رہیں اور اس مضبوط کڑے کو ہاتھ ڈالے رکھیں تو پھر کوئی بھی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍مئی 2004ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل4؍جون2004ءصفحہ9)


حضورانورفرماتے ہیں:’’جہاں جہاں بھی احمدی ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں وہ یاد رکھیں کہ یہ شیطان کے ساتھ آخری جنگ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آپ اس فوج میں داخل ہوئے ہیں جو اس زمانے کے امام نے بنائی۔ اس لئے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے ثبات قدم اور استقامت مانگتے ہوئے ہمیشہ اور ہر وقت صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکیں۔ آخری فتح انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی ہی ہے۔ جیسا کہ آپؑنے فرمایا ہے کہ ان شیطانی اور طاغوتی قوتوں کو شکست دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم فرمایا ہے لیکن ایک بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ بیرونی شیطان کو شکست دینے کیلئے جو اندرونی شیطان ہے اس کو بھی زیر کرنا ہو گا۔ کیونکہ ہماری فتح مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے ظاہری اسباب سے نہیں ہونی بلکہ دعاؤں سے ہونی ہے اور دعاؤں کی قبولیت کیلئے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے والا بنانے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے نفس کا جہاد بھی بہت ضروری ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06؍مارچ 2009ء )


حضور انورفرماتے ہیں :’’ جب خداتعالیٰ اپنے بندے کے اس قدر نزدیک ہو جائے کہ وہ اور بندہ ایک دوسرے میں جذب ہو جائیں۔ پھر جب بندہ دعا کرتا ہے تو ایسی حالت میں کی گئی دعا ایسے ایسے عجیب معجزے دکھاتی ہے جو ایک آدمی کے تصور میں بھی نہیں آ سکتے۔ پس یہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے۔ عام دنیا میں بھی مشاہدہ کرکے دیکھ لیں کہ جب تکلیف کے وقت خالص ہو کر کوئی اللہ تعالیٰ کے حضو ر جھکتا ہے تو اس وقت کیونکہ دنیا کی ہر چیز سے بے رغبتی ہوتی ہے، دنیا کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی، مشکل میں پھنسا ہوتا ہے، مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف ہی جھک رہا ہوتا ہے، صرف اور صرف اللہ کی ذات سامنے ہوتی ہے، تکلیفوں نے اس شخص کے اندر ایک کیفیت پیدا کی ہوتی ہے۔ اس لئے اکثر لوگ جو ایسی حالت میں دعائیں کر رہے ہوتے ہیں وہ قبولیت دعا کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔
پس اگر انسان اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کو ہر وقت سامنے رکھتے ہوئے اسکے قریب تر ہونے کی کوشش کرتا رہے، ایک کام ہونے کے بعد، ایک تکلیف دور ہونے کے بعد اس کے قریب ہونے کی کوشش کو ترک نہ کر دے تو پھر مستقل اللہ تعالیٰ استجابت دعا کے نظارے دکھاتا ہے، قبولیت دعا کے نظارے دکھاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی عنایات کو ہر وقت اپنے اوپر برستا رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تر رہنے کی کوشش کی جائے۔ پھر ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ تمام تر دنیاوی اسباب کو اور دنیا کی جو بھی چیزیں ہیں ان کو اس بندے کی دعا مانگنے کی صورت میں اس کی ضروریات پوری کرنے کے کام میں لگا دیتا ہے۔ تمام زمینی اور آسمانی ذرائع اپنے بندے کی مدد کیلئے کھڑے کردیتا ہے۔ کبھی اللہ تعالیٰ بندے کی دعا قبول کرتے ہوئے بادلوں سے بارش برساتا ہے تو کبھی دشمن کے حق میں اپنے بندے کی بددعا سنتے ہوئے قحط اور آفات کے سامان پیدا کر دیتاہے۔ پس یہ حالت جو ایک مومن کے دل میں قبولیت دعا کیلئے پیدا ہونی چاہئے، یہی وہ حالت ہے جو ہر احمدی کو اپنے دل میں پیدا کرنی چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 22ستمبر 2006ء)


حضور انور فرماتےہیں :’’ آج ہم نے نہ صرف اپنی بقا کیلئے، اپنی ذات کی بقا کیلئے، اپنے خاندان کی بقا کیلئے، جماعت احمدیہ کی ترقیات کیلئے دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہے بلکہ امت مسلمہ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر پوری انسانیت کی بقا کیلئےدعاؤں کی طرف توجہ کرنی ہے جس کی آج بہت ضرورت ہے۔ پس ہر احمدی کو ان دنوں میں (ان دنوں سے میری مراد ہے ہمیشہ ہی) اور آج کل خاص طور پر جب حالات بڑے بگڑ رہے ہیں، بہت زیادہ اپنے رب کے حضور جھک کر دعائیں کرنی چاہئیں۔ مضطر کی طرح اسے پکاریں۔ بے قرار ہوکر اسے پکاریں۔ آج امت مسلمہ جس دور سے گزر رہی ہے اور مسلمان ممالک جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اسکا حل سوائے دعا کے اور کچھ نہیں اور دعا کے اس محفوظ قلعے میں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا آج احمدی کے سوا اور کوئی نہیں۔ پس امت مسلمہ کیلئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اندرونی اور بیرونی فتنوں سے نجات دے۔ ان کو اس پیغام کو سمجھنے کی توفیق دے جو آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت ﷺ نے مسلم امت کو دیا تھا۔ یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا سے ظلم ختم کرے۔ انسان اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف رجوع کرے۔ اسے پہچان کر اپنی ضدوں اور اناؤں کے جال سے باہر نکلے۔ خداتعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کو آواز نہ دے بلکہ اس کی طرف جھکے۔ اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو سمجھنے والاہو، اس بات کو سمجھنے والا ہو کہ میری طرف آؤ،خالص ہو کر مجھے پکارو تاکہ میں تمہاری دعاؤں کو سن کر اس دنیا کو جس کو تم سب کچھ سمجھتے ہو، جو کہ حقیقت میں عارضی اور چند روزہ ہے، تمہارے لئے امن کا گہوارہ بنا دوں تاکہ پھر نیک اعمال کی وجہ سے تم لوگ میری دائمی جنت کے وارث بنو…پھر جیسا کہ مَیں نے کہا اس دنیا کیلئے، انسانیت کیلئے بھی دعا کریں۔ دنیا بڑی تیزی سے اپنی اناؤں اور ضدوں کی وجہ سے تباہی کے گڑھے کی طرف جارہی ہے۔ اپنے خدا کو بھلا چکی ہے اور نتیجۃً اللہ تعالیٰ کے غضب کو آواز دے رہی ہے۔ ظلم اتنا بڑھ چکا ہے کہ اسے انصاف کا نام دیا جارہا ہے، اللہ ہی ان لوگوں پر رحم کرے۔
پہلے بھی مَیں نے کہا ہے اپنے لئے بھی اور جماعت کیلئے بھی بہت دعا کریں۔اللہ تعالیٰ احمدیت کے مخالفین اور دشمنوں کو ناکام و نامراد کر دے۔ جیسا کہ ہمیشہ سے الٰہی جماعتوں سے ہوتا آیا ہے کہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ تو چلتا چلا جائے گا اور یہ ہوتا رہا ہے تبھی ترقیات بھی ہوتی ہیں۔ یہ بھی ایک سچائی کی دلیل ہے کہ جب دلیل دوسرے کے پاس نہ ہو تو پھر وہ سختیاں کرتا ہے۔ تو ان مخالفتوں سے نہ تو احمدی ڈرتے ہیں اور نہ انشاء اللہ ڈریں گے۔ یہی چیز ایمان میں ترقی اور جماعت کی ترقی کا باعث بنتی ہے اور یہ مخالفتیں ہمیشہ کھاد کا کام دیتی ہیں لیکن اس مخالفت کی وجہ سے مخالفین کا جو بدانجام ہونا ہے، انسانی ہمدردی کے ناطے ہم ایسے لوگوں کیلئے بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ اپنے بد انجام سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اس سے بچ سکیں۔ اور اپنے لئے بھی یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے ان انعاموں سے محروم نہ رہ جائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر فرمائے ہوئے ہیں۔ دشمن کا ہر شر اور ہر کوشش ہمارے ایمان میں ترقی اور خیر کے سامان لانے والی ہو۔ ہم میں سے ہر ایک استقامت دکھانے والا ہو۔ ہماری نیک تمنائیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں اور اس کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی تمام ان نیک صفات کی پناہ میں لے لے جن کا ہمیں علم ہے یا نہیں اور اپنی مخلوق کے ہرشر سے ہمیں بچائے۔ آمین‘‘

(خطبہ جمعہ 11؍اگست 2006ء)


و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین