اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-25

خلافت عافیت کا حصار
( کے طارق احمد ، صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت و انچارج شعبہ نور الاسلام)

تقریر جلسہ سالانہ قادیان 2022

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۝۰ۭ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ۝۰ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ۝۰ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
(سورۃالبقرۃ: 31)
ترجمہ:اور (یاد رکھ) جب تیرے ربّ نے فرشتوں سے کہا کہ یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا کیا تُو اُس میں وہ بنائے گا جو اُس میں فساد کرے اور خون بہائے جبکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ اُس نے کہا یقیناً میں وہ سب کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار
حضرات!سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں:
’’ اس زمانہ کا حصنِ حصین مَیں ہوں۔ جو مجھ میں داخل ہوتاہے وہ چوروں اور قزاقو ں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اُس کو موت درپیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔‘‘
(فتح اسلام، صفحہ34)
قابل احترام صدر اجلاس، معزز حضرات!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔میری تقریر کاعنوان جیسا کہ آپ سن چکے ہیں ’’خلافت عافیت کا حصار‘‘ ہے۔
حضرات!حضرت آدم ؑکی خلافت کے ابتداء میں خالق حقیقی اور ملائک کا یہ مکالمہ ایک امر کی خوب وضاحت کرتا ہے کہ خلیفہ کےامن بخش وجود کے ساتھ اس قدر کشت وخون اور فساد کے بادل گھرے نظر آتے ہیں کہ ملائک بھی اس کی حقیقت کوسمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ دراصل اس طوفان بے تمیزی کا محرک کون ہے اور وہ کونسا حصارعافیت ہے جواس جوروظلم سے دھرتی کو پاک کرے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا مختصر سا جواب ملائکہ کو ساکت کرنے والا تھا کہ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ کہ یقیناً میں وہ سب کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو۔
تاریخ عالم شاہد ناطق ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے خلافت عافیت کاحصار کے مضمون کو اپنی غالب قدرت کے عجیب درعجیب ظہور سے اس قدر واضح اورروشن کردیا کہ پھر کیا جن وانس کیا ملائک سب کواپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے سربسجود ہونا پڑا۔
یہ مضمون ایسا نہیں کہ ایک قصۂ پارینہ ہوبلکہ ایسا جاری وساری رُود ِرواں ہے کہ جسکا کوئی کنارہ نہیں اورالحمدللہ ہم وہ خوش قسمت جماعت ہیں جو خلافت کے فیوض و برکات اور اس کا عافیت کا حصار ہونے کے ایمان افروز نظاروں کے عینی شاہد ہیں اورہرآن اس کے نشانات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اِحسان اس کے ہم پہ ہیں بے حد و بیکراں
جو گن سکے اُنہیں نہیں ایسی کوئی زباں
خلافت کا نظام ایک بہت ہی مبارک نظام ہے۔ جس کے ذریعہ آفتاب نبوت کے ظاہری غروب کے بعد اللہ تعالی ماہتاب نبوت کے طلوع کا انتظام فرماتا ہے اور ایسی جماعت کو اس دھکے کے اثرات سے بچا لیتا ہے جو نبی کی وفات کے بعد نو زائیدہ جماعت پر ایک بھاری مصیبت کے طور پر وارد ہوتا ہے۔
نظام خلافت وہ با برکت آسمانی نظام قیادت ہے جو اللہ تعالی جماعت مومنین کو ان کی روحانی بقاء اور ترقی کے لئے عطا فرماتا ہے۔ یہ ایک عظیم انعام ہے جو ایمان اور عمل صالح کی بنیادی شرائط سے مشروط ہے۔ اس خدائی موہبت کی حیثیت ایک حبل اللہ کی ہے۔ اس خدائی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا جماعت مؤمنین کیلئے ان کے ایمان کی تصدیق بھی ہے اور امن وامان اور روحانی ترقیات کی ضمانت بھی۔
حضرات!آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا خطرات و مصائب سے گھری ہوئی ہے۔ دور حاضر کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قبل ازوقت ہی واشگاف الفاظ میں اعلان فرمادیا کہ:
’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن، جلد22، صفحہ268)
آج بنی نوع انسان کی حالت وکنتم على شفا حفرة من النار کی سی ہے کہ دنیااس وقت ایک بہت بڑی تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے۔آج دنیا میں ایک بے چینی اور خوف کی فضا ہےاور جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ عالمِ انسانیت کو اس وقت دیگر دنیاوی ضروریات کے ساتھ ساتھ امن و آشتی اور خیر و عافیت کی جس قدر ضرورت ہے وہ شاید اس سے قبل کبھی نہیں رہی۔ تیسری عالمی جنگ کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس صورتِ حال میں دنیا میں انسانیت کا ہمدرد اور اسکی بے لوث خدمت اور اس کی خیر و عافیت کیلئے دعائیں کرنےوالا ایک مقدس آسمانی نظام خلافتِ احمدیہ ہے۔ آج دنیا میں امنِ عامہ کی جس قدر کوششیں خلافتِ احمدیہ نے کی ہیں اسکی کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہی ہے جو دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے مدت سے مسلسل خبردار کررہا ہے۔ امن،صلح جوئی اور آشتی کی کوششیں کرنے والا ایک ہی عالمی راہنما ہے اور ہماری خوش قسمتی کہ ہم اسکے ماننے والے ہیں۔ مگر وہ جو اُسے نہیں مانتے، وہ اُن کیلئے بھی ایسے ہی درد رکھتا اور دعائیں کرتا ہے اور اُن کیلئے بھی خیر چاہتا ہےکیونکہ اس زمانہ میں صرف اور صرف خلافت احمدیہ ہی ہے جو عافیت کا حصار ہے۔
آج جب لادینیت عروج پر ہےاور لوگ اپنے خالق، اپنے پیدا کرنے والے کو بھول رہے ہیں اور اسکی وجہ سے انفرادی و اجتماعی بے امنی اور بے سکونی کا شکار ہو رہے ہیں، ہمارے پیارے امام دنیا کو حقیقی حصارِ عافیت یعنی خدا تعالیٰ کو پہچاننے کی طرف متوجہ فرما رہے ہیں۔ حضورانور نے متعدد فورمز پر قرآنی اور تاریخی مثالیں دے کر ثابت فرمایا ہے کہ دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن کا قیام خدا تعالیٰ کی ذات کو پہچاننے اور اُسکے حقوق ادا کرنے، حقوق العباد کی ادائیگی اور قیامِ انصاف سے مشروط ہے۔سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء کے موقعہ پر ارشاد فرمایا کہ:
’’حقیقی امن دنیا میں لانے کیلئے یہی عقیدہ اور اس پر عمل کارگر ہو گا کہ دنیا کا ایک خدا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ سب لوگ امن میں رہیں۔حقیقی امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک ایک بالا ہستی کو تسلیم نہ کیا جائے، جب تک اس کی محبت دل میں پیدا نہ ہو اوریہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والا ہے صرف اسلام نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پیش کیا ہے۔امن اس وقت تک قائم ہو ہی نہیں سکتا جب تک لوگوں کے اندر حقیقی مواخات پیدا نہ ہو اور حقیقی مواخات ایک خدا کو مانے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔‘‘
سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا کے مختلف سربراہان ملک کو بھی قیام امن کی طرف اپنے خطوط کے ذریعہ توجہ دلائی ہے:
مورخہ 8؍مارچ 2012ء کو حضور انور ایدہ اللہ نے امریکہ کے صدر باراک اوباما کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’دنیا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ ضروری محسوس کیا کہ آپ کی طرف یہ خط روانہ کروں کیونکہ آپ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر کے منصب پر فائز ہیں اور یہ ایسا ملک ہے جو سُپر پاور ہے…میری آپ سے بلکہ تمام عالمی لیڈروں سے یہ درخواست ہے کہ دنیا میں امن کے قیام کیلئے اپنا کردار اداکریں…اللہ تعالیٰ آپ کو اور تمام عالمی لیڈروں کو یہ پیغام سمجھنے اور اس پر عمل کرنےکی توفیق بخشے۔‘‘
اسی طرح سیدنا حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے کلیدی خطاب، بر موقع یارک یونیورسٹی، اونٹیریو، کینیڈا، میںفرمایا:
’’اگر ہم حقیقی طور پر امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انصاف سے کام لینا ہوگا۔ہمیں عد ل اور مساوات کو اہمیت دینی ہوگی۔ آنحضرت ﷺ نے کیا ہی خوبصور ت فرمایا ہےکہ دوسروں کیلئے وہی پسند کر وجو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ہمیں صرف اپنے فائدے کیلئے نہیں بلکہ وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے دنیا کے فائدے کیلئے کام کرنا ہوگا۔فی زمانہ حقیقی امن کے قیام کے یہی ذرائع ہیں۔‘‘( مورخہ 28؍اکتوبر 2016ء یارک یونیورسٹی، اونٹیریو، کینیڈا)
خلافت کے زیرِ سایہ حصارِ عافیت میں آنے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ کورونا وبا کے پھوٹنے کے بعد دنیا کے اکثر مذہبی حلقے جو اجتماعی عبادات بجا لاتے ہیں تذبذب کا شکار ہوکر افراط و تفریط میں مبتلا نظر آئے۔ مسلمان حلقوں میں مسجد کی جگہ گھروں میں پنج وقتہ نماز اور نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے متعلق بحثیں چھڑ گئیں اور بعض جگہ تو نوبت تصادم تک پہنچی۔ کچھ نے ایسی زیادتی کی کہ باوجود رخصت کے مسجد میں حاضر ہوکر بلا احتیاط باجماعت نماز ادا کرنا ضروری قرار دیا اور نتیجۃً نقصان اٹھایا اور کچھ ایسے تھے کہ احتیاط کے نام پر عبادات کو ہی ترک کر بیٹھے۔ لیکن امام جماعت احمدیہ عالمگیر نے 27؍ مارچ 2020ء کو اپنے دفتر سے نشر کیے جانے والے خصوصی پیغام میں دنیا بھر کے احمدیوں کو وبائی حالات میں گھروں میں نمازیں اور جمعے ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ اس پر خلیفۂ وقت کا دست و بازو، نظامِ سلسلہ حرکت میں آیا اور ہر ممکن ذریعہ سے احمدیوں کو گھروں میں عبادات بجا لانے کے مسائل سکھا دیے گئے۔ نتیجۃً ہر احمدی گھربلا تأمل گھروں میں عبادات بجا لانے لگا۔ الغرض جہاں امامِ وقت کو نہ ماننے والے تذبذب کا شکار ہوئے وہیں خلافت کی برکت سے نہ خوف اور پریشانی پیدا ہوئی اور نہ ہی فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی ہوئی۔ ایسا بھلا کیوں نہ ہوتا! وہ ’عافیت کے حصار‘ میں جو تھے۔
پس نظام خلافت کی اگر ایک طرف بنیادیں ایمان کی مستحکم چٹان پر قائم ہیں تو دوسری طرف اس کی فصیلیں عرش رب العالمین کو چھو رہی ہیں۔ جہاں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور حفظ و امان کے جلوے ہر وقت جلوہ فگن ہوتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کے نتیجہ میں اور آپ کے تسلی اور حوصلہ دینے والے الفاظ کے ذریعہ سے افراد جماعت کو اطمینان قلب حاصل ہوتا ہےاور ان کو امن و امان کی ضمانت ملتی ہے۔ مکرم منیر جاوید صاحب پرائیویٹ سیکریٹری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’4مئی 2006ء جمعرات کا دن تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے فارایسٹ ممالک کے دوران ناندی فجی میں تھے۔ رات قریباً اڑھائی بجے کا وقت تھا کہ ربوہ ،لندن اور دنیا کے مختلف ممالک سے فون آنے شروع ہوگئے کہ اس وقت ٹی وی پر جو خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق ایک بہت بڑا سونامی طوفان فجی کے ساتھ والے جزائر TONGAمیں آیا ہے اور یہ طوفان طاقت کے لحاظ سے انڈونیشیا والے سونامی سے بڑاہے جس نے لاکھوںلوگوں کو غرق کردیا تھا۔ اور دنیا کے کئی ممالک میں تباہی مچائی تھی۔ جب TVآن کیا تو یہ خبریں آ رہی تھیں کہ یہ سونامی مسلسل اپنی شدت اور طاقت میں بڑھ رہاہے اور صبح کے وقت ناندی فجی کا سارا علاقہ غرق کردے گا۔ صبح ساڑھے چار بجے جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نماز فجر کی ادائیگی کیلئے تشریف لائے تو حضورانور کی خدمت میں اس طوفان کے بارے میں رپورٹ پیش ہوئی اور جو پیغامات خیریت دریافت کرنے کیلئے فون پر موصول ہورہے تھے ان کے متعلق بتایا گیا ۔ حضور انور نے نماز فجر پڑھائی اور بڑے لمبے سجدے کیے اور خدا کے حضور مناجات کیں۔ نماز سے فارغ ہوکر مسیح کے خلیفہ نے احباب جماعت کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا کچھ نہیں ہوگا۔ اسکے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس تشریف لے آئے۔ واپس آکر جب ہم نے TVآن کیا توTVپر یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ اس سونامی کا زور ٹوٹ رہا ہے اور آہستہ آہستہ اسکی شدت ختم ہورہی ہے۔ پھر قریباً دو اڑھائی گھنٹے کے بعد یہ خبریں آگئیں کہ اس طوفان کا وجود ہی مٹ گیا ہے۔پس اس دنیا نے عجیب نظارہ دیکھا کہ وہ سونامی جس نے اگلے چند گھنٹوں میں لاکھوں لوگوں کو غرق کرتے ہوئے سارے علاقہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا تھا خلیفۂ وقت کی دعا سے چند گھنٹوں میں خود اس کا وجود مٹ گیا۔ اس روز فجی کے اخبارات نے یہ خبریں لگائیں کہ سونامی کا ٹل جانا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘‘
سورۃ النور کی آیت نمبر56آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کی جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے اس میں یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ ان عظیم الشان نعمتوں کی برکت سے ایک تیسرا انعام اس جماعتِ مومنین کو یہ عطا ہوگا کہ جب بھی انہیں کسی وجہ سے حالتِ خوف سے گزرنا پڑے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کو حالت ِامن میں بدل دےگا۔چنانچہ اس ضمن میں ہالینڈ کا ایک واقعہ ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ 9؍دسمبر 2011ء میں فرماتے ہیں:
’’گزشتہ دنوں جب میں یورپ کے دورے پر گیا تھا تو واپسی پر ایک جمعہ ہالینڈ میں بھی پڑھایا تھا اور وہاں میں نے وہاں کے ایک سیاستدان، ممبر آف پارلیمنٹ اور ایک پارٹی کے لیڈر جن کا نام خیرت وِلڈر ہے، کو یہ پیغام خطبہ میں دیا تھا کہ تم لوگ اسلام کے خلاف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو دریدہ دہنی میں بڑھے ہوئے ہو، گھٹیا قسم کی باتیں کر رہے ہو، دشمنی میں انتہا کی ہوئی ہے، اس چیز سے باز آؤ، نہیں تو اُس خدا کی لاٹھی سے ڈرو جو بے آواز ہے جو اپنے وقت پر پھر تم جیسوں کو تباہ و برباد بھی کر دیا کرتی ہے۔ وہ خدا یہ طاقت رکھتا ہے کہ تم جیسوں کی پکڑ کرے۔ مَیں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے پاس طاقت تو کوئی نہیں، ہم دعاؤں سے تم جیسوں کا مقابلہ کریں گے۔ اس خطبہ کے خلاصے پر مشتمل پریس ریلیز جو ہمارا پریس سیکشن بھیجتا ہے، اُن کے انچارج جب یہ ریلیز بنا کر میرے پاس لائے تو باقی چیزیں تو انہوں نے لکھی ہوئی تھیں لیکن یہ فقرہ نہیں لکھا تھا۔ پھر اُن کو مَیں نے کہا کہ یہ فقرہ بھی ضرور لکھیں کہ ہمارے پاس کوئی دنیاوی ہتھیار نہیں ہے۔ یہی مَیں نے کہا تھا۔ لیکن ہم دعا کرتے ہیں کہ تم اور تم جیسے جتنے ہیں وہ فنا ہو جائیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارا اپنے تمام مخالفین اور دشمنوں سے مقابلہ یا تو دلائل کے ساتھ ہے یا پھر سب سے بڑھ کر دعاؤں کے ساتھ۔ بہر حال یہ پریس ریلیز جو تھی، یہ خیرت ولڈر جو سیاستدان ہے اس نے بھی پڑھی اور انہوں نے اپنی حکومت کو خط لکھا اور حکومت سے، ہوم منسٹر سے چند سوال کئے۔ جب یہ وہاں پریس میں آئے تو وہاں کی جماعت نے مجھے لکھا کہ اس طرح اُس نے سوال کئے ہیں۔ لگتا تھا کہ جماعت والوں کو تھوڑی سی گھبراہٹ ہے۔ اُس پر مَیں نے اُنہیں کہا تھا کہ اگر ہوم آفس والے پوچھتے ہیں تو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، پریشان بھی ہونے کی ضرورت نہیں، کھل کر اپنا مؤقف بیان کریں۔ بنیاد تو اُس شخص نے خود قائم کی تھی جو غلط قسم کی حرکتیں کر رہا ہے۔ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر غلط فلمیں بھی بنائی ہیں۔ انتہائی سخت زبان اُس نے استعمال کی تھی۔ اسلام کو بدنام کیا تھا۔ ہم نے تو اُسکا جواب دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے نبی کی غیرت رکھنے والا ہے اور وہ پکڑ سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔
بہر حال اُس نے یہ سوال جو اپنی حکومت کو بھیجے تھے، اُس کے سوالوں کا کچھ دنوں کے بعد حکومت نے جواب بھی دیا اور یہ وہاں اخبار میں بھی آ گیا۔
وِلڈر نے پہلا سوال یہ کیا تھا کہ کیا یہ آرٹیکل کہ World muslim leader sends warning to Dutch politician Geert Wilders عالمی مسلمان رہنما کی ہالینڈ کے سیاستدان خیرت ولڈر کو تنبیہ آپ یعنی وزارتِ داخلہ ہالینڈ کے علم میں ہے؟ تو وزیرِ داخلہ نے اُس کو جواب دیا کہ ہاں مجھے علم ہے۔ یہ آرٹیکل مَیں نے پڑھا ہے۔
پھر اگلا سوال اُس کا یہ تھا، (میرا نام لیا تھا) کہ مرزا مسرور احمدنے یہ کہا ہے کہ تم سُن لو کہ تمہاری پارٹی اور تمہارے جیسا ہر شخص بالآخر فنا ہو گا۔ یہ وِلڈر نے منسٹر کو لکھا۔ پھر آگے اس کی تشریح خود کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ اس مفسدانہ بیان پر وزارتِ داخلہ اسلامی تنظیم کے خلاف کیا قدم اُٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے؟ ڈچ وزیرِ داخلہ نے جواب دیا کہ پریس ریلیز کے مطابق مرزا مسرور احمدنے کہا ہے کہ ایسے افراد اور گروہ کسی فساد یا دیگر سیکولر حربوں سے نہیں بلکہ صرف دعا کے ذریعے ہلاک ہوں گے۔ اس بیان پر مَیں کوئی ایسی بات نہیں دیکھتا جو کہ فساد کو ہوا دیتی ہو یا باعثِ فساد ہو۔ اس لئے مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ مَیں احمدیہ مسلم جماعت کے خلاف کوئی قدم اُٹھاؤں۔ پھر تیسرا سوال اُس نے کیا تھا کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی ہالینڈ کا عالمگیر جماعت احمدیہ مُسلمہ اور مسرور احمد سے کیا تعلق ہے؟ اسکا ڈچ وزیر نے جواب دیا کہ احمدیہ مسلم جماعت ہالینڈ عالمگیر جماعت احمدیہ مُسلمہ کا ہی ایک حصہ ہے۔‘‘
پس خلافت وہ قلعہ ہے جس کی فصیلیں خوف کی دسترس سے بلند تر ہیں۔ وہ خوف خواہ منافقت کا ہو یا عداوت کا ۔ جنگ کا ہو یا سیاست کا ۔ کسی گروہ کی طرف سے ہو یا بادشاہت کی طرف سے۔ ہر حال میں خلافت امن کے حصار کا نشان ہے۔ بڑی سے بڑی حکومت بھی اس کو نقصان نہیں پہنچاسکتی بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ جو حکومت بھی خلافت حقہ سے ٹکرائی، پاش پاش ہوگئی۔
خلافت ایک ایسا زندہ شجر ہے کہ جو اس سے پیوستہ رہتا ہے خواہ وہ خطوط کے ذریعہ ہی ہو خواہ وہ حضور کیلئے دعائیں کر کے اپنے آپ کو حضور کی مجلس میں رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کوعافیت کے حصار میں رکھتا ہے۔
آئیوری کوسٹ کے ایک نوجوان پائلٹ ایک سال کے کورس کیلئے بلجیم آئے ہوئے تھے۔ یہاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات حاصل کیا اورموصوف نے بتایا کہ انہیں جو پائلٹ بننے کیلئے منتخب کیا گیا ہے وہ حضورانور کی دعاؤں کے طفیل ہی ہے۔
واقعہ اس طرح ہوا کہ وہ چند سال قبل جب جلسہ سالانہ آئیوری کوسٹ میں شامل ہوئے تو وہاں ان کے دوست نے ان سے کہا کہ میں نے ایک اشتہار دیکھا کہ ایئر آئیوری کوسٹ لوگوں کو اپنی سروس میں لینے کیلئے مقابلہ کروارہی ہے۔ لیکن فائل جمع کروانے کی تاریخ گزر گئی ہے۔ موصوف بتاتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ تاریخ گزرگئی تھی۔ میں نے حضورانور کی خدمت میں دعا کیلئے لکھا اور ساتھ ہی اپنی فائل جمع کروادی۔ کچھ دنوں بعد ان کو جواب ملا کہ اگرچہ آپ نے فائل تاخیر سے جمع کروائی ہے۔ لیکن ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ اس مقابلہ میں حصہ لیں۔ اسکے بعد انہوں نے اس مقابلہ کیلئے تحریری امتحان دیا اور ایک ہزار اُمیدواروں میں سے صرف پندرہ اُمیدوار منتخب ہوئے۔ جن میں ان کا نام بھی شامل تھا۔ موصوف نے کہا یہ سب کچھ حضورانور کی دعاؤں کے طفیل ہوا۔
(ماخوذ ازالفضل انٹرنیشنل 25؍ اکتوبر 2019ء صفحہ20)
جرمنی سے ایک طفل نے اس بات کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں میں نے اپنے پیارے حضور کی خدمت میں ایک دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ میرے خاندان کو ہر قسم کے مسائل سے نکالے اور کسی کو کسی قسم کی پریشانی نہ رہے۔ تو کہتے ہیں اس وقت میرے ایک انکل اکیلے پاکستان میں رہتے تھے، سارے رشتے دار باہر تھے اور بڑے مسائل میں گھرے ہوئے تھے۔ کوئی جاننے والا پاس نہ ہونے کی وجہ سے ہروقت پریشان بھی رہتے تھے تو میں نے اس وقت حضور کی خدمت میں ان کی خاطر ایک دعا کا خط لکھا تو حالات نے عجیب پلٹا کھایا۔ چند دنوں کے اندر اندر انکل کا ناروے سے رشتہ آیا۔ وہ رشتہ طے پایا اور وہ انکل اللہ کے فضل سے ناروے آئے اور اب وہاں اپنے بیوی بچوں اور فیملی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ خلافت کی برکتیں ہیں، یہ تسکینِ جان کے سامان ہیں۔
کینیڈا کی ڈرہم (Durham)جماعت سے ایک خاتون نے ایک مربی صاحب کو اپنا واقعہ سنایا۔ یہ واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ اس میں وہ کہتی ہیں کہ چند سال پہلے ہماری عائلی زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ آئے اور آپس میں اس قدر شدید اختلافات پیدا ہو گئے کہ مَیں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں نے اس بندے کے ساتھ نہیں رہنا اور میں نے اب علیحدہ ہونا ہے۔ اسی دوران حضور کا کینیڈا کا دورہ آ گیا۔ حضور تشریف لائے۔ میں نے بھی ملاقات کی درخواست کی اور ملاقات میں حاضر ہوئے تو میں نے یہ ساری صورتحال، کیفیت بیان کی اور بچوں کیلئے دعا کی درخواست کی اور حضور کی خدمت میں فیصلہ بھی سنا دیا کہ میں نے تو علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حضور نے فرمایا تمہارا خاوند کیا کہتا ہے؟ تو خاتون کہتی ہیں میں نے کہا وہ تو صلح کی طرف مائل ہے لیکن میں نے بس اب آخری فیصلہ کر لیا ہے، کوئی صلح نہیں، کوئی واپسی نہیں۔ حضور نے اس وقت فرمایا اگر وہ صلح کی طرف مائل ہے تو صلح کر لو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔ کہتی ہیں کہ یہ عجیب ہے کہ میں نے عرض کیا کہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے، سب کچھ ختم ہو گیا ہے اورحضور فرما رہے ہیں کہ نہیں صلح کر لو سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔ تو کہتی ہیں اب میرے سامنے سوائے سرِ تسلیم خم کرنے کے کوئی چارہ نہ تھا۔ میں نے ملاقات سے نکل کر خود ہی خاوند کو فون کیا اور اس سے صلح کر لی۔اللہ تعالیٰ نے حضور کے ان الفاظ میں ایسی تسکین رکھی اور ان الفاظ کو ایسی برکت بخشی کہ اس صلح کے بعد ہماری زندگی ہی بدل گئی ہے۔ اب ہمارے درمیان ایک ایسے پیار اور محبت اور مودت سے معمور تعلق کی بنیاد پڑ گئی ہے کہ ایسے لگتا ہے جیسے ہر روز ہماری شادی ہو رہی ہے۔ کاش وہ لوگ جو خلافت کی اس نعمت سے محروم ہیں وہ یہ سمجھ سکیں کہ ایسے مواقع پر جب انہیں سمجھانے والا، ان کیلئے دعائیں کرنے والا اور ان کو تسکین کے کلمات عطا کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تو احمدیوں کے پاس ان کا خلیفہ ہوتا ہے جو ایک عظیم الشان نعمت کی طرح میسر ہے اور یہ خلافتِ حقہ اسلامیہ احمدیہ کی نعمت ہے اور یہی نعمت وجہ تسکین جان ہے۔
حضرات!حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بے شمار ملکوں کے ایوانوں میں خود جا کر اسلام کی پُر امن تعلیمات کے بارہ میں بہت پُر اثر خطابات فرمائے۔ ان کی وجہ سے آپ کو ’’امن کے سفیر‘‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔ لا تعداد لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ حضور کی زبانِ مبارک سے اسلام کا تعارف سن کر آپ کی آواز ہمارے دل میں گھر کر گئی ہے اور ہمارے دل و دماغ اسلام کی تعلیم سے سرشار ہو گئے ہیں۔ صرف ایک اعتراف پیش کرتا ہوں:
2012ء میں حضور انور نے برسلز میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب فرمایا۔ اس موقع پر Bishop Dr Amen Howard جنیوا (سوٹزرلینڈ) سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطاب میں شمولیت کیلئے آئے تھے،انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار جن الفاظ میں کیا وہ توجہ سے سننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا:
’’یہ شخص جادوگر نہیں لیکن ان کے الفاظ جادو کا سا اثر رکھتے ہیں۔ لہجہ دھیما ہے لیکن ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ غیر معمولی طاقت، شوکت اور اثر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس طرح کا جرأت مند انسان میں نے اپنے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ آپ کی طرح کے صرف تین انسان اس دنیا کو مل جائیں تو امن عامہ کےحوالے سے اِس دنیا میں حیرت انگیز انقلاب مہینوں نہیں بلکہ دنوں کے اندر برپا ہو سکتا ہے اور یہ دنیا امن اور بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتی ہے۔‘‘
(احمدیہ گزٹ کینیڈا مئی 2018ء، صفحہ20)
خلافت کی عظیم الشان برکات میں سے چند ایک کا ذکر ہی ممکن ہے۔ خلافت کی نعمتِ غیر مترقبہ کے شکرانے اور اس عظیم الشان حصارِ عافیت سے فیض پانے کیلئے ہم سب کو اپنی اپنی جگہوں پر چھوٹے چھوٹے امن کے گہوارے پیدا کرنے ہوں گے۔ حضور انور ایدہ اللہ اپنے خطبات و خطابات میں ہمیں بحیثیت ہر دوانفرادی و اجتماعی اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے، اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے، خدا تعالیٰ پر توکل کرنے، دعاؤں کی طرف خاص توجہ کرنے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کے تقاضوں کو پورا کرنے، اپنے اندر پاکیزہ عملی تبدیلی پیدا کرنے، اپنے گھروالوں سے حسن سلوک کرنے، اپنی آنے والی نسل کی عمدہ تربیت کرنے سمیت ہر عمل صالح بجا لانے کی طرف بار بار توجہ دلاتے ہیں۔ اگرہم سب صدقِ نیت سے ان نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ ضرور ہماری کوششوں پر پیار کی نظر ڈالتے ہوئے ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا اور ہم سب اپنے اپنے دائرہ، اپنے اپنے یونٹ میںحقیقی امن و عافیت کے سفیر بن جائیں گے اور جس معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی فردِ واحد اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے عمدہ اخلاق اپنالے وہ معاشرہ اخلاقی بلندیوں کو چھوتے ہوئے حقیقی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ معاشرہ بجائے خود عافیت کا حصار بن جاتا ہے جس میں بسنے والا ہر فرد درندوں سے محفوظ شمار کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کی لازوال نعمت کا شکرانہ ادا کرنے اور خلیفۂ وقت کا حقیقی مطیع بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ہماری جاں خلافت پر فدا ہے
یہ روحانی مریضوں کی دوا ہے
اندھیرا دل کا اس سے مٹ گیا ہے یہی ظلمات میں شمعِ ھُدیٰ ہے
حصارِ امن و ایمان و یقیں ہے
کنارِ عافیت حبلُ المتیں ہے

(وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین)

…٭…٭…٭…