اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-08

شیطان کے معنے عربی زبان کے لحاظ سے حق سے دُور ہونے والے وجود کے ہیں

یا بدی میں ترقی کر جانے والے کےاور ابلیس ایسے وجود کو کہتے ہیں جو مایوس ہو جائے

 

میری تحقیق کے مطابق شیطا ن اور ابلیس ایک ایسے وجود کا بھی نام ہے

جسے خدا تعالیٰ نے انسانوں کے امتحان کیلئے ملائکہ کے مقابل میں رکھاہے

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ الحج کی آیت4اور5(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطٰنٍ مَّرِيْدٍ۝ كُتِبَ عَلَيْہِ اَنَّہٗ مَنْ تَوَلَّاہُ فَاَنَّہٗ يُضِلُّہٗ وَيَہْدِيْہِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِ)کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
فرماتا ہے بغیر واضح دلیل کے تو کسی معاملہ میں بھی نہیں جھگڑنا چاہئے ۔پھر یہ کتنا ظلم ہے کہ کو ئی شخص خدا تعالیٰ کے متعلق کج بحثی شروع کر دے اور کسی سرکش شیطان کے پیچھے لگ جائے۔ حالانکہ یہ الٰہی تقدیر ہے کہ جو شخص سرکش شیطان کے پیچھے لگ جائے اور اس کا دوست بن جائے،وہ اُسے گمراہ ہی کرتا ہے اور اُسے عذاب ہی کا رستہ دکھاتا ہے ۔اس آیت سے ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص بار بار شیطان کی بات ماننے لگتا ہے تو ان دونوں کا آپس میں دوستانہ تعلق ہو جاتا ہے اور یہ تعلق آخر اُسے جہنم تک پہنچا کر رہتا ہے ۔ایک دوسرے مقام پر بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ يَّكُنِ الشَّيْطٰنُ لَہٗ قَرِيْنًا فَسَاۗءَ قَرِيْنًا ( نساء رکوع 6) کہ شیطان جسکا ساتھی بن جاتا ہے اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بہت ہی بُرا ساتھی ہے۔ اگر اس حالت میں بھی انسان اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ کرے تو پھر بدیوں میں بڑھتے بڑھتے آخر وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ شیطان اس کا دوست نہیں رہتا بلکہ آقا بن جاتا ہے، اور وہ اُسکی غلامی میں پورے طور پر جکڑا جاتا ہے ۔گویا مومن تو ہدایت پر سوار ہوتے ہیں مگر یہ شخص اتنا گِرجا تا ہے کہ شیطان اُس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے اور وہ جدھر چاہتا ہے اُسے ہانک کر لے جاتا ہے ۔ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ بعض انسانوں کو ہم نے ایسا بنایا ہے کہ وہ شیطان کی پرستش کرنے لگ گئے ہیں۔ ( مائدہ رکوع 9) گویا یہ ذلت کا انتہائی مقام ہے کہ وہ انسان جسے خدا نے اپنا عبد بننے کیلئے پیدا کیا تھا وہ اپنی بد کر داریوں سے شیطان کی فرمانبر داری کرنے لگ جا تا ہے ۔
اس جگہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کے بارے میں بھی کچھ روشنی ڈال دی جائے کہ وہ کیا چیز ہے ۔شیطان کے معنے عربی زبان کے لحاظ سے حق سے دُور ہونے والے وجود کے ہیں یا بدی میں ترقی کر جانے والے کےاور ابلیس ایسے وجود کو کہتے ہیں جو مایوس ہو جائے ۔میری تحقیق کے مطابق شیطا ن اور ابلیس ایک ایسے وجود کا بھی نام ہے جسے خدا تعالیٰ نے انسانوں کے امتحان کیلئے ملائکہ کے مقابل میں رکھاہے۔ اس شیطان کیلئے اُس وقت تک کہ اس کا کا م پورا ہو موت نہیں ۔جس طرح کہ ملائکہ کیلئے اس وقت تک کہ ان کاکام پورا ہوموت نہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کے بالمقابل جو وجود کھڑا ہو اتھا وہ یہ شیطان بھی تھا اور اس کے اظلال بھی تھےلیکن قصّۂ آدم میں جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں اُن کے دو حصّے ہیں۔ایک حصّہ بدی کے محرک کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ایک حصّہ اُسکے اظلال کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔پس حضرت آدم علیہ السلام کے وقت کا شیطان زندہ بھی ہے اور مر بھی چکا ہے۔وہ زندہ ہے اِن معنوں میں کہ محرک بدی انسانی نسل کے اس دنیا میں موجود رہنے تک قائم رکھا جائیگا اور وہ مُردہ ہے ان معنوں میں کہ اُسکے وہ اظلال جن کا قصّہ آدم ؑ میں ذکر آتا ہے وہ اُسی زمانہ میں فوت ہوچکے ہیں ۔وہ شیطان جو محرک ِ بدی ہے اُسکے متعلق تو کسی ثواب اور عذاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاکیونکہ ایک آدمی کو قتل کرنیوالا آدمی پھانسی پاتا ہے لیکن بیسیو ں آدمیوں کو جلادینے والی بجلی تو کسی سزا کی مستحق نہیں ہوتی۔ زلزلہ کا مادہ علاقوں کو اجاڑ دیتا ہے۔اولوں کی بارش زمیندار و ں کو تباہ کر دیتی ہے ۔آندھیاں شہروں کو ویران کر دیتی ہیں۔ یہ دُکھ دینے والی چیزیں ہیں لیکن کسی شرعی الزام کے نیچے نہیں آتیں ۔بے شک شیطان اور ابلیس کا ٹھکانہ جہنم ہے جس طرح فرشتوں کا ٹھکانہ جنّت ہے لیکن نہ فرشتے جنّت سے متلذّذ ہو سکتے ہیں اور نہ شیطان جہنّم سے متالم ۔شیطان ایک ناری وجود ہے ۔کیا آگ کا انگارہ بھی بھٹی میں دُکھ پا سکتا ہے ؟ اُس کا تو مقام ہی وہی ہے ۔پس شیطان کے دوزخ میں جانے کے یہ معنے نہیں کہ اُس کو سزا دی جائے گی بلکہ وہ جس جگہ کی چیز ہے وہیں چلی جائیگی ۔ملائکہ اگر جنّت میں جائیں گے تو وہ کسی انعام کے بدلہ میں نہیں جائیں گے ۔اِسی طرح شیطان بھی دوزخ میں کسی سزا کی وجہ سے نہیں جائیگا ۔ہاں جو اسکے اظلال ہیں وہ اپنے اپنے مراتب کے مطابق سزا پائیں گے،اس لئے کہ وہ ایسے کام کرتے ہیں جن کیلئے اُنکو پیدا نہیں کیا گیا ۔سزا ہمیشہ اُن کاموں کی ملتی ہے جو خلاف قانونِ طبعی ہوتے ہیں۔ انسان کو چونکہ خلقتًانیکی کیلئے پیدا کیا گیا ہے جیسے فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ۔ اس لئے جو شخص عبودیت کو ترک کر تا اور عبادت کو بھُلا دیتا ہے وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے ، مگر محرک بدی تو پیدا ہی امتحان کیلئے کیا گیا ہے اُس کو تو سزا تبھی مل سکتی ہے جب وہ تحریک ِ بدی میں سُستی کرے ۔ہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر اسکو بُرا کیوں کہا جاتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کا بُرا ہونا اور شے ہے اور سزا کا مستحق ہونا اور شے۔ پاخانہ کو گھر سے اٹھا کر اس لئے نہیں پھینکتے کہ اسکو سزا دیتے ہیں بلکہ اس لئے کہ اُسکا رہنا ہماری صحت کیلئے مضر ہوتا ہے۔یہی حال محّرک بدی شیطان کا ہے ۔وہ بیماری اور گناہ کا نمائندہ ہے۔ اس لئے لازمی طور پر اُسے برا کہا جائیگا لیکن باوجود اس کے وہ سزا کا مستحق نہیں ۔ہاں اسکے ماتحت کچھ اظلال ہیں جو انسانوں میں سے بھی ہیں اور جنوں میں سے بھی۔ ایسی بد ارواح جن کا مقصد ِ پیدائش بدی نہیں لیکن بدی کو پسند کر کے وہ بدی کی محرّک ہو جاتی ہیں،یا ایسے انسان جو بدی کیلئے نہیں پید ا کئے گئے لیکن وہ بدی کو پسند کرکے بدی کے محّرک بن جاتے ہیں،یہ لوگ بھی اپنے اپنے درجہ کے مطابق شیطان اور ابلیس ہیں ۔اور سزا کے مستحق ہیں ۔

(تفسیر کبیر، جلد6، صفحہ10تا15،مطبو عہ 2010قادیان )