اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-01

قرآن کریم میں ساعۃ کا لفظ صرف اُخروی قیامت کیلئے استعمال نہیں کیا گیا

بلکہ انبیاء کی جماعتوں کی ترقی اور اُن کے دشمنوں کی تباہی کیلئے بھی ساعۃ ، کا لفظ استعمال کیا گیا ہے

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ الحج آئت 2اور 3کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
بیشک ا س آیت میں زَلْزَلَۃُ السَّاعَۃِ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن سے بادیٔ النظر میں یہ شبہ پید ا ہوسکتا ہے کہ شاید اس میں عالمِ آخرت کے اُس عذاب کا ذکر کیا گیا ہے جو کفار کیلئے مقدر ہے لیکن یہ درست نہیں۔قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ساعۃ کا لفظ صرف اُخروی قیامت کیلئے استعمال نہیں کیا گیا بلکہ انبیاء کی جماعتوں کی ترقی اور اُن کے دشمنوں کی تباہی کیلئے بھی ساعۃ ، کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد جب معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قریش مکّہ نے بنوبکر کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے معاہد قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا اور اُن کے کئی آدمی مار ڈالے تو بنو خزاعہ نے فوراً چالیس آدمی تیز اونٹو ں پر بٹھا کر مدینہ میں اس بد عہدی کی اطلاع دینے کیلئے روانہ کر دیئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ باہمی معاہدہ کے مطابق اب آپ ہمارا بدلہ لیں اور مکّہ پر چڑھائی کر یں ۔یہ وفد ابھی مدینہ نہیں پہنچا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کشفی رنگ میں رسول کریم ﷺ کو مکّہ والوں کی اس بد عہدی کی اطلاع دے دی ۔
…اسی دوران میں رسول کریم ﷺ نے مکّہ پر حملہ کرنے کیلئے دس ہزار کا لشکر تیار کر لیا اور آپ منزلوں پر منزلیں طے کرتے ہوئے رات کے وقت مکّہ کے قریب جا پہنچے اور آپ نے حکم دے دیا کہ ہر خیمہ کے آگے آگ روشن کی جائے ۔ایک جنگل میں رات کے وقت دس ہزار آدمیوں کے خیموں کے سامنے بھڑکتی ہوئی آگ ایک ہیبتناک منظر پیش کر رہی تھی۔ مگر چونکہ آپ نے یہ تیاری نہایت مخفی رکھی تھی اس لئے مکّہ والوں کو اس بات کا کوئی علم نہ تھا کہ اسلامی لشکر اُن کے سامنے ڈیرہ ڈالے پڑا ہے…
ابو سفیان اپنے ساتھیوں کے ساتھ جب مکّہ سے باہر نکلا تو اُس نے سارے جنگل کو آگ سے روشن پا یا۔ وہ حیران ہوا کہ یہ کون لوگ ہیں۔چنانچہ ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں سے پُو چھا کہ یہ کیا ہے ۔کیا آسمان سے کو ئی لشکر اُتر آیا ہے ۔انہوں نے مختلف قبائل کے نام لئے مگر ابو سفیان ہر نام پر کہتا کہ اس قبیلہ کے لوگ تو بہت تھوڑے ہیں اور اِن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اندھیرے میں آواز آئی ۔ابو حنظلہ ! یہ ابو سفیان کی کُنیت تھی ۔ابو سفیان نے آواز پہچان لی اور کہا ۔عبا س !تم کہاں ! اُس نے کہا سامنے محمد رسول اللہ ﷺ کا لشکر پڑا ہے۔ اگر تم اپنی جان کی خیر چاہتے ہو تو فوراً میرے پیچھے سواری پر بیٹھ جائو۔ورنہ عمر ؓ میرے پیچھے آرہا ہے اور وہ تیری خبر لیگا ۔چنانچہ حضرت عباس ؓ نے جو ابو سفیا ن کے گہرے دوست تھے اسکا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور سواری کو دوڑاتے ہو ئے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے ۔وہاں جاتے ہی ابو سفیان کو انہوں نے رسول کریم ﷺ کے قدموں میں دھکا دیکر گر ا دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ابو سفیان بیعت کرنے کیلئے حاضر ہو ا ہے ۔
…حضرت عباسؓ کے زور دینے کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ اُسکے دونوں ساتھیوں نے بھی بیعت کر لی تھی اُس نے بھی اسلام قبول کر لیا ۔پھر اُس نے کہا یا رسول اللہ ! اگر مکّہ کے لوگ تلوار نہ اُٹھائیں تو کیا وہ امن میں ہونگے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیگا اور مقابلہ نہیں کریگا اُسے امن دیا جائیگا ۔حضرت عباس ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ابو سفیان کو اپنے اعزاز کا زیاد ہ خیال رہتا ہے اسکی عزت کا بھی کوئی سامان کیا جائے۔آپ نے فرمایا اچھا جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائیگا اُسے بھی امن دیا جائیگا۔اُس نے کہا یا رسول اللہ ! مکّہ کی آباد ی کو مدنظر رکھتے ہوئے ابو سفیان کا گھر بہت چھوٹا ہے۔آپ نے فرمایا جو شخص حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہو جائیگا اُسے بھی امن دیا جائیگا۔اورجو شخص اپنے ہتھیار پھینک دیگا اُسے بھی امن دیا جائیگا ۔اور جو کوئی خانہ کعبہ میں چلا جائیگا اُس کو بھی امن دیا جائیگا۔ اُس نے کہا ۔یا رسول اللہ ! یہ جگہیں بھی مکّہ کی آبادی کے لحاظ سے کافی نہیں ۔آپ نے فرمایا اچھا میرے پا س کچھ کپڑا لائو۔جب کپڑا لایا گیا تو آپ نے اُس کا ایک جھنڈا بنایا اور پھر وہ جھنڈا آپ نے ایک صحابی ؓ ابو رویحہؓ کو دیا جو حضر ت بلالؓ کے بھائی بنے ہوئے تھےاور فرما یا کہ یہ بلا ل ؓ کا جھنڈا ہے جو کوئی اسکے نیچے آکر کھڑا ہو جائیگا اُس کو بھی معاف کر دیا جائیگا۔
یہ تاریخی واقعہ بتاتا ہے کہ جب ابو سفیان نے مکّہ میں جا کر اعلان کیا ہوگاتو کس طرح لوگ پاگلوں کی طرح اپنے اپنے گھروں کی طرف ،خانہ کعبہ کی طرف ،بلال ؓ کے جھنڈے کی طرف اور ابو سفیان اور حکیم بن حزام کے گھر کی طرف دوڑ پڑے ہونگے اور کس طرح اُن کے دل اُس وقت لرز رہے اور ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہونگی ۔اور اُن کے حواس باختہ ہو رہے ہوں گے ؟ اس موقعہ پر رسول کریم ﷺ نے جو بلال ؓ کا جھنڈا بنایا یہ ایک لطیف طریقہ مکّہ والوں کو ذلیل کرنے اور بلال ؓ کا دل خوش کرنے کا تھا ۔مکّہ والے سالہا سال تک بلال ؓ کو اسکے اسلام لانے کی وجہ سے مارا کرتے تھے ۔رسول کریم ﷺ کے دل میں خیال آیا کہ بلا ل ؓ دل میں کہیگاکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی قوم کو تو معاف کر دیا مگر میرے سینہ اور چھاتی پر لگے ہوئے زخموں کا کوئی بدلہ نہ لیا۔پس آپ نے اُن کا جھنڈا بنا کر اُن کے ایک منہ بولے بھائی کے ہاتھ میں دے دیا اور فرما یا کہ جو کوئی بلال ؓ کے جھنڈے کے نیچے آکر کھڑ ا ہو گا اُسے بھی معاف کیا جائیگا ۔( سیرۃ الحلبیہ، جلد3، ص93 ) اور اس طرح ایک ہی وقت میں آپ نے اپنی رحم دلی کا ثبوت بھی دے دیا اور بلال ؓ کے زخموں پر پھایا بھی لگا دیا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔

(تفسیر کبیر، جلد6، صفحہ6،مطبو عہ 2010قادیان )