سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ الحج کی آیت نمبر2اور3 يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ۰ۚ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ۲ يَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ كُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا ہُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللہِ شَدِيْدٌ۳کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
اس آیت کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ضروری نہیں کہ اس آیت کا مفہوم آخرت پر ہی چسپاں کیا جائے بلکہ شدید جنگوں یا زلزلوں میں بھی یہ حالت پیش آتی رہتی ہے۔جب ضلع کانگڑہ میں1905ءکا زلزلہ آیا جس سے تیس ہزار کے قریب آدمی مر گئے تھے اور جو زخمی ہوئے اُن کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی اور گائوں کے گائوں اس طرح مٹ گئے کہ انکا نام و نشان نہ رہا اور تمام پنجاب ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہل گیا تو اُس وقت لوگوں کا بالکل یہی حال ہو ا تھا ۔اسی طرح 1935ء میں جب کوئٹہ میں زلزلہ آیا اور مجروح اور زلزلہ سے بچے ہوئے لوگ سپیشل ٹرینوں کے ذریعہ واپس آتے تو لوگ دیوانہ وار روتے ہوئے سٹیشنوں پر اِدھر اُدھر اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں دوڑتے پھرتے ۔اور جب انہیں اپنا کوئی رشتہ دار نظر نہ آتا تو ان کے نالہ وبکا سے ماتم برپا ہو جاتا۔ایک اخبار کے نامہ نگار نے لکھا کہ میں نے ایک عورت کو دیکھا وہ اس طرح اسٹیشن پر پھر رہی تھی جس طرح ایک شرابی نشہ میں مدہوش ہو کر لڑھکتا پھرتا ہے۔وہ کبھی دائیں گِرتی کبھی بائیں اور روتے ہوئے کہتی کہ سارے ہی مرگئے کوئی بھی نہیں بچا۔بعض لوگوں نے بیان کیا کہ جب مصیبت زدہ لوگوں سے پوچھا جاتا تو وہ جواب دینے کی بجائے چیخیں مار کر روپڑتے۔ پھر کئی آدمی اس صدمہ کی وجہ سے پاگل ہوگئے ۔ان دنوں اخبارات میں چھپاتھا کہ کوئٹہ سے ملتان کو گاڑی آرہی تھی کہ راستہ میں دو عورتیں شدت غم کی وجہ سے پاگل ہوگئیں ۔ایک اور شخص بھی دیوانہ ہوگیا اور اُس نے چلتی گاڑی سے چھلانگ لگا دی۔ غرض یہ ایک ایسا درد ناک نظارہ تھا کہ اس نظارہ کو دیکھنے والے توکیا پڑھنے والے بھی ششدر رہ جاتے تھے اور اُن کے دل کرب و اضطراب سے بھر جاتے تھے ۔
15؍ جنوری 1934ءکو جب بہار میں ایک قیامت نما زلزلہ آیا جسکے متعلق لارڈ ریڈنگ سابق وائسرائے ہند نے لنڈن میں ایک تقریر کرتے ہوئے چشم پُر آب ہو کر کہا تھاکہــ’’ یہ زلزلہ ایسا ہیبتناک ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔‘‘ ( اخبار سول 10؍فروری 1934ء)
تو اُس وقت بھی لوگوں کی یہی کیفیت ہوئی تھی ۔
اخبار ’ ’ حقیقت ‘‘ لکھنؤ نے لکھا کہ’’انسان تو انسان حیوان بھی اس قہر ِ خدا سے حواس باختہ ہوگئے تھے اور درندے نہایت بدحواسی سے آدمیوں کے پاس بھاگتے ہوئے جا رہے تھے۔‘‘( حقیقت 18؍جنوری 1934ء)
’’ امرت بازار پتر کا ‘‘ کے نامہ نگار نے لکھا کہ’’ میں نے کئی آدمیوں کو کھڑکیوں سے چھلانگیں لگاتے دیکھا ۔مگر اُن کے نیچے آنے سے پہلے دیواریں گِر جاتی تھیں ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انسانی سروں ، ہاتھوں اور بازوئوں کی بارش ہو رہی ہے۔‘‘ ( پرتاپ لاہور 26؍جنوری1934ء)
مونگھیر کی تباہی کے متعلق ایک شخص نے اپنا چشم دید ماجرا بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اُس وقت ’’ زمین میں دائیں اور بائیں دو حرکتیں ہوئیں بعد ازاں ایسا معلوم ہوا کہ کسی نے زمین کو چرخی پر رکھ کر گھما دیا ہے ۔میرے ہوش و حواس زائل ہوگئے ۔آدھ گھنٹہ کے بعد سنبھلا تو ایک عجیب منظر میرے سامنے تھا ۔جہاں تک نظر جاتی تھی کھنڈر ہی کھنڈر دکھائی دیتے تھے ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں مونگھیر میں نہیں ۔شہر کی حالت اتنی تبدیل ہوگئی تھی کہ میں اپنا گھر بھی نہ پہچان سکا ۔‘‘ ( انقلاب یکم فروری1934ء)
اخبار ’’ ملاپ ‘‘ کے ایڈیٹر نے لکھا کہ
’’ باپ بچوں کی تلاش میں سرگردان ہیں ۔بچے اپنے ماتا پتا کو تلاش کر رہے ہیں۔گِرے ہوئے مکانات میں جو بچے بچ رہے ہیں وہ ایک ایک اینٹ اُٹھا کر دیکھ رہے ہیں کہ اُن کے ماتا پتا نیچے سے نظر آسکیں اور انہیں پیار سے بلا سکیں لیکن بھونچال نے کس کو زندہ رہنے دیا ہے۔ جب مکان کھودتے کھودتے لاش نکلتی ہے تو پھر چیخ و پکار کا کیا ٹھکانہ۔ پتھر سے پتھر دل بھی روتا ہے ۔‘‘ ( ’’ ملاپ ‘‘ 25جنوری1934ء)
یہی حال جنگ میں بھی ہوتا ہے ۔چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ جنگ میں ایک عورت کو دیکھا جو دیوانہ وار دوڑی پھرتی تھی ۔اُس کا بچہ کہیں گُم ہو گیا تھا ۔وہ کبھی ایک بچہ کو اُٹھاتی اور کبھی دوسرے کو اور پھر پاگلوں کی طرح اپنے بچہ کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی یہاں تک کہ اُسے اپنا بچہ نظر آگیا ۔اُس نے لپک کر اُسے گود میں اُٹھا لیا۔اُس سے پیا ر کرنے لگی اور پھر آرام اور سکون سے بیٹھ کر اُسے دودھ پلانے لگ گئی۔ رسول کریم ﷺ نے یہ نظارہ دیکھا تو فرمایا کہ تم نے جو اس عورت کی گھبراہٹ کا نظارہ دیکھا ہے اس سے کہیں زیادہ گھبراہٹ اللہ تعالیٰ کو اپنے گنہگار بندے کے پانے کی ہوتی ہے ( مسلم، کتاب التوبہ )
یہ جو کہا گیا ہے کہ تُو ان لوگوں کو شراب سے متوالے دیکھے گا حالانکہ وہ شراب سے متوالے نہیں ہونگے اسکا مطلب یہ ہے کہ جس طرح متوالے کی حرکات اسکے قبضے میں نہیں ہوتیں اسی طرح ڈر کی وجہ سے ان لوگوں کی حرکات بھی اُن کے قبضہ میں نہیں ہونگی۔ خطرناک جنگ میں بھی لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے ۔چنانچہ اگر اس آیت کو جنگ پر ہی چسپاں کیا جائے تو میرے نزدیک اس کو فتح مکّہ پر چسپاں کرنا چاہئے ۔اس سورۃ کا نا م بھی سورۃ الحج رکھا گیا ہے جس میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک عظیم الشان جنگ کے نتیجہ میں مسلمانوں کیلئے حج ممکن ہو جائیگا۔یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اکثر سورتوں کے نام رسول کریم ﷺ نے خود رکھے ہیں اور اس سورۃ کے تیسرے رکوع میں حج کا ذکر بھی آتا ہےاور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی ذکر ہے جن کے ذریعہ حج بیت اللہ قائم ہوا۔پس یہ آیتیں ایک عظیم لڑائی پر دلالت کرتی ہیں جسکے بعد مسلمانوں کیلئے حج کا راستہ کھل جانا مقدر تھا۔
(تفسیر کبیر، جلد6، صفحہ5،مطبو عہ 2010قادیان )
…٭…٭…٭…