سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ کہف آیت 84 وَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
خورس کی بزرگی کا ثبوت تما تاریخوں سے ملتا ہے۔ اسکے بارہ میں لکھا ہے کہ اس کے دشمن بھی اس سے محبت کرتے تھے بلکہ جب وہ کسی حکومت پر حملہ کرتا تو اسکی نیکی اور اسکے انصاف کی وجہ سے شہر والے دروازے کھول کر اس سے جاکر مل جاتے اوراپنے بادشاہ کو چھوڑ دیتے ۔ یسعیاہ نبی نے بھی اپناالہام اس بارہ میں لکھا ہے جس کے یہ الفاظ ہیں ’’خورس کے حق میں کہتا ہوں کہ یہ میرا چرواہاہے وہ میری ساری مرضی پوری کرےگا۔‘‘(باب 24،28)اس کی نیکی اور اس کے اخلاق کے متعلق مورخین نے جو آراء ظاہر کی ہیں وہ یہ ہیں :ہسٹورنیز ہسٹری آف دِی ورلڈ ،جلد2، صفحہ 596 (Historians history of the world) میں مشہور مؤرخ ڈینوفین کی رائے لکھی ہے کہ
’’مَیں نے ایک دفعہ انسانی فطرت پر غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ انسان کیلئے اپنی فطرت کے مطابق دوسرے جانوروں پر حکومت کرنا آسان ہے۔ مگر انسان پر حکومت کرنا مشکل ہے کیونکہ مَیں نے غور کیا کہ کتنے ہی آقا ہیں جن کے گھر میں تھوڑے یازیادہ نوکر ہیں مگر وہ اپنے نوکروں سے بھی اطاعت نہیں کرواسکتے۔ پس اس سے میرا یہی خیال ہوا کہ ایسا ایک بھی آدمی نہیں جو انسان پر حکومت کرسکتا ہو۔ دوسرے جانداروں پر حکومت کرنے والے کئی ہیں ۔ مگر یہ سوچتے سوچتے مجھے خورس بادشاہ کا خیال آیا جس نے میری رائے بدل دی اور مَیںنے کہا کہ انسانوں پر حکومت کرنی مشکل نہیں ۔ مَیں نے دیکھا کہ بعض ایسے لوگ تھے جنہوںنے خوشی سےسائرس کی ماتحتی اختیار کی حالانکہ بعض ان میں سے ایسے تھے جو اس سے دو مہینے کی راہ پر بعض چار مہینے کی راہ پر تھے۔ بعض ایسے بھی تھے جنہوںنے کبھی اُسے دیکھا ہی نہ تھا اور ایسے بھی تھے جنہیں اُسے دیکھنے کی توفیق بھی نہ ہو سکتی تھی۔‘‘
پھر لکھا ہے ’’اس نے لوگوں کے دل میں ایک پُر زور خواہش پیدا کر دی تھی کہ وہ اُسے خوش رکھیں اور کہ وہ ہمیشہ ان پر حکومت کرتا رہاہے اس نے اتنی قوموں پر حکومت کی کہ ان کی تعداد کا شمار مشکل ہے مشرق سے مغرب تک اس کی حکومت پھیلی ہوئی تھی۔ ‘‘
پھر اسی کتاب میں موجود زمانہ کے مؤرخین کی رائے کا یہ خلاصہ لکھا ہے ’’اگر بڑائی انصاف کیلئے لڑنے بلکہ اس کیلئے جان دینے کیلئے تیار رہنے کا نام ہے تو وہ (یعنی خورس)بڑا بادشاہ تھا۔‘‘
پھر لکھا ہے’’وہ محض اپنی ذات کیلئے کچھ نہ کرتا تھا ۔ وہ ا یسا تھا کہ جب میڈیا کی حکومت، بابل کی حکومت اور مصر والوں نے اتفاق کر کے اس پر حملہ کیا تو اس نے محض دفاع کی خاطر تلوار اٹھائی ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ رحم مجسم تھا۔ اس کی ڈھال پر ناجائز خون کا قطرہ نہ گراتھا۔ نہ بھیانک انتقام یا ظلم سے اُس نے ہاتھ رنگے ۔ اس نے مقدونیہ والے بادشاہ کی طرح کبھی شہر نہیں جلائے ۔ اس نے دیگر بادشاہوں کی طرح مغلوب بادشاہوں کے ہاتھ پاؤں نہیں توڑے اس نے یہودی بادشاہوں کی طرح کبھی دیواروں پر ان کو نہیں گھسیٹا نہ اُس نے رومیوں کی طرح مغلوب بادشاہوں کو پھانسی دی۔ نہ اُس نے یونانیوں کے پاگل خدا اسکندرکی طرح خونریزی کی ۔ وہ بے شک ایشیائی تھا مگر وہ ایسے لوگوں میں سے تھا جو اپنے زمانہ سے بہت پہلے پیدا ہو جاتے ہیں ۔‘‘
وہ دوسرے انسانوں سے بہت نرم دل تھا۔ وہ اپنی قوم کے رواج اور دستور سے بہت آگے نکلاہوا تھا انسانی نسل کی انتہائی ترقی جو آئندہ ہونے والی تھی اس پر وہ قائم تھا۔ اس نے اپنی زبردست حکومت کی بنیاد اس پر رکھی تھی کہ ملکوں کو فتح کر کے ان کے درجہ کو بڑھایا جائے اور مفتوحوں کو مساوی حقوق دیئے جائیں ۔ ٹائر کا وہ شہر جس نے نبوکدنضراور سکندر کے آگے بڑے بڑے محاصروں کے بعد اپنے آپ کو سپرد کیا اس شہر نے اس کے جاتے ہی اپنی مرضی سے اپنے دروازے کھول دیئے۔ ‘‘
پھرلکھا ہے کہ ’’سب سے بڑھ کر وہ چھوٹی قوم جو یہودی کہلاتی ہے اس نے بابل کے دریا پر اس کااس طرح استقبال کیا کہ کسی فانی انسان کا استقبال اس نے اس جوش سے کبھی نہیں کیا۔ ‘‘
پھر لکھا ہے ’’وہ اپنے زمانہ کی پیداوارنہ تھا بلکہ اس نے زمانہ کو پیدا کیا اور وہ اس کا باپ تھا ۔ وہ تاریخ انسانی میں ایک منفرد اور بے مثل بادشاہ تھا۔ ‘‘
(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 496،مطبو عہ 2010قادیان )
…٭…٭…٭…