اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-23

میداور فارس کے بادشاہ خورس (Cyrus)کو اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کانام دیا ہے

یہ بادشاہ قرآن کریم میں بیان فرمودہ صفات اپنے اندر رکھتا ہے اور یسعیاہ نبی کے کلام سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے

ذو القرنین کے متعلق سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تحقیق

 

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ کہف آیت 84 وَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِکی تفسیر میں فرماتے ہیں :

اب میں ذو القرنین کے متعلق اپنی تحقیق بیان کرتا ہوں :مَیں اوپر بتاچکا ہوں کہ جیسا کہ سابق مفسروں اور یورپین محققین کا خیال ہے اور جیسا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ خلیفہ اول جماعت احمدیہ نے بیان کیا ہے ، میرے نزدیک بھی ذو القرنین ایرانی بادشاہوں میں سے کسی ایک بادشاہ کا نام ہے۔ حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ اس کانام کیقبادبتاتے تھے۔
بعض نے آپ کی تحقیق میں یہ فرق کردیا ہے کہ اس بادشاہ کو دارائے اول قرار دیا ہے مگر میرے نزدیک ہمیں سب سے اول ان شرائط کو دیکھنا چاہئے کہ جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور پھر اس بادشاہ کی تعیین کرنی چاہئے ۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ (1)ذوالقرنین کو الہام یا خوابیں آتی تھیں (2) وہ اپنے علاقہ سے تو ملک فتح کرتے ہوئے مغرب کی طرف چلاگیا جہاں ایک سیاہ چشمہ میں سورج ڈوب رہاتھا (3)اسکے بعد وہ مشرق کی طرف متوجہ ہوااور مشرقی ممالک کو فتح کیا(4)پھر وہ ایک درمیانی علاقہ کی طرف گیا جہاں سے یاجوج وماجوج حملہ کررہے تھے اور اس نے وہاں دیوار بنائی۔
ہمیں ذوالقرنین کی تعیین کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جو شخص ہمارے ذہن میں مشارٌ الیہ ذوالقرنین کہلانے کامستحق ہے اس میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ خصوصاً اس امر کو کہ وہ صاحب الہام اور خدالیٰ کا مقبول بھی ہے یا نہیں ۔
یہ امر تو پہلے طے ہو چکاہے کہ میداور فارس کے بادشاہوں میں سے ہی کوئی بادشاہ یہاں مراد ہے کیونکہ دانیال کی رؤیا نے ان ہی کو ذوالقرنین کا نام دیا ہے۔ ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کونسابادشاہ یہ صفات اپنے اندر رکھتا ہے ۔ سب سے اول اور اہم صفت الہام کی صفت ہے ۔ اس بارہ میں ہم تاریخ کو دیکھتے ہیں تو فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ ہم کو ایسا ملتا ہے کہ جسے الہام ہوتا تھا اور جس کی نیکی اور تقویٰ کی تعریف ہم کو دوسرے انبیاء کے کلام سے بھی ملتی ہے اور یہ بادشاہ خورس ہے جسے انگریزی میں  Cyrus لکھتے ہیں ۔ یسعیاہ نبی اس بارہ میں لکھتے ہیں :
’’خدا وند اپنے مسیح خورس کے حق میں یوں فرماتا ہے کہ مَیں نے اسکا داہنا ہاتھ پکڑ اکر امتوں کو اسکے قابو کروں اور بادشاہوں کی کمریں کھلواڈالوں اور دہرائے ہوئے دروازے اس کیلئے کھول دوں اور وہ دروازے بند نہ کئے جائیں گے مَیں تیرے آگے چلونگااور ٹیڑھی جگہوں کو سید ھاکروں گا میں پیتل کے دروازوں کے جدا جداپُلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کروں گا اور لوہے کے بینڈوں کو کاٹ ڈالوںگا مَیں گڑے ہوئے خزانے اور پوشیدہ مکانوں کے گنج تجھےدونگاتاکہ تُو جانے کہ مَیں  خدا وند اسرائیل کا خدا ہوں جس نے تیرا نام لے کے بلایا ہے۔ مَیںنے اپنے بندے یعقوب اور اپنے برگزیدے اسرائیل کیلئے تجھے تیرانام صاف صاف لے کےبلایا ۔ مَیں نے تجھے مہربانی سے پکارا گو کہ تُو مجھ کو نہیں جانتا۔‘‘ (یسعیاہ،باب 45، 1تا4)
یسعیاہ نبی کے اس کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ خورس نامی میداور فارس کا بادشاہ خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت دیا گیا کیونکہ اسے مسیح کہا گیا ہے (یہ حقیقت یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خورس کو جو ذوالقرنین تھا مسیح کہا گیا ہے اور مسیح موعود کو ذوالقرنین )پھر لکھا ہے کہ اسے حکومت اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے دی تھی یہی قرآن کریم ذوالقرنین کی نسبت فرماتا ہے اِنَّا مَكَّنَّا لَہٗ فِي الْاَرْضِ وَاٰتَيْنٰہُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا ہم نے اسے بادشاہت دی تھی اور ہر ضروری امر کو حاصل کرنے کے ذرائع بخشے تھے اسی طرح لکھا ہے کہ مَیں تیرے آگے چلوں گا اور تیری ٹیڑھی جگہوں کو سیدھا کروں گا جس سے اشارہ ہے کہ وہ بہت سفر کرےگا ۔ یہی قرآن کریم سے ظاہر ہوتا ہے ۔پھر یسعیاہ کے الہام میں ہے کہ مَیں خداوند اسرائیل کاخدا ہوں جس نے تجھے نام لے کے بلایا ہے ۔ قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ قُلْنَا یَاذَالْقَرْنَیْنِ ہم نے ذوالقرنین کو نام لے کر پکارا ۔ پھر لکھا ہے مَیں نے تجھے مہربانی سے پکارا ہے ۔ پھر لکھا ہے کہ گو تو مجھے نہیں جانتا اور یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی پرستش تورات کے ناموں سے نہیں کرتا تھا بلکہ دوسرے ناموں سے۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ زرتشت نبی کا پیروتھا۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 495،مطبو عہ 2010قادیان )
…٭…٭…٭…