اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-04

ہر شخص کے مال میںاُس کے رشتہ داروں ، مساکین اور مسافروں کا حق ہے
کسی کا مال اس کا خالص مال نہیں ہوتابلکہ اس میں دوسروں کے حقوق شامل ہوتے ہیں

سیّدنا حضرت مصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 27 وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہر شخص کے مال میں رشتہ داروں ، مساکین اور مسافروں کا حق ہے ۔ رشتے دار انسان کی کمائی میں کئی طرح مدد کا موجب ہوتے ہیں۔ اس لئے اسکے مال میں ان سب کا حق ہوتا ہے مثلا ًوالدین نے ایک بیٹے کو پڑھادیا اور وہ کسی اعلیٰ عہدہ پر پہنچ گیا اور باقی بھائی علم سے محروم رہے تو اس عہدہ دار کے مال میں باقی بھائیوں کا بھی حق ہے کیونکہ جس روپے سے اس کو تعلیم دلائی گئی تھی اس میں ان سب کا حق تھا۔
مساکین اور ابن السبیل کا بھی اللہ تعالیٰ نے حق قرار دیاہے اور دوسری جگہ کھول کر بھی بتایا ہے وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ(ذاریات رکوع1) کہ انسان کے اموال میں سائل وغیرہ کا بھی حق ہوتا ہے ۔ مساکین کا حق قرار دینے کی ایک تویہ وجہ ہے کہ دنیا میں امیر غریب بدلتے رہتے ہیں ۔ جو آج غریب ہیں کبھی امیر تھے اور جو آج امیر ہیں کبھی غریب تھے اور اس وقت کے امیروں نے اُن سے حسن سلوک کیا تھا۔ پس ساری دنیا کو اگر مجموعی نگاہ سے دیکھا جائے تو کسی کا مال اس کا خالص مال نہیں بلکہ اس میں دوسروں کے حقوق شامل ہیں ۔ دوسری وجہ اسکی یہ ہے کہ دنیا کی سب اشیاء اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کیلئے بحیثیت جماعت پیدا کی ہیں نہ کہ زید یا بکر کیلئے ۔ پس اگر زید اور بکر کسی وجہ سے زیادہ مالدار ہوگئے ہوں تو اس سے ان باقی لوگوں کا حق باطل نہیں ہو جاتا جو دنیا کی چیزوں کی ملکیت میں زید اور بکر کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ بیشک بوجہ خاص محنت کے زید یا بکر کا زائد حق اسلام تسلیم کرتا ہے لیکن ان کو مالک بلاشرکت غیر نہیں تسلیم کرتا۔
مسافروں کا حق اس طرح کہ جب یہ دوسری جگہ کی طرف جاتا ہے تو وہ اس سے حسن سلوک کرتے ہیں ۔ پس دوسرے مقام کے مسافر کی خدمت کرنا اس کا فرض ہے تا حق ضیافت ادا ہو تا رہے۔ ابن السبیل کے حق کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی بستی میں جاؤتو تین دن تک کی ضیافت کا تم کو حق ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر بستی والے نہ دیں۔ فرمایاچھین کر بھی لے سکتے ہو ۔(ابوداؤد جلد ثالث کتاب الاطعمۃ باب ماجاء فی الضیافۃ)یہ حکم اس وقت کیلئے ہے جب اسلامی تمدن جا ری ہو کیونکہ ان ایام میں دوسرے لوگ اس سے ضیافت کا حق لے سکیں گے ۔ اس حکم کو اگر دنیا میں جاری کیاجائے توبہت سی خرابیاں جو ہوٹلوں اور سراؤں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں دنیا سے دور ہو جائیں اور غرباء کیلئے بھی دنیا کا سفر جو اعلیٰ تربیت کا ایک ذریعہ ہے آسان ہو جائے مگر افسوس کہ خو دمسلمانوں نے بھی اس حکم کو بھلارکھا ہے۔
مسافروں سے حسن سلوک کا یہ عام حکم دنیا سے بہت سے فتنے مٹا نے کا موجب ہے کیونکہ لڑائی جھگڑا منافرت سے پیدا ہوتا ہے ۔ اگر اس طرح مہمان نوازی کا رواج ہو تو منافرت دور ہو جائے اور گاؤں اور ملکوں کے جھگڑے مٹ جائیں ۔ وہ لوگ جو کسی دوسرے ملک کی مہمان نوازی سے فائدہ اٹھاچکے ہوں کبھی بھی جلدی سے ان کے خلاف لڑنے پر آمادہ نہ ہو نگے سوائے خبیث ارواح کے جو نسبتاً تھوڑی ہوتی ہیں۔ نیز اس حکم سے گاؤں اور قصبوں  کے نظام کی بنیاد بھی پڑتی ہے کیونکہ مہمان نوازی سارے گاؤں پر واجب کی گئی ہے۔ پس اس حکم کے پوار کرنے کیلئے ہر گاؤں والے ایک ایسے نظام کی پابندی پر مجبور ہوں گے جس کے ماتحت سارا گاؤں مہمانوں کی خدمت کر سکے اور یہ نظام ان کے دوسرے کاموں میں بھی مفید ثابت ہوگا۔
لَا تُبَذِّرْ- پھر فرمایاکہ اوپر کے احکام میں مال کو خرچ کتنے کی جو نصیحت کی گئی ہے اس کا یہ مطلب نہ سمجھنا کہ مال کو لٹا دینا چاہئے ہم نے اُنہی اخراجات کا حکم دیا ہے جو ضروری ہیں ۔ بے فائدہ مال لٹانے کا حکم نہیں دیا۔
(تفسیر کبیر، جلد چہارم، صفحہ 323،مطبو عہ 2010قادیان )