اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-02

محمدیؐ کمالات کی بلندی کو موسوی کمالات نہیں پہنچ سکتے


حضرت موسٰی جلد سوال کرنے لگ جاتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی آپؐپر ہر بات ظاہر کرتا اور یہی فرق دونوں کی امتوں میں تھا

 

سیدنا حضرت مصلح موعود رضٰ اللہ عنہ سورۃ الکہف کی آیت نمبر 68 قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اس آیت میں گویا لن ترانی والے مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ محمدیؐکمالات کی بلندی کو موسوی کمالات نہیں پہنچ سکتے ۔ اور بتایا ہے کہ محمدی ؐقوم کا صبر اَور مرتبہ رکھتا ہے اور موسوی قوم کا صبر اَور مرتبہ رکھتا ہے۔ جن ابتلائوں اور مشکلات کا مسلمانوں نے مقابلہ کیا ، موسوی سلسلہ کے لوگ وہاں آکر رہ گئے ۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ گو مسیحی سلسلہ کے لوگوں نے ایک لمبے عرصہ تک مشکلات برداشت کیں مگر وہ مشکلات جسمانی تھیں ، علمی آزمائشیں نہ تھیں ۔ علمی مشکلات کا وہ مقابلہ نہیں کر سکے ۔ چنانچہ خود حضرت مسیحؑشاکی رہے کہ میرے مقام کو کوئی نہیں سمجھا۔ حتیٰ کے انجیل میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ مسیحؑنے اپنی فلسطینی زندگی کے آخری سال میں جبکہ صلیب کا واقعہ قریب تھا، اپنے سب سے مقرب شاگرد پطرس سے پوچھا کہ لوگ مجھے کیا سمجھتے ہیں ؟ اور جب انہوں نے
بتایا کہ میں تو آپ کو مسیح سمجھتا ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے (متی باب 16 آیت 18،19) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اور تو اور حواری بھی انکو مسیح ماننے کیلئے تیار نہ تھے ، صرف ایک معمولی نبی سمجھتے تھے۔ پس پطرس کے ایمان کو دیکھ کر انکو خوشی ہوئی۔
اس آیت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسٰی کی طبیعتوں کا بھی مقابلہ ہے۔ حضرت موسٰی جلد سوال کرنے لگ جاتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی آپؐپر ہر بات ظاہر کرتا اور یہی فرق دونوں کی امتوں میں تھا۔
تورات پر نظر ڈالو کہ بنی اسرائیل سوال پر سوال کر رہے ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا یہ حال ہے کہ صحابہؓکہتے ہیں کہ ہم انتظار کیا کرتے تھے کہ کوئی اعرابی آوے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سوال پوچھے تا ہم بھی سن لیں گویا اس قدر وقار اور صبر نفس حاصل تھا کہ خود نہ پوچھا کرتے تھے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہےاَمْ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَـمَا سُىِٕلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ (بقرہ رکوع 13)کہ کیا تم میں سے بعض موسٰی کی قوم کی طرح سوال کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسا نہ کرنا ۔ وہ لوگ انہیں بار بار خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے پر اور ہر بات کے متعلق سوال کرنے کیلئے مجبور کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے صحابہؓنے ادب کے طریق کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حال تھا کہ جو خدا تعالیٰ بتاتا سن لیتے ورنہ صبرسے انتظار کرتے اور اس حکم پر عمل فرماتے کہ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰٓى اِلَيْكَ وَحْيُہٗ۝۰ۡوَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا(طٰہٰ رکوع 6)یعنی قرآن کریم کو اپنے وقت پر نازل ہونے دو اور اس کی وحی کے آنے سے پہلے سوال نہ کیا کرو ۔ اور یہ دعا کیا کرو کہ الٰہی میرے علم کو بڑھا تا رہ۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 476،مطبو عہ 2010قادیان )