اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-19

سونے کے کنگن پہنانے سے کیا مراد ہے؟

اگر تو اِس سے مراد دُنیا ہو تو اِس سے مرادیہ لی جائے گی کہ مسلمانوں کو بادشاہتیں ملیں گی

اگر اس سے مراد اگلا جہان ہو تو وہاں سونے کے کڑوں سے مادی سونے کے کڑے مراد نہیں ہو سکتے بلکہ خاص قسم کے اعزاز مراد لئے جائیں گے

اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّیَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِــِٕـیْنَ فِیْہَا عَلَی الْاَرَاۗىِٕكِ۝۰ۭ نِعْمَ الثَّوَابُ۝۰ۭ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا (سورۃ الکہف آیت 32)
(ترجمہ:ان لوگوں کیلئے دائمی رہائش کے باغات (مقدر) ہیں (ان میں )ان کے (اپنے انتظام کے)نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ ان کیلئے ان میں سونے کے کنگنوں کی قسم کے زیور بنوائے جائیں گے۔ وہ باریک ریشم کے اور موٹے ریشم کے سبز کپڑے پہنیں  گے۔ان (بہشتوں)میں آراستہ پلنگوں پر تکئےلگائے (ہوئے بیٹھے)ہوں گے ۔ یہ کیا ہی اچھا اجر ہے اور وہ بہت ہی اچھا ٹھکانا ہے)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مندرجہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
سونے کے کڑوں پر اعتراض ہوتا ہے کہ مردوں کیلئے سونے کے کڑے پہننے ناجائز ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تو اس سے مراد دنیا ہو تو اس سے مراد یہ لی جائے گی کہ ان کو بادشاہتیں ملیں گی۔ سونے کے کنگن پہننے سے مراد بادشاہت ہے۔ پرانے زمانہ میں سونے کے کنگن بادشاہ پہنا کرتے تھے۔ پس یہاں بتایا ہے کہ مسلمانوں کو بادشاہ بنایا جائے گا اور اگر اس سے مراد اگلا جہان ہو تو اس جہان کی ہر شئے روحانی ہے۔ وہاں سونے کے کڑوں سے مادی سونے کے کڑے مراد نہیں ہو سکتے بلکہ خاص قسم کے اعزاز مراد لئے جائیں گے۔
مِنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍیعنی جیسے ریشمی کپڑا پہننے سے آرام اور لذت محسوس ہوتی ہے ۔ اسی طرح وہاں بھی ایسا لباس ملے گا جس سے لذت اور آرام محسوس ہوگا اور اسکے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ چیزیں جن کے لائق ہوں گی ان کو پہنائی جائیں گی ۔ جیسے حضرت عمرؓ کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک ریشمی کپڑا دیا تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ مجھے آپ نے یہ کیسے دیا ۔ مردوں کیلئے تو ریشم پہننا ناجائز ہے اس پر آنحضرت صلعم نے فرمایا تم اسےاپنی بیوی کو پہنا سکتے ہو۔
نِعْمَ الثَّوَابُ۝۰ۭ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًایعنی قرآن کریم پر سچا ایمان لانے والوں کو جو انعامات ملیں  گے وہ تباہی کی طرف نہ لے جا ئیں گے بلکہ ان کے نتیجہ میں امن اور اطمینان پیدا ہو گا اور حسنت مرتفقا سے یہ بتایا کہ قرآنی تعلیم پر چل کر جو دو ستیاں اور رفاقتیں ہوں گی وہ چونکہ اخلاص پر مبنی ہوں گی اور ذاتی اغراض ان کے پیچھے پوشیدہ نہ ہوں گی ، ان دوستیوں کے نتیجہ میں  لڑائیاں نہیں ہوں گی بلکہ امن حاصل ہوگا۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 446،مطبو عہ 2010قادیان )