اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-12

مسیحی اقوام کی ترقی کے وقت ایک ایسی جماعت ہو گی جو اسلام پر قائم ہو گی اور ان کے ساتھ لوگوں کو ملنے کا حکم دیا گیا ہے

اس آیت کے مخاطب یقیناً وہ مسلمان ہیںجو اس زمانہ میں اسلام کی ترقی کو سیاسی اسباب کے ساتھ وابستہ قرار دیتے ہونگے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس غلطی میں مبتلانہ ہونا بلکہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوجانا جو صبح شام نمازوں میں دعائیں کررہے ہونگے

 

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ کہف آیت 29 وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْہُمْ۝۰ۚ تُرِيْدُ زِيْنَۃَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًاکی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اس آیت نے اوپر کے معنوں کو اور واضح کردیا ہے ۔ اس آیت کے مخاطب رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں بلکہ قرآن کریم کے پڑھنے والے وہ شخص  ہیں جن کو اس زمانہ کے دیکھنے کا موقعہ ملےورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خودنمازیں پڑھایا کرتے تھے ان کو کس طرح کہا جا سکتا تھا جو صبح وشام نمازیں  پڑھ رہے ہیں تو ان کے ساتھ رہ۔
اصل میں یہاں یہ بتایا ہے کہ مسیحی اقوام کی ترقی کے وقت ایک ایسی جماعت ہو گی جو اسلام پر قائم ہو گی اور ان کے ساتھ لوگوں کو ملنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس آیت کے مخاطب یقیناً وہ مسلمان ہیںجو اس زمانہ میں اسلام کی ترقی کو سیاسی اسباب کے ساتھ وابستہ قرار دیتے ہونگے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس غلطی میں مبتلانہ ہونا بلکہ ان لوگوں  کے ساتھ شامل ہوجانا جو صبح شام نمازوں میں دعائیں کررہے ہونگے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو دعاؤں کے ذریعہ سے بلارہے ہونگے ۔ پھر فرماتا ہے اس نمازی جماعت سے اپنی نظریں ہٹا کر اور طرف نہ لے جانا کیونکہ گودنیا کی زینت اور اسکی ترقی کے سامان ان سے باہر ملیں گے لیکن اس میں خدا تعالیٰ کی رضا تو حاصل نہ ہو گی ۔ پس دنیاوی لالچوں کی وجہ سے اس بظاہر حقیر نظر آنے والی جماعت کو حقیرمت جاننا اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرنا جو ذکر الٰہی اور تبلیغ سے غافل ہوں گے اور ڈنڈے کے زور سے ان قوموں کو سید ھا کرنا چاہیں گے اور افراط وتفریط کی مرض  اور سیاسیات کی ہوا وہوس میں مبتلاہوں گے۔
اس آیت میں اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اس زمانہ میں تین باتیں مسلمانوں کے مصائب کا موجب ہوں گی۔ ایک تو لوگ عبادات سے غافل ہو جائیں گے عبادت کی طرف تو جہ نہ رہے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کے دل میں دنیا کے اموال کی محبت بڑھ جائیگی۔ تیسری بات یہ ہے کہ عیش وعشرت کا بڑا زور ہوگا۔ ایسے وقت میں مومن کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ عبادت میں مشغول رہے اور مال کی طرف رغبت نہ کرے اور اپنی جائز ضروریات پوری کر کے باقی حصہ مال کا دین کی اشاعت میں خرچ کرے۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 443،مطبو عہ 2010قادیان )