اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-23

شعراء کامقصد اورمدعایہی ہو تاہے کہ ہر خاص و عام ان سے خو ش ہو جائے اوران کے شعروں کی داد دے مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سب دنیا کو اپنا مخالف بنالیا ہے

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ الشعراء آیت225تا227 وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُہُمُ الْغَاوٗنَ۝ اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّہِيْمُوْنَ۝ وَاَنَّہُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ۝ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں :
پھر فرماتاہے اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ کیاتم نہیں دیکھتے کہ شاعر مختلف طبائع کو خوش کرنے کیلئے کبھی اِدھر کی بات کردیتے ہیں کبھی اُدھر کی ۔ ان کے سامنے کوئی خاص مقصد اورمدّعا نہیں ہوتا بلکہ جو چیز بھی ان کے ذہن میں آجائے اسی کے متعلق وہ کچھ نہ کچھ کہنا شروع کردیتے ہیں۔ چنانچہ شاعروں کی کوئی غزل لے لو فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ کاتمہیں ان کی ہرغزل میںنظارہ نظر آجائے گا۔ ایک شعر میں تولکھا ہوگامیں مر گیا ۔میرامعشوق مجھ سے بے وفائی کرتاہےاورمَیں اسکے ہجر میں اس کی بے التفاتی کی وجہ سے جاں بلب ہوں۔ مگرساتھ ہی اگلے شعر میں یہ لکھا ہوتاہے کہ مجھے اپنے معشوق کا وصال نصیب ہوا۔میں جی اٹھا اورمیں زندہ ہوگیا۔ ساری غزل کا ایک شعر بھی دوسرے شعر سے جوڑ نہیں رکھتا ۔ایک شعر میں وہ کچھ اَور بیان کررہے ہوتے ہیں اور دوسرے شعر میں وہ کہیں اَور نکل جاتے ہیں۔ ایک شعر میں تووہ کہتے ہیںمَیں محبوب سے ملنے کی تیار ی کر رہاہوں اوردوسرے میں کہتے ہیں ہائے مراجارہا ہوں۔ غرض ان کی غزلوں کا ہرشعر دوسرے سے متناقض ہوتاہے اوران کی باتوں کا کو ئی سرپیر ہی نہیں ہوتا۔کبھی ادھر کی کہتے ہیں کبھی اُدھر کی ۔کبھی کہتے ہیں میں اپنے محبوب کے عشق میں مرگیا حالانکہ وہ زندہ اپنے شعر سنارہے ہوتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں میں اپنے معشوق کے عشق میں سرگردان ہو ںحالانکہ وہ اچھے بھلے دنیا کے کام کررہے ہوتے ہیں ۔کبھی کہتے ہیں معشوق ہروقت ہمارے دل میں ہے اوریہ بالکل جھوٹ ہوتاہے ۔کبھی کہتے ہیں میں اپنے محبوب کیلئے خون کے آنسو پی رہاہوں حالانکہ وہ آرام سے زندگی بسرکر رہے ہوتے ہیں ۔نہ مر رہے ہوتے ہیں نہ خون کے آنسو پی رہے ہوتے ہیں۔ان کا مطلب صرف اتنا ہوتاہے کہ لوگوں کے جذبات کو ابھاراجائے چاہے وہ ابھارنا اچھے رنگ میں ہویابرے رنگ میں۔کبھی وہ خوشی کی باتیں کرتے ہیں اورکبھی غمی کی۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ یعنی وہ ہرجنگل میں اورہروادی میں سرگردان پھرتے ہیں ۔ ان کو کسی جگہ بھی جذبات کے ابھار نے کاسامان مل جائے، چاہے کہیں سے ملے، لے لیتے ہیں ۔وہ عاشقوںکوبھی خوش کرتے ہیں اور معشوقوں کوبھی ۔وہ غریبوں کو بھی خوش کرتے ہیں اورامیروں کو بھی ۔و ہ مظلوموں کوبھی خو ش کرتے ہیں اورظالموں کوبھی ۔وہ غالب کو بھی خو ش کرتے ہیں اور مغلوب کو بھی ۔ان کو توہرکسی کی خوشی مطلوب ہوتی ہے چاہے ان کو اپنے شعروں میں کتنا بھی جھوٹ کیوں نہ بولنا پڑے ۔وہ چاہتے ہیں کہ کوئی غریب ہمارے شعر پڑھے یاامیر، ظالم پڑھے یامظلوم، عاشق پڑھے یا معشوق،غالب پڑھے یا مغلو ب سب کے سب خوش ہوجائیں چاہے ان کے اشعار حقیقت سے کتنے ہی دور ہوں۔پس شعراء کامقصد اورمدعایہی ہو تاہے کہ ہر خاص و عام ان سے خو ش ہو جائے اوران کے شعروں کی داد دے ۔چنانچہ کبھی وہ کسی امیر کی تعریف کرنے لگ جاتے ہیں اورمقصد یہ ہوتاہے کہ کچھ روپے مل جائیں یاکوئی وظیفہ مقرر ہوجائے ورنہ اس کی ذات سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ لطیفہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے جو سخت بھوکاتھا ایک دفعہ چند لوگوںکو جو اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہیں جاتے دیکھا تواس نے خیال کیا کہ یہ غالباً دعوت پر جارہے ہیں میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوجائوں ۔جب یہ کھاناکھانے لگیں گے تومیں بھی وہیں سے کھاناکھالوں گا ۔چنانچہ وہ ان کے ساتھ شامل ہوگیا ۔جاتے جاتے وہ بادشاہ کے دربار میں جاپہنچے اورانہوں نے اس کی تعریف میں قصائد پڑھنے شروع کردیئے ۔تب اسے پتہ لگاکہ یہ تو شاعر ہیں اوراپنے اپنے قصائد سنانے آئے ہیں۔ چنانچہ ہر شاعر نے اپنی اپنی بار ی پر اُٹھ کر قصیدہ سناناشروع کردیا ۔یہ اب سخت حیران ہواکہ میں کیا کروں۔شعر کہنے کی اس میں قابلیت نہیں تھی ۔مگر طبیعت لطیفہ سنج تھی ۔جب سب شاعر اپنے اپنے قصائد سناچکے اوربادشاہ سے انعام لے کر گھروں کو روانہ ہوگئے توبادشاہ اس سے مخاطب ہوااورکہنے لگا اب آپ قصیدہ شروع کریں۔ وہ کہنے لگا حضور میں شاعرنہیں ہوں۔ بادشاہ نے پوچھا آپ یہاں کیوں آئے ہیں ۔وہ کہنے لگاحضورمیں وہی ہوں جس کا قرآن کریم میں اس طرح ذکرآتاہے کہ وَالشُّعَرَآءُ یُتَّبِعُہُمُ الْغَاوٗنَ ۔شاعروں کے پیچھے غاوی آیاکرتے ہیں۔ وہ شاعر تھے اورمیں غاوی ہوں۔ بادشاہ کو اس کا یہ لطیفہ پسند آگیا اور اس نے حکم دیا کہ اسے بھی کچھ انعام دے دیاجائے ۔اب یہ ہے توایک لطیفہ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شاعروں کے پیچھے چلنے والے عموماً گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں کیونکہ شاعر کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں کبھی کچھ ۔ان کا کوئی اصول نہیں ہوتا ۔کبھی ہزلیہ کلام سے لوگوں کو ہنساتے ہیں۔ کبھی شہادتِ امام حسینؓ کا واقعہ لکھ کر لوگوں کورُلاتے ہیں ۔ کبھی مدحیہ قصائد پڑھتے ہیں اورکبھی اس کی ہجو کرناشروع کردیتے ہیں ۔ غرض ہرجنگل میں سرگردان پھرتے ہیں ۔کوئی ایک مقصد اورمدعالے کر کھڑے نہیں ہوتے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تودنیا میں توحیدپھیلا نے کیلئے آیا ہے اوریہی ایک مقصد ہے جو رات اور دن اسکے دماغ پر حاوی رہتاہے اوراسی کیلئے وہ تکلیفیں اٹھارہاہے ۔پھر تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہوکہ یہ ایک شاعر ہے ۔اگر شاعر ہوتاتو اس کا بھی کوئی مقصد نہ ہوتا ۔جدھر لوگوں کی اکثریت ہوتی ادھر ہی چل پڑتا اوران کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ۔مگر اس نے توسب دنیا کو اپنا مخا لف بنالیاہے اورہر ایک کو توحید کی طرف لانے کی کوشش کررہا ہے پھر یہ شاعر کس طرح ہوا؟
پھر فرماتاہے وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ شاعر وں میں ایک یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ ان کا قول اَو رہوتاہے اورفعل اَور۔ اوروہ جوکچھ منہ سے کہتے ہیں عملاً وہ ایسانہیں کرتے ۔یعنی اگر وہ اپنے اشعار میں لوگوںکو اخلاق حسنہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں توخود شرابیں پیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتے ہیں توآپ نماز اور روزہ کے قریب بھی نہیں جاتے ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجوقول ہے وہی اس کا عمل ہے اورجو بات اسکے عمل میں ہے وہی اس کی زبان پر ہے ۔پس تمہارایہ کہناکہ محمد رسول اللہ ؐ ایک شاعر ہے محض حقائق پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے ۔اگرتم غور کرو توتمہیں نظرآجائے گاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورشعراء کے کلام اوران کے کردا رمیں بُعد المشرقین پایا جاتا ہے اوردونوں کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔
(تفسیر کبیر، جلد7 ،صفحہ302تا304،مطبوعہ قادیان 2010ء)
…٭…٭…٭…