اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-28

افسوس مسلمانوں نے یورپین اقوام کے مقابلہ پر بار بار جہاد کے اعلانات کر کے اسلام کے رعب کو مٹا دیا

جن خیر خواہوں نے ان کو اس قسم کی باتوں سےروکا ان کو اسلام کا دشمن قرار دیا

اور یہ نہ سمجھے کہ جو قرآن کریم کی تعلیم کی طرف بلاتے ہیں وہ اسلام کے دشمن نہیں

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ کہف کی آیت24،25 وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا۝ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ۝۰ۡ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ وَقُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّہْدِيَنِ رَبِّيْ لِاَقْرَبَ مِنْ ہٰذَا رَشَدًا۝کی تفسیر میں  فرماتے ہیں :
اس آیت میں پھر اس قوم کی ترقی کے زمانہ کے متعلق ایک خبر دی ہے اور وہ یہ کہ اس قوم کے مقابلہ پر دعویٰ نہ کرنا اور یہ نہ کہنا کہ بس ہم کل ان کو تباہ کردیں گے سوائے اسکے کہ اللہ تعالیٰ تم کو ان کے متعلق کوئی خبر دے یعنی الہام سے بتائے کہ ان سے اب فلاں سلوک ہونے والا ہے۔
بعض لوگوں نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں  کہ اَے محمد رسول اللہ کوئی بات بغیر اِنْ شَاۗءَ اللہُ کے نہ کہا کروا ور اس حکم کے متعلق بعض نہایت افسوس ناک روایات نقل کی ہیں جن میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی صریح ہتک ہے۔ حالانکہ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں اِنْ شَاۗءَ اللہُ کہنے کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر وہ مضمون ہوتا تو الفاظ یوں چاہئےتھے اِلَّا اَنْ تَقُوْلَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ۔مگر یہاں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِلَّااَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ۔یعنے اوپر والا فقرہ اس وقت تک نہ کہیوجب تک کہ اللہ تعالیٰ تجھے اس فقرہ کے کہنے کا حکم نہ دے۔ پس آیت کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ اس قوم کا مقابلہ مسلمان اپنی طاقت سے نہ کر سکیں گے بلکہ وہ ان کا مقابلہ کر سکے گا جسے اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے ان کے مقابلہ کیلئے کھڑاکرے گا۔
اس آیت میں مسلمانوں کی اس وقت کی حالت کی طرف اشارہ ہے جب وہ ان اقوام کی ترقی کو دیکھ کر جوش میں آئیں گے اور ان کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کریں گےلیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوں گے ۔ دوسرے اس زمانہ کے مسلمانوں کی حالت بتائی ہے کہ وہ کام کی بجائے کل کی امیدوںپر آجائیں گے اور ہمیشہ یہ کہیں گے کہ ہم کل یہ کر دکھائیں گے یعنی قوت عملیہ مفقود ہو جائیگی اور ڈراوے اور دھمکیاں رہ جائیں گی اور ہمیشہ کل کا لفظ بولتے رہیں گے کبھی وہ کل آج کی صورت اختیار نہ کرے گا۔ چنانچہ دیکھ لو کہ اس زمانہ میں یہ صداقت ساری مسلمان اقوام کے اعمال سے اس طرح ظاہر ہو رہی ہے کہ افسوس بھی آتا ہے اور تعجب بھی۔
وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَکہہ کریہ بتایا کہ اگر کبھی جوش میں آکر ان قوموں کے مقابلہ کا خیال تمہارے دل میں پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو یاد کر لیا کروکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک دن مسلمانوں کو ان کے حملہ سے بچائے گااور غیب سے مسلمانوں کی نجات کے سامان پیدا کرے گا۔ اس لئے الٰہی تدابیر کے سوا دوسری تدابیر کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے۔
وَقُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّہْدِيَنِ رَبِّيْ لِاَقْرَبَ مِنْ ہٰذَا رَشَدًا میں بھی یہ سبق دیا کہ تمہاری ظاہری تدابیر تو سینکڑوں سالوں میں ان اقوام کو تباہ نہیں کر سکتیں  لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بہت جلد ایسے سامان پیدا کردیگا کہ تم فتنوں سے محفوظ ہو جاؤ۔
افسوس مسلمانوں نے اس نصیحت سے بھی فائدہ نہ اٹھایا اور یورپین اقوام کے مقابلہ پر بار بار جہاد کے اعلانات کر کے اسلام کے رعب کو اور بھی مٹا دیا بلکہ جن خیر خواہوں نے ان کو اس قسم کی باتوں سے روکا ان کو اسلام کا دشمن قرار دیااور یہ نہ سمجھے کہ جو قرآن کریم کی تعلیم کی طرف بلاتے ہیں وہ اسلام کے دشمن نہیں بلکہ وہ دشمن ہیں جو باوجود قرآن کریم کے منع کرنے کے پھر بھی غلط طریقہ کو استعمال کرتے چلے جاتے ہیں ۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 439،مطبو عہ 2010قادیان )