اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-21

مسیحی قوم کی ابتداتو اس طرح ہوئی تھی کہ

وہ بت پرستی کے خلاف جہاد کرتے تھے اور شرک سے بچنے کیلئے انہوںنے صدیوں تک بڑی بڑی قربانیاں کیں

 لیکن انتہا اس طرح ہوئی ہے کہ اصلی دین کا کوئی نشان بھی اب مسیحیوں میں نہیں پایا جاتا

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہف اور اصحاب ِکہف کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
کہف کے بارے میں مختصراً بعض واقعات بتاتا ہوں ، جیسا کہ مَیں بیان کر چکا ہوں کہف سے مراد کیٹاکومبزہیں جو زمین دوزتہ خانوں کا نام ہے۔ رومیوں اور یہود میں رواج تھا کہ وہ مُردوں کو کمروں میں رکھتے تھے۔ رومی حکومت کے بڑے بڑے شہروں میں شہروں سے باہر ایسی جگہیں بنی ہوئی تھیں اور کیٹا کومبز کہلاتی تھیں ۔ جب مسیحیوں پر ظلم ہوئے تو انہوںنےجان بچانے کیلئے ان قبرستانوں میں پناہ لینی شروع کی جس کی دووجہیں معلوم ہوتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ زمین دوزکمروںمیں وہ آسانی سے چھپ سکتے تھے اور بیٹھنے، سونے اور موسم کی شدت سے محفوظ رہنے کا بھی سامان ہوتا تھا ۔ دوسرے اس لئے بھی کہ عام طور پر لوگ قبرستان سے ڈرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کی نظروں سے بچنے کا وہاں امکان زیادہ تھا۔یہ کیٹا کومبز روم کے پاس سکندریہ جو مصر کا شہر ہے اس کے پاس سسلی میں، مالٹا میں ، نیپلز کے پاس اس وقت تک دریافت ہوئے ہیں ۔ مسٹر بنجمن سکاٹ اپنی کتاب ’’دِی کیٹا کومبزاَیٹ روم ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’میری رائے ہے کہ اس ابتدائی زمانہ میں بھی (جب پولوس روم گیا ہے)عیسائی اپنی حفاظت کے خیال سے لوگوں  کے غصہ اور یہودیوں کے ظلموں اور رومی حکومت کے مظالم سے بچنے کیلئے ان تہ خانوں میں پناہ لیا کرتے تھے۔‘‘ (صفحہ 63)پھر وہ ذرا آگے چل کر لکھتے ہیں ’’وہ یقیناً مجبور تھے کہ ان گڑ ھوں اور زمین دوز غاروں میں پناہ لیتے ۔‘‘اس جگہ مصنف نے ان تہ خانوں کیلئے کیوcaveکا لفظ استعمال کیا ہے جو عربی زبان کے لفظ کھف کا ہی بگڑا ہواہے۔ گویا اس طرح اس انگریز مصنف نے عین وہی لفظ استعمال کردیا ہے جو قرآن کریم نے کیا ہے، یہ کہ ان کو ایسا کرنے کی ضرورت تھی، رومی مؤرخ ٹیہیٹس (Tacitus)کی شہادت سے ثابت ہوجاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نیرونے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے مسیحیوں کو زندہ جلانے ،کتوں سے پھڑوانے اور صلیب دینے کے مختلف طریق اختیار کر رکھے تھے اور اس غرض سے اس نے اپنا شاہی باغ دیا ہوا تھا۔ جس قوم پر اس قدر عام ظلم ہوگا ظاہر ہے کہ وہ اِدھر اُدھر بچ کرپناہ لے گی ۔
جب مسیحیوں نے ان جگہوں پر پناہ لینی شروع کی تو پناہ کے دنوں میں انہوںنے زیادہ حفاظت کی خاطر ان کے اندر کمرے بنانے شروع کردیئے ۔ اسی طرح جو لوگ شہید ہوتے تھے ان کی لاشوں کو بےحُرمتی سے بچانے کیلئے بھی وہ ان تہ خانوں میں لاکر دفن کرتے تھے اور چونکہ یہ سلسلہ تین سو سال تک چلا گیااس لئے یہ تہ خانے اس کثرت سے ہوگئے کہ بعض لوگوں کے اندازے کے مطابق وہ پندرہ میل کی لمبائی تک چلے گئے ہیں ۔
چونکہ ظلم یکساں نہیں چلتا ۔ درمیان میں بعض  بادشاہ نرمی کرنے لگ جاتے تھے اور مسیحی پھر واپس شہر میں آجاتے تھے ۔ پھر جب سختی کا دور آتا تو بھاگ کر ان جگہوں میں چھپ جاتے اور معلوم ہوتا ہے کہ بعض دفعہ انہیں وہاں مہینوں یا سالوں رہنا پڑتا تھا کیونکہ ان کے اندر سکولوں اور گر جو کے کمرے بھی پائے گئے ہیں۔
یہ تہ خانے تین منزل میں بنے ہوئے ہیں اور 1924ءمیں انگلستان جاتے ہوئے روم میں مَیں نے خود ان کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔ پہلی منزل کے کمروں کو تو انسان بغیر زیادہ تکلیف کے دیکھ سکتا ہے ۔ دوسری منزل میں بہت دم گھٹتا ہے اور تیسری منزل یعنی سب سے نیچے کے تہ خانہ میںجانا تو نمی اور تاریکی کی وجہ سے قریباً ناممکن ہوتا ہے ۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ ان تہ خاتوں کو مسیحیوں نے اپنی ضرورت کے مطابق اس طرح بنالیا تھا جیسے بھول بھلیاں ہوتی ہے اور حفاظت کے مندرجہ ذیل طریق ان میں استعمال کئے گئےہیں:
(1)وہ لوگ دروازوں پر کتّے رکھتے تھے تا اجنبی آدمی کے آتے ہی ان کو اس کے بھونکنے سے علم ہو جائے (2)زمین دوزکمرے جن میں وہ رہتے تھے جہاں سے انہیں زمین کی سطح پر سے داخل ہونے کا راستہ تھاوہاں مٹی کی سیٹرھی نہ ہوتی تھی بلکہ لکڑی کی سیڑھی رکھتے تھے تا کہ اپنا آدمی اترنے کے بعد وہاں سے سیڑھی ہٹا دی جاسکے اور تاکہ دشمن آئیں تو فوراً کمروں میں نہ پہنچ سکیں (3)لیکن اگر وہ کودکر یا سیڑھیاں اپنے ساتھ لاکر اترہی آئیں تو اس کے آگے حفاظت کا یہ علاج کیا گیا تھا کہ ہر کمرہ سے چار راستے بنادیئے گئے تھے ان میں سے ایک راستہ تو اگلے کمرہ کی طرف جاتا تھا اور باقی راستے کچھ دور جا کر بند ہو جاتے تھے۔ اسکا یہ فائدہ تھا کہ عیسائی تو واقف ہونے کی وجہ سے جھٹ اگلے کمرہ کی طرف دوڑ جاتے تھے اور تعاقب کرنے والے غلط راستہ کی طرف چلے جاتے اور آگے راستہ بند دیکھ کر پھر دوسرے راستہ کی طرف لوٹتے ۔ اس طرح بار بار غلط راستوں کی طرف جانے کی وجہ سے بھاگنے والے عیسائیوں سے بہت پیچھے رہ جاتے ۔ اول تو یہ تعاقب ہی پولیس کو پریشان کر دیتا تھا لیکن اگر آخری حد تک تعاقب کر بھی لیتے تو(4)مسیحی دوسری منزل یعنی نچلے تہ خانوں میں چلے جاتے جو پہلوں  سے زیادہ تنگ زیادہ تاریک اور زیادہ پیچیدہ ہیں۔ اگر بالفرض یہاں تک بھی کامیاب تعاقب کیا جاتا تو (5)ان سے نیچےتیسرے تہ خانے موجود تھے جن میں ہم لوگ تو دو چار منٹ بھی نہیں ٹھہر سکے گو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب وہ گر کربہت زیادہ نمناک ہو گئے ہیں مگر بہر حال وہ بھیانک جگہیں ہیں جہاں  غالباً صرف تعاقب کے وقت میں تھوڑی دیر کیلئے مسیحی پناہ لیتے تھے چونکہ سارے راستوں کی لمبائی کئی سو میل تک جاتی ہے ظاہر ہے کہ ان جگہوں میں عیسائیوں کا پکڑنا آسان کام نہ ہوتا تھامگر گورنمنٹ آخر گورنمنٹ  ہوتی ہے کئی دفعہ پولیس پکڑ بھی لیتی تھی اور وہیں ان لوگوں کو قتل کر دیتی تھی ۔مَیں نے ایسے شہداء کی بہت سی قبریں وہاں دیکھی ہیں ۔ ہم نے بعض کتبے پادری سے پڑھوا کر معلوم کیاکہ ان میں وہ دردناک واقعات بیان کئے گئے ہیں جو شہادت کے وقت ان کو پیش آتے تھے ۔
قریب زمانہ میں جو نئی قبریں اور کتبے دریافت ہوئے ہیں ان میں ان لوگوں کی قبریں بھی ملی ہیں جن کے پاس پطرس ٹھہرتے تھے یا جن کا بائبل میں ذکر ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا برٹینیکازیر لفظ کیٹاکومبز)
ڈسیس کے وقت میں چونکہ قانون بنادیا گیا تھا کہ مسیحی بتوں کو سجدہ کرنے پر مجبور کئے جائیں اور بہت سختی سے مسیحیوں کو مارا جاتا تھا یہ زمانہ قریباً سارا کا سار اعیسائیوں نے کیٹا کومبز میں گزارا۔سوائے ان کے جنہوںنے ڈرکر مذاہب کو ظاہر اً خیر باد کہہ دیااس لئے اس زمانہ میں اصحاب کہف نے ایک نہایت شاندار مثال قربانی کی پیش کی تھی ۔
ان کتبوں سے جو کیٹا کومبز میں لگے ہوئے ہیں  معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسیحیوں میں شرک نہ تھا۔ ان کتبوں میں کوئی لفظ شرک کا نہیں ۔ مسیح کو خدا کا بیٹا نہیں بلکہ محض ایک گڈریئےکی شکل میں دکھایا جاتا ہے۔ ان کی والدہ کیلئے کوئی غیر معمولی عزت کا نشان نہیں ملتا ۔ زیادہ تر یونس نبی کے واقعہ کو اور نوح کے طوفان کے آخر میں جو کبوتر اس بات کی خبر لایا تھا کہ پانی ہٹ کر زمین ننگی ہو گئی ہے اس واقعہ کو تصویروں  میں دکھایا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدنامہ قدیم کو ان لوگوں نے نہیں چھوڑا تھا اور مسیح کو صرف ایک نبی اور روحانی گڈریاخیال کرتے تھے۔ (کیٹا کومبز کے واقعات کیلئے دیکھو انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا، دِی کیٹا کومبزایٹ روم ، مصنفہ بینجمن اسکاٹ اور ڈاکٹر میٹ لینڈ کی کتاب وغیرہ )
خلاصہ یہ کہ اصحاب کہف کے واقعہ میں مسیحیوں کے ابتدائی زمانہ کے حالات کو پیش کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ مسیحی قوم کی ابتداتو اس طرح ہوئی تھی کہ وہ بت پرستی کے خلاف جہاد کرتے تھے اور شرک سے بچنے کیلئے انہوںنے صدیوں تک بڑی بڑی قربانیاں کیں لیکن انتہا اس طرح ہوئی ہے کہ اصلی دین کا کوئی نشان بھی اب مسیحیوں میں نہیں پایا جاتا۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 424،مطبو عہ 2010قادیان )