اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-22

متکبر یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ مَیں نے انتہائی عروج پالیا ہے اور اس طرح وہ مزید ترقی سے محروم ہو جاتا ہے

پس تکبر نہ کر! اگر تیرے اندر کوئی دنیوی خوبی ہے تو اس کی مدد سے قوم کو فائدہ پہنچا تاکہ تُو قوم کا سرداربن جائے

اور اگر کوئی دینی خوبی ہے تو اس کے ذریعہ سے قوم کو فائدہ پہنچا تا کہ تُو خدا تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ ہو جائے

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ بنی اسرائیل آیت38 وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا۝۰ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
پہلے…اُن اخلاق کا ذکرفرمایا گیا تھاجن کا تعلق خدا تعالیٰ سے یا دوسرے انسانوں سے ہے۔ اب اُن اخلاق کے متعلق ارشاد فرماتا ہے جو اسکی ذات سے تعلق رکھتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے اندر کوئی خوبی کی بات ہو تو اس کو تکبر کا ذریعہ نہ بناؤ کیونکہ اس طرح تم نیکیوں سے محروم ہو جاؤگے اور آئندہ ترقی کی طرف قدم نہ اٹھا سکو گےکیونکہ جو متکبر ہوجاتا ہے وہ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ مَیں نے انتہائی عروج پالیا ہے اور اس طرح وہ مزید ترقی سے محروم ہو جاتا ہے ۔
دوسرے اِس میں اِس طرف بھی اشارہ ہے کہ اَے انسان تیری کامیابی آخر انسانی کامیابی ہے اسلئے اتنی ہی خوشی کرجو انسانوں کیلئے مقدر ہے اور یہ یاد رکھ کہ تو اپنے کمالات کے باوجود زمین کو نہیں پھاڑ سکتا یعنی اسکے باہر نہیں جا سکتا۔ عربی محاورہ ہے خَرَقَ المَفَازَۃَجنگل کوطے کر کے نکل گیا۔ یہی معنے اس جگہ لگتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ آخر تُونے اسی دنیا میں رہنا ہے تیری ترقیاں محدود ہیں ۔ پس اپنے آپ کو ایسا نہ بناکہ دوسرے انسانوں سے تیرا گزارہ مشکل ہو جائے۔ جن لوگوں کو متکبر لوگوں کے دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ متکبر آدمی کی زندگی سخت تلخ گزرتی ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ اپنے آپ کو کوئی عجیب چیز سمجھنے لگتا ہے دوسری طرف اُسے اپنے ابناء وطن کے ساتھ مل کر رہنا پڑتا ہے ۔ پس عجیب متضاد جذبات میں اسکی زندگی بسر ہوتی ہے۔آج کل کا انگریزی خوان طبقہ جو اپنے آپ کو دوسرے ہندوستانیوں سے اعلیٰ سمجھتا ہے اور یورپین ان کو منہ نہیں لگاتے اسی عذاب میں مبتلا ہے۔ جو اُسکے ہیں وہ ان میں رہنا پسند نہیں کرتا اور جن میں وہ رہنا چاہتا ہے وہ اسے حقیر سمجھتے ہیں ۔ پس فرمایا کہ آخر اپنے لوگوں میں تُونے رہنا ہے ۔ پس دل کی ایسی کیفیت نہ بنا کہ تیری زندگی تجھ پر وبال ہو جائے۔
لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا جبل کے معنے پہاڑ بھی ہوتے ہیں اور سید القوم اور عالم قوم کے بھی۔ یعنی قوم کا سردار اور قوم کا عالم ۔ اس جگہ جبال سے مراد دوسرے معنے ہیں یعنی سردارانِ قوم اور علماء قوم اور یہ جو فرمایا کہ تو سرداران قوم اور علماء قوم کے برابر نہیں ہو سکتا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ قوم میں بڑائی خدمت سے ملتی ہے یا علم سے اور یہ دونوں قسم کے لوگ انکسار کا نمونہ ہوتے ہیں ۔ جیسے کہ عرب کا محاورہ ہے سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ یعنی قوم کا سرداردر حقیقت قوم کا خادم ہوتا ہے ۔ اسی طرح  فرماتا ہے اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا(فاطر 4ع) اللہ تعالیٰ سے عالم بندے ہی ڈرتے ہیں یعنی جس قدر انسان علم میں ترقی کرتا ہے اس کی خشیت بڑھتی جا تی ہے۔ پس اس جملہ سے یہ بتایا ہے کہ تکبر کر کے تُو قوم کا سراد نہیں بن سکتا نہ قوم کے علماء میں شامل ہو سکتا ہےکیونکہ تکبر تو تجھ کو اپنی قوم سے دُور کردیتا ہے اور اسی طرح خدا سے بھی دُور کر دیتا ہے پس اگر تو بڑائی کا ہی طالب ہے تو بھی تکبر سے اپنا نقصان کرتا ہے کیونکہ اس فعل سے تُو اپنے آپ کو اسی چیز سے محروم کرتا ہے جس چیز کی تیرے دل میں خواہش ہے۔ پس تکبر نہ کر اگر تیرے اندر کوئی دنیوی خوبی ہے تو اس کی مدد سے قوم کو فائدہ پہنچا تاکہ تو قوم کا سرداربن جائے اور اگر کوئی دینی خوبی ہے تو اسکے ذریعہ سے قوم کو فائدہ پہنچا تا کہ تو خدا تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ ہو جائے۔
کس لطیف پیرایہ میں یہاں تکبر سے روکا گیا ہے۔ اس کی نظیر بھی دنیا کی کوئی کتاب پیش نہیں کر سکتی ۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 335،مطبو عہ 2010قادیان )
…٭…٭…٭…