سب گناہ دراصل شرک ہی کی شاخیں ہیں گناہ کامرتکب انسان اسی لئے گناہ میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات پر کامل ایمان اور توکّل نہیں رکھتا توحید کا مسئلہ نیکیوں کیلئے بطور ایک بیج کے ہے، تمام مذاہب اور تمام اخلاق اسی مرکز کے گرد چکر لگا تے ہیں
سیدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 24 وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا۔ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ كِلٰـہُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا (ترجمہ : تیرے ربّ نے (اس بات کا) تاکیدی حکم دیا ہےکہ تم اسکے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (نیز اپنے) ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے کا۔ اگر ان میں سے کسی ایک پر یا ان دونوں پر جب کہ وہ تیرے پاس ہوں بڑھاپا آجائے تو انہیں ( ان کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) اُف تک نہ کہہ اورنہ انہیں جھڑک اور ان سے (شریفانہ طور پر)نرمی سے بات کر)کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
قرآن نے سب سے مقدم حکم توحید کے قیام اور شرک کے ردّ کا دیا ہے۔ جب دنیا میں حکومتیں ملتی ہیں تو ساتھ ہی توہم پرستی اور شرک بھی پیدا ہو جاتے ہیں ۔اس لئے جہاں ترقیات کی پیشگوئیاں کی وہاں آیندہ کے خطرات سے بھی بچنے کا حکم دیا اور ان سے آگا ہ کر دیا ۔ توحید کو اس لئے مقدم رکھا ہے کیونکہ کوئی گناہ بغیر شرک کے پیدا نہیں ہوتا۔
میرے نزدیک سب گناہ دراصل شرک ہی کی شاخیں ہیں ۔گناہ کامرتکب انسان اسی لئے گناہ میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات پر کامل ایمان اور توکّل نہیں رکھتا ۔ توحید کا مسئلہ نیکیوں کیلئے بطور ایک بیج کے ہے ۔ تمام مذاہب اور تمام اخلاق اسی مرکز کے گرد چکر لگا تے ہیں ۔ اگر توحید کا عقیدہ نہ اختیار کیا جائے تو قانون قدرت اور قانون شریعت دونوں کی بنیادہل جاتی ہے قانون شریعت کا تعلق تو واضح ہی ہے ۔ مگر قانون قدرت کی تمام ترقیات اور سائنس کی تمام تر بنیاد بھی توحید پر ہی ہے ۔ کیونکہ اگر مختلف خدا مانے جائیں تو ان کے مختلف قانون ہونے چاہئیں یا پھر کم از کم اس میں مختلف تبدیلیاں ہوتی رہنی چاہئیں ۔ اور اگر ایسا ہو یعنی ایک اٹل قانون اور ایک قائم سلسلہ قانون قدرت کا دنیا میں جاری نہ ہو ، تو تمام علمی ترقیات یکدم بند ہو جائیں گی کیونکہ سائنس کی ترقی اور ایجادات کی وسعت کی بنیاد اسی پر ہے کہ دنیا میںایک منظم اور نہ بدلنے والا قانون جاری رہے ۔ اگر انسان کو یہ خیال ہو کہ عالم میں کوئی نظام نہیں ،یا یہ کہ نظام بدلتا رہتا ہے تو وہ کبھی بھی قانون قدرت کی باریکیوں کے دریافت کرنے کی طرف توجہ نہیں کر سکتا۔
توحید پر یقین رکھنے کا حکم دینے کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے کیونکہ وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف ہی توجہ دلاتے ہیں ۔ وہ طبعی قانون کا ایک ایسا ظہور ہیں جو قانون شریعت کی طرف لے جاتا ہے۔ کیونکہ وہ مبدی (پیدا کرنے والی ذات) پر دلالت کرتے ہیں۔ والدین کے ذریعہ سے پیدائش بتاتی ہے کہ انسان اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوگیا، اس سے پہلے کوئی اور تھا، اور اس سے پہلے کوئی اور ۔ غرض ایک لمبا سلسلہ تھا ، جس سے اللہ تعالیٰ کے وجود پر شہادت ملتی ہے ۔
بغیر تناسل کے اصول کے انسان کا ذہن مبدأ کی طرف جا ہی نہیں سکتا تھا ۔ اگر یہ نظام نہ ہوتا تو انسان کو اس لمبی کڑی کی طرف کبھی توجہ ہی نہ ہوتی ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی سلسلہ تناسل یہ بھی بتاتا ہے کہ انسانی پیدائش کی غرض اور اسکا مقصد بہت بڑا ہے۔ پس توحید کے حکم کے بعد والدین کے متعلق احسان کا حکم دیا کیونکہ ایک احسان کی قدر دوسرے احسان کی قدر کی طرف توجہ کو پھراتی ہے۔
(تفسیر کبیر، جلد4 ،صفحہ320تا321،مطبوعہ قادیان 2010ء)