سیّدناحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ الکہف کی آیت نمبر 8 اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاکی تفسیر میں فرماتے ہیں :
فرماتا ہے کہ ہم نے دنیا میں ہزاروں چیزیں پیداکی ہیں اور غرض یہ ہے کہ انسان کیلئے ایک شغل پیدا کریں تا وہ ان اشیاء کو دریافت کرے پھر ان سے کام لےاور زِيْنَۃً کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز کوئی نہ کوئی فائدہ رکھتی ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس میں کوئی فائدہ نہ ہواسی ایک لفظ سے کس طرح اس نکتہ کو واضح کر دیا گیا ہےکہ دنیا کی کوئی چیز لغو نہیں اگر بَعْضُہَازِيْنَۃً ہوتا تو یہ خیال کیا جاسکتا تھا کہ بعض اشیاء مفید ہیں اور بعض غیر مفید مگر اللہ تعالیٰ سب اشیاء کو جو دنیا پر ہیں دنیا کیلئے زینت کا موجب قرار دیتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اسلام کے نزدیک دنیا کی ہر شے میں فوائد ہیں اور وہ ایک حسن یعنی خوبی اپنے اندر رکھتی ہے اور کوئی چیز بھی نہیں کہ جو دنیا کا حسن بڑھانے والی نہ ہو افسوس کہ اس حکم سے مسلمانوں نے فائدہ اٹھانا چھوڑ دیا اور تحقیق اور ایجاد کے کام کو نظر انداز کر دیا اور یورپ والوں نے باوجود قرآن کریم کو نہ ماننے کے اس حکم پر عمل کیا اور علوم میں اس قدر ترقی کی کہ ساری دنیا پر غالب آگئے۔
لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیا کی اشیاء اس لئے پیدا کی گئی ہیں تاکہ لوگ ان کے متعلق تحقیق کریں ،دنیا کی حالت کو سدھاریں ۔ اس حصے کے متعلق مسیحیوں سے کوتاہی ہوئی ہے۔ انہوں نے دنیا کے راز تو دریافت کئے مگر اچھے عمل کا نمونہ نہ دکھایا یعنی اس تحقیق اور تدقیق کے نتیجہ میں انہوں نے دنیا میں ظلم اور فساد کی بنیاد رکھ دی اور غالباً اس طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔
(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 390،مطبو عہ 2010قادیان )