اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-07

ہر جنس کے لوگوں کو ان کا ہم جنس ہی نجات دے سکتا ہے کیونکہ نمونہ وہی ہو سکتا ہے جو ان میں سے ہو

پس بشر کے سوا دوسری جنس بطور رسول انسانوں میں نہیں آسکتی کیونکہ وہ ان کیلئے نمونہ نہیں بن سکتی

سیّدناحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورہ بنی اسرائیل آیت 95،96 وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَہُمُ الْہُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا۝ قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَۃٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْہِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا۝کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
آیت 95 کی تفسیر میں حضور ؓ فرماتے ہیں :
پہلی آیت میں بتایا تھا کہ مَیں تو بشر رسول ہوں ۔ اس سے زیادہ میرا کوئی دعویٰ نہیں ۔ اب اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ انبیاء پر جو بڑےبڑے اعتراض ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ بشر رسول ہیں ۔ یہ اعتراض ایک نہیں بلکہ ان الفاظ میں کئی قسم کے اعتراض آجاتے ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو بڑی شان کا ہے بشر کو رسول بناہی کیونکر سکتا ہے۔ یہ لوگ کلام الٰہی کے نزول ہی کے منکر ہو تے ہیں۔ بعض لوگو بشر رسول کے منکر تکبر اور ضد کی وجہ سے ہوتے ہیں یعنی وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی ایسے ہی انسان ہیں جیسا کہ یہ ہے۔اگر اللہ تعالیٰ نےکلام بھیجنا تھاتوہم سب پر نازل کرتا۔ اسے کیوں مخصوص کیا گیا اس لئے ہم اسے نہیں مان سکتے۔ یہ لوگ کلام الٰہی کے نزول کو ناممکن قرار نہیں دیتے بلکہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے یہ نہیں تسلیم کر سکتے کہ اللہ تعالیٰ ان جیسے بڑے آدمیوں کی طرف بقول ان کے ایک گھٹیا درجے کے انسان کو پیغام دے کر بھجوائے گا۔ ایک تیسراگروہ بشر رسول کا انکار اس وجہ سے کرتا ہے کہ اس کے نزدیک بشر اپنی ذات میں کامل ہے او رکشی بشر کو الہام کی ضرورت نہیں بلکہ اپنی جبلی طاقتوں کی وجہ سے وہ اپنے لئے خود صحیح راستہ تلاش کر سکتا ہے ۔ ایک چوتھا گروہ بشر رسول پر اس لحاظ سے معترض ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک رسول کیلئے بشریت سے زیادہ طاقتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان کے سامنے ایک کمزور سے کمزور وجود کو یہ کہہ کر پیش کردوکہ یہ مافوق الانسانیت طاقتیں رکھتا ہے تو فوراًاس کے ماننے کیلئے تیار ہو جائیں  گے لیکن قوت قدسیہ اور قوت عملیہ کا عملی نمونہ دکھانے والا انسان جو جھوٹے فخر اور جھوٹے دعووں سے بچتا ہو ان کے نزدیک ہرگز قابل اعتنا نہ ہوگا کیونکہ ان کی طبائع عجوبہ پسندی کا شکار ہوتی ہیں۔
ایسے لوگ بعض دفعہ بعض پہلے نبیوں کو بھی مانتے ہیں لیکن نئے نبی کے آنے پر ان کی طبیعت کے اس نقص کا ظہور بتا دیتا ہے کہ پہلے نبی پر بھی ان کا ایمان محض رسمی اور روثہ کا ایمان تھا۔
آیت 96 کی تفسیر میں حضور ؓ فرماتے ہیں :
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ سے مراد فرشتہ خصلت انسان ہیں ورنہ فرشتے پر دوسرا فرشتہ آنے کی کیا ضرورت ہے ۔ اس آیت میں اس قسم کے لوگوں کے خیال کا جواب دیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے لوگ ہیں اور ان کو براہ راست الہام ہونا چاہئے تھا۔ فرماتا ہے کہ فرشتہ فرشتہ خصلت پر اترتا ہے، غیر جنس پر نہیں۔ تم فرشتے بنجاتے تو تم پر بھی فرشتے اترتے پر تم تو شیطان بن گئے ہو ، تم پر فرشتے کس طرح اتر یں۔ دوسرے ان لوگوں کو جواب دیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ بشر سے بڑی طاقتوں  والے وجود کی ضرورت تھی، بشر کام نہیں دے سکتا۔ انہیں یہ بتایا ہے کہ ہر جنس کے لوگوں کو ان کا ہم جنس ہی نجات دے سکتا ہے کیونکہ نمونہ وہی ہو سکتا ہے جو ان میں سے ہو۔ پس بشر کے سوا دوسری جنس بطور رسول انسانوں میں نہیں آسکتی کیونکہ وہ ان کیلئے نمونہ نہیں بن سکتی۔ ان معنوں کے رو سے رسول کے معنی صرف وحی لانے والے کے نہیں ہوں گے بلکہ رسالت کی وہ سب شرائط جن کے ساتھ بشر رسول آتے ہیں مراد لی جائیں گی۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 390،مطبو عہ 2010قادیان )