اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-31

يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ 

وہ تجھ سے رُوح کے متعلق سوال کرتے ہیں

یہ رُوح جس کے متعلق سوال کیا گیا ہے کیا چیزہے؟بعض نے اس سے جبرائیل مراد لیا ہے ،بعض نے قرآن کریم ، بعض نے

فرشتہ مراد لیا ہے،حضرت مولوی نور الدین صاحبؓروح کے معنی کلام الٰہی کیا کرتے تھے اور یہ معنی اوپر کے تمام معنوں سے اچھے ہیں

حضرت مسیح موعود ؑنے نہایت وضاحت سے اس آیت پر بحث کی ہے اور اس کے معنی انسانی روح ہی کے لئے ہیں٭

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 86 وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ۝۰ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
یہ روح جسکے متعلق سوال کیا گیا ہے کیا چیز ہے؟ مفسرین نے اسکی مختلف تاویلیں کی ہیں۔ بعض نے اس سے جبرائیل مراد لیا ہے اور بعض نے اس سے مراد قرآن کریم کو لیا ہے کیونکہ اس سے پہلےبھی اور بعد میں بھی قرآن کریم کا ذکر ہے (بحرمحیط) بعض نے وہ فرشتہ مراد لیاہے جسکے سپرد دنیا کی پیدائش ہے۔ بعض  نے کہا ہے کہ ہر ایک فرشتہ کو روح کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ایک خاص فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی تسبیح کیلئے پیداکیا ہے۔ بعض نے تو اس روایت کو صحابہ رضوان اللہ علیہم تک پہونچایا ہے کہ اسکے سو سر ہیں۔ ہر ایک سر میں سو مونہہ ہیں اور ہر ایک مونہہ میں سو زبان ہے اور ہر ایک زبان سو سو بولی میں خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے ۔ انہوںنے غالباً اس روایت کو بیان کر کے سمجھ لیا ہے کہ شاید اس طرح خدا کی تسبیح کا حق پورا ہو جائیگا۔ حالانکہ اس تسبیح سے زیادہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت ہی اللہ تعالیٰ کی تعریف کررہی ہے۔ ساری دنیا میں مسلمان پھیلے ہوئے ہیں۔ہزاروں بولیاں بولتے ہیں اور ہر زبان میں آپ کی تعریف کررہے ہیں ۔ استاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحبؓاس جگہ روح کے معنی کلام الٰہی کیا کرتے تھے اور یہ معنی اوپر کے تمام معنوں  سے اچھے ہیں اور زیادہ صحیح ہیں کیونکہ اس سے پہلے اور اس آیت کے بعد بھی قرآن کریم کا ہی ذکر ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود ؑ بانی سلسلہ احمدیہ نے نہایت وضاحت سے اس آیت پر بحث کی ہےاور اسکے معنی انسانی روح ہی کے لئے ہیں اور فرمایا ہے کہ اس آیت میں روح کے متعلق بہت بڑے معارف بیان کئے گئے ہیں۔
اس آیت میں جو یہ فرمایا ہے کہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ روح کیا ہے ۔ اس کے متعلق احادیث میں مختلف روایات آتی ہیں ۔بعض میں تو لکھا ہے کہ یہ سوال یہودنے مدینہ میں کیا تھا۔ مگر اسکے خلاف یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے۔ اس کا جواب وہ لوگ یہ دیتے ہیں کہ اس سورۃ کی بعض آیتیں مدنی ہیں (مگر جیسا کہ مَیں اوپر بیان کر آیا ہوں یہ درست نہیں)
بعض نے کہا ہے کہ یہ سوال پہلے مکہ میں ہوا تھا اور پھر دوبارہ مدینہ میں ہوا ۔ عبد اللہ بن مسعود ؓکی روایت ہے کہ یہ سوال مدینہ میں ہوا تھا اور عجیب بات یہ ہے کہ وہی اس بات کے راوی ہیں کہ یہ سورۃ مکی ہے ۔ اسکا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے کہ یہی سوال دوبارہ پھر مدینہ میں ہوا ہوگا ۔
جو لوگ اس کو مکہ کی روایت قرار دیتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ مکہ کے بعض لوگ مدینہ گئے تھے اور وہاں جاکر انہوںنے یہود سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر کیا اور کہا کہ اس طرح پر ایک مدعی نبوت ہم میں کھڑا ہوا ہے ہم اس سے کیا سوال کریں جس سے اس کا جھوٹ کھل جائے ۔ انہوںنے جواب دیا کہ روح اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق اس سے سوال کرو۔ اس پر ان لوگوں نے مکہ میں واپس آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ سوال کیا اور یہ آیت نازل ہوئی۔
میرے نزدیک پہلی دفعہ سوال مکہ میںہی ہوا ہے اور وہیں اس کا جواب ملا ہے ۔ ممکن ہے مدینہ میں بھی یہود نے سوال کیا ہو بلکہ اغلب ہے کیو نکہ جب یہود کی انگیخت سے یہ سوال ہوا تھا تو انہوںنے بھی ضرور یہ سوال کیا ہوگا۔ مگر یہ درست نہیں کہ دوبارہ یہ آیت اتری بلکہ جب مدینہ میںیہ سوال ہوا ہوگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ آیت جواب میں پڑھ دی ہوگی ۔ اس واقعہ کو کسی راوی نے بیان کیا اور بعد کے راویوں میں سے کسی نے سمجھ لیا کہ شاید اس سوال کے جواب میں یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی تھی۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 380،مطبو عہ 2010قادیان )
…٭…٭…٭…