اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-15

اگر کوئی کان دوسرے کی نسبت وہ بات سنے گا جسکے سننے کا اس کو حق نہ تھا اس پر بھی پرسش ہوگی

اگر آنگھ اس بات کو دیکھنے کی کوشش کرے گی جسکے دیکھنے کا اسکو حق نہیں تو اسکے بارہ میں بھی پرسش ہوگی

اگر کوئی دل ایسے خیالات رکھے گا جن کے رکھنے کا اسے حق نہیں تو اس کے متعلق بھی پرسش ہوگی

تفسیر کبیر از سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ 

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ بنی اسرائیل آیت 37 وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭاِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــُٔــوْلًا کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
اس سے یہ مطلب نہیں کہ کوئی نیا علم نہ سیکھواور نئی نئی تحقیقاتیں نہ کرو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بدظنی نہ کرو اور بغیر تحقیق کے دوسروں پر الزام نہ لگاؤ۔ چنانچہ اس کےا ٓگے وہ اسباب جن سے بد ظنی پیدا ہوتی ہے بیان کئے ہیں یعنی کان آنکھ اور دل ۔ بعض دفعہ انسان دوسرے کے متعلق بات سن کر اس بات کو پلے باندھ لیتا ہے اور بغیر تحقیق دشمنی شروع کردیتا ہے ۔ بعض دفعہ ایک واقعہ دیکھتا ہے اور اس سے غلط نتیجہ نکال لیتا ہے اور یہ تحقیق نہیں کرتا کہ ممکن ہے کہ اس فعل کی کوئی جائز وجہ ہو جسے دیکھ کر اس نے بُرا سمجھ لیا اور بعض آپ ہی آپ اپنے دل میں ایک بات پیدا کر لیتے ہیں ۔ ان سب باتوں سے روکا اور فرمایا کہ ظنی باتوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے۔
بد ظنی کے موجبات میں کان سب سے بڑا موجب ہے۔ زیادہ تر لوگوں سے باتیں سن کر لوگ بدظنی کرتے ہیں ۔ اس لئے اس کا ذکر پہلے کیا۔ اس کے بعد دوسرا بڑا ذریعہ آنکھ ہے اسے دوسرے نمبر پر بیان کیا۔ اسکے بعد انتہا کی بدظنی کرنے والا شخص وہ ہوتا ہے کہ نہ شکایت سنتا ہے نہ کوئی مشتبہ بات دیکھتا ہے بلکہ آپ ہی آپ دل میں ایک وجہ بنا کر دوسروں کے پیچھے پڑ جاتا ہے ۔ اس کو سب سے آخر میں رکھا کہ یہ موجب سب سے کم ہے کیونکہ خطرناک مریض عام مریضوں سے ہمیشہ کم ہوتے ہیں۔
اِنَّ السَّمْعَ الخ۔ اس جملہ سے یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ مت خیال کرو کہ صرف مال وجان کے معاملہ میں ظلم میں گرفت ہو گی بلکہ انسانی عزت پر حملہ کے متعلق بھی پرسش کی جائے گی ۔ اگر کوئی کان دوسرے کی نسبت وہ بات سنے گا جس کے سننے کا اس کو حق نہ تھا اس پر بھی پرسش ہوگی ۔ اگر آنگھ اس بات کو دیکھنے کی کوشش کرے گی جس کے دیکھنے کا اس کو حق نہیں تو اس کے بارہ میں بھی پرسش ہوگی ۔ اگر کوئی دل ایسے خیالات رکھے گا جن کے رکھنے کا اسے حق نہیں تو اسکے متعلق بھی پرسش ہوگی ۔ یہ ایسی اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی کی تعلیم ہے کہ اس پر عمل کر کے کسی قسم کا گند انسان میں باقی نہیں رہ سکتا ۔
اس تعلیم میں اخلاق کے متعلق نہایت اعلیٰ تعلیم دی گئی ہے۔ انسان کو اپنے فیصلوں کی بنیاد ظن پر نہیں رکھنی چاہئے بلکہ علم پر رکھنی چاہئے محض کان کی شہادت یا آنکھ کی شہادت یا دل کی شہادت کافی نہیں بلکہ تمام ذرائع سے تحقیق کر کے پھر فیصلہ کرنا چاہئے ۔ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا ایک مشہور قول ہے کہ ’’اگر کسی میں ننانوے وجوہ کفر کے ہوں اور ایک وجہ ایمان کی تو اس کو کافرمت کہو۔‘‘ اس پُر حکمت ارشاد کا یہی مطلب ہے کہ اگر ننانوے دلائل اسکے کفر کے ہوں اور ایک دلیل ایمان کی ہو تو بھی اسے کافر نہ کہو ۔ یہ مطلب ہر گز نہیں جیسا کہ بعض احمق خیال کرتے ہیں کہ ننانوے شرعی وجوہ کفر کے ہوں تب بھی اسے کافر نہ کہو۔ کفر کے اسباب تو ہیں ہی سات آٹھ ۔ اللہ کا انکار، ملائکہ کا انکار، کتب سماویہ کا انکار، انبیاء کا انکار، دعا کا انکار، قضاوقدر کا انکاراور حشر بعد الموت کا انکار ۔ پس اگر اسکے یہ معنے لئے جائیں کہ ننانوے اسباب کفر کے ہوں پھر بھی کافر نہ کہو تو کسی دہریہ کو بھی کافر نہیں کہا جا سکتا ۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 334،مطبو عہ 2010قادیان )
…٭…٭…٭…