اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-08

اس آیت میں اسلامی نظام کا ایک ایسا حکم بیان کیا گیا ہے جس میں اسلام دوسرے مذاہب سے ممتاز اور منفرد ہے

یتیموں سے حسن سلوک کا حکم تو سب مذاہب میں ملتا ہے

لیکن یہ حکم کہ اُن کے اموال کی حفاظت کرواور ان کو بڑھانے کی کوشش کرو کسی اور مذہب میں نہیں ملتا

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ بنی اسرائیل آیت 35 وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ حَتّٰى يَبْلُغَ اَشُدَّہٗ ۝۰۠ وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۝۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
فرماتا ہے کہ یتامیٰ کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ اِلَّا بِالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ یعنی صرف ایک طریق ایک کے مال پر تصرف کرنے کا ہے کہ اس سے بہتر سے بہتر نتیجہ پیدا کیا جائے۔ یعنی صرف یہی نہیں کہ ان کے مال کو ناجائز طور پر استعمال نہ کرو بلکہ ان کو اس طرح استعمال کروکہ وہ مال بڑھیں اور یتیموں کا فائدہ ہو ۔ اس آیت میں اسلامی نظام کا ایک اور ایسا حکم بیان کیا گیا ہے جس میں اسلام دوسرے مذاہب سے ممتاز اور منفرد ہے۔ یتیموں سے حسن سلوک کا حکم تو سب مذاہب میں ملتا ہے لیکن یہ حکم کہ ان کے اموال کی حفاظت کرواور ان کو بڑھانے کی کوشش کرو کسی اور مذہب میں نہیں ملتا۔ گویااس آیت میں ایک عام کورٹ آف وارڈز مقرر کیا گیا ہے یعنی نابالغوں کی جائداد کی حفاظت کرنے والا محکمہ۔ آج کل مغربی حکومتوں کے ماتحت اس حکم پر عمل ہورہاہے مگر اس خیال کی بنیاد اسلام ہی نے آج سے تیرہ سو سال پہلے قائم کی ہے۔
وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ اپنے عہد کو پوراکرو۔ بظاہر تو یہ فقرہ بتامیٰ کے ذکر میں بے جوڑ معلوم ہوتا ہے کیونکہ یتیم کا عہد سے کوئی خاص تعلق نظر نہیں آتا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں کیونکہ (1)عہد کے معنے ذمہ داری کے بھی ہوتے ہیں ۔ چنانچہ کہتے ہیں فُلَانٌ وَلِیُّ الْعَھْدِ یعنی حکومت کی ذمہ واری کا ولی ہے۔ ان معنوں کے رو سے اس جملہ کے معنی ہوں گے کہ یتامیٰ کے متعلق اپنی ذمہ واری کوپورا کرو۔ جب تک ان کے مال کے انتظام کی ضرورت ہے انتظام کرو اور جب ان کا مال ان کے سپرد کرنے کا وقت آئے تو ان کا مال انہیں دے دو۔ دوسرے اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ یتامیٰ کے اموال کی حفاظت کوئی احسان نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا حکم اور اسلامی نظام کا ایک حصہ ہے اس لئے احسان سمجھ کر اس کام کو نہ کرو بلکہ فرض سمجھ کر کرو۔ (2)چونکہ یتیم اپنے مال کی کمی بیشی کے متعلق کچھ دریافت نہیں کر سکتا اس لئے خدا تعالیٰ نے یتیم کے مال کو اپنے عہد میں شامل کر لیا ہے تاکہ کوئی یہ سمجھ کر مال کو کھانہ جاوے کہ اگر ہم کھاجائیں گے تو کون پوچھے گا۔ اس لئے فرمایا اگر کوئی ایسا کرے گا تو ہم پوچھیں گے یہ ہمارا عہد ہے۔
(3)یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یتیم کا ذکر کرکے ان لوگوں کا ذکر بھی ساتھ کردیا جو یتامیٰ تو نہیں ہوتے مگر یتامیٰ سے مشابہ ہوتے ہیں ۔ مثلاً کمزور اقوام جو اپنے آپ کوطاقتور اقوام کی حفاظت میں دے دیتی ہیں ۔ پس یتامیٰ کے ذکر کے ساتھ ان کے حقوق کی طرف بھی توجہ دلائی کہ بعض اقوام بمنزل یتامیٰ ہوتی ہیں اور ان کے حقوق تمہارے قبضہ میں آجاتے ہیں ۔ بے شک تمہارا فرض ہے کہ اس وقت تم ان کے حقوق کی نگہداشت کرو لیکن ہمیشہ کیلئے ان پر تصرف قائم نہ رکھوبلکہ جب ان میں اہلیت پیدا ہو جائے انہیں ان کے مال سپرد کردو۔ اگر دنیا اس حکم پر عمل کرے تو یہ قومی تنافر جو آج پیدا ہورہاہے یکدم دور ہو جائے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض وقت ایک زبردست قوم کمزور قوم کے حقوق کی حفاظت کیلئے اس کی نگرانی کا کام اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتی ہے مگر اس کا فرض ہوناچاہئے کہ اس ماتحت قوم کے اندرصلاحیت پیدا ہوجانے پر جلد سے جلد اسے اپنے اموال میں تصرف دیدے اور اس کی بلوغت ِ قومی کے بعد اس کے ملک اورمال پر قبضہ نہ رکھے۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 332،مطبو عہ 2010قادیان )