اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-11

بعض لوگ بخل کی وجہ سے اولاد کو پوری غذا نہیں دیتے یا ایسی غذا نہیں دیتے جو نشوو نما کیلئے ضروری ہومناسب لباس نہیں دیتے ، ایسا کرنا ان کو قتل کرنے کے مترادف ہے

بعض روپیہ کے خرچ کے ڈر سے اچھی تعلیم نہیں دلاتے اور گویا بچہ کی اخلاقی یا روحانی موت کا موجب ہو جاتے ہیں
اللہ تعالیٰ مومنوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ اخراجات جو بچوں کی صحت اور اخلاق کی درستی کیلئے ضروری ہیں اُن سے کبھی دریغ نہ کیا کریں

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ بنی اسرائیل آیت32وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَۃَ اِمْلَاقٍ۝۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِيَّاكُمْ۝۰ۭ اِنَّ قَتْلَہُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًاکی تفسیر میں فرماتے ہیں :
فرماتا ہے کہ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَۃَ اِمْلَاقٍ یعنی اس خوف سے کہ اولاد پر روپیہ خرچ ہوگا ان کو ہلاک نہ کرو۔ یہ حکم لڑکیوں کے قتل کرنے کے متعلق نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم میں لڑکیوں کے قتل کی کسی جگہ بھی یہ وجہ بیان نہیں فرمائی کہ لوگ خرچ کے ڈر سے ان کو قتل کر دیتے ہیں بلکہ یہ وجہ بتائی ہے کہ ان کی پیدائش کو اپنے لئے ذلت کا موجب سمجھتے ہیں اس لئے ان کو مارڈالتے ہیں۔ اسی طرح اس آیت کے یہ معنے بھی نہیں ہو سکتے ہیں کہ بوجہ غربت اور تنگی کے اولاد کو قتل نہ کروکیونکہ املاق کے معنے غربت اور تنگی کے نہیں ہیں بلکہ اس کے معنے مال کے خرچ ہونے کے ہیں اور آیت کے یہ معنے ہیں کہ اس ڈر سے نہ مارو کہ روپیہ خرچ ہوگا۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ڈر سے کہ روپیہ خرچ نہ ہو کوئی اولاد کو قتل کرتا بھی ہے ؟ سو جہاں تک دنیا کا تجربہ ہے اس قسم کے واقعات صحیح الدماغ لوگوں میں تو ملتے نہیں بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جن کے پاس روپیہ نہیں ہوتا وہ بھی اولاد کو نہیں مارتے ۔ پس معلوم ہوا کہ اس قتل کا کوئی اور مفہوم ہے اور ہمیں انسانوں  میں اس جرم کی تلاش کرنی چاہئے ۔ سو جب ہم مختلف انسانوں  کی حالتوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ بخل کی وجہ سے اولاد کی صحیح تربیت نہیں کرتے ۔ پوری غذا نہیں دیتے یا ایسی غذا نہیں دیتے جو نشوو نما کیلئے ضروری ہو ۔ ایسے بخیل تو بے شک فاتر العقلوں میں ہی ملتے ہیں جو زہر سے یا گلا گھونٹ کراپنی اولاد کو اس خوف سے مارتے ہوں کہ ان پر ہماری دولت خرچ ہوگی ۔ مگر ایسے بخیل عام صحیح الدماغ لوگوں میں کثرت سے ملتے ہیں  کہ پاس روپیہ ہے لیکن بچوں کو بخل کی وجہ سے اچھی غذا نہیں دیتے ۔ لباس مناسب نہیں دیتے ۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ وہ خوراک کی کمی کی وجہ سے بیمار ہو جاتے ہیں بعض دفعہ لباس کی کمی کی وجہ سےنمونیہ وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ دنیا میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ملتے ہیں اور ہر ملک میں ملتے ہیں ۔ اسی طرح قتل سے مراد اخلاقی روحانی قتل بھی ہو سکتا ہے کہ روپیہ کے خرچ کے ڈر سے اچھی تعلیم نہیں دلاتے اور گویا بچہ کی اخلاقی یا روحانی موت کا موجب ہوجاتے ہیں ۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو نصیحت کرتا ہے کہ اس فعل سے اجتناب کریں اور وہ اخراجات جو بچوں کی صحت اور اخلاق کی درستی کیلئے ضروری ہیں اُن سے کبھی دریغ نہ کیا کریں اور قتل کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ اولاد کو قتل کرنے سے انسان فطرتاً تنفر کرتا ہے ۔ پس اس لفظ کے استعمال سے اس کی توجہ اس طرف پھرائی ہے کہ تم کسی صورت میں بھی اولاد کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے پر تیار نہیں ہوتے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ایک اور قسم کے قتل کے تم مرتکب ہو رہے ہو یعنی اولاد کی خوارک اور لباس کا خیال نہیں رکھتے اور ان کی صحتوں کو برباد کر دیتے ہو یا ان کی تربیت کا خیال نہیں رکھتے اور ان کے اخلاق کو برباد کر دیتے ہو۔

(تفسیر کبیر، جلد چہارم، صفحہ 326،مطبو عہ 2010قادیان )