اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-24

جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا

حق آگیا ہے اور باطل بھاگ گیا ہے اور باطل تو ہے ہی بھاگ جانے والا

جب مکہ فتح ہوا اور خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کو توڑ توڑ کر پھینکا گیا اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہی آیت پڑھتے جاتے تھے

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت پڑھتے دیکھ کر صحابہ کس طرح لہریں لے لے کر اس آیت کو پڑھتے ہوں گے

اور کس طرح ان کے ایمان ہر لحظہ اور ہر منٹ بڑھتے ہونگے اس کا اندازہ اصحاب ذوق ہی لگاسکتے ہیں

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 82 وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًاکی تفسیر میں فرماتے ہیں :
اس میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ مدنی زندگی کے شروع ہونے کہ ساتھ ہی آنحضرت ﷺ کی طاقت مضبوط ہوتی اوربڑھتی جائے گی اور دشمن کی کمزوری اور ضعف و ناتوانی کے سامان پیدا ہوتے جائیں گے ۔ یہاں تک کہ آخر باطل کمزور پڑتے پڑتے فنا ہو جائے گا اور مکہ کی فتح کےوقت عرب سے بت پرستی کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیا جائے گا۔ قرآن کریم کا یہ بے نظیر کمال ہے کہ وہ ہر موقعہ کیلئے ایسے الفاظ چنتا ہے جو ایک لمبے مضمون پر دلالت کرتے ہیں۔ اس آیت میں جو زَھَقَکا لفظ رکھا ہے اس کی جگہ ھَلَکَاور بَطَلَ وغیرہ الفاظ بھی رکھے جا سکتے تھے۔ مگر ان سے باطل کی تباہی کی اس تدریج کا علم نہ ہوتا جو زَھُوْقکے الفاظ سے بتائی گئی ہے۔ زَھُوْق کے معنی کمزور ہوجانے اور ہلاک ہوجانے کے ہیں اور اسی طرح مکہ والوں سے گزری یہ نہیں کہ وہ یکدم تباہ ہوگئے بلکہ کمزور ہونے شروع ہوئے پھر آہستہ آہستہ وہ وقت آیا کہ بالکل فنا ہوگئے ۔ پس زھوق کے لفظ نے ہلاکت کی تفصیل بھی بتا دی۔
جب مکہ فتح ہوا اور خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کو توڑ توڑ کر پھینکا گیا اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہی آیت پڑھتے جاتے تھے ۔ ایک ایک بت پر ضرب لگاتے اور فرماتے جاتے تھےقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۔یہ قرآن کا معجزہ ہے کہ اس نے کعبہ سے بتوں کے دور کئے جانے کے موقعہ کیلئے جو آیت رکھی ہے وہ شعر کی طر ح موزون ہے ۔ اس قسم کی خوشی کا موقعہ انسانی طبیعت کو شعر کی طرف راغب کرتا ہے۔ قرآن شعر نہیں مگر اس کی آیات کے بعض ٹکڑے شعر کی سی موزو نیت رکھتے ہیں۔ یہ آیت بھی اگر اسکے شروع سے قُلْ کا لفظ اڑا دیا جائے تو شعر کی طرح موزون ہوجاتی ہے۔ جَاۗءَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُایک مصرعہ اور اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًادوسرا مصرعہ ہوتا ہے۔ قُلْ نے اس کو شعر کی تعریف سے نکال دیا لیکن جب اسکے پڑھنے کا موقعہ آیا تو چونکہ اس آیت کو قل کے بغیر پڑھنا تھا اس وقت یہ آیت اپنے شاندار معانی کے علاوہ ایک موزون کلام کا بھی کام دیتی تھی اور اس خوشی کے موقعہ کے عین مناسب حال تھی۔جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت پڑھتے دیکھ کر صحابہ کس طرح لہریں لے لے کر اس آیت کو پڑھتے ہوں گے اور کس طرح ان کے ایمان ہر لحظہ اور ہر منٹ بڑھتے ہونگے اسکا اندازہ اصحاب ذوق ہی لگاسکتے ہیں۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 377،مطبو عہ 2010قادیان )
…٭…٭…٭…