اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-17

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز اپنے ربّ کی زیارت ہے

اور زیارت الٰہی ایک انعام ہے اور کوئی عقلمند انسان اپنے محبوب کی زیارت کو چٹی نہیں سمجھے گا

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 80 وَمِنَ الَّيْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّكَ۝۰ۤۖ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
تَہَجَّدْ بِہٖ میں ہٖ کی ضمیر قرآن کریم کی طرف پھرتی ہے اور مراد یہ ہے کہ اس نماز میں  تلاوت قرآن پر خاص زور ہونا چاہئے۔
تہجدکے معنی سوکر اٹھنے کے ہوتے ہیں ۔ اس لئے تہجد کی نماز سے پہلے سونا ضروری ہے۔ جو لوگ ساری رات جاگنے کے چلّے کھینچتے ہیں وہ عبادت نہیں کرتے ۔شریعت کے منشاء کو باطل کرتے ہیں ایسی عبادت قرآن کریم کے منشاء کے خلاف ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمیشہ پہلی رات سوتے تھے اور آخررات میں اٹھ کر تہجد پڑھتے تھے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عبادت کا موقع دینا ایک احسان الٰہی ہے مگر افسوس ان لوگوں پر جو نماز کو چٹی سمجھتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز اپنے ربّ کی زیارت ہےاور زیارت الٰہی ایک انعام ہے اور کوئی عقلمند انسان اپنے محبوب کی زیارت کو چٹی نہیں سمجھے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تو عبادت کی شان ہی یہ بتائی ہے کَاَنَّکَ تَرَاہُ وَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ دفَاِنَّہٗ یَرَاکَ (مسلم ،جلد اوّل ، کتاب الایمان) یعنی صحیح نماز یہ ہے کہ توخدا تعالیٰ کو دیکھ لے یا کم سے کم نماز کے وقت یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہاہے۔ پس اتنے بڑے انعام کو چٹی سمجھنا سخت ظلم ہے ۔ نماز اللہ تعالیٰ کے بڑے انعامات میں سے ہے ۔ میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ انسان ایک نماز بھی چھوڑ ےتو وہ نمازی نہیں کہلاسکتا کیونکہ حکم اِقَامَۃُ الصَّلوٰۃ کا ہے اور وہ دوام کو چاہتا ہے ۔ جب ایک بھی نماز چھوڑ دی گئی تو دوام نہ رہا۔
نَافِلَۃً لَّكَ سے اس بات کا اظہار کیاگیا ہے کہ عبادت کا موقعہ دینا ہمارا ایک احسان ہے یا ممکن ہے کہ تہجد کی نماز پہلے انبیاء پر واجب نہ کی گئی ہو ۔ اس صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ یہ عبادت کا موقعہ خاص تیرے لئے انعام ہے۔
مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۔مَقَامًا مَّحْمُوْدًا میں ایک بہت بڑی پیشگوئی کی گئی ہے۔دنیا میں کسی شخص کو بھی اتنی گالیاں نہیں دی گئیں جتنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دی گئیں ہیں۔ ڈاکو،بدکار، بدمعاش ، فاسق سے فاسق انسان کو ان گالیوں کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی گالیاں نہیں دی جاتیں جتنی کہ آج تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دی گئی ہیں، مقام محمود عطافرماکر اللہ تعالیٰ نے ان گالیوں کا آپ کو صلہ دیا ہے ۔ فرمایاہے جس طرح دشمن گالیاںدیتا ہے، ہم مومنوں سے تیرے حق میں درود پڑھو ائینگے اسی طرح عرش سے خود بھی تیری تعریف کریں گے ۔ اس کے مقابل پر دشمن کی گالیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں۔
مقام محمود سے مراد مقام شفاعت بھی ہے کیونکہ جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے سب اقوام کے لوگ سب نبیوں کے پاس سے مایوس ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس شفاعت کی غرض سے آئیں گے اور آپ شفاعت کریں گے ۔ اس طرح گویا ان سب اقوام کے مونہہ سے آپ کیلئے اظہار عقیدت کروادیا جائیگاجو اس دنیا میں آپ کو گالیاں  دیتی تھیں اور یہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا مقام محمود ہے۔
مقام محمود سے مراد میرے نزدیک خروج مہدی بھی ہے کیونکہ اس کے ظہور کا وقت وہی بیان ہوا ہے جب مسلمانوں کے اسلام سے روگردان ہو جانے کی اور کافروں کے کفر میں ترقی کرجانے کی خبر دی گئی ہے۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کے اس پہلو ان کا ظہور جو ان گالیوں کی رو کو تعریف سے بدلوادے، مقام محمود کا ہی ایک کرشمہ ہے۔ میں نے اسی خدمت میں حصہ لینے کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حالات بیان کرنے کیلئے سال میں ایک دن مقرر کیا ہواہے جس میں ہرمذہب وملت کے لوگ اپنے ان تاثرات کو بیان کرتے ہیں جو آپ کے حالات پڑھنے سے ان کے دلوں پر پڑتے ہیں۔ اقم الصلٰوۃ الآیتین۔ نمازپنجگانہ اور تہجد کے ذکر کے بعد جو مقام محمود کا ذکر کیا ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس شخص کے دشمن زیادہ ہوں اور بدگو لوگوں کی تعداد بڑھ جائے اس کا علاج یہ نہیں کہ وہ ان سے الجھتا پھرے بلکہ ایسے وقت میں انابت الی اللہ اور بارگاہ الٰہی میں فریاد کرنا ہی ان فتنوں کو دُور کرتا ہے بلکہ اگر انابت بہت بڑھ جائے تو مذمت تعریف سے اور گالیاں دعاؤں سے بدل جاتی ہیں ۔ چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ آلہٖ وسلم سے ایسا ہی ہواکہ جو لوگ آپ کو گالیاں دیتے تھے ایک دن عاشق صادق ہو گئے ۔ عمرو بن عاص، خالد، عکرمہ، مردوں  میں سے اور ہندہ عورتوں میں سے اس کی زبردست مثالیں ہیں ۔ یہ لوگ آپ کی دعاؤں سے ہی کھنچ کر آگئے ورنہ جس قدر عداوت ان کے دل میں تھی اس کا دور کرنا انسانی بس کی بات نہ تھی۔
بعض نادان کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں (نعوذ باللہ من ذالک)کوئی نقص تھا تب ہی تو آپ کو اتنی گالیاں دی جاتی ہیں ۔ میں کہتا ہوں یہ بات نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہٖ وسلم کو گالیاں کسی عیب کی وجہ سے نہیں بلکہ حضور کی خوبیوں کی وجہ سے دی جاتی ہیں ۔ دنیا کے کسی اور نبی کو تمام انسانوں کیلئے اسوہ حسنہ نہیں بنایا گیا تھا ۔ اس لئے کسی نبی کی زندگی کے مکمل سوانح محفوظ نہیں کئے گئے ۔ اگر دنیا کے مذہبی پیشواؤں میں سے کسی پیشوا کی زندگی کے حالات تفصیلاً موجود ہیں تو وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ آپ کی زندگی کاہر واقعہ تاریخ میں موجود ہے ۔ آپ کا کھانا۔ آپ کا پینا ۔ آپ کا چلنا پھرنا اور بولنا اور بیٹھنا غرض ہر حرکت وسکون آپ کا محفوظ کرلیا گیا ہے۔ گویا جس طرح سے کسی شخص کی تلاشی لی جاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضور کے اعمال وخیالات کو اکٹّھا کر کے دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔ اس کے باوجود آپ کا دشمنوں کے سامنے میدان میں جمے رہنا اور عقل سے کام لینے والوں کی نگاہ میں عزت پاجانا کوئی معمولی معجزہ نہیں اور اگر یہ عزت جو پورے امتحان کے بعد حاصل ہوئی ہے مقام محمود نہیں کہلا سکتی تو پھر کوئی اور عزت مقام محمود نہیں کہلا سکتی۔ حق یہ ہے کہ آپ کی زندگی کے صرف ایک دن کے واقعات کے برابر بھی دوسرے نبیوں کی عمر بھر کے واقعات محفوظ نہیں ۔ پس ایسے مخفی وجودوں کی زندگی پر کوئی جرح کرے تو کیا کرے۔ پس کسی قوم کا اس پر خوش ہونا کہ اس کے نبی پراس قدر اعتراض نہیں ہوتے کوئی معقول خوشی نہیں ۔
میرے نزدیک آپ کیلئے جو مختلف مقامات محمودہ مقرر ہیں ان میں سے سب سے پہلا مقام محمود جو اس آیت کے نزول کے بعد آپ کو ملا مدینہ منورہ تھا۔ وہاں کی زندگی سے آپ کی حمد وستائش دنیا میں پھیل گئی چنانچہ دعا مندرجہ آیت میں اسی طرف اشارہ ہے ۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 374،مطبو عہ 2010قادیان )