اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-23

ہر شخص کے مال میں رشتہ داروں، مساکین اور مسافروں کا حق ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب تم کسی بستی میں جائو تو تین دن تک کی ضیافت کا تم کو حق ہے اس حکم کو اگر دنیا میں جاری کیا جائے تو بہت سی خرابیاں جو ہوٹلوں اور سرائوں کی وجہ سے پیدا ہوئیہیں دنیا سے دور ہو جائیں

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت 27 وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا (ترجمہ : اور قرابت والے کو اور مسکین کو اور (مسافر) راہرو کو اس کا حق دے اور اسراف کسی رنگ میں (بھی )نہ کر)کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ ہر شخص کے مال میں رشتہ داروں، مساکین اور مسافروں کا حق ہے رشہ دار انسان کی کمائی میں کئی طرح مدد کا موجب ہوتے ہیں ۔ اسلئے اسکے مال میں ان سب کا حق ہوتا ہے مثلاً والدین نے ایک بیٹے کو پڑھادیا اور وہ کسی اعلےٰ عہدہ پر پہنچ گیا اور باقی بھائی علم سے محروم رہے تو اس عہدہ دار کے مال میں باقی بھائیوں کا بھی حق ہے کیونکہ جس روپے سے اس کو تعلیم دلائی گئی اس میں ان سب کا حق تھا۔
مساکین اور ابن السبیل کا بھی اللہ تعالےٰ نے حق قرار دیا ہےاور دوسری جگہ کھول کر بھی بتایا ہے وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ(ذاریات رکوع 1)کہ انسان کے اموال میں سائل وغیرہ کا بھی حق ہوتا ہے۔مساکین کا حق قرار دینے کی ایک تو یہ وجہ ہے کہ دنیا میں امیر غریب بدلتے رہتے ہیں ۔ جو آج غریب ہیں کبھی امیر تھے اور جو آج امیر ہیں کبھی غریب تھے اور اس و قت کے امیروں نے ان سے حسن سلوک کیا تھا۔پس ساری دنیا کو اگر مجموعی نگاہ سے دیکھا جائے تو کسی کا مال اس کا خالص مال نہیں بلکہ اس میں دوسروں کے حقوق شامل ہیں ۔ دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ دنیا کی سب اشیاء اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کیلئے بحیثیت جماعت پیدا کی ہیں نہ کہ زید یا بکر کیلئے۔ پس اگر زید اور بکر کسی وجہ سے زیادہ مالدار ہوگئے ہوں تو اس سے ان باقی لوگوں کا حق باطل نہیں ہوجاتا ۔ جو دنیاکی چیزوں کی ملکیت میں زید اور بکر کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔ بیشک بوجہ خاص محنت کے زید یا بکر کا زائد حق اسلام تسلیم کرتا ہے لیکن ان کو مالک بلا شرکت غیر نہیں تسلیم کرتا ۔
مسافروں کا حق اس طرح کہ جب یہ دوسری جگہ کی طرف جاتا ہے تو وہ اس سے حسن سلوک کرتے ہیں۔ پس دوسرے مقام کے مسافر کی خدمت کرنا اس کا فرض ہے تا حق ضیافت ادا ہوتا رہے ۔ ابن السبیل کے حق کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب تم کسی بستی میں جائو تو تین دن تک کی ضیافت کا تم کو حق ہے ۔صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر بستی والے نہ دیں ۔فرمایا چھین کر بھی لے سکتے ہو۔ (ابودائود،جلد ثالث، کتاب الاطعمۃ، باب ماجاءفی الضیافۃ) یہ حکم اس وقت کیلئے ہے جب اسلامی تمدن جاری ہو کیونکہ ان ایام میں دوسرے لوگ اس سے ضیافت کا حق لے سکیں گے۔ اس حکم کو اگر دنیا میں جاری کیا جائے تو بہت سی خرابیاں جو ہوٹلوں اور سرائوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں دنیا سے دور ہو جائیں اور غرباء کیلئے بھی دنیا کا سفر جو اعلیٰ تربیت کا ایک ذریعہ ہے آسان ہو جائے مگر افسوس کہ خود مسلمانوں نے بھی اس حکم کو بھلا رکھا ہے۔
مسافروں سے حسن سلوک کا یہ عام حکم دنیا سے بہت سے فتنے مٹانے کا موجب ہے کیونکہ لڑائی جھگڑا منافرت سے پیدا ہوتا ہے ۔ اگر اس طرح مہمان نوازی کا رواج ہو تو منافرت دور ہوجائے اور گائوں اور ملکوں کے جھگڑے مٹ جائیں ۔ وہ لوگ جو کسی دوسرے ملک کی مہمان نوازی سے فائدہ اٹھا چکے ہوں کبھی بھی جلدی سے ان کے خلاف لڑنے پر آمادہ نہ ہونگے سوائے خبیث ارواح کے جو نسبتاً تھوڑی ہوتی ہیں ۔ نیز اس حکم سے گائوں اور قصبوں کے نظام کی بنیاد بھی پڑتی ہے کیونکہ مہمان نوازی سارے گائوں پر واجب کی گئی ہے ۔ پس اس حکم کے پورا کرنے کیلئے ہر گائوں والے ایک ایسے نظام کی پابندی پر مجبور ہونگے جسکے ماتحت سارا گائوں مہمانوں کی خدمت کر سکے اور یہ نظام ان کے دوسرے کا موں میں بھی مفید ثابت ہوگا۔
لَا تُبَذِّرْ۔ پھر فرمایا کہ اوپر کے احکام میںمال کو خرچ کرنے کی جو نصیحت کی گئی ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہ سمجھنا کہ مال کو لٹا دینا چاہئے ، ہم نے انہی اخراجات کا حکم دیا ہے جو ضروری ہیں بے فائدہ مال لٹانے کا حکم نہیں دیا۔
ابن مسعود کا قول ہے اَلتَّبْذِیْرُ۔اَلْاِنْفَاقُ فِیْ غَیْرِ حقٍّ۔یعنی ناجائز خرچ کو تبذیر کہتے ہیں ۔ پس اس حکم میں دینی انفاق شامل نہیں ۔ دین کی کسی ضرورت کیلئے اگر کوئی اپنا سارا مال بھی خدا کی راہ میں دیدے تو وہ مبذِّر نہ ہوگا کیونکہ اس نے بے جا خرچ نہیں کیا۔
قرآن مجید میں فضول خرچی کی دوسری جگہ تشریح یوں فرمائی ہے وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا (فرقان رکوع 6) کہ نہ تو اسراف کرنا چاہئے اور نہ کنجوسی سے کام لینا چاہئے مگر میانہ روی اختیار کرنی چاہئے۔
(تفسیر کبیر، جلد4 ،صفحہ323تا324،مطبوعہ قادیان 2010ء)
…٭…٭…٭…