اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-13

ابولہب کی بیوی کا قصہ محض خرافات ہے،خدا کا وہ رسولؐجو ساری دنیا سے نہ ڈرا
ایک کمزور عورت سے اس قدر خائف کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اسے غائب کرنا پڑا

سیّد ناحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ بنی اسرائیل آیت46 وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
اس آیت کے دو معنی ہیں(1)کہ جب تُو قرآن شریف پڑھتا ہے توہم تیرے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک ایسا پردہ ڈال دیتے ہیں کہ وہ پردہ خود بھی چھپا ہوا ہوتا ہے یعنی وہ حجاب بھی ان کی نظر وں سے پوشیدہ ہوتا ہے ۔ یہ اس لئے فرمایا تا کوئی بے سمجھ حجاب کے لفظ سے ظاہری پردہ نہ سمجھ لے۔
بعض لوگوں نے پردہ سے ایسا پردہ مراد لیا ہے کہ جس سے نبی کریم صلعم چھپ جاتے تھے اور انہوںنے زوجہ ابولہب کا قصہ لکھا ہے کہ جب سورۃ الہب اتری تو فِيْ جِيْدِہَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍسن کر وہ غصہ میں بھری ہوئی نبی کریم صلعم کوتکلیف پہنچانے کی نیت سے لپکی ۔نبی کریم صلعم نے دعا کی کہ الٰہی! تو مجھے اسکے شرسے بچالے۔ تو خدا تعالیٰ نے آپ کے آگے پردہ حائل کردیا اور اس وجہ سے وہ آپ کو دیکھ نہ سکی۔ یہ محض خرافات ہیں۔ خدا کا وہ رسولؐجو ساری دنیا سے نہ ڈرا اس کمزور عورت سے اس قدر خائف ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کو اسے غائب کرنا پڑا، اس غیر معقول بات کو کوئی عقلمند تسلیم نہیں کرسکتا۔ اس روایت کو پیش کرنے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ تو اس حجاب کو مَسْتُوْر قرار دیتا ہے یعنی وہ پردہ نظر نہیں آتا مگر یہ لوگ پردے کو ظاہر کر کے نبی کریم صلعم کو مستور قرار دیتے ہیں ۔
(2)دوسرے معنے اس جملہ کے یہ ہو سکتے ہیں کہ وہ پردہ بھی آگے ایک اور پردے کے پیچھے ہوتا ہے یعنی ایک پردہ ہی تیرے اور ان کے درمیان نہیں  ہوتا بلکہ کئی پردے حائل ہوتے ہیں ۔ کوئی پردہ قومی غیرت کا ، کوئی مال کا ، کوئی اخلاق کا وغیرہا، وغیرہا۔ یعنی کبھی لوگ اس خیال سے ایمان نہیں لاتے کہ اس کو مانا تو قوم چھوڑنی پڑے گی۔ کبھی یہ خیال حائل ہوتا ہے کہ مال جاتا رہے گا۔کبھی یہ بات راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے کہ کئی قسم کے بد اخلاق جن کی عادت پڑی ہوئی ہے چھوڑنے پڑیں گے۔ پس اس آیت میں یہ بتایا ہےکہ جب تک یہ لوگ ان پر دوں کو نہ ہٹائیں گے تجھ تک نہ پہنچ سکیں گے مگر مصیبت یہ ہے کہ وہ پردے ایسے ہیں کہ ان کو نظر نہیں آتے ۔ ان کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ وہ اپنے خیال میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ قرآن کریم ہی بُری چیز ہے ۔ اگر وہ اچھی چیز ہوتی تو جلدی ہی ہمارے دلوں پراس کی قبولیت کااثر ہو جاتا ۔ گویا ان کے دلوں پر ایسے زنگ ہیں کہ ان کو اچھی چیز بُری لگتی ہے اور بُری چیز اچھی لگتی ہے۔ اس لئے ایمان کا نصیب ہونا مشکل ہورہاہے۔ ان معنوں کی تصدیق اگلی آیت وَجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ اَكِنَّۃً سے ہوتی ہے کہ ان کے دلوں پر ایک پردہ نہیں بلکہ کئی پردے ہیں ۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 344،مطبو عہ 2010قادیان )