آج تک ایک شخص بھی دُنیا میں ایسا نہیں پیدا ہوا جس نے دعویٰ کیا ہو کہ مجھے ان بتوں کے ذریعہ سے خدا مل گیا ہے
اور وہ میری دعائیں سنتا اور قبول فرماتا ہے اور دنیا نے اس کی قبولیت دعا کے نشان دیکھے ہوں
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت43 قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَہٗٓ اٰلِـہَۃٌ كَـمَا يَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّا بْتَغَوْا اِلٰى ذِي الْعَرْشِ سَبِيْلًا کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
شرک کے مضمون کو پھر بیان کیا ہے لیکن اس میں ایک نئی دلیل پیش کی ہے یونہی پہلی بات نہیں دہرادی ۔فرماتا ہے اگر شرک صحیح ہوتا تو کیا مشرک لوگ خدا رسیدہ نہ ہو جاتے اِذًا لَّا بْتَغَوْا اِلٰى ذِي الْعَرْشِ سَبِيْلًا کے معنے یہی ہیں کہ اگر شرک درست ہوتا تو مشرک لوگ ذی العرش کے ساتھ کوئی تعلق بنا ہی لیتے کیونکہ اس کی بیٹیوں یا بیٹوں سے تعلق پیدا کر کے ان کیلئے قرب کی راہیں کھل جانی چاہئے تھیں۔
ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں خود مشرکوں کا دعویٰ بیان کیا ہے کہ وہ بھی اسی غرض یعنی ’’تقرب الی اللہ‘‘کیلئے ان کی عبادت کرتے تھے جیسے کہ سورۃ زمر میں فرمایا مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى(زمر 1ع)کہ ہم تو ان بتوں کی اس لئے عبادت کررہے ہیں کہ وہ ہمیں خدا کا قرب دلادیں ۔ یہاں ان کے اپنے دعوےکو ان کے شرک کے ردّ میں پیش کیا گیا ہے کہ جب ان کی غرض یہی ہے کہ ذی العرش تک پہنچیں اور ذی العرش کے مقربین سے انہوںنے تعلق بھی پیدا کرلیا ہے تو پھر تو چاہئے تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے مقرب ہو جاتے مگر اس کے کوئی آثار تو ان میں پائے نہیں جاتے ۔
قرآن شریف سے قرب الٰہی کے مندرجہ ذیل آثار معلوم ہوتے ہیں :
اوّل-دعا کا قبول ہونا ۔ سورۃ بقرہ ع23 میں فرمایا ہے کہ وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ کہ جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں تُو کہہ دے کہ مَیں تم سے قریب ہوں اور میرے قریب ہونے کی یہ علامت ہے کہ پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ۔ یہ ایسی علامت ہے کہ مشرک بھی اس کی صحت کا انکار نہیں کر سکتے ۔ مگر یہ علامت کسی مشرک میں نہیں پائی جاتی ۔ مشرکوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے قبولیت دعا کا دعویٰ ہو ۔ آج تک ایک شخص بھی دنیا میں ایسا نہیں پیدا ہوا جس نے دعویٰ کیا ہو کہ مجھے ان بتوں کے ذریعہ سے خدا مل گیا ہے اور وہ میری دعائیں سنتا اور قبول فرماتا ہے اور دنیا نے اس کی قبولیت دعا کے نشان دیکھے ہوں۔
دوسرا معیار قرب الٰہی کا سورۃ واقعہ میں بیان ہوا ہے ۔ وہاں مقربوں کا ذکر کرکے فرماتا ہےلَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِـــيْـمًا اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا(واقعہ ع1)یعنی قرب کا مقام وہ ہے جس میں لغو اور گناہ کی بات کوئی نہیں ہوتی اور لوگ ایک دوسرے کے شر سے بھی محفوظ ہو جاتے ہیں اور ہر ایک شخص دوسرے کی سلامتی تلاش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بھی اسے سلامتی ملتی ہے ۔ یہ معیار بھی ایسا نہیں کہ کوئی مشرک اس کا انکار کر سکے۔ ظاہرہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگا لغو باتوں سے، گناہ سے بچےگااور خدا کا بندہ ہو کر اس کے دوسرے بندوں کی بھلائی میں لگا رہے گا فساد نہیں کرے گا۔
یہ علامتیں بھی کسی مشرک میں نہیں پائی جاسکتیں، پہلی بات لغو بات سے محفوظ ہونا ہے ۔ مشرک میں یہ بات کہاں پائی جا سکتی ہے۔ وہ تو شرک کی وجہ سے مضحکہ خیز باتیں کرتا ہے۔ ایک بیخر اور بے شر چیز کے سامنے سجدے کرتا ہے، اس کی عظمت کرتا ہے، حتیٰ کے عقلمند اس کی حرکات کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ۔ بھلا یہ غوغاجوگائے کے تقدس کا ہندوستان میں برپا ہے کونسا معقول شخص اسے جائز قرار دے سکتا ہے ۔ گائے کے پرستار اس کا دودھ اس کے بچہ سے چھڑا لیتے ہیں ۔ آپ غلہ کھاتے ہیں اسےگھاس کھلاتے ہیں ۔ اسے باندھ کر رکھتے ہیں ۔ نر پر بوجھ لادتے ہیں ۔ سواری کا کام لیتے ہیں ۔ مارتے پیٹتے ہیں اور پھر وہ ماتا کی ماتا ہے ۔ پھر لطیفہ یہ کہ ہند وعیسائیوں پر تمسخر اڑاتے ہیں کہ وہ ایک کمزور بندہ کو خدا بنا رہے ہیں اور وہ ان پر ہنستے رہتے ہیں کہ ایک کمزور جانور کو دیوی سمجھ رہے ہیں ۔ ان لغو باتوں کو دیکھ کر ایک مؤحّد بے ساختہ لَاحَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ کہہ اٹھتا ہے ۔دوسری علامت گناہ سے بچنا ہے۔ مشرک شرک کرتے ہوئے گناہ سے بچ ہی نہیں سکتا۔ بیشک مشرکوں میں سے بھی بعض نیک ہیں لیکن ان کی نیکی شرک کی وجہ سے نہیں بلکہ شرک کے باوجود ہے ۔ ایسے لوگوں کی فطرت اچھی ہوتی ہے ۔پس شرک ان کے اندر جڑ نہیں پکڑتا۔ مثلاً گائے ہی کو لے لو جو لوگ گائے کو پوجتے ہیں اس کو طرح طرح سے دکھ بھی دیتے ہیں اور اس پر مجبور ہیں کیونکہ گائے خدا تعالیٰ نے انسان کے کام کیلئے بنائی ہے ۔ انہیں اس سے کام لینے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ گائے سے کام بھی لیتے جاتے ہیں اور ساتھ ہی دل میں احساس گناہ بھی بڑھتا جاتا ہے اور ضمیر ناپاک ہو جاتی ہے۔ پھر دیکھو مشرک ہندودسہرہ مناتے ہیں ۔ مگر پھر اس خیال سے کہ راون برہمن تھا اور رام کھتری، دسہرہ مناکر ایک دن تو بہ کارکھتے ہیں تا برہمن کی ہتک کا ازالہ ہوجائے ۔ عیسائیوں کا بھی یہی حال ہے مسیح کو ایک طرف خدا بناتے ہیں دوسری طرف اپنے گناہ اس پر لادتے ہیں اور شرک کا عقیدہ ان کیلئے ہر بدی کا رستہ کھولتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ خداوند یسوع نے ہمارے گناہ اٹھا لئے ہیں ۔
(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 340،مطبو عہ 2010قادیان )
…٭…٭…٭…