اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-01

قرآن کریم کی یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ وہ نہ صرف گناہ سے روکتا ہے بلکہ گناہ سے رکنے کے ذرائع بھی بتاتا ہے
جو کتاب گناہ سے بچنے کے ذرائع نہیں بتاتی وہ انسان کو ایک پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے
اطمینان وہی کتاب پیدا کر سکتی ہے جو کسی بات سے منع کرنے کے ساتھ ہی اُس سے بچنے کے ذرائع بھی بتا دے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ بنی اسرائیل آیت33 وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
اس آیت میں زنا سے بچنے کا حکم قتل اولاد کے ذکر کے بعد دیا ہے ۔ اس میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ زنا سے بھی اولاد کا قتل ہوتا ہے کیونکہ اول تو حرام کی اولاد کو عام طور پر ضائع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسرے اگر ضائع نہ بھی ہو تب بھی اس کی تربیت اور پرورش میں مرد کھل کر حصہ نہیں لے سکتا اور وہ اولاد بالعموم بغیر والی وارث کے رہ کر تباہ ہو جاتی ہے۔
لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى کے الفاظ استعمال کر کے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مواقع زنا پیدا ہی نہ ہونے دو یعنی نامحرم عورتوں سے الگ نہ ملو۔ ان سے زیادہ خلا ملا نہ رکھو وغیرہ وغیرہ ۔ قرآن کریم کی یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ وہ نہ صرف گناہ سے روکتا ہے بلکہ گناہ سے رکنے کے ذرائع بھی بتاتا ہےاور ایسی ہی تعلیم بنی نوع انسان کی حفاظت کر سکتی ہے۔ جو کتاب گناہ سے بچنے کے ذرائع نہیں بتاتی وہ انسان کو ایک پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ اطمینان وہی کتاب پیدا کر سکتی ہے جو کسی بات سے منع کرنے کے ساتھ ہی اُس سے بچنے کے ذرائع بھی بتا دے تا انسان کو تسلی ہو کہ میں اس حکم پر عمل کر سکوں گا۔ انجیل کہتی ہے کہ تو کسی عورت کو بد نظری سے نہ دیکھ لیکن قرآن کہتا ہے کہ تو کسی نامحرم عورت کی طرف نظر اٹھا کر ہی نہ دیکھ کیونکہ وہ کشش جو انسان کے دل میں لغزش پیدا کر تی ہے جب اس کیلئے راستہ کھول دیا جائے تو حفاظت ناممکن نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہو جاتی ہے ۔ اس حکمت کے ماتحت اس جگہ فرمایا ہے کہ تم گناہ کے مقام سے اتنی دور کھڑے رہوکہ جہاں سے تم بدی کا مقابلہ کر سکو ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ تو بزدلی ہے مگر یہ بزدلی نہیں یہ تو احتیاط ہے اور احتیاط کو کوئی عقلمند بزدلی نہیں کہتا۔
ظاہر ہے کہ انسان دو ہی قسم کے ہو سکتے ہیں اول وہ جو گناہ کے پاس جا کر بھی بچ سکتا ہے ۔ ایسے شخص کو گناہ کے مقام سے دور رہنے کی اس لئے تاکید کی کہ گویہ توبچ سکتا ہے مگر ممکن ہے کہ اس کی طرف دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس مقام تک چلے جائیںاور اپنی کمزوری کی وجہ سے گناہ میںمبتلا ہو جائیں ۔ پس ایسے شخص کو لوگوں کیلئے ٹھوکر کا موجب نہ بننا چاہئے۔
دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو گناہ کے مواقع پیدا ہونے کی صورت میں اس سے بچ ہی نہیں سکتے ۔ ان کو اس سے قریب بھی نہ جانے دینے کی حکمت تو ظاہرہی ہے۔ پس خواہ انسان گناہ کے قریب ہو کر بچ سکتا ہو، خواہ نہ بچ سکتا ہو دونوں صورتوں میں اس کو گناہ کے قریب تک بھی نہیں جانا چاہئے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس مقام کی طرف جانے میں کوئی خاص فائدہ مد نظر ہو اس کی طرف نہ جانابزدلی کہلا سکتا ہے مگر جس جگہ کی طرف جانا یا نہ جاناکوئی خاص فائدہ نہ رکھتا ہو اس سے الگ رہنا ہر گزبزدلی نہیں کہلا سکتا۔
سَاۗءَ سَبِيْلًا۔ان الفاظ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ علاوہ اخلاقی گناہ ہونے کے زنا میں اور بھی بہت سے نقصانات ہیں ۔ جو انسان شادی کر تا ہے وہ ضرور احتیاط کر لیتا ہے کہ ایسی لڑکی سے شادی کرے جس کی صحت اچھی ہو ۔ اسے کوئی متعدی مرض نہ ہو ۔ عادات واخلاق اچھے ہوں ۔ اسی طرح لڑکی کے رشتہ دار لڑکے کے متعلق سوچ سمجھ لیتے ہیں۔ مگر زنا میں یہ احتیاط نہیں ہو سکتی کیونکہ زنا ہو تا ہی شہوانی جذبات کے جوش میں آجانے کی صورت میں ہے اور اس وقت انسان کسی قسم کی احتیاط نہیں کرسکتا جس کا نتیجہ کئی قسم کی امراض یامالی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ پس فرمایا شہوانی تقاضوں کے پورا کرنے کا یہ راستہ نہایت خطرناک ہے۔
یہ امر روزانہ تجربہ میں آرہاہے کہ گو بیوی سے جو تعلق خاوند پیدا کرتا ہے اسی قسم کا تعلق زانی ، زانیہ سے کرتا ہے لیکن باوجود اس کے زنا کے نتیجہ میں جس قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں وہ بیوی کی صورت میں نہیں پیدا ہو تیں یا بہت کم پیدا ہوتی ہیں۔ دنیا میں جس قدر لوگ آتشک یا سوزاک کی مرضوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان میں سے کس قدر بیویوں سے اس مرض کو قبول کرتے ہیں ؟ شاید سو میں سے ایک بھی نہیں بقیہ ننانوے فی صدی یا اس سے زیادہ حصہ ان مریضوں کا زنا سے مرض کو حاصل کرتا ہے اور جو مرض میاں یا بیوی کو ایک دوسرے سے لگتی ہے وہ بھی درحقیقت کسی پہلے زنا کے نتیجہ میں ہوتی ہے ۔ پسسَاۗءَ سَبِيْلًا کہہ کر ایک زبردست سچائی کی طرف انسان کو توجہ دلائی ہے جو ہے تو ہر اک کے سامنے لیکن اسکی طرف توجہ بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے۔

(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 328،مطبو عہ 2010قادیان )
…٭…٭…٭…