اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-13

روزہ کا ایک روحانی فائدہ یہ ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے اعلیٰ درجہ کا اتصال ہو جاتا ہے

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  :
روزوں کا ایک روحانی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان خداتعالیٰ سے مشابہت اختیار کرلیتا ہے ۔ خداتعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نیند سے پاک ہے۔ انسان ایسا تو نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی نیند کو بالکل چھوڑ دے مگر وہ اپنی نیند کے ایک حصہ کو روزوں میں خداتعالیٰ کیلئے قربان ضرور کرتا ہے۔ سحری کھانے کیلئے اُٹھتا ہے، تہجد پڑھتا ہے ، عورتیں جو روزہ نہ رکھیں وہ سحری کے انتظام کیلئے جاگتی ہیں کچھ وقت دعائوں میں اور کچھ نماز میں صرف کرنا پڑتا ہے اور اسطرح رات کا بہت کم حصہ سونے کیلئے باقی رہ جاتا ہے… اسطرح انسان کو اللہ تعالیٰ سے ایک مشابہت پیدا ہوجاتی ہے۔اسیطرح اللہ تعالیٰ کھانے پینے سے پاک ہے انسان کھانے پینا بالکل تو نہیں چھوڑ سکتا مگر پھر بھی رمضان میں اللہ تعالیٰ سے وہ ایک قسم کی مشابہت ضرور پیدا کر لیتا ہے۔ پھر جسطرح اللہ تعالیٰ سے خیر ہی خیر ظاہر ہوتا ہے اسی طرح انسان کو بھی روزوں میں خاص طور پر نیکیاں کرنیکا حکم ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص غیبت، چغلخوری اور بدگوئی وغیرہ بُری باتوں سے پرہیز نہیں کرتا اسکا روزہ نہیں ہوتا۔ گویا مومن بھی کوشش کرتا ہے کہ اس سے خیر ہی خیر ظاہر ہو۔ اور وہ غیبت اور لڑائی جھگڑے سے بچتا رہے۔ اسطرح وہ اُس حد تک خداتعالیٰ سے مشابہت پیدا کر لیتا ہے جس حد تک ہو سکتی ہے…پس روزہ کا ایک روحانی فائدہ یہ ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے اعلیٰ درجہ کا اتصال ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ خود اس کا محافظ بن جاتا ہے۔
پھر روزوں کا روحانی رنگ میں ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اسکے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا الہام انسانی قلب پر نازل ہوتا ہے اور اسکی کشفی نگاہ میں زیادہ جِلا اور نور پیدا ہوجاتا ہے۔ درحقیقت اگر غور سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی عادت تو نہیں مگر اس میں عادت سے ایک مشابہت ضرور پائی جاتی ہے۔ انسان کی طرح اسکی آنکھیں تو نہیں مگر وہ بصیر ضرور ہے اسکے کان نہیں مگر وہ سمیع ضرور ہے۔ اسی طرح گو اس میں کوئی عادت نہیں پائی جاتی مگر اس میں یہ بات ضروری پائی جاتی ہے کہ جب وہ ایک کام کرتا ہے تو اُسے دوہراتا ہے۔ انسان میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو ہاتھ یا پیر ہلانے کی عادت ہوتی ہے اور وہ انہیں بار بار ہلاتے ہیں اور عادت کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ کوئی بات باربار کی جائے اور یہ بات اللہ تعالیٰ میں بھی ہے کہ جب وہ ایک خاص موقعہ پر اپنا فضل نازل کرتا ہے تواس موقعہ پر باربارفضل کرتاہے اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے ماتحت چونکہ رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم نازل ہوا تھا اسلئے اگر اس رسولؐ کی اتباع کی جائے جس پر قرآن کریم نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ کی عادت سے مشابہت رکھنے والی صفت کے ماتحت اُن لوگوں کو جو رسول کریم ﷺ کی اقتداء کیوجہ سے دنیا سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس سے تعلقات نہیں رکھتے، کھانے پینے اور سونے میں کمی کرتے ہیں ، بیہودہ گوئی وغیرہ سے پرہیز کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے الہام سے نوازتا اور ان پررؤیا صادقہ اور کشوفِ صحیحہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور اسرار غیبیہ سے مطلع کرتا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 378)