اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




سیرت صحابہ

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت مولاناحکیم نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

تقریر جلسہ سالانہ قادیان 2022ء

( فیروز احمد نعیم ،مبلغ سلسلہ وامیر ضلع جماعت احمدیہ دہلی )

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۝۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا(الحزاب:24)
ترجمہ: مومنوں میں ایسے مرد ہیں ،جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا ۔پس ان میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنی منت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو ابھی انتظار کر رہےہے۔اور انہوں نے ہرگز اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
قابل احترام صدر جلسہ و معزز حاضرین و سامعین جلسہ ،السلام اعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
خاکسار کی تقریر کا موضوع سیرت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حکیم مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ ہے۔
سامعین کرام ! ہر دور میں جب جب اللہ اپنے پیاروں کو اس زمین پر بھیجتا ہے تو ان کی تائید و نصرت کیلئے آسمانی اور زمینی نشان بھی ظاہر کرتا ہے اور ایسے ساتھی عطا کرتا ہے جو عین ان کےعکس ہوا کرتے ہیں ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے دور اول میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں صدیق اکبر عطا کیا وہیں دور اآخر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو نور الدین عطا کیا ۔
خاکسار بالترتیب دونوں معطی النبوت کے سیرت کے چند پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرے گا ۔ وباللہ توفیق انبیاء علیہم السلام کے بعد انسانوں میں سب سے افضل شخصیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں، جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا خلیل بنانا چاہتے تھے، جن کو قرآن کریم میں اللہ نے سچائی کی تائید کرنے والا اور حق و سچ کا پیکر و پرتو قرار دیا، جنہوں نے زمانۂ جاہلیت میں بھی شراب و جوا اور ہمہ جہتی منکرات سے اجتناب کیا ، جن کے بارے میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں ان کے مقام و مرتبہ تک کبھی نہیں پہنچ سکتا، وہ جنہیں آپ ﷺنے مسلمانوں کی امامت تفویض کی، جنہیں جنت کے سبھی دروازوں سے داخل ہونے کی دعوت دیںگے، وہ جس نے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی اس قدر مددکی کہ خود رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ان کے احسانات کا بدلہ خود اللہ تعالیٰ چکائیں گے۔
سامعین کرام !آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درباری شاعر حسان بن ثابت انصاری ؓحضرت ابو بکرؓ کے متعلق کہتے ہیں :
’’ جب تمہارے دل میں کبھی کوئی درد آمیز یاد تمہارے کسی اچھے بھائی کے متعلق پیدا ہو تو اس وقت اپنے بھائی ابوبکرؓ کو بھی یاد کر لیا کرو۔ اسکی ان خوبیوں کی وجہ سے جو یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ وہ آنحضرت ﷺکے بعد سب لوگوں میں سے زیادہ متقی اور سب سے زیادہ منصف مزاج تھا اور سب سے زیادہ پورا کرنے والا تھا اپنی ان ذمہ داریوں کو جو اس نے اٹھائیں۔ ہاں ابوبکرؓ وہی تو ہے جو غارِ ثور میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ دوسرا شخص تھا جس نے اپنے آپ کو آپؐکی اِتباع میں بالکل محو کر رکھا تھا اور وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتا تھا اسے خوبصورت بنا دیتا تھا اور وہ ان سب لوگوں میں سے پہلا تھا جو رسولؐ پر ایمان لائے۔‘‘
سامعین کرام ! یہ صدیق اکبر اسلام کا وہ مرد جلیل تھا جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کیلئے عشق رسول،اطاعت رسول ،حلم ،عفو،جواں مردی، غیرت اسلام،غریب پروری ،احسان،حسن سلوک کی عظیم مثالیں قائم کرنی تھیں۔
سامعین کرام!حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے عربی قصیدہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ کی مدح میں فرماتے ہیں جسکا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔
’’وہ اللہ کے نبی کے پاس صدق دل سے آئے تو روشن کر دئے گئےاور کدورت پیدا کرنے والی تاریکی کا کوئی اثر باقی نہ رہا،وہ فرمانبرداری کرتے ہوئے شوق کے پروں کے ساتھ اڑےاور نبی محترم کیلئے دست بازو بن گئے۔ہم اور تم آج باغوں میں مزے کرتے ہیں حالانکہ وہ قتل کے میدان میںروز محشرکی طرح حاضر ہوئےتھےاور انہوں نے خلوص نیت سے اللہ کیلئےوطن کی محبت چھوڑدی اور رسول کریم ﷺ کے پاس ایک عاشق شیدا کی طرح آئے۔ (سر الخلافۃ، صفحہ 182)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام عبد اللہ تھا اور عثمان بن عامر ان کے والد کا نام تھا اور کنیت ابوبکر تھی اور آپ کا لقب عتیق اور صدیق تھا۔ آپ کی ولادت 573ءمیں ہوئی آپ کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت صحر بن عامر تھا اور ان کی کنیت ام الخیر تھی ۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے حضرت ابوبکر صد یق کے پیشہ اور مقام کے بارہ میں تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ ابو بوکر ؓ اپنی قوم میں مقبول اور محبوب تھے، نرم مجاز شخص ،اسکے حسب و نسب اور اسکی اچھائی برائی کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے، آپ تجارت کرنے والے شخص تھے، اچھے اخلاق نیکیوں کے مالک تھے آپ کی قوم کے لوگ ان زائد باتوں کی وجہ سے آپ کے پاس آتے اور آپ سے محبت رکھتے تھے ان کی وجہ سے، آپ کے تجربات کی وجہ سے اور آپ کی اچھی مجلسوں کی وجہ سے ۔ (تاریخ طبری ،جلد1،صفحہ 540)
سامعین کرام! آپؓکا قبول اسلام کے متعلق بہت سے واقعات روایات میں درج ہیںچند ایک پیش خدمت ہیں ۔
حضرت مصلح موعود ؓ حضرت ابوبکر ؓ کا قبول اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک جگہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جب دعویٰ نبوت فرمایا تو اسوقت حضرت ابوبکر ؓکہیں باہر گئے ہوئے تھے واپس تشریف لائے تو آپؓکی ایک لونڈی نے آپ سے کہا کہ آپ کا دوست تو (نعوذ با للہ) پاگل ہو گیا ہے اور وہ عجیب عجیب باتیں کرتا ہے کہتا ہیکہ مجھ پر آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں حضرت ابوبکر ؓ اسی وقت اٹھے اور رسول کریم ﷺ کے مکان پر پہنچ کر آپ کے دروازے پر دستک دی رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا کہ آپ تشریح نہ کریں اور مجھے صرف اتنا بتائیں کہ آپ نے کہا کہ خدا کے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں ؟ رسول کریم ﷺ نے ا خیال سے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کو ٹھوکر لگ جائے تشریح کرنی چاہی ۔مگر حضرت ابو بکر ؓ نے کہا کہ آپ تشریح نہ کریں مجھے صرف اتنا بتائیں کہ آپ نے یہ بات کہی ہے ۔پھر رسول کریم ﷺ نے تمہیدی طور پر بات کرنی چاہی ۔مگر حضرت ابو بکر ؓ نے کہا کہ نہیں نہیں آپ صرف یہ بتائیں کہ یہ بات درست ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ درست ہے ۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا کہ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور پھر انہوں نے کہا کہ رسول کریمﷺ میں نے دلائل بیان کرنے سے صرف اس لئے روکا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ میرا ایمان مشاہدہ پر ہو دلائل پر اس کی بنیاد نہ ہو کیونکہ آپ ﷺ کو صادق اور راستباز تسلیم کرنے کے بعد کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی غرض جس بات کو مکہ والوں نے چھپایا اس کو حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے عمل سے واضح کر دکھایا ۔( تفسیر کبیر، جلد2،صفحہ251)
اور از خود رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اسے کچھ نہ کچھ تردد ضرور ہوا سوائے ابو بکر ؓ کے کہ جب میں نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے زرا برابر بھی تردد پیش نہیں کیا ۔ ( ابن ہشام ،جلد 1،صفحہ 267)
سامعین کرام !قبول اسلام کےبعد آپ پر مظالم کا دور شروع ہوا اور طرح طرح سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ راہ راست پر چلنے والوں کیلئے ابتلاء اور آزمائش کی سنت جاری ہے۔صحابہ کرام ؓکے اندر بھی یہ سنت الٰہی قایم رہی اور اس قدر ابتلاو محن سے دو چار ہوئے کہ دیو ہیکل پہاڑ بھی جواب دے جائیں لیکن ان نفوس قدسیہ نےاپنی جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کر دئے۔کفارِ مکہ نے اسلام قبول کرنے والوں پر طرح طرح کے مظالم کیے، نہ صرف کمزور اور غلام مسلمان ہی ان کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنے بلکہ خود آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ بھی مشرکین مکہ کے مظالم سے محفوظ نہ رہے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انہیں بھی طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ کیا تم ہمارے معبودوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر وہ آپؐکے گرد جمع ہو گئے اور اس وقت کسی نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اپنے دوست کی خبر لو۔ حضرت ابوبکرؓ نکلے اور مسجد حرام پہنچے۔ آپؓنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ لوگ آپؐکے گرد اکٹھے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا تم لوگوں کا برا ہو،أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَقَدْ جَاءَکُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَبِّکُمْ(المومن: 29)کیا تم محض اس لیے ایک شخص کو قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے کھلے کھلے نشانات لے کر آیا ہے۔ اس پر انہوں نے آنحضرت ﷺ کو چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکرؓ کی طرف لپکے اور ان کو مارنے لگے۔ حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت اسماءؓ کہتی ہیں کہ آپؓہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ آپ اپنے بالوں کو ہاتھ لگاتے تو وہ آپ کے ہاتھ میں آ جاتے اور آپ کہتے جاتے تھے کہ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ۔
سامعین کرام!حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام قبول کیا تو دیوانہ وار تبلیغ اسلام شروع کردی۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ بن عفان، طلحہؓ بن عبداللہ، سعدؓ بن ابی وقاص، عبدالرحمانؓ بن عوف اور بہت سے دیگر جلیل القدر صحابہؓ نے اسلام قبول کیا۔ آپؓکی ذاتی نیکی اور تقویٰ ہر ملنے والے کو ضرور متاثر کرتا تھا۔ آپؓکی زندگی آنحضورﷺ اور غریب مسلمانوں کیلئے وقف ہوچکی تھی۔ بہت سے غلاموں اور کنیزوں کی زندگیاں، جن پر اُن کے مالک شدید ظلم توڑا کرتے تھے، آپؓ کے طفیل آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہوئیں۔اِن غلاموں میں حضرت بلالؓ اور عامرؓ بن فہمیرہ بھی شامل ہیں۔خدا سے لَو لگانے کیلئے آپؓ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک چھوٹی سی مسجد بنا رکھی تھی۔ آپؓکی عبادت کا منظر ایسا دلکش تھا کہ لوگ خاص طور پر آپؓ کو دیکھنے آتے اور متاثر ہوئے بغیر نہ رہتےاور خدا تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ آپ نے قربان کردیا ۔
سامعین کرام! حضرت ابو بکر ؓاللہ تعالیٰ کیلئے مال خرچ کرنےاور سخاوت میں سارے صحابہ کرام پر فوقیت رکھتے تھے ۔ترمزی کی حدیث ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺنے ہمیں اللہ کی راہ میں صدقات کرنے کا حکم فرمایا تو حضرت عمر ؓ نے کہا آج کا دن ہے کہ میںحضرت ابو بکر ؓ سے سبقت لے جائوں گا۔ چنانچہ آپ نے اپنے گھر کا نصف مال اٹھا کر لے آئے تو حضور ﷺ نے پوچھا کہ ما ابقیت لاھلک تو حضرت عمر ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ آدھا مال ۔پھر حضرت ابو بکرؓ ایک پوٹلی لیکر رسول اللہ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ ائے ابو بکر اپنے اہل و عیال کیلئے کیا چھوڑ آئے ہو اس پر حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا کہ میں اللہ اور اسکے رسول کو چھوڑکر آیا ہوں۔ (مشکوۃ،صفحہ554)
ایک اور روایت میں آتاہےحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ فرماتےہیں کہ ابو بکر ؓ کے مال نے جتنا مجھے فائدہ پہنچایا ہے اتنا کسی اور کے مال نے نہیں۔ آپ فرماتے ہیں:مَیں نے دنیا میں تمام محسنون کے احسانات کابدلہ اتار دیا ہےجبکہ صدیق اکبر کے احسانات کا بدلہ اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا خطاب دیا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپؓمیں کیا کیا کمالات تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دل کے اندر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت میں حضرت ابو بکرؓ نے جو صدق دکھایا اس کی نظیر ملنی مشکل ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ ابو بکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کیلئے جہاں تک ممکن ہو مجاہدہ کرے اور پھر حتی المقدور دعا سے کام لے۔ جب تک ابو بکری فطرت کا سایہ اپنے اوپر ڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جاتاصدیقی کمالات حاصل نہیں ہو سکتے۔
سامعین کرام !حضرت صدیق اکبر ؓکامزاج سنت رسول اللہ کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا ،ان کا ہر عمل اتباع و اطاعت رسول کا مظہرتھا ،ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے پوچھا کہ تم میں سے آج کس کا روزہ ہے،حضرت ابو بکر ؓنے عرض کیا کہ میرا۔پھر فرمایا تم میں سے آج کس نے جنازہ میں شرکت کی ؟حضرت ابو بکرؓ نے عرض کی میں نے ۔پھر آپ نے فرمایا کہ تم میں سے آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ؟حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا میں نے۔آپ نے پھر فرمایا:تم میں سے آج کس نے مریض کی عیادت کی؟حضرت ابو بکرؓنے فرمایا میں نے۔تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جس شخص میں یہ ساری خصلتیں جمع ہو جائیں،وہ یقینا جنت میں داخل ہو گا۔(مسلم،1028)
سامعین کرام !ہجرت مدینہ کے مبارک سفر میں حضرت ابو بکر صدیق ؓنے جس وفاداری اور جاں نثاری کا نمونہ دکھایا اسکی مثال نہیں ملتی۔ اپنی دو اونٹنیاں جو پہلے سے سفر ہجرت کیلئے تیار کررکھی تھیں۔ ان میں سے ایک اونٹنی آنحضرتؐ کی خدمت میں بلامعاوضہ پیش کردی مگرنبی کریمؐ نے وہ قیمتاً قبول فرمائی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے پانچ ہزار درہم بھی بطور زادِ راہ ساتھ لئے۔ پھر غار ثور میں رسول خداﷺکی مصاحبت کی توفیق پائی جسکا ذکر قرآن شریف میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوگیا۔ فرمایا:ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَافِی الْغَارِاِذْیَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا(التوبہ: 40) یعنی دومیں سے دوسرا جب وہ دونوں غار میں تھے۔جب وہ اپنے ساتھی سے کہتا تھا کہ غم نہ کرو۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
سفر ہجرت میں تاجدار عرب کا یہ بے کس سپاہی آپؐ کی حفاظت کی خاطر کبھی آگے آتا تو کبھی پیچھے کبھی دائیں تو کبھی بائیں اور اس طرح اپنے آقا کو بحفاظت یثرب پہنچایا۔(السیرۃ الحلبیۃ، صفحہ45 مطبوعہ بیروت)
اسی سفر ہجرت کا واقعہ ہے جب حضرت ابوبکرؓ نے ایک مشرک سراقہ کو تعاقب میں آتے دیکھا تو رو پڑے۔ رسول اللہ ؐ نے وجہ پوچھی تو عرض کیا۔ ’’اپنی جان کے خوف سے نہیں آپؐکی وجہ سے روتا ہوں کہ میرے آقاؐکو کوئی گزند نہ پہنچے۔‘‘ (مسند احمد، جلد1 ،صفحہ2،مطبوعہ مصر)
سامعین کرام !غار ثور میں جب داخل ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓنے تمام غار کی صفائی کی سارے سوراخ بند کئے کہ کوئی سانپ یا بچھو نہ ہو ایک سوراخ رہ گیا تو اس پر اپنا پائوں رکھ دیا حضور اکرم ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی ران پر سر مبارک رکھ کر استراحت فرمانے لگے سوراخ میں سے ایک سانپ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پائوں پر ڈس لیا ۔لیکن اس محب کے پیکر نے اپنی محبت پر اس تکلیف کو حاوی نہیں ہونے دیا اور تکلیف اور محبت کے سنگم کی وجہ سے آپ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسوں ٹپک پڑے۔ کیسا عشق رسول تھا۔وہ رسول خداﷺ سے محبت ہی تھی کہ جس جھنڈے کی گرہ کو رسول کریم ﷺ نے باندھا تھا حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس گرہ کو کھولنے کیلئے تیار نہیں ہوئے ۔
سامعین کرام !بلاشبہ دنیا میں بہت سے عاشق گزرے ہوں گے، ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے محبوب کیلئے تاج شاہی کو ٹھکراد یا اور ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے خوشنودی محبوب کیلئے وجہ محبوب میں بستر جماد یا اور ایسے بھی ہوںگےکہ پل بھر میں نظر اٹکی اور اگلے ہی لمحے جان سولی پر لٹکتی ہوئی نظر آئی مگر پورے شعور بھر پورا یقان ثابت قدمی، استقلال اور کامل یکسوئی سے عہد وفا نبھا نا صرف صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا وصف خاص ہے جس کے آگے دنیا کی ہر داستان وفا ماند پڑ جاتی ہے اور انہوں نے عشق ومحبت کے اظہار کے ایسے انداز رقم فرمائے کہ قیامت تک ہر عاشق رسول ﷺکی محبت میں صدیق اکبررضی اللہ تعالی عنہ کی پیروی کرتار ہے گا ۔
سامعین کرام ! حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابوبکر ؓکی عشق و محبت کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کے موقع پر بھی اور آپؐکی وفات کے موقع پر بھی حضرت ابوبکرؓ کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشقانہ تھا۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ النصر نازل ہوئی جس میں آپؐکی وفات کی مخفی خبر تھی تو آپؐنے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نےاپنے ایک بندے کواپنی رفاقت اور دنیاوی ترقی میں سے ایک کی اجازت دی ہے اور میں نے خدا تعالیٰ کی رفاقت کو ترجیح دی۔تمام صحابہ اس پر خوش ہوئے لیکن حضرت ابوبکر ؓکی چیخیں نکل گئیں اور آپؓ بےتاب ہوکر روپڑے اورکہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپؐپر ہمارے ماں باپ بیوی بچے سب قربان ہوں۔ آپؐکیلئے ہم ہر چیز قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔گویا جس طرح کسی عزیز کے بیما رہونے پربکرا ذبح کیا جاتا ہے اُسی طرح حضرت ابوبکر ؓنے اپنی اور اپنے سب عزیزوں کی قربانی آنحضرت ﷺکیلئے پیش کی۔حضرت عمرؓ سمیت تمام صحابہ حضرت ابوبکرؓ کے رونے اور اس طرح بات کرنے پر حیران تھے تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ مجھے اتنے محبوب ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سِوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ان کو خلیل بناتامگر اب بھی یہ میرے دوست ہیں۔پھر فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ آج سے مسجد میں کھلنے والی سب لوگوں کی کھڑکیاں بند کردی جائیں سوائے ابوبکر ؓکی کھڑکی کے۔ اس طرح آپؐنے حضرت ابوبکر ؓکےاپنے ساتھ عشق کی داد دی کیونکہ یہ عشق کامل تھا جس نے اُنہیں بتادیا کہ اس فتح و نصرت کی خبر کے پیچھے آنحضرت ﷺ کی وفات کی خبر ہےاور آپؓ نے اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان کا فدیہ پیش کردیا۔
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمرؓ کی کسی بات پر تکرار ہوگئی اور حضرت ابو بکرؓ مزید جھگڑا بڑھنے کے پیش نظر وہاں سے جانے لگے تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر ؓکا کرتہ پکڑ لیا کہ میری بات کا جواب دواس وجہ سے حضرت ابو بکرؓ کا کرتہ پھٹ گیا۔ حضرت عمر ؓنے آنحضرت صلی اللہ کی خدمت میں جاکر اپنی غلطی تسلیم کی جس پر آپؐنے فرمایا کہ جس وقت ساری دنیا میرا انکار کرتی تھی اُس وقت ابوبکر مجھ پر ایمان لایا اور ہر رنگ میں میری مدد کی۔اسی اثنا میں حضرت ابوبکرؓ بھی پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی دیکھ کر اپنی غلطی تسلیم کرنے لگے۔یہی حضرت ابوبکر ؓکا عشق تھا کہ وہ آپؐکی تکلیف کو برداشت نہ کرسکے۔
سامعین کرام !ابو بکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے۔کوئی غزوہ آپ سےنہ چھوڑا اور احد کے روز جب سب لوگ بھاگ کھڑے ہوئےتو آپ رسول اللہ کے ساتھ ڈٹے رہےاور تبوک کے موقع پررسول اللہ ﷺنے اپنا عظیم جھنڈا آپ کو عطا کیا ۔آغاز رسالت سے لیکروفات نبوی ﷺ کی جاں نثارانہ رفاقت کی آپ ﷺپر ان خدمات اور قربانیوں کا اتنا اثر تھا کہ فرماتے تھے کہ جان و مال کے لحاظ سے مجھ پر ابوبکر سے زیادہ کسی کا احسان نہیں ہے۔
سامعین کرام !جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو لوگ مضطرب وپریشان ہوکر ہوش وہواس کھو بیٹھے،لیکن اللہ تعالیٰ نے ابو بکر صدیقؓ کے ذریعہ سےثبات عطا فرمایااور اس موقع پر آپ نے عظیم موقف اختیار فرمایااور منتشر امت کو جمع کر دیا جیسے آپؓ خدائی آواز بن کر آئے اور ببانگ دہل اعلان کیا وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ (اٰل عمران: 145) یعنی محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور آپﷺ سے پہلے تمام رسول فوت ہو چکے ۔
یہ روحانی آواز سنتے ہی یکےبعد دیگرے ساری امت کےدل پر ایسی تسکین نازل ہوئی کہ ان کےدل ٹھنڈے ہو گئے اور حضرت عمر ؓ اس آیت کو سن کر کھڑے نہ رہ سکے اور غم کے مارے نڈھال ہوکر بیٹھ گئے اور رونے لگے ۔
آ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بکھری ہوئی امت کی شیرازہ بندی کا سہرا بھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے سر پر ہی ہے ،آپ رضی اللہ نےفاصد کو درست کیا، منہدم کو تعمیر کیا بکھرے ہووں کو جوڑامنحرف کو سیدھا کیا ۔ (تاریخ الخلفاء ،صفحہ51تا52)
آپ کے دور خلافت میں ہی اسلام عرب کی بڑی بڑی حکومتوں کے والی بنا دئے گئے فتوحات شام ہو،فتوحات ایران ہوںیا پھر ارتداد کی اٹھ رہی سدائوں کا خاتمہ ہو ۔قرآن کریم کو جمع کرنے کا عظیم کارنامہ ہویہ سب کام آپ ہی کے دور خلافت میں ہوئے ۔
سامعین کرام !یہ محبت کا پیکر اپنا سب کچھ اللہ اور اس کے رسول پر قربان کرنے کے بعد اپنے رب کو راضی کرتا ہوا خلافت کے سوا دو سال بعد اپنے مولیٰ سے جا ملا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اب خاکسار اپنی تقریر کا دوسرا حصہ آپ کے سامنے پیش کرےگا ۔
سامعین کرام !ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق اس زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود اور مھدی موعود بن کر آئے اور عین قرآنی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جیسے دور اول میں اپنے تائید و نصرت کے نظارے دکھائے تھے ویسے ہی دور اآخر میں بھی اپنے نشان ظاہر کئے جیسے دور اول میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اعانت مانگی اور اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو سنا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا ساتھی عطا کیا عین ایسے ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دعا کی اور اللہ کے حضور فریاد رکھی کہ اے اللہ کوئی ساتھی عطا کر۔ اللہ نے اس نداء کو سنا اور حضرت حکیم مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ جیسے عظم المرتبت ساتھی عطا کیا ۔
سامعین کرام!قدرت ثانیہ کےمظہر اول، آسمان احمدیت کے روشن ستارے ،کمالات روحانیت کے جامع،صفات نورانیہ کے خزانہ،معارف قرانیہ کے چشمہ رواں،شمع مہدویت کےپروانے، صدیقی جمال کے مظہر،فاروقی جلال کے آئینہ حاجی الحرمین سیدنا حضرت حافظ حکیم مولانا نوروالدین بھیروی خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ1834ءمیں بھیرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام حضرت حافظ غلام رسول اور والدہ کا نام نور بخت تھا۔آپ کا سلسلہ نسب بتیس واستوں کےساتھ حضرت عمر فاروق ؓتک اور والدہ ماجدہ کا سلسلہ نسب حضرت علی ؓ تک پہنچتا ہے۔اس لحاظ سے آپ فاروقی بھی ہیں اور علوی بھی۔
قرآن کریم آپ نے ماں کی گود میں میں پڑھا۔ شروع سےغضب کے حافظ تھےتیراکی کے شوقین تھے۔ بچپن سے ہی کتابوں کے بہت شوقین تھے۔ حصول علم کیلئے لاہور ،رامپور، لکھنؤ دہلی اور بھوپال وغیرہ مقیم رہے۔حصول علم کیلئے مکہ مدینہ بھی تشریف لے گئے،علم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹےاور بھیرہ میں قرآن مجید ،احادیث کا درس وتدریس کا سلسلہ جاری کردیااور ساتھ ہی مطب شروع کر دیا۔ دور دراز سے لوگ آپ کی خدمت میں علاج کیلئے آتے تھے۔
1885ءمیں حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ایک اشتہار پہلی بار پڑھا اسکا اتنا گہرا ثر ہوا کہ آپؓحضورؑ کی زیارت کیلئے قادیان پہنچ گئے،ملاقات کے بعد حضور کےجانثار خادموں میں شامل ہو گئے۔1889ء میں لدھیانہ میں پہلی بیعت ہوئی تو آپ نے سب سے پہلے نمبر پر بیعت کرنے کا فخر حاصل کیا ۔1890ء میں جب حضور علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا تو پھر بلا تامل حضرت ابو بکرؓکی طرح حضور کے دعوی پر ایمان لے آئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں :مَیں رات دن خدا تعالیٰ کے حضور چلاتا اور عرض کرتا تھا کہ اے میرے رب میرا کون ناصر و مددگار ہے- میں تنہا ہوں اور جب دعا کا ہاتھ پے در پے اٹھا اور فضائے آسمانی میری دعائوں سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو شرف قبولیت بخشا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا… اسکا نام اسکی نورانی صفات کی طرح نور الدین ہے… جب وہ میرے پاس آکر مجھ سے ملا تو میں نے اسے اپنے رب کی آیتوں میں سے ایک آیت پایا اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ میری اس دعا کا نتیجہ ہے۔ جو میں ہمیشہ کیا کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے اور… وہ میری محبت میں قسم قسم کی ملامتیں اور بدزبانیاں اور وطن مالوف اور دوستوں سے مفارقت اختیار کرتا ہے اور میرا کلام سننے کیلئے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کیلئے اپنے اصلی وطن کی یاد بھلا دیتا ہے اور ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن،جلد5، صفحہ581 تا586)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قدرت ثانیہ کے ظہور کی مثال میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت پیش کی ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے جس شخص کے ہاتھ پر صحابہ مسیح موعود علیہ السلام کو جمع کیا وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ سے بہت سی باتوں میں مشابہت رکھتا تھا- مثلاً
(1) حضرت ابوبکر صدیقؓ مردوں میں سے پہلے شخص تھے جو آنحضرتﷺ کے دعویٰ پر بغیر کسی تردد اور شک کے ایمان لائے چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں :انی قلت یٰایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً فقلتم کذبت وقال ابوبکر صدقت(بخاری ،کتاب التفسیر) یعنی میں نے تم لوگوں سے کہا کہ میں تم سب کی طرف رسول ہوں تو تم نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے مگر ابوبکر نے تصدیق کی اور میں نے جس کسی کو بھی اسلام کی طرف بلایا اس نے اسکے ماننے میں تردد اور شک ظاہر کیا- لیکن ابوبکر وہ شخص تھا جس نے بغیر کسی تردد اور بغیر کسی تاخیر کے اسے قبول کر لیا۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت الحاج الحکیم مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ سے متعلق فرماتے ہیں: انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردد مجھے قبول کیا کہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا اور بہتیرے سست اور متذبذب ہو گئے تھے- تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں قادیان میں میرے پاس پہنچا جس میں یہ فقرات درج تھے اٰمَنَا وَ صَدَقنَا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن، جلد3، صفحہ521 )
اطاعت اور فدائیت کا یہ عالم تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل، مولانانور الدین صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھا کہ مولانا۔مرشدنا ۔امامنا۔
میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے، جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا ہے، وہ مطالب حاصل کروں۔ اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفیٰ دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلائوں اور اسی راہ میں جان دوں- میں آپ کی راہ میں قربان ہوں- میرا جو کچھ ہے، میرا نہیں، آپ کا ہے۔ حضرت پیر و مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا۔ پھر فرماتے ہیں مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کیلئے تیار ہوں۔ دعا فرماویں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو۔ (فتح اسلام، روحانی خزائن، جلد3،صفحہ 36)
سامعین کرام !حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ کے محاسن کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں: ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں۔ اسی طرح آپ آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں : مجھ کو کسی شخص کے مال نے اس قدر نفع نہیں پہنچایا جس قدر کہ اسکے مال نے جوکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے دیا اور کئی سال سے دے رہا ہے۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن، جلد5، صفحہ582)
سامعین کرام!آپ کی تمام بڑائی اور آپ کی تمام عظمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے روحانی وابستگی کی وجہ سے تھی۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ میں ساری آمدنیوں کو چھوڑ کر جو دوسرے شہروں میں مجھے ہو سکتی ہیں کیوں قادیان میں رہنے کو ترجیح دیتا ہوں۔
اس کا مختصر جواب یہی دوں گا کہ میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیرفانی ہے، جس کو چور اور قزاق نہیں لے جا سکتا۔ مجھے وہ ملا ہے جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا۔ پھر ایسی بے بہا دولت کو چھوڑ کر میں چند روزہ دنیا کیلئے مارا مارا پھروں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اب کوئی مجھے ایک لاکھ کیا، ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی دے اور قادیان سے باہر رکھنا چاہے‘ میں نہیں رہ سکتا۔ ہاں امام علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں پھر خواہ مجھے ایک کوڑی بھی نہ ملے۔ پس میرے دوست میرا مال میری ضرورتیں اس امام کی اتباع تک ہیں اور دوسری ساری ضرورتوں کو اس ایک وجود پر قربان کرتا ہوں۔ (سورہ جمعہ کی تفسیر صفحہ63)
حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے احباب سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
ہماری بابت کچھ بھی خیال نہ کرو۔ ہم کیا اور ہماری ہستی کیا۔ہم اگر بڑےتھے تو گھر رہتے۔ پاکباز تھے تو پھر امام کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اگرکتا بوں سے یہ مقصد حاصل ہو سکتا تھا تو پھر ہمیں کیا حاجت تھی- ہمارے پاس بہت سی کتابیں تھیں- مگر نہیں، ان باتوں سے کچھ نہیں بنتا…اسی طرح ہم جس قدر یہاں ہیں اپنے اپنے امراض میں مبتلا ہیں… اور یہاں علاج کیلئے بیٹھے ہیں تو پھر ہماری کسی حرکت پر ناراض ہونا عقل مندی نہیں…صادق مامور ایک ہی ہے جو مسیح اور مہدی ہو کر آیا ہے- پس خدا سے مدد مانگو۔ ذکراللہ کی طرف آئو جو فحشاء اور منکر سے بچانے والا ہے۔ اسی کو اسوہ بنائو اور اسی کے نمونہ پر چلو جو ایک ہی مقتدا اور مطاع اور امام ہے۔ (سورہ جمعہ کی تفسیر، صفحہ66)
سامعین کرام!حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے آپ کے تعلق اور بیعت کے نتیجہ میں ہونے والے فوائد کے ذکر کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ حضرت غلام رسول راجیکی صاحبؓلکھتے ہیں کہ چودھری نواب خاں صاحب تحصیل دار جو مخلص احمدی تھے ، جب دورہ پر راجیکی تشریف لاتےتو میرےپاس قیام کرتے ۔ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور عظمت شان کےمتعلق اکثر تزکرہ کرتے رہتے .ایک دن اسی طرح کی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ نواب خان صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے حضرت حکیم نورالدین صاحب سے ایک دفعہ عرض کیا کہ مولانا آپ تو پہلے ہی با کمال بزرگ تھے آپ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت کیا فائدہ حاصل ہوا؟ اس پر حضرت حکیم نورالدین صاحب نے فرمایاکہ نواب خان!مجھےحضرت مرزا صاحب کی بیعت سے فوائد بہت حاصل ہوئے ہیں لیکن ایک فائدہ ان میں سے یہ ہوا ہےکہ پہلے مجھے نبی کریم ﷺ کی زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی ،اب بیداری میں بھی ہوتی ہے۔پھرفرمایا آپ کی صحبت سے یہ فائدہ اٹھایاکہ دنیا کی محبت مجھ پر سرد پڑ گئی ہے۔یہ سب مرزا صاحب کی قوت قدسیہ اور فیض صحبت سے حاصل ہوا۔
سامعین کرام!حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی عاجزی کی جو انتہا تھی اسکا ذکر ایک صحابی کے حوالے سے حضرت مصلح موعودنے کیا ہے۔ ایک صحابی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے کیلئے آیا آپ مسجد مبارک میں بیٹھے تھے اور دروازے کے پاس جوتیاں پڑی تھیں۔ ایک آدمی سیدھے سادے کپڑوں والا آگیا اور آ کر جوتیوں میں بیٹھ گیا۔ یہ صحابی کہتے ہیں کہ میں نے سمجھا کہ یہ کوئی جوتی چور ہے۔ چنانچہ میں نے اپنی جوتیوں کی نگرانی شروع کر دی کہیں وہ لے کر بھاگ نہ جائے۔ کہنے لگے اس کے کچھ عرصے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہو گئے اور میں نے سنا کہ آپ کی جگہ کوئی اور شخص خلیفہ بن گیا ہے اس پر میں بیعت کرنے کیلئے آیا۔ جب میں نے بیعت کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ وہی شخص تھا جس کو میں نے اپنی بیوقوفی سے جوتی چور سمجھا تھا (یعنی حضرت خلیفہ اوّل) اور میں اپنے دل میں سخت شرمندہ ہوا۔ آپ کی عادت تھی کہ آپ جوتیوں میں آ کر بیٹھ جاتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آواز دیتے تو آپ ذرا آگے آ جاتے۔ پھر جب کہتے کہ مولوی نورالدین صاحب نہیں آئے تو پھر کچھ اور آگے آجاتے۔ اس طرح بار بار کہنے کے بعد کہیں وہ آگے آتے تھے۔ تو یہ صحابی پھر بیان کرتے ہیں کہ میں ان کی اولاد کو بھی کہا کرتا تھا کہ یہ مقام جو انہوں نے حاصل کیا اس طرح عاجزی سے حاصل کیا تھا۔
سامعین کرام! غیروں کی نظر میں بھی آپؓ کا ایک عظیم مقام تھامولانا محمد علی جوہر ،نواب وقار الملک، مولانا ابوالکلام آزاد،مولوی ظفر علی خاں،علامہ شبلی نعمانی، خواجہ حسن نظامی اوردوسرے مسلمہ مسلمان لیڈران آپکی عظمت شان اور جلالت مرتبت اور تبحر علمی کے دل سے قائل تھے، اور اسلامی رسائل میں آپ کی دینی رائے کو بڑی وقعت دی جاتی تھی۔(ماخوذ از الفضل 27؍مارچ 1957ء صفحہ 5، جلد11/46نمبر74)
سر سید احمد خان بانی علی گڑھ کالج اپنے ایک خط محررہ 8؍مارچ 1897ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے سوال کا جواب ان الفاظ میں دیتے ہیں :
’’آپ نے تحریر فرمایا کہ جاہل پڑھ کر جب ترقی کرتا ہے تو پڑھا لکھا کہلاتاہے۔ مگر جب اور ترقی کرتاہے توفلسفی بننے لگتاہے۔ پھر ترقی کرے تو اسے صوفی بننا پڑتا ہے۔ جب یہ ترقی کرے تو کیا بنتاہے۔ … اسکا جواب اپنے مذاق کے موافق عرض کرتا ہوں کہ جب صوفی ترقی کرتاہے تو مولانا نورالدین ہو جاتا ہے۔‘‘
سامعین کرام !آپ رضی اللہ کا حضرت مسیح موعودؑکی اطاعت اور تعمیل حکم کا یہ عالم تھا کہ آپ بلا توقف فورا عمل کرتےتھے۔جسکی ایک مثال آپ کے سامنے پیش ہے۔
ایک مرتبہ آپ مطب میں بیٹھے تھے۔ ارد گرد لوگوں کا حلقہ تھا۔ ایک شخص نے آکر کہا کہ مولوی صاحب ! حضور یاد فرماتے ہیں۔ یہ سنتے ہی اس طرح گھبراہٹ کے ساتھ اٹھے کہ پگڑی باندھتے جاتے تھے اور جوتا گھسیٹتے جاتے تھے۔ گویا دل میں یہ تھا کہ حضورؑ کے حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو۔ پھر جب منصب خلافت پر فائز ہوئے تو اکثر فرمایا کرتے تھے کہ تم جانتے ہو نورالدین کا یہاں ایک معشوق ہوتاتھا جسے مرزا کہتے تھے۔ نورالدین اسکے پیچھے یوں دیوانہ وار پھرا کرتا تھا کہ اسے اپنے جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں ہوا کرتا تھا۔ (حیات نور، صفحہ187)
سامعین کرام!آپ علیہ السلام اپنے ایک خاص پیارے مرید یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے بارے میں فرماتے ہیں :
مولوی حکیم نوردین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور للہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں۔ کثرت مال کے ساتھ کچھ قلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا۔ مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اٹھا دینا اور اپنے لیے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا ان میں جن کے دلوں پر ان کی صحبت کا اثر ہے…خدا تعالیٰ اس خصلت اور ہمت کے آدمی اس امت میں زیادہ سے زیادہ کرے۔ آمین ثم آمین۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتےہیں :

چہ خوش بُودے اگر ہر یک ز اُمت نور دیں بودے
ہمیں بُودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے

(ترجمہ)کیا ہی اچھا ہوتا اگر قوم کا ہر فرد نور الدین بن جائے۔ مگریہ تب ہی ہو سکتاہے کہ جب ہر دل یقین کے نور سے بھر جائے۔(نشان آسمانی، روحانی خزائن ،جلد 4،صفحہ410تا411)
حاضرین جلسہ!گویا یہ آتشِ عشق یکطرفہ نہیں تھی بلکہ دونوں بابرکت وجود ہی فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول ﷺ کے حصار میں محوِ سفر تھے۔ دونوں ایک ہی منزل مقصود کی تلاش میں سرگرداں تھے اور دونوں ہی احیائے اسلام کی تڑپ دل میں بسائے اپنی نیم شبینہ دعاؤں کے ذریعے کسی معجزے کے منتظر تھے۔ ایسے میں جب اعجازِ مسیحائی کا وہ ظہور ہوا جو 23؍مارچ 1889ء کو ایک تخم کی صورت خاکساری کے لبادے میں ملبوس ہوا اور پھر ابررحمتِ باری سے روحانی پیاس بجھاتا ہوا بارآور ہوا، اور برسوں مسیحی نفس کی صحبت میں پروان چڑھنے کے بعد 27؍مئی 1908ء کو ظہورِ قدرتِ ثانیہ کے موقع پر ایک ایسے تناور درخت کی صورت نمودار ہوا جس کی سرسبز شاخوں میں ہزاروں روحانی طیور نے خوف سے امن پایا اور لاکھوں مومن اس شجر سایہ دار تلے تسکین جاں اور راحت جاوداں حاصل کرتے رہے۔
سامعین کرام !حضرت خلیفتہ المسیح اول جب خلافت کے منصب پر آپ فائز ہوئے تو جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبلُ اللہ کے ساتھ ہو۔ قرآن تمہارا دستور العمل ہو۔ باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضان الٰہی کو روکتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہوگئے۔ اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے۔ اس لیے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔
استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو۔ وحدت کو ہاتھ سے نہ دو۔ دوسرے کے ساتھ نیکی ،خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو۔ تیرہ سو برس بعد یہ زمانہ ملا ہے اورآئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا۔ پس اس نعمت کا شکر کرو۔ کیونکہ شکر کرنے پر ازدیادِ نعمت ہوتا ہے۔ (خطباتِ نور،صفحہ131)
سامعین کرام!حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا یہی کارنامہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے خلافت کے نظام کو مضبوطی سے قائم کر دیا اور خلافت کی ضرورت و اہمیت کو جماعت کے سامنے بار بار پیش کر کے اس عقیدہ کو جماعت میں راسخ کر دیا کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے۔ انسانی منصوبوں سے کوئی شخص خلیفہ نہیں بن سکتا۔ خلافت کے الٰہی نظام کو مٹانے کے لئے منکرینِ خلافت نے جو فتنہ و فساد برپا کیا اور لوگوں کو ورغلا نے اور اپنا ہم خیال بنانے کی جو کارروائیاں کی گئیں آپ نے ان کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا۔
آپ کے دور خلافت میں اشاعت اسلام کے جو عظیم الشان کا رنامے ہوئے ہیں جو کہ جماعت احمدیہ کی روحانی اور دنیاوی ترقی کا پیش خیمہ بنے ہیں جس میں مدرسہ تعلیم الاسلام و بورڈنگ ہائوس کی شاندار عمارتیں تیارہوئیں ، مسجد نور کی عمارت بنائی گئی ،نور ہسپتال بنا،مدرسہ احمدیہ قائم ہوا ،اخبار نور اور الفضل جاری ہوا ،واعظین سلسلہ نے ہندوستان کے مختلف حصوں میں دورہ جات کئے ،لنڈن میں اسلامی مشن کا قیام ہوا اور اس سلسلہ میں خواجہ کمال الدین صاحب اور چوہدری فتح محمد صاحب لنڈن پہنچے ۔ ایسے بہت سے فلاح و بہبود کے کام آپ کے دور خلافت میں عمل میں آئے ۔
سامعین کرام!حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے سارے دور میں جہاں قرآن وحدیث نبویؐ کے درس و تدریس میں منہمک اور کوشاں رہے وہاں خلافت کے مسئلہ کو بار بار تقریروں اور خطبات میں واضح کیا یہاں تک کہ جماعت کی غالب اکثریت نے اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے13مارچ1914ء بروز جمعہ داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے مولائے حقیقی سے جاملے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں اپنے محبوب آقا کے پہلو میں دفن ہوئے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔(تاریخ احمدیت، جلد3،صفحہ511،جدید ایڈیشن)

اے خدا بر تربت او بارشِ رحمت ببار
داخلش کن از کمالِ فضل در بیت النعیم
…٭…٭…٭…