حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ، امام الزمان سیّدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کے وہ موعود فرزند ہیں جن کی بے شمار خوبیاں اور صفات اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتائیں جن کا پیشگوئی مصلح موعود میں ذکر ہے۔ اُن میں سے ایک خوبی اور صفت آپؓ کی یہ بھی بتائی گئی کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ اس موعود فرزندارجمندنے اسلام کی برتری اور آنحضرت ﷺ کی شان و شوکت کو قائم کرنے کیلئے وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے اور جن کا غیروں نے بھی اعتراف کیا۔چنانچہ اس مضمون میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی عظیم الشان شخصیت اور آپؓکے علمی کارناموں پر اپنوں اور غیروں کے چند تاثرات پیش ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں پراونشل کانگرس کمیٹی پنجاب کے رکن میاں سلطان احمد وجودی لکھتے ہیں :(الف) اگر مصطفیٰ کمال اتاترک294416 مربع میل زمین اورایک کروڑ 25 لاکھ انسانوں پر انسانی حکومت کرتا تھا، اگر جوزف اسٹالن183 قومیتوں اور149 زبانوں والی سترہ کروڑ دس لاکھ انسانوں کی آبادکاری کا واحد مختار کل تھا،اگر مسولینی چار کروڑاور بیس لاکھ اطالوی اور ایتھوپیا کے86 لاکھ باشندوں کا خود مختار بادشاہ تھا ۔اگر اڈولف ہٹلر ساڑھے چھ کروڑ (جرمنوں) کا حکمران ہے تو مرزا بشیر الدین محمود احمد بھی تمام دنیا میں بسنے والے دنیا بھر کی تمام زبانیں جاننے والے افراد پر بلا شرکت غیرے حکومت کرتا ہے جس کے احکام کی تکمیل کو افرادمتذکرہ بالا اپنی زندگی کا اولین فرض خیال کرتے ہیں ۔ (الحکم جوبلی نمبر دسمبر1939ء)
(ب) مرزا بشیر الدین محمود احمد میں کام کرنے کی قوت حد سے زیادہ ہے وہ ایک غیر معمولی شخصیت کے انسان ہیں اور کئی گھنٹوں تک روکاوٹ کے بغیر تقریر کرتے ہیں ان کی تقریر میں روانی اور معلومات زیادہ پائی جاتی ہیں وہ بڑی بڑی زخیم کتابوں کے مصنف ہیں ان کو مل کر ان کے اخلاق کا گہرا ثر ملنے والوں پر ہوتا ہے ۔تنظیم کا ملکہ ان میں موجود ہے وہ پچاس سال کی عمرمیں کام کرنے کے لحاظ سے نوجوان معلوم ہوتے ہیں ۔وہ اردو زبان کے ایک بڑے سر پرست ہیں ۔‘‘ (بدر 6؍ فروری2002ء)
مفکر احرار چوہدری افضل حق ’’ جس قدر روپے احرار کی مخالفت میں قادیان خرچ کر رہا ہے اور جو عظیم دماغ اسکی پشت پر ہے وہ بڑی سے بڑی سلطنت کو پل بھر میں درہم برہم کرنے میں کافی ہے۔ ‘‘(اخبار مجاہد 15؍ اگست 1935ء، بحوالہ بدر 6؍ فروری2002ء)
پروفیسر اسٹینکو پنسلوانیہ(امریکہ )’’ امریکہ کی ریاست پنسلوانیہ کے ویکنز کالج میں فلسفہ اور مذہب کے صدر پروفیسراسٹینکو زیر عنوانThe Ahmadiiya Movement in Islamرقم طراز ہیں :آپ (حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ) ہمیشہ ہی سے ایک اولو العزم لیڈر اور زرخیز دماغ مصنف واقع ہوئے ہیں ۔اپنے والد کی طرح تعلق باللہ کے ایک خاص مقام پر فائزہیں ۔‘‘ (ایسٹرن ورلڈ دسمبر 1961ءبحوالہ بدر6؍ فروری 2002ء)
خواجہ حسن نظامی فرماتے ہیں:’’ اکثر بیمار رہتے ہیں مگر بیماریاں ان کی عملی مستعدی میں رخنہ نہیں ڈال سکتیںانہوں نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان کے ساتھ کام کر کے اپنی مغلئی جوانمردی کو ثابت کر دیا اور یہ بھی کہ مغل ذات کارفرمائی کا خاص سلیقہ رکھتی ہے ۔سیاسی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور مذہبی عقل و فہم میں بھی قوی ہیں اور جنگی ہنر بھی جانتے ہیں یعنی دماغی اور قلمی جنگ کے ماہر ہیں۔ ‘‘ (اخبار عادل دہلی24؍ اپریل 1933ء، بحوالہ بدر 6؍ فروری2002ء)
اخبار العمران دمشق زیر عنوان’’مہدی دمشق میں ‘‘رقمطراز ہے:’’ ابھی آپ (حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ ) کے دار الخلافہ (دمشق )میں تشریف لانے کی خبر شائع ہی ہوئی تھی کہ بہت سے علماء و فضلاء آپ کے ساتھ گفتگو کرنے اور آپ کی دعوت کے متعلق آپ سے مناظرہ اور مباحثہ کرنے کیلئے آپ کی خدمت میں پہنچ گئے اور انہوں نے آپ کو بہت عمیق ریسرچ رکھنے والا اور شریعت الٰہیہ کی حکمت اور فلسفہ سے واقف شخص پایا ۔‘‘
(مجریہ 10؍ اگست 1924بحوالہ بدر6 فروری2002ء)
جریدۃ الف و الیاءدمشق’’ ہم نے دیکھا کہ آپ فصیح عربی بولتے تھے اور اپنی باتوں کی حدیث شریف اور قرآنی آیات سے تائید کرتے تھے اور اگر کسی بات کے متعلق بو قت باہمی گفتگو کوئی حدیث اور قرآنی آیت مستحضر نہ ہوتی تو منطق سے کام لیتے تھے اور یہ مہدی صاحب (حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ، ناقل ) درمیانی قد رکھتے ہیں اور اپنا ہندوستانی ملکی لباس اور سفید پگڑی پہنتے ہیں اور آپ نہایت ذہین بہت روانی اورسلاست و فصاحت سے بولنے والے اور زبردست دلائل اپنی تائید میں پیش کرنے والے ہیں ۔بحث و مباحثہ سے اور مناظرہ سے نہ تھکتے ہیں نہ اکتاتے ہیں ۔‘‘(مجریہ 9؍ اگست 1923ءبحوالہ بدر6 فروری 2002ء)
’’ آپ کے چہرے کے خدو خال آپ کے نہایت ذہین ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور آپ کو دیکھنے والا آپ کے رعب و وقار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔‘‘ (مجریہ10؍ اگست 1924ءبحوالہ بدر6 فروری2002ء)
اخبار ’’ فتی العرب‘‘ دمشق ’’ یہ خلیفہ صاحب اپنی عمر کے چالیسویں سال میں ہیں ۔منہ پر سیاہ کشادہ داڑھی رکھتے ہیں چہرہ گندم گوں ہے ۔اور جلال ووقار چہرہ پر غالب ہے۔دونوں آنکھیں ذکاوت وذہانت اور غیر معمولی علم و عقل کی خبر دے رہی ہیں ۔آپ ان کے چہرہ کے خدوخال میں جبکہ وہ اپنی بر ف کی مانند پگڑی پہنے کھڑے ہوں یہ دماغی قابلیتیں دیکھیں تو آپ کو یقین ہو جائے گا کہ آپ ایک ایسے شخص کے سامنے ہیں جو آپ کو قبل اس کے کہ آپ اسےسمجھیںخوب سمجھتا ہے ۔آپ کے لبوں پر تبسم کھیلتا رہتا ہے جو کبھی ظاہر اور کبھی پوشیدہ ہو جاتا ہے اور اگر آپ اس کیفیت کو دیکھیں تو آپ اس تبسم کے نیچے جو معانی ہیں اور جو اس میں جلال ہوتا ہے اس سے حیران ہو جائیں گے ۔(مجریہ10؍اگست 1924ء بحوالہ بدر6 فروری2002ء)
پروفیسر سید عبد القادر صاحب ایم اے نے مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور کے جلسہ منعقدہ 1919ء میں بحیثیت صدر حاضرین سے حضوررضی اللہ عنہ کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا :’’ حضرات عام طور پر قاعدہ ہوتا ہے کہ جب کوئی صاحب لیکچر کیلئے تشریف لاویں تو صدر انجمن حاضرین سے انکا تعارف کرواتا ہے لیکن آج کے لیکچرار اس عزت اس شہرت اور اس پایہ کے انسان ہیں کہ شاید ہی کوئی صاحب ناواقف ہوں ۔آپ اس عظیم الشان اور برگزیدہ انسان کے خلف ہیں جنہوں نے تمام مذہبی دنیا اور بالخصوص تمام عیسائی عالم میں تہلکہ مچا دیا تھا ۔‘‘ (تاثرات قادیان، صفحہ 161،بحوالہ بدر 6 فروری 2002ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے وصال پر ’’صدق جدید ‘‘ کا تعزیتی نوٹسیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے وصال پر مولانا عبدالماجد صاحب دریا آبادی نے اپنے اخبار ’’صدق جدید‘‘لکھنؤ کی 18؍نومبر1965ء کی اشاعت میںلکھا :کراچی سے خبر شائع ہوئی ہے کہ جماعت احمدیہ (قادیانی ) کے امام مرزا بشیر الدین محمود کا 8؍ نومبر کو ربوہ میں انتقال ہو گیا۔مہینوں کیا برسوں سے سخت بیمار چلے آتے تھے اور یہ طویل اور شدید بیماری کلمہ گو کیلئے بجائے خود گناہوں کو دھونے والی اور انکا کفارہ کر دینے والی ہے ۔دوسرے عقیدے ان کے جیسے بھی ہوں قرآن و علوم قرآنی عالمگیر اشاعت اوراسلام کی آفاق گیر تبلیغ میںجو کوششیں انہوں نے سرگرمی اور اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں ان کا صلہ اللہ انہیں عطا فرمائے اور ان خدمات کے طفیل میں ان کے ساتھ عام معاملہ درگذر کا فرمائے ۔علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح تبیین و ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ ہے ۔‘‘ (اخبار صدق جدید ،لکھنؤ، جلد15،نمبر 51،18 نومبر 1965ءبحوالہ ماہنامہ انصار اللہ مئی ،جون، جولائی 2009ءصفحہ879)
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :’’ آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں ہے جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو۔خدا نے مجھے علم قرآن بخشا ہے اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کیلئے مجھے دنیا کا استاد مقرر فرمایا ہے ۔‘‘ (الموعود، صفحہ210،211 بحوالہ بدر6 فروری 2002ء)
مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر’’ زمیندار‘‘نے مخالفین احمدیت کو مخاطب کرتے ہوئےایک تقریر میںکہا :’’ کان کھول کر سن لو تم اور تمہارے لگے بندہے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کرسکتے۔ مرزا محمود کے پاس قرآن ہے اور قرآن کا علم ہے تمہارے پاس کیا دھرا ہے …تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا ۔ مرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہےجو تن من دھن اسکے اشارے پر اسکے پائوں پر نچھاور کرنے کو تیار ہے …مرزا محمود کے پاس مبلغ ہیں مختلف علوم کے ماہر ہیں دنیا کے ہر ملک میں اس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے ۔‘‘(ایک خوفناک سازش مصنفہ مظہر علی اظہرصفحہ 196 بحوالہ بدر 6؍ فروری 2002ء)
تفسیر کبیر کے مطالعہ کے بعد مشہور نقاد ادیب اختر اور ینوی (پٹنہ ، انڈیا )نے لکھا :’’ یہ تفسیریں سراج منیر ہیں ۔ ان سے قرآن حکیم کی حیات بخش شعاعوں کا انعکاس ہوتا ہے ۔تفسیر قرآنی کی یہ دولت سرمدی دنیا اور عقبیٰ کیلئے لاکھوں سلطنتوں اور ہزاروں ہزار جنتوں سے افضل ہے۔ علوم قرآن کے گہر ہائے آبدار کانِ معانی و معدن عرفان سے نکالے گئے ہیں ۔غواصِ معارف پر فدا ہونے کو جی چاہتا ہے ۔
ان تفسیروں کی خوبیاں بیان کرنے کیلئے ایک دفتر چاہئے … میری ناچیز رائے میں تفسیر کبیر مندرجہ ذیل خوبیوں کی حامل ہے ۔ اس میں قرآن کریم کے تسلسل، ربط، تنظیم ، ترتیب، تعمیر اور سورتوں کے موضوعات و معانی کی ہم آہنگی کو صاف ،روشن و مدلل طور پر ثابت کیا گیا ہے ۔قرآن مجید صرف ایک سلک مروارید نہیں بلکہ یہ ایک روحانی قصر الحمرا ءہے ۔ایک زندہ تاج محل ہے اسکے عناصر ترکیبی کے حسن کارانہ نظم و ضبط، اسکے تراشیدہ ایجاز بیان،اسکی معجزانہ صنعت گری ، اسکی گہری ، وسیع اور بلند معنی آفرینی اور اسکے غیر مختتم خزینہ علم و عرفان کا شعور تفسیر کبیر کے مطالعہ سے حاصل ہونے لگتا ہے… حضرت مرزا محمود احمد نے نہایت لطیف و بلیغ انداز میں اس امر کو درجہ یقین تک پہنچادیا کہ قرآن مجید ایک کتا ب عظیم ہے اور اسکے ابواب و عناصر اسکی سورتیں اورآیات گل وسیدہ کی طرح حسن یوسف کی مانند ۔نظام شمسی کی مثال مربوط و منظم متناسب ہم آہنگ اور حسین ہیں تفسیر کبیر کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ اس میں انسانی تقاضوں ، ضرورتوں اور مسئلوں سے وابستہ بہ کثرت نئے مضامین ، نکتے اور تفصیلیں ملتی ہیں اور ہماری روح اور ذہن کی تشنگی بجھاتی ہیں ہر سورۃ ہر پارہ کی تفسیر میں معارف اور علوم کا دریائے رواں جوش مارتا ہوا نظر آتا ہے ۔اسکے ذریعہ نئے علوم اور نئے مسائل پر گہری تنقیدیں ملتی ہیں اور اسلامی نظروں کا اتنا تسلی بخش اظہار وبیان ملتا ہے کہ آخر الذکر کی برتری ثابت ہو جاتی ہے۔
تفسیر کبیر میں قصص قرآنی کی عارفانہ تعبیر یں اور تفصیلیں ملتی ہیں علم و حکمت روحانیت و عرفان نکتہ دانی و وجاحت کی تجلیاں شکوک و شبہات کے خس و خاشاک کو دور کر کے تفہیم و تسکین کی راہیں صاف و روشن کر دیتی ہیں ۔تاریخ عالم ،قوموں کے عروج و زوال ، اسباب زوال ، سامان عروج ، نفسیاتِ اجتماعی، فرد و جماعت کے روابط اور بندے کے اللہ سے تعلق کی اعلیٰ تحقیق و توضیح ملتی ہے ۔
معجزات ، پیش گوئیوں، انبیاء کے خوابوں ، رموزِ استعاراتِ قرآنی و مقطعات کی حقیقی ، حکمتی اور ایمان افروز تعبیروں سے تفسیر کبیر کے اوراق تابناک ہیں ۔اس عظیم تفسیر میں تعلیمات اسلامی کا فلسفہ نہایت عمدہ طور پر پیش کیا گیا ہے منصفانہ رنگ میں کیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی پر شوکت فضیلت سے دل کو طمانیت راحت و تسکین ملتی ہے اور ذہن کو رفعت حاصل ہوتی ہے اس تفسیر کی انداز نظر عصری اور سائنسی بھی ہے فلسفیانہ اور حکمتی بھی اور وجدانی و عرفانی بھی ۔
اس تفسیر اکبر کے عالم علم و عرفان کی تجلیات بیان کرنے کیلئے دفتر در دفتر چاہئیں ۔یہ تفسیر ملت اسلامیہ کی بے بہا دولت ہے ۔قرآن حکیم کی اس تفسیر سے امت محمدیہ کا مستقبل وابستہ ہے ۔‘‘(مجلہ الجامعہ ر بوہ شمارہ نمبر9، صفحہ63 تا65بحوالہ سوانح فضل عمر، جلد سوم، صفحہ161تا 163)
تفسیر کبیر حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کا ایک ایسا عظیم الشان علمی معجزہ ہے جس نے نہ جانے کتنی زندگیوں میں روحانی انقلاب پیدا کیا۔ معلوم کرنے سے یقیناً یہ بات سامنے آئے گی کہ ایسے بہت سے افراد ہیں جنہوں نے تفسیر کبیر کا مطالعہ کر کے قرآن مجید سے ایک نیا تعلق پیدا کیا اور اپنے خالق و مالک کے قرب کا مقام حاصل کیا ۔کتنے خوش ہیں وہ لوگ کہ ان کی عملی زندگی میں تفسیر کبیر نے نیک و پاک تبدیلی پید ا کر دی ۔
علامہ نیاز فتح پوری لکھتے ہیں :’’ تفسیر کبیر جلد سوم آجکل میرے سامنے ہے اور میں اسے بڑی نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیازاویہ فکر آپ نے پیداکیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل ونقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے ۔آپ کی تبحر علمی ، آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیر معمولی فکرو فراست ، آپ کا حسن استدلال اسکے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا کاش کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا ۔کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوطؑ پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا۔ھٰولآء بناتی کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں ۔خدا آپ کو تا دیر سلامت رکھے ۔‘‘(الفضل 17نومبر1936ء بحوالہ سوانح فضل عمر، جلد سوم، صفحہ163)
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نےگیارہ سال کی عمر میں جب انجمن تشحیذ الاذہان کے ایک اجلاس میں اپنی تقریر میں حقائق فرقانیہ بیان کئے تو لوگ ورطہ حیرت میں پڑ گئے۔اس تقریر کے بار ے میں حضرت بھائی عبدالالرحمٰن صاحب قادیانی کے تأثرات ملاحظہ فرمائیں:’’ تقریر کیا تھی علوم ومعرفت کا دریا اور روحانیت کا ایک سمندر تھا ۔تقریر کے خاتمہ پر حضرت مولانا نور الدین ؓ کھڑے ہوئے ۔آپ نے تقریر کی بے حد تعریف کی قوت بیان اور روانی کی داد دی۔ نکات قرآنی اور لطیف استدلال پر بڑے تپاک اور محبت سے مرحبا جزاک اللہ کہتے ہوئے دعائیں دیتے، نہایت احترام کےساتھ گھر تک آپ کے ساتھ آکر رخصت فرمایا ۔‘‘ (الحکم 7؍ اکتوبر1939ء)
سن1906ء میں بعمر 18 سال آپ نے اپنی پہلی پبلک تقریر میں سورۃ لقمان کی تفسیر فرمائی آپکی اس تفسیر کو سن کر حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے یہ تبصرہ فرمایا :’’ میں انکو خاموشی و خاص توجہ سے سنتا رہا کیا بتائوں فصاحت کا ایک سیلاب تھا جو اپنے پورے زور سے بہہ رہا تھا واقعی اتنی چھوٹی سی عمر میں خیالات کی پختگی اعجاز سے کم نہیں ۔میرے خیال میں یہ بھی حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کا ایک نشان ہے ۔‘‘ (الحکم 10؍ جنوری1907ء صفحہ6)
اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد سن 1908ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ نے بعنوان’’ ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں ‘‘ تقریر فرمائی اس تقریر کو سن کر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے لکھا :’’ بلا مبالغہ صاحبزادہ صاحب کی تقریر میں قرآن مجید کے حقائق و معارف کا سادہ اور مسلسل الفاظ میں ایک خزانہ تھا پلیٹفارم سے صاحب زادہ صاحب اس لب و لہجہ سے بول رہے تھے جو حضرت امام علیہ السلام کا تھا ۔صاحبزادہ صاحب نے تشنہ حقائق قوم کو باپ کی طرح سیراب کر دیا ۔‘‘ (الحکم 1939ء جوبلی نمبر صفحہ76)
اس تقریر کے بارہ میں حضرت الحاج حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے فرمایا:’’ میاں نے بہت سی آیات کی ایسی تفسیر کی ہے جو میرے لئے بھی نئی ہے ‘‘ (تشحیذ الاذہان جنوری 1909ء)
اردن کے اخبار ’’ الاردن‘‘ نے21نومبر 1948ء کے شمارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے انگریزی ترجمہ و تفسیر قرآن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’’ حضرت امام جماعت احمدیہ دین کے رموز و حقائق اور اسکی اعلیٰ درجہ کی تعلیم اور روحانیت سے متعلق جملہ علوم سے غیرمعمولی طور پر بہرہ ور اور دین کے بارہ میں بھرپور علم رکھتے ہیں …جناب امام جماعت احمدیہ نے اپنی اس تفسیر میں دشمنان اسلام کا بخوبی رد کیا ہے بالخصوص مستشرقین کے پیدا کردہ غلط خیالات اور اسکے اعتراضات کا جواب بےنظیر علمی رنگ میں دیا ہے ۔‘‘ (بدر6؍ فروری2002ء)
اسی طرح روزنامہ ’’حقیقت‘‘ لکھنؤکے ایڈیٹر مکرم جناب انیس احمد عباسی بی اے کاکوروی آپ کی علمی صلاحیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے آپ فرماتے ہیں ’’مذہبی اختلافات سے قطع نظر مرزا صاحب مرحوم کی ذات بہت سی صفات کی حامل تھی ان کے تبحر علمی ،حیرت انگیز ذہانت اور سیاسی فراست کا اندازہ بہت سے ممتاز غیر احمدی افراد کو بھی تھا …راقم السطور کو خود بھی مرزا صاحب سے ملاقات کا اتفاق ہوا اور ہر دفعہ ان کی غیر معمولی قابلیت بصیرت و فراست سے بہت متاثر ہو ا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان میں تمام جوہر تھے جو بڑے قائدین میں ہونے چاہئیں۔ مذہبی عقائد سے اختلاف رکھنے کی بناء پر کسی بڑی شخصیت کی اعلیٰ صفات اور قومی خدمات کی قدر و وقعت نہ کرنا ایک بہت ہی افسوس ناک کمزوری ہے ‘‘ (روزنامہ ’’حقیقت ‘‘ لکھنؤ 10نومبر 1965ء بحوالہ بدر6؍ فروری 2002ء)
اخبار MADRIDاسپین نےحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے معرکتہ الآراء لیکچر( لاہور) بعنوان ’’ اسلام کا اقتصادی نظام ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد مکمل طور پر اپنے لیکچر میں اسلام کی تعلیم اور اصولوں پر روشنی ڈالتے ہیں جو اس مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور اسلام کی اقتصادی نظام اس کی بنیاد ہے ۔آپ نے اسلامی نظام کا کمیونزم کے نظام سے نہایت شاندار طور پر فرق دکھایا ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ کتاب حوالہ جات کے ساتھ سہی طور پر اپنی اہمیت پیش کرتی ہے ۔(مجریہ 21 جولائی 1948ء،بحوالہ بدر6 فروری 2002ء)
آنریبل جسٹس ایس اے رحمٰن احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام مینارڈ ہال لاءکالج لاہور میں ’’موجودہ حالات میں عالم اسلام کی حیثیت اور اس کا مستقبل ‘‘ کے موضوع پر حضرت مصلح موعود ؓ کے بصیرت افروز خطاب کے اختتام پر صدر جلسہ آنریبل جسٹس ایس اے رحمٰن نے فرمایا ’’ میں احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کا شکر گزار ہوں کہ جس نے اس فاضلانہ تقریر کے سننے کا ہمیں موقع بہم پہنچایا جناب مرزا صاحب نے تھوڑے سے وقت میں بہت وسیع مضمون بیان فرمایا ہے اور اس کے پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے آپ نے جو تعمیری تجاویز بیان فرمائی ہیں وہ نہایت ہی قابل قدر ہیں ہمیں ان پر سنجیدگی سے غور کرنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ‘‘ (الفضل 14دسمبر 1928بحوالہ بدر6فروری 2002ء)
ملک فیروز خان نون نے حضرت مصلح موعود ؓ کا ایک معرکۃ الآراءلیکچر سماعت کرنے کے بعد فرمایا:
’’ حضرت صاحب کے دماغ کے اندر علم کا ایک سمندر موجزن ہے انہوں نے تھوڑے سے وقت میں بہت کچھ بتایا ہے اور نہایت فاضلانہ طریق سے مضمون پر روشنی ڈالی ہے۔ ‘‘ (الفضل 9دسمبر 1947ءبحوالہ بدر6فروری 2002ء)
’’اسلام اور تعلقات بین الاقوامی ‘‘ کے موضوع پر حضور ؓکا لیکچر اور غیروں کے تبصرے:1918ء میں جنگ عظیم کے خاتمہ پر انفلوئنزا کی ہولناک وباء پھوٹی ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی پر بھی اس بیماری کا شدید حملہ ہوا اور کمزوری بہت بڑھ گئی ۔اس بیماری کے اثرات کئی ماہ تک جاری رہے یہاں تک کہ بعض ماہر اطباء سے مشورہ کیلئے حضرت صاحب نے ماہ فروری میں لاہور کا سفر اختیار فرمایا۔ جماعت احمدیہ لاہور کی درخواست پر آپ نے23 فروری کو بریڈ لاءہال میں ’’ اسلام اور تعلقات بین الاقوام‘‘ کے اہم موضوع پر ایک نہایت عالمانہ اور پر حکمت خطاب فرمایا ۔جو مسلسل تین گھنٹے تک جاری رہا۔ ہال شائقین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور لوگوں کا کہنا تھا کہ اس ہال میں پہلے کبھی اس کثرت سے کسی دوسرے موقع پر اتنے سامعین اکٹھے نہیں ہوئے ۔
اس تقریر میں آپ نے غیر مذاہب سے تعلقات کے موضوع پر اسلامی نظریات کو ایسے رنگ میں پیش فرمایا کہ غیر مذاہب سے تعلق رکھنے والے سامعین پر اسلام کا غیر معمولی حسن و کمال بخوبی ظاہر ہو گیا ۔یہ وہ دن تھے کہ جہاں ایک طرف پنجاب کا تعلیم یافتہ طبقہ حضرت صاحب کےغیر معمولی ظاہری اور باطنی علوم سے متاثر ہو کر روز بروز پہلے سے بڑھ کر آپ کی رہنمائی کی حاجت محسوس کر رہا تھا اور دقیق علمی مضامین کے بارہ میں روشنی حاصل کرنے کیلئے نظریں قادیان کے اس خلیفہ کی طرف اُٹھ رہی تھیں وہاںدوسری طرف مذہبی تعصبات بھی زوروں پر تھے اور عامۃ الناس میں علماء، پنڈتوں اور پادریوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے نتیجہ میں اخبارات اس بات سے ڈرتے تھے کہ حضور کے علم و فضل کا اعتراف جرات کے ساتھ کر سکیں۔یہی وجہ ہے کہ گو پنجاب سے باہر کے بعض دور دراز اخبارات نے اس تقریر کو غیر معمولی وقعت کی نظر سے دیکھا اور اپنے اخبارات میں اسے شاندار خراج تحسین پیش کیا ۔لیکن لاہور کے اخبارات میں سے سوائے سول اینڈ ملٹری گزٹ کے جوایک آزاد خیال انگریزی اخبار تھا کسی ہندو یا مسلم اخبار کو یہ جرات نہ ہوئی کہ حضور کی تقریر کا ذکر کرتا۔ بعض دوسرے شہروں کے اخبارات جنہوں نے اس تقریر کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔حسب ذیل تھے:
(1) روزنامہ’’ قومی رپورٹ‘‘ مدراس
(2) روزنامہ ’’اخوت ‘‘ لکھنؤ
(3) روزنامہ ’’ ہمدم ‘‘ لکھنوؤ
(4) ’’ وکیل ‘‘ امرتسر
اس تقریرکا جو فوری اثر حاضرین نے محسوس کیا۔ اسکا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سید عبد القادر صاحب پروفیسر شعبہ تاریخ اسلامیہ کالج لاہور جو پہلے بھی کئی مرتبہ حضور سے علمی مضامین پر گفتگو فرما چکے تھے اس تقریر کے معاً بعد حضور سے ملے اور سخت اصرار فرمانے لگےکہ حضور اپنا واپسی کا پروگرام ملتوی فرمادیں اور26؍ فروری کو اسلامی خلافت میں پیدا ہونے والے فتنوں کے بارہ میں اسلامیہ کالج کی مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک جلسہ سے خطاب فرما دیں۔ اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر با وجود وقت کی قلت کے حضور نے اس درخواست کو منظور فرما لیا اور26؍ تاریخ کو اسلامیہ کالج ہال میں وہ شہرہ آفاق لیکچر دیا جو بعد میں ’’ اسلام میں اختلافات کا آغاز ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔(سوانح فضل عمر جلد دوم، صفحہ229تا233)
اسلام میں اختلافات کا آغاز’’ اسلام میں اختلاف کا آغاز‘‘ کے موضوع پر آپ نے جو شہرہ آفاق تقریر فرمائی اس میں آپ کے مخاطب صرف عامۃ الناس نہیں تھے بلکہ فن تاریخ سے خوب واقف اس مضمون کے قابل اساتذہ اور طلباء کے علاوہ لاہور کے دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ احباب بھی بکثرت حلقہ سامعین میں موجود تھے ۔ایسے ہزاروں روشن خیال اور تعلیم یافتہ سامعین کے سامنے آپ نے جس عمدگی سے اس مضمون کو بیان کیا وہ آپ ہی کا حصہ تھا ۔ سینکڑوں سال کی الجھی ہوئی گتھیاں چند منٹوں میں سلجھا دیںاور اس دور کے ایسے واقعات جن پر پہلے ابہام اور شکوک کے پردے پڑے ہوئے تھے ایسے واضح اور مدلل انداز میں پیش فرمائے کہ دل و دماغ کی ساری تشنگیاں دور ہو گئیں ۔چنانچہ اس تقریر کے متعلق صدر صاحب جلسہ مکرم پرو فیسر سید عبد القادر صاحب فاضل مؤرخ کے تاثرات بارہا جماعت کے رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں یہاں صرف اس تبصرہ میں سے چند فقرے ہدیہ ناظرین کئے جاتے ہیں ۔آپ نے فرمایا ’’ مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کچھ شد بد ہے اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مؤرخ ہیں جو حضرت عثمان ؓ کے عہد کے اختلافات کی تہ تک پہنچ سکے ہیں اور اس مہلک فتنہ کی اصلی وجوہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں … میراخیال ہے کہ ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گزرا ہوگا ۔ سچ تو یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ کے عہد کی جس قدر اسلامی تاریخوں کا مطالعہ کیا جائے گا اسی قدر یہ مضمون سبق آموز اور قابل قدر معلوم ہوگا ۔‘‘(سوانح فضل عمر، جلد دوم، صفحہ234)
عرفان الٰہی جماعت احمدیہ قادیان کا وہ جلسہ سالانہ جو 1918ء میں انفلوئنزا کی عالمگیر وباء کے باعث منعقد نہیں ہو سکا تھا ۔مارچ 1919ء میں منعقد ہوا ۔اس جلسہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی علمی تقریر عرفان الٰہی کے موضوع پر تھی ۔مضمون نہایت مشکل تھا اور سامعین میں ناخواندہ دیہاتوں سے لے کر نہایت اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ احباب تک شامل تھے پھر احمدی ہی نہیں کثرت سے غیر از جماعت دوست بھی اس نوجوان خلیفہ کی علمی قابلیت کا شہرہ سنکر اور مرکز احمدیت کی غیر معمولی روحانی فضا کے تذکروں سے متاثر ہو کر تشریف لائے ہوے تھے ۔
اس جلسہ پر آپ کی مختلف تقاریر کا جو اثر غیروں نے قبول کیااس کے متعلق معاصر اخبار الحکم کے ایک اقتباس کو پیش کیا جاتا ہے جو ایک سخت معاند آریہ سماجی اخبار کے اعترافِ حق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے’’ آپ کی تقریر کے متعلق آریہ سماج کے معزز اور زبردست اخبار ’’ پرکاش‘‘ کی رائے یقیناً دلچسپی سے پڑھی جائیگی اور میں اسے اس لئے یہاں دیتا ہوں کہ احمدی جماعت کو معلوم ہو جاوے کہ اسکی عقیدت اور ارادت کے متعلق مخالفین سلسلہ بھی ایک خاص عظمت محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ پرکاش لکھتا ہے کہ ’’ جلسہ میں خاص کشش کا باعث میرزا محمود احمد صاحب کے لیکچر تھے ہمیں احمدی دوستوں کی عقیدت اور بردباری کی تعریف کرنی چاہئے کہ میرزا صاحب کے لیکچر پانچ گھنٹے تک ہوتے رہے اور وہ سنتے رہے۔ آریہ سماج کے اندر بڑے سے بڑاویاکھتا (لیکچرار) بھی یہ ہمت نہیں رکھتا کہ حاضرین کو پانچ گھنٹوں تک بٹھا سکے۔ یہاں تو لوگ ایک گھنٹہ میں اکتا نے لگ جاتے ہیں ۔ہم اپنے احمدی دوستوں کو ان کے جلسہ کی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہیں ۔‘‘
معزز ہمعصر کی اس صاف اور بے لوث رائے پر میں اسکا شکریہ ادا کرتا ہوں احمدی جماعت کی عقیدت اور ارادت کے علاوہ ایک خاص چیز ہے جسکا اشارہ خود پرکاش نے کیا ہے ۔وہ حضرت خلیفۃ المسیح کی زبردست شخصیت ہے اور آپ کو اپنے کلام پر ایسی قدرت اور حکومت ہے کہ وہ اپنے سننے والوں کو جس قدر عرصہ تک چاہیں محویت کی حالت میں رکھ سکتے ہیں ۔(سوانح فضل عمر، جلد دوم، صفحہ235تا 245)
احمدیت یعنی حقیقی اسلام ویمبلے مذہبی کانفرنس میں اسلام کی برتری وحقانیت کے متعلق حضور نے جو معرکۃ الآرا مضمون تیار فرمایا وہ ’’Ahmadiyyat or the true Islam‘‘ (احمدیت یعنی حقیقی اسلام ) کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہے ۔اس مضمون میں اسلام کی بنیادی تعلیمات ان کی حکمت و فلسفہ بڑے دلنشیں انداز اور مدلل طریق پر بیان کیا گیا ہے ۔یہ مضمون جس تفصیل و بیان کا تقاضا کرتا تھا اس کی وجہ سے اسکی ضخامت اتنی ہو گئی کہ کانفرنس کے مجوزہ وقت میں اسے بیان کرنا ممکن نہ تھا چنانچہ حضور نے ایک مختصر مضمون تیار فرمایا(جسکا انگریزی ترجمہ Ahmadiyya Movement) کے نام سے شائع ہوا ) جو اس مجلس میں حضور کے ارشاد پر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے پڑھا ۔حضور اپنے تمام رفقاء سمیت اس مجلس میں موجود تھے۔ یہاں اس امرکا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جب حضرت چوہدری صاحب مضمون پڑھنے کیلئے اُٹھنے لگے تو حضور نے ان کے کان میں فرمایا ’’ گھبرانا نہیں میں دعا کروں گا‘‘ حضرت چوہدری صاحب جیسے انگریزی زبان پر عبور رکھنے والے مشاق لیکچرار کیلئے یہ الفاظ اور زیادہ خدائی امداد و یقین کا باعث ہوئے اور یہ تقریر تمام سامعین نے ہمہ تن گوش ہو کر سنی ۔
اور مضمون کے خاتمہ پر اجلاس کے صدر مسٹر تھیوڈور ماریسن نے اپنے تبصرہ میںکہا کہ ’’مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرا لیا ہے۔ میں صرف اپنی طرف سے اور حاضرین جلسہ کی طرف سے مضمون کی خوبئی ترتیب، خوبئی خیالات اور اعلیٰ درجہ کے طریق استدلال کیلئے حضرت خلیفۃ المسیح کا شکر یہ ادا کرتا ہوں ۔حاضرین کے چہرے زبان حال سے میری رائے کے ساتھ متفق ہیں اور مجھے یقین ہے کہ میں ان کی طرف سے شکریہ ادا کرنے میں حق پر ہوں اور ان کی ترجمانی کر رہا ہوں ۔‘‘
ایک مشہور فرانسیسی عالم جو مذاہب کے تقابلی مطالعہ میں بہت مہارت رکھتے تھے ۔یہ مضمون سن کے بے ساختہ کہنے لگے ۔
''Well put, well arranged, well dealt''یعنی خوب بیان کیا گیا ،خوب ترتیب دیا گیا اور خوب پیش کیا گیا ۔
اکثر حاضرین کی زبان پر تھا کہ ''Rare addresses, one cannot hear such addresses every day''’’ ایک نادر خطاب ، ایسے اچھوتے مضامین ہر روز سننے میں نہیں آتے’’ بعض تبصرہ کرنے والوں نے کہا کہ یہ اس زمانہ کا لوتھر(مصلح) معلوم ہوتا ہے اور یہ کہ یہ موقعہ احمدیوں کیلئے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے اور یہ ایسی کامیابی ہے کہ آپ لوگ ہزاروں پونڈ بھی خرچ کر دیتے تو ایسی شہرت اور ایسی کامیابی کبھی نہ ہوتی جیسی کہ اس لیکچر کے ذریعہ سے ہوئی ہے ۔
برطانوی پریس میں اس مضمون کا بطور خاص چرچا ہوا ۔اخبار گارڈین نے لکھا:’’ آپ نے اپنے مضمون کو جس میں زیادہ تر اسلام کی حمایت اور تائید تھی ایک پر جوش اپیل کے ساتھ ختم کیا جس میں انہوں نے حاضرین کو اس نئے مسیح … کے قبول کرنے لئے مدعو کیا ۔اس بات کا بیان کر دینا بھی ضرور ہے کہ اس پرچہ کے بعد جس قدر تحسین و خوشنودی کا چیئرز (Cheers) کے ذریعہ اظہار کیا گیا اس سے پہلے کسی پرچہ پر ایسا نہیں کیا گیا تھا ۔‘‘(مانچسٹر گارڈین 24 ستمبر 1924ء بحوالہ الفضل 18نومبر 1924ء)
ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل اس کتاب کومندرجہ ذیل اہل الرائے اصحاب نے بہت پسند کیا ان میں سے بعض کی آراء اور تبصرے درج ذیل ہیں :
سر ہون او ملر’’ اس چھوٹی سی کتاب کے بھجوانے کیلئےجس میں مسئلہ ہند کے حل کیلئے امام جماعت احمدیہ کی تجاویز مندرج ہیں ۔میں تہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔سائمن کمیشن کی تجاویز پر یہی ایک مفصل تنقید ہے جو میری نظر سے گزری ہے ۔میں ان تفصیلات کے متعلق کچھ عرض نہ کروں گا جن کے متعلق اختلاف رائے ایک لازمی امر ہے ۔لیکن میں اس اخلاص، معقولیت اور وضاحت کی داد دیتا ہوں جس سے کہ خیالات کا اظہار کیا ہے اور میں ہز ہولی نس کے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے اس امر کے متعلق بلند خیالی سے بہت متاثر ہوا ہوں۔
’’ مجھے افسوس ہے کہ میں ابھی تک بارنس میں حاضر ہو کر آپ کی مسجد کو نہیں دیکھ سکا اور نہ آپ سے ملاقات کر سکا ہوں ۔کل امید ہے کہ اگر موسم نے مجھے اتنا سفر کرنے کی اجازت دی تو میں چوہدری ظفر اللہ خان کی دعوت سے فائدہ اُٹھا کر آپ کے ساتھ آپ کے اپنے لوگوں میں ملاقات کروں گا ۔‘‘
آنریبل پیٹرسن.سی.ایس.آئی.سی.آئی.ای Honourable Peterson’’ کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کے ارسال کا بہت بہت شکریہ ۔مجھے ا بھی تک اس کے ختم کرنے کی فرصت نہیں ملی ۔امید ہے چند دنوں میں ختم کر لوں گالیکن جس قدر میں نے پڑھا ہے اس سے ضرور اس قدر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تصنیف موجودہ گتھی کے سلجھانے کیلئےایک دلچسپ اور قابل قدر کوشش ہے۔ مسلمانوں کا نقطہ نظر اس میں بہت وضاحت سے پیش کیا گیا ہے ۔امید ہے کہ میں آپ سے جلد ملوں گا۔‘‘
لارڈ ہیلشم(Lord Hailsham)’’ میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے وہ کتاب ارسال کی جس میں سائمن رپورٹ کے متعلق مسلمانوں کی رائے درج ہے ۔میں اس بات کی اہمیت کو سمجھتا ہوں کہ سائمن رپورٹ کو خالی الذہن ہو کر پڑھنا بہت ضروری ہے اور اسے ناحق ہدف ملامت بنانا اور غیر معقول مطالبات پیش کرنا درست نہیں ۔اس لئے مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مجھے اسکے متعلق ہندوستان کے ایک ذمہ وار طبقہ کی رائے پڑھنے کا موقع ملا ہے ۔‘‘
برطانیہ کا مشہور ترین اخبار ٹائمز آف لندن (Times of London) مور20 نومبر 1930ء کے نمبر میں فیڈرل آئیڈیل (Federal Ideal)کے عنوان کے ماتحت ایک نوٹ کے دوران لکھتا ہے کہ ’’ ہندوستان کے مسئلہ کا حل ایک اور ممتاز تصنیف مرزا (بشیر الدین محمود) خلیفۃ المسیح امام جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہوئی ہے ۔‘‘
ایل.ایم ایمرسی.مشہور ممبرکنزرویٹوپارٹی ’’ میں نے اس کتاب کو بڑی دلچسپی سے پڑھا ہے اور میں اس روح کو جس کے ساتھ یہ کتاب لکھی گئی ہے اور نیز اس محققانہ قابلیت کو جس کے ساتھ ان سیاسی مسائل کو حل کیا گیا ہے ۔نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔‘‘
ڈاکٹر ضیاءالدین صاحب آف علی گڑھ’’ میں نے جناب کی کتاب نہایت دلچسپی سے پڑھی ۔میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اسکی یورپ میں بہت اشاعت فرمائیں۔ہر ایک ممبر پارلیمنٹ کو ایک ایک نقل ضرور بھیج دی جائے اور انگلستان کے ہر مدیر اخبار کو ایک ایک نسخہ ارسال فرمایا جائے ۔اس کتاب کی ہندوستان کی نسبت انگلستان میں زیادہ اشاعت کی ضرورت ہے ۔جناب نے اسلام کی ایک اہم خدمت سر انجام دی ہے ۔‘‘
سیٹھ حاجی عبد اللہ ہارون صاحب ایم.ایل.اےکراچی ’’ میری رائے میں سیاسیات کے باب میں جس قدر کتابیں ہندوستان میںلکھی گئی ہیں ۔ان میں کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل بہترین تصانیف میں سے ہے ۔‘‘
علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال لاہور ’’ تبصرہ کے چند مقامات کا میں نے مطالعہ کیا ہے ۔نہایت عمدہ اور جامع ہے ۔‘‘
اخبار انقلاب لاہور اپنی اشاعت مورخہ 12 نومبر1930ءمیں رقمطراز ہے :’’جناب مرزا صاحب نے اس تبصرہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے ۔یہ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کا کام تھا جو مرزا صاحب نے انجام دیا۔‘‘
اخبار سیاست اپنی اشاعت مورخہ 2 دسمبر 1930ءمیں رقمطراز ہے :’’ مذہبی اختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو جناب بشیر الدین محمود احمد صاحب نے میدان تصنیف و تالیف میں جو کام کیا ہے وہ بلحاظ ضخامت و افادہ ہر تعریف کا مستحق ہے اور سیاسیات میں اپنی جماعت کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں آپ نے جس عمل کی ابتداء کر کے اسکو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے وہ بھی ہر منصف مزاج مسلمان اور حق شناس انسان سے خراج تحسین وصول کر کے رہتا ہے ۔آپ کی سیاسی فراست کا ایک زمانہ قائل ہے اور نہرو رپورٹ کے خلاف مسلمانوںکو مجتمع کرنے میں ’’ سائمن کمیشن کے روبرو مسلمانوں کا نقطہ نگاہ پیش کرنے میں مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطہ نگاہ سے مدلل بحث کرنے اور مسلمانوں کے حقوق کے متعلق استدلال سے کتابیں شائع کرنے کی صورت میں آپ نے بہت ہی قابل تعریف کام کیا ہے ۔
ایڈیٹر صاحب اخبار لکھنؤمورخہ5دسمبر 1930ء کے پرچہ میں رقمطرازہے :’’ہمارے خیال میں اس قدر ضخیم کتاب کا اتنی قلیل مدت میں اردو میں لکھا جانا ، انگریزی میں ترجمہ ہو کر طبع ہونا ، اغلاط کی درستی ،پروف کی صحت اور اس سے متعلقہ سینکڑوں دقتوں کے باوجود تکمیل پانا اور فضائی ڈاک پر لنڈن روانہ کیا جانا اس کا بین ثبوت ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایک ایسی جماعت ہے جو اپنے نقطہ نظر کے مطابق اپنے فرائض سمجھ کر وقت پر انجام دیتی ہے اور نہایت مستعدی اور تندہی کے ساتھ ۔غرضیکہ کتاب مذکور ظاہری اور باطنی خوبیوں سے مزین اور دیکھنے کے قابل ہے ۔‘‘(سوانح فضل عمر، جلد دوم، صفحہ229 تا235)
…٭…٭…٭…