سیّدناحضرت المصلح الموعودخلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارک قوسِ قزح کی طرح مختلف رنگ اپنے اندر سموئے ہوئے تھی اور ہر رنگ اپنے اندر ایک کائنات لئے ہوئے تھا۔ آپ اُن ابنائے آدم میں سے تھے جو سالوں نہیں صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتے ہیں اور آنے والی ہر نسل کیلئے روشنی کا سامان مہیا کر دیتے ہیں۔
آپؓ25 سال کی عمر میں خلیفۃالمسیح منتخب ہوئے اور پھر 52 سال تک اِس عظیم ذمہ داری کو سرانجام دے کر 77 سال کی عمر میں اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوئے۔ اس دوران ہزاروں خطبات اور خطابات کے ذریعے آپ کے افکار و خیالات کا اظہار ہوا۔ بعض دفعہ اتنے آسان اور سادہ خطبات ہوتے کہ یوں لگتا جیسے بچوں کو سمجھا رہے ہیں اور بعض دفعہ ایسے فصیح و بلیغ خطابات جن کو پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ آپؓکے سامعین کس درجہ کمال کے لوگ تھے جن کو ایسے سمجھایا اور بتایا جا رہا ہے۔ مگر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عرفان کا اندازہ آپؓکی کتب بینی کے بغیر آج کے دَور میں ممکن ہی نہیں۔ ایسے ایسے جواہر پارے، ایسا ایسا باکمال نقطہ اور علم کا بے کراں سمندر ہے کہ انکا مطالعہ کرنے والے کی روح اور قلوب خشک رہ ہی نہیں سکتے۔ آپ کی چند کتب کا تعارف پیش خدمت ہیں تااندازہ ہو کہ کس قدر پُرشوکت انسان کا نام مصلح موعود تھا۔
انوار خلافت
یہ کتاب حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمدالمصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ان تقاریر پر مشتمل ہے جو آپ نے مورخہ 27-28 اور 30 دسمبر 1915ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر بیان فرمائیں۔ ان تقاریر میں آپ نے خلافت کی اہمیت و برکات بیان فرماتے ہوئے خلافت سے متعلق ہونے والے اعتراضات کے مدلل جوابات بیان فرمائے ہیں۔ خلافت کی اہمیت کو سمجھنے اور اسکی برکات سے متمتع ہونے کے لحاظ سے اس کتاب کا مطالعہ بہت ضروری اور مفید ہے۔ علاوہ دیگر موضوعات کے آپ نے پیشگوئی : اِسْمَہٗ احمد کی تشریح و تفسیر، مسئلہ نبوت کی وضاحت، جماعت کی عملی حالت کی اصلاح و بہتری، مختلف فتنوں کی حقیقت اور آئندہ کیلئے انتباہ کے ساتھ ساتھ آپ نے اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کرشن ، بدھ اور مسیح و مہدی ہونے کے دعاوی کے ثبوت فراہم کئے۔ اور آخر پر خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک سے زیادہ نام رکھنے کی 10 حکمتیں بیان فرمائیں۔
آنحضرت ﷺکے بارے میں بائبل کی پیشگوئیاں
یہ کتاب دیباچہ تفسیر القرآن سے ماخذ ہے اس میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ کے ظہور کے متعلق بائبل کی پیشگوئیاں بیان کرتے ہوئے ثابت فرمایا ہے کہ ان پیشگوئیوں کے مصداق صرف اور صرف محمد ﷺہیں ۔ گویا رسول کریم ﷺکا وجود تمام انبیاء کا موعود تھا اور آپ کی شریعت بھی تمام انبیاء کی موعود تھی۔
آئینہ صداقت
خلافت ثانیہ کے انتخاب کے موقعہ پر جماعت کے بعض سرکردہ افراد نے خلافت کے مبارک اور بابرکت نظام کے جاری رہنے سے اختلاف کیا۔ انہوں نے خلیفہ کے اختیارات کو محدود کرنے کی لاحاصل کوشش کی اس کام میں مولوی محمد علی صاحب پیش پیش تھے۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنی بہت سی تقاریر میں ان اختلافات کی وجوہات کو لوگوں کے سامنے لاتے رہے۔ بعض ایسے ممالک جہاں اُردو بولی نہیں جاتی تھی ان جماعتوں کو جماعت میں قائم نظام خلافت سے بدظن کرنے کیلئے مولوی محمد علی صاحب نےایک کتاب انگریزی زبان میں The Split کے نام سے شائع کی۔ اسکے جواب میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے آئینہ صداقت کے نام سے کتاب تحریر فرمائی۔ اس میں آپ نے اختلافات کے ایک ایک پہلو کو بڑی وضاحت سے پیش فرمایا۔ اسکا انگریزی ترجمہ The Truth About Split کے نام سے بھی شائع ہوا ہے۔
احمدیت کا پیغام
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ مسلمہ ہی حقیقی اسلام کی علمبردار اور دنیا کے کونے کونے میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے کام میں مصروف ہے۔ مخالفین احمدیت اور فتنہ پرداز عناصر عام مسلمانوں کو جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارہ میں غلط فہمیوں میں مبتلاء کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے عقائد و تعلیمات سے مکمل طور پر واقف ہونا ہم سب کیلئے نہایت ضروری ہے تاکہ دوسروں تک حقیقی اسلام کا پیغام احسن رنگ میں پہنچا سکیں۔
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے ’’احمدیت کا پیغام‘‘ کے عنوان سے یہ مختصر تصنیف 1948ء میں رقم فرمائی جس میں احمدیت کے متعلق اس بنیادی سوال کہ ’’احمدیت کیا ہے اور کس غرض سے اس کو قائم کیا گیا ہے؟‘‘کا جواب تحریر فرمایا ۔ جس میں نہایت ہی آسان پیرایہ میں جماعت احمدیہ کے عقائد کا تعارف کروایا گیا ۔ حضورؓ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں اور نہ ہی احمدیوں کا کوئی الگ کلمہ ہے، نیزختم نبوت، ملائک، نجات، احادیث، تقدیر، جہاد جیسے مسائل کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا نقطہء نظر بھی بیان فرمایا۔یہ کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ایک نہایت آسان اور عام فہم زبان میں تقریر ہے جو سنجیدہ مزاج مسلمانوں اور متلاشیان حق کیلئے مددگار ثابت ہوگی۔انشاء اللہ
برکات خلافت
کتاب ’’برکات خلافت ‘‘ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ایک تقریر ہے۔ جو آپ نے 27 دسمبر 1914ء کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر فرمائی۔ جس میں آپؓنے خلافت کی اہمیت، خلافت کی برکات، خلافت سے متعلق ہونے والے اعتراضات کے مدلل جوابات بیان فرمائے ہیں۔
دس دلائل ہستی باری تعالیٰ
کتابچہ’ ’دس دلائل ہستی باری تعالیٰ ‘‘ سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ نے دہریوں کے اعتراض کہ ’’اگر خدا ہے تو ہمیں دکھا دو ہم مان لیں گئے‘‘ کے جواب میں تحریر فرمایا جو پہلی بار مارچ 1913ء میں طبع ہوا جسمیں آپ نے تحریر فرمایا کہ خدا کی ہستی چونکہ الطف سے با الطف ہے لہٰذا ظاہری حواس خمسہ سے اسے معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا علم حاصل کرنے کیلئے اس قسم کی قیود کس طرح جائز ہو سکتی ہیں ؟ خدا کی ہستی پر یقین رکھنے کیلئے بعض اور ذرائع اور دلائل ہیں۔ چنانچہ آپ نے دس ایسے دلائل بیان فرمائے جو خدا تعالیٰ کی ہستی کا یقینی ثبوت ہیں۔
دیباچہ تفسیر القرآن
یہ معرکۃ الآرا کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تصنیف ہے۔ اس میں یورپ کے نقادین اسلام کے مشہور اعتراضات کے دندان شکن جوابات دیئے گئے ہیں اور ضرورت قرآن کے موضوع پر نہایت لطیف رنگ میں بحث کی گئی ہے اور آنحضرت ﷺ کی مقدس سیرت کے واقعات از ولادت تا وفات ایسے عمدہ اور دلکش پیرایہ میں بیان کئے گئے ہیں جو اپنی نظیر آپ ہیں ۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ دیباچہ تیار کروایا تا قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ و تفسیرکے ساتھ طبع کیا جاوے۔اس کتاب میں درج بے نظیر باتیں آپؓکے قرآن کریم کے محب اور خادم ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ خدا تعالیٰ اور اسکے پاکیزہ کلام او ربرگزیدہ رسول ﷺ کے عاشق صادق کے قلب صافی سے نکلے یہ کلمات طیبات ہیں جن میں اہل مغرب میں سے اٹھنے والے مشہور نقادوں کے اعتراضات کے دندان شکن جوابات دیئے گئے ہیں۔ ضرورت قرآن پر لطیف بحث کی گئی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی مقدس سیرت کے واقعات از ولادت تا وفات ایسے عمدہ اور دلکش پیرایہ میں بیان کئے گئے ہیں کہ بے نظیر ہیں، اس کتاب میں اسلام اور بانی اسلام کیلئے متعلق گزشتہ مذاہب کے بانیان کی پیشگوئیوں اور دیگر اساسی امور اسلامیہ پر نہایت پراثر بحث موجودہے۔ یوں اس مختصر مگر لاجواب کتاب کی صورت میںخدمت اسلام کی سبیل پیدا ہوئی، پہلے ایڈیشن مطبوعہ 1948ء سے لیکر اس دیباچہ کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور دیگر زبانوں میں تراجم کی الگ فہرست ہے۔
فضائل القرآن
کتاب فضائل القرآن سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی فضائل القرآن کے موضوع پر چھ عظیم الشان تقاریر کا مجموعہ ہے۔ 1928ء کے جلسہ سالانہ پر حضور نے ان تقاریر کے سلسلہ کا آغاز فرمایا اور28 دسمبر 1938ء کو حضور نے اس بلند پایہ علمی موضوع پر چھٹی تقریر فرمائی۔ ان تقاریر میں آپ نے قرآن کریم کے حقائق و معارف اور اسکے اسرار مخفیہ سے تعلق رکھنے والے علوم کے خزانوں پر مشتمل مضامین ،علوم و معارف اور انوار و محاسن کچھ اس انداز میں بیان فرمائے ہیں کہ پڑھنے والے پر قرآنی فضلیت آشکارہوتی چلی جاتی ہے اور وہ اسکا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ ان تقاریر میں قرآن کریم کی عظمت اور عالی مرتبت اور اسکے معانی و تفاسیر کا ایک نیا اور دلکش اسلوب نظر آتا ہے۔ آپ نے تفسیر القرآن کے ایسے موثر اصول پیش فرمائے ہیں جو عدیم المثال ہیں۔ ان تقاریر میں بیان فرمودہ مضامین اپنی بلندی ، گہرائی اور وسعت کے اعتبار سے غیر معمولی ہیں۔ الغرض یہ سلسلہ تقاریر ضرورتِ قرآن، نزولِ قرآن،حفاظت قرآن ، مستشرقین کے اعتراضات ، محکم و متشابہ آیات وغیرہ کے بارہ میں بصیرت افروز روشنی سے بھرپور ہے۔
فرمودات ِ مصلح موعود ؓ
کتاب فرمودات مصلح موعود سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے بیان فرمودہ ارشادات اور فتاویٰ پر مشتمل ہے۔ جو حضور نے وقتاً فوقتاً اپنے خطبات، تقریروں ، قضائی فیصلوں سوال وجواب کی مجلسوں اور خطوط کے جوابات میں بیان فرمائے اور جو روز نامہ الفضل میں 1914 ء تا 1963ء کے علاوہ جماعت کے دیگر اخبارات رسائل اور حضور کی کتب میں شائع ہو گئےہیں۔ اس تمام مطبوعہ وغیر مطبوعہ مواد سے حضور کے بیان فرمودہ فتاوی یکجا کئے گئے ہیں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے یہ ارشادات بہت سے پیچیدہ علمی مسائل کو سمجھنے میں کلید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے نہایت مشکل مسائل کو آسان پیرایہ میں بیان کر کے ہر ایک کیلئے ان معاملات تک رسائی آسان کر دی ہے اس مجموعہ میں فقہی مسائل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور کی نادر روایات بھی شامل ہیں۔
ہستی باری تعالیٰ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود ؓنے جلسہ سالانہ قادیان 1921ء کے موقعہ پر حقائق و معارف سے پر بصیرت افروز انداز میں ایک جامع اور معرکۃ الآراء تقریر فرمائی تھی۔ یہی تقریر کتابی شکل میں ہستی باری تعالیٰ کے نام سے شائع شدہ ہے۔ حضور نے اس تقریر میںہستی باری تعالیٰ کے آٹھ دلائل اور ان پر پیدا ہونے والے اعتراضات کے جوابات ارشاد فرمائے ہیں۔
اسلام میں اختلافات کا آغاز
یہ کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک خطاب ہے جو آپ نے 26 فروری 1919ء کو مارٹن ہسٹو ریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور کے ایک اجلاس میں فرمایا۔ حضور نے تاریخ اسلام کے اُس زمانے کے بارے میں خطاب فرمایا جس میں مسلمانوں میں اختلافات کا آغاز ہوا اور جو مسلمانوں کیلئے پیچیدہ مسئلہ ہے۔ آپ نے اپنے اس لیکچر میں اسلامی تاریخ کے اس پیچیدہ حصہ کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ مدلل تاریخی حوالہ جات سے حل کرتے ہوئے حاضرین جلسہ کے سامنے اس فتنہ کی وجوہات کو عمدہ طریق پر واضح کیا ہے۔
اسلام کا اقتصادی نظام
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ معرکۃ الآراء لیکچر اور انقلاب انگیز تقریر مورخہ 26 فروری 1945ء کو احمدیہ ہوسٹل واقع 23 ڈیوس روڈ لاہور میں احمدیہ انٹر کالیجئیٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام مختلف مذاہب کے لوگوں کے اجتماع میں ارشاد فرمائی۔ یہ تقریر قریبا اڑھائی گھنٹے جاری رہی جہاں احمدی احباب کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں مسلم و غیر مسلم معززین بھی شامل تھےجن کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ، پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرز اور طلبہ پر مشتمل تھی۔ اس تقریب کی صدارت مسٹر رام چندر مچندہ صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور نے کی۔ صدر مجلس سمیت تما م حاضرین حضورؓ کے تبحر علمی، دور اندیشی اور وسیع النظری کے قائل نظر آئے۔اس لیکچر میں حضورؓ نے اسلام کی اقتصادی تعلیم کا ماحول بیان فرمایا اور پھر اموال سے متعلق اسلامی نظریہ کی وضاحت اور تفصیل بیان فرمائی۔ اپنی تقریر کے دوسرے حصہ میں کمیونزم کی تحریک کا مذہبی ، اقتصادی، سیاسی، نظریاتی اور علمی لحاظ سے جائزہ لیااور آخر پر مختلف پیش گوئیوں کا ذکر فرمایا۔الغرض حضرت مصلح موعودؓ کے اس لیکچر نے چوٹی کے علمی طبقوں میں ایک تہلکہ مچادیا۔
اس تقریر میں آپ نے اسلام کے اقتصادی نظام کے بارہ میں مفصل روشنی ڈالی ہے۔ یہ تقریر اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی اور احمدی احباب کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں دیگر مسلم اور غیر مسلم احباب نے اس تقریر کو سنا جن میں اکثریت اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ طبقہ میں سے تھی۔
انقلاب ِ حقیقی
یہ کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا معرکۃ الآراء خطاب ہے جو آپ نے28 دسمبر 1937ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر فرمایا ہے۔ حضور نے اپنے اس خطاب میں دنیا وی انقلابات اور روحانی دنیا میں برپا ہونے والے عظیم انقلابوں کا تاریخی حوالہ سے تذکرہ فرمایا ہے اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ پیدا ہونے والے انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے احباب جماعت کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔
جماعت احمدیہ کے عقائد
اس کتابچہ میں حضور نے جماعت احمدیہ کے عقائد بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اور لوگوں کے درمیان جو جماعت احمدیہ کے عقائد میں اختلاف ہے اس کو بھی واضح فرمایا ہے۔نظارت نشر و اشاعت قادیان نے جماعت احمدیہ کے عقائد مندرجہ دعوت الامیر ، تصنیف لطیف حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ (مطبوعہ انوار العلوم جلد 7) کو ایک مختصر پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا ہے تا نومبائعین اور دیگر ناواقف احباب تک جماعت کے درست عقائد پہنچائے جاسکیں۔ نیز ان لوگوں کی قلعی بھی کھل جائے جو جماعت احمدیہ کی طرف جھوٹے طور پر غلط عقائد منسوب کرتے اور سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
خطبات ِ شوریٰ جلد اول
سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 1922ء میں با قاعدہ مجلس مشاورت کا قیام فرمایا اور تفصیل کے ساتھ شوریٰ کی غرض وغایت اور اہمیت پر زریں ہدایات دیں اور خطابات فرمائے ۔ آپ کے یہ خطابات فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ نے خطابات شوری کے نام سے مرتب کر کے شائع کئے ہیں۔ خطابات شوریٰ جلد اول میں 1922 تا 1935 کے خطابات ہیں۔ یہ جلد 647 صفحات پر مشتمل نظارت نشر و اشاعت قادیان نے پہلی بار شائع کی ہے۔
خطبات ِ شوریٰ جلد دوم
سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے وہ خطابات جو آپ نے 1936 سے 1943 تک مجلس مشاورت کے تعلق سے ارشاد فرمائے دوسری جلد میں شائع ہوئے ہیں۔ یہ جلد 740 صفحات پر مشتمل ہے اور نظارت نشر و اشاعت قادیان نے پہلی مرتبہ شائع کی ہے۔
خطبات ِ شوریٰ جلد سوم
سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے وہ خطابات جوآپ نے 1944ء تا 1961 مجلس مشاورت کے تعلق سے ارشاد فرمائے تیسری جلد میں شائع ہوئے ہیں۔ یہ جلد 744 صفحات پر مشتمل ہے اور نظارت نشر واشاعت قادیان نے پہلی مرتبہ شائع کی ہے۔
خطبات محمود
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓکا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓنے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیںجو کہ 39 جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلد اوّل عید الفطر کے خطبات پرمشتمل ہے تو جلد دوم عید الاضحی کے خطبات پر اسی طرح جلد سوم خطبہ نکاح پر مشتمل ہے تو بقیہ سارے جلدیں خطبات جمعہ پر مشتمل ہیں۔
خلافت حقہ اسلامیہ
سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 27 دسمبر 1956ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر خلافت حقہ اسلامیہ کے عنوان پر ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی ۔ جس میں آپ نے وعدہ الٰہی کی روشنی میں خلافت احمدیہ کے آئندہ ہمیشہ جاری رہنے نیز استحکام خلافت اور انتخاب خلافت کے متعلق طریق کار کو نہایت ہی عمدگی ، خوش اسلوبی اور وضاحت کیساتھ بیان فرمایا۔ 20 صفحات پر مشتمل اس تقریر کو نظارت نشر و اشاعت نے ایک خوبصورت کتابچہ کی صورت میں افادہ عام کیلئے شائع کیا ہے۔
خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر
کتابچہ خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسانی کی مخالفت اور اسکا پس منظر سید نا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدخلیفۃ المسیح الثانی کا اہم خطاب ہے جو آپ نے جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر 27 دسمبر 1956 کو ارشاد فرمایا تھا۔ خطاب ہذا میں حضور نے آیت استخلاف سے خلافت کی اہمیت واضح کرتے ہوئے خلافت موسویہ اور خلافت اسلامیہ کی مماثلت بتائی ہے۔ اس طرح جماعت احمدیہ میں خلافت کی بشارت اور اسکے نفاذ کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے۔ نیز اس نظام آسمانی یعنی خلافت کی مخالفت کے پس منظر پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے اسکے بد انجام کا نقشہ کھینچا ہے۔
خلافت راشدہ
یہ معرکۃ الآرا کتاب سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ایک زبردست تقریر ہے جو آپ نے 1939ء میں خلافت جوبلی کی تقریب کے موقع پر ’’ خلافت راشدہ‘ ‘کے موضوع پر فرمائی۔ اس کتاب میں نظام خلافت کی ضرورت واہمیت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے آ نحضرت ﷺکے بعد خلافت راشدہ کی مختصر تاریخ اور حالات و واقعات بیان کئے گئے ہیں نیز نظام خلافت اور خلیفہ وقت کا مقام اور اختیارات بیان کرتے ہوئے اس سلسلہ میں کئے جانے والے اعتراضات کے مدلل اور مسکت جوابات دیئے گئے ہیں۔ حضور نے خلافت احمدیہ کے قیام اور خلافت ثانیہ کے انتخاب کے موقعہ پر پیدا ہونے والے حالات اور غیر مبائعین کی نظام خلافت کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا بھی تفصیلی ذکر فرمایا ہے۔
ملائکۃ اللہ
کتاب ’’ملائکۃاللہ‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودرضی اللہ عنہ کی پر معارف و حقائق سماوی سے بھر پور روح پرور تقریر ہے جو حضور نے28،29 دسمبر 1920ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے بابرکت موقعہ پر ارشاد فرمائی۔ حضور نے اس بار یک و دقیق موضوع پر نہایت سلیس اور بصیرت افروز انداز میں روشنی ڈالی ہے اپنی اس تقریر میں حضور نے قرآن کریم کی رو سے ملا ئکتہ اللہ کی حقیقت و ضرورت،ان کی اقسام، ان کے فرائض و خدمات کے علاوہ فرشتوں کے وجود پر دلائل اور اُن سے متعلق شبہات و اعتراضات اور وہموں اور غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے مفصل و مدلل جوابات پیش فرمائے ہیں۔
منصب خلافت
کتاب ’’منصب خلافت ‘‘سیدنا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کا ایک بصیرت افروز خطاب ہے جو کہ آپ نے 12؍اپریل 1914ء کو فرمایا جس میں آپ نے خلیفہ کے بنیادی فرائض، تبلیغ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مولوی محمد علی صاحب اور اُن کے ساتھیوں کے خیالات کہ اصل جانشین انجمن ہے کا ردّ فر ما یا بلکہ دلائل سے واضح فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین قرآن پاک، احادیث اور اقوال بزرگان کی رو سے خلافت ہے۔
منہاج الطالبین
یہ کتاب سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی دو تقریروں کا مجموعہ ہے جو آپ نے بتاریخ 27،28دسمبر 1925 ء کوجماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ پر قادیان میں ارشاد فرما ئیں۔ اس کتاب میں حضور نے نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں وہ طریق بتائے جن سے انسان گناہوں سے پاک ہو سکتا ہے اور نیکیوں کی راہ پر چل پڑتا ہے۔
نبیوں کا سردار
سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی معرکہ آراء کتاب دیباچہ تفسیر القرآن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر و سوانح کا حصہ نبیوں کا سردار عنوان سے متعدد بار شائع ہو چکا ہے۔ موجودہ ایڈیشن اس کتاب سے اضافہ کے ساتھ 321 صفحات پر مشتمل دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ نظارت نشر و اشاعت قادیان نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے واقعات بیان ہوئے ہیں جو دراصل قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے دیباچہ کیلئے بانی اسلام ﷺ کا مختصر تعارف ہےتا دنیا کو علم ہوسکے کہ جس پاکیزہ ومقدس ہستیﷺ پر قرآن کریم نازل ہوا، اس کے حالات زندگی ،معمولات، عادات و اطوار اور حسن خلق کس اعلیٰ و ارفع درجے کا تھا۔
قواریر قوامون
یہ کتابچہ سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تقریر 28 دسمبر 1990ء سےمقتبس ہے۔ اس میں حضور نے مرد و عورت کے تعلقات کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم بیان فرمائی اور حقوق نسواں ، با ہمی ذمہ داریاں اورمسائل کا ذکر کر کے بتایا کہ تمام مسائل پر اسلام مکمل تعلیم دیتا ہے انسان اس پر عمل کر کے اپنی ازدواجی زندگی کو کامیاب اور اپنے گھر کو جنت بنا سکتا ہے۔
سیرۃ النبی ﷺ
آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ وجہ تخلیق کائنات تھی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے عرش معلیٰ سے یہ اعلان فرمایا کہلَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب: 22) کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول کی ذات اور سیرت اسوہ حسنہ ہے۔نیز محبت الٰہی کے حصول کی شرط اتباع نبویؐ کے ساتھ مشروط کردی۔
یہ کتاب حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ان مضامین پرمشتمل ہے جو الفضل میں شائع ہوئے ہیں اور انوار العلوم کی جلد 1میں شائع شدہ ہیں۔ اس کتاب میں حضور نے آنحضرتﷺ کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی ہے۔ حضرت مصلح موعود نے خلافت سے پہلے اور 52سالہ دور خلافت میں سیرۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں عظیم الشان جہاد کیا۔ آپ کے دور خلافت میں بعض ایسے مواقع بھی آئے جب ہمارے ہادی و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ؐکی شان میں گستاخانہ مواد شائع کیا گیا تو آپ نے انکا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ لوگوں کو دکھانے کی عملی سعی بھی فرمائی۔حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ سیرۃالنبی ؐ کو آپ کی جملہ کتب، تحریرات، خطابات و خطبات سے اخذ کرکے یکجائی صورت میں مرتب کیا گیا ہے۔
سیرت حضرت مسیح موعود ؑ
یہ کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 1914ء میں تصنیف فرمائی ۔ اس کتاب میں حضور نے مندرجہ ذیل امور پر روشنی ڈالی ہے۔ حضرت احمد بانی سلسلہ احمدیہ کے حالات آپ کی سیرت آپ کا دعوی اور دلائل آپ کی مشکلات آپ کی پیشگوئیاں آپکا کام اسکے بعد آپ کے قائم کردہ سلسلہ کے حالات۔
سیر روحانی
سیر روحانی کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی حقائق ومعارف اور قرآنی انوار سے پر تقاریر کامجموعہ ہے۔ سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی 1938ء میں ایک رویا کی بناء پر قادیان سے حیدرآبا ددکن کے سفر پر روانہ ہوئے ۔ عام مسلمانوں کی بہبود اور جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں میں اضافہ سفر کی غرض وغایت تھی۔ آپ یکم اکتوبر 1938ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور سندھ سے ہوتے ہوئے کراچی سے بمبئی اور پھر حیدرآباد پہنچے۔ اسی سفر کے دوران آپ آگرہ اور دہلی بھی تشریف لے گئے اور 29 ؍ اکتوبر1938ء کو قادیان واپس پہنچے ۔ اس سفر کے دوران حضور نے جو مختلف تاریخی مقامات اور نظارے مشاہدہ فرمائے اُنکی تعداد آپ نے 16 بیان فرمائی ہے۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے اس سفر کے دوران جن 16مادی اشیاء کا مشاہدہ کیا ان کے مقابل پر عالم روحانی میں ان کے مشابہ اور مماثل امور کو نہایت وجد آفریں اور اثر انگیز پیرایہ میں بیان کرتے ہوئے جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پر سیر روحانی کے نام سے سلسلہ ، تقاریر شروع فرمایا۔ یہ سلسلہ 1938ء سے شروع ہو کر1958ء تک وقفے وقفے سے جاری رہا۔ حضور کی یہ پر معارف تقاریر سیر روحانی جلد اول دوم اور سوم کے نام سے طبع ہو کر اپنوں اور غیروں میں مقبول ہوئیں ۔ پہلی جلد1938،1940ء اور 1941ء کی تقاریر پر مشتمل تھی دوسری جلد میں 1948 و 1950 ء اور1951ء کی تقاریر پر مشتمل تھیں جبکہ تیسری جلد 1953ء ،1954،1955ء، 1956ء، 1957ء اور1958ء کی تقاریر پر مشتمل تھی۔
تعلق باللہ
کتاب تعلق باللہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی جلسہ سالانہ ربوہ 1952ء کے موقعہ پر مورخہ 28 دسمبر کو بیان فرمودہ معرکۃ الآراء تقریر ہے۔ اس تقریر میں حضور نے اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کرنے اور اسکی معرفت اور عرفان کے ذرائع بیان فرمائے ہیں۔
تفسیر کبیر
حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدخلیفۃالمسیح الثانی المصلح الموعود کی تصنیف لطیف تفسیرکبیر اس مذکورہ خدائی بشارت کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت ہے کہ اسے علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا۔ یہ تفسیر قدیم وجدید قرآنی علوم کا ایک بیش بہا خزانہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق ظاہر فرمایا ہے۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا ہے کہ اس تفسیر کا بہت سا مضمون میرے غور کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکا مطالعہ اللہ تعالی کی معرفت ،آنحضرت ﷺ اور آپ کے آل و اصحاب رضوان اللہ علیہم کی محبت اور اسلام کے تابندہ مستقبل کے متعلق بصیرت عطا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے مامور حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عظیم الشان رحمت کے نشان کے طور پر پسر موعود کی بشارت عطا فرمائی جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃالثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے وجود میں پوری ہوئی اور کلمات الہامیہ آپ کے وجود مسعود میں جلوہ گر ہوئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ’’اسے علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔‘‘ قرآن مجید فرقانِ حمید کے وہ علوم و معارف بھی آپ کو سکھائے گئے جو اس سے پہلے منکشف نہ تھے۔ چنانچہ آپؓنے قرآن کریم کی تفسیر تحریر فرمائی اور اس کے مطالب و معانی اور نکاتِ عجیبہ کو ظاہر و باطن میں پھر زندہ فرمادیا۔ یہ تصنیف لطیف موسوم بہ تفسیرِ کبیر اس مذکورہ بالا بشارت کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت اور شاہد ناطق ہے اور لاریب قرآنی علوم و معارف کا ایک بیش بہا خزانہ ہے جو خدا تعالیٰ نے موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے موافق ظاہر فرمادیا ہے۔
تفسیر کبیر کی پہلی جلد 1940ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔ بعدہٗ مختلف وقتوں میں اسکی کل11 جلدیں شائع ہوئی تھیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اوائل خلافت میں ہی ارشاد فرمایا کہ تفسیر کبیر کی صدسالہ جوبلی کے تحت دوبارہ اشاعت کی جائے۔ چنانچہ اسکے پازیٹو بنواکر گیارہ کی بجائے دس جلدوں میں شائع کیا گیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس علمی خزانہ کی اشاعت کاتازہ ایڈیشن طبع کروانے کی ہدایت فرمائی ہے۔ پہلی طباعت کتابت ہوکر شائع ہوئی تھی اور باریک قلم سے لکھائی کی وجہ سے پڑھنے میں دقت محسوس ہوتی تھی۔ ہر صفحہ پر دو کالم تھے۔ چنانچہ یہ نیا ایڈیشن حسب ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کمپوز کروایا گیا ہے، اس کا فونٹ سائز 14 مقرر کیا گیا ہے اور دو کالموں کی بجائے عبارت کو ایک ہی سطر میں مسلسل کردیا گیا ہے۔ نیز حضور انور کی ہدایت تھی کہ جلدوں کی ضخامت کو بھی متوازن اور ہلکا رکھا جائے تاکہ پڑھتے ہوئے ہاتھوں میں پکڑ کر سنبھالنے میں دقت نہ ہو۔ اس ہدایت پر عملدرآمد کے نتیجہ میں تفسیر کبیر کی جلدوں کی تعداد دس سے بڑھ کر پندرہ ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے حلِ لغات کا مقامات میں بھی ادل بدل کرنا پڑا ہے۔علاوہ ازیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے مطابق تفسیرِ کبیر عربی ایڈیشن کی طرز پر حوالہ جات کی تخریج کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں تفسیرکبیر عربی ترجمہ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ عربی عبارات بالخصوص حلِ لغات کے مواقع پر عربی عبارات جہاں اعراب کا اہتمام نہ تھا وہاں اعراب لگائے گئے ہیں
تفسیر صغیر
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یہ معرکۃ الآراء اور لطیف تصنیف قرآن کریم کا ترجمہ اور مختصر تشریحی نوٹس کا مجموعہ ہے ۔یہ لاجواب اور بے مثال علمی اور دینی شاہکار پہلی دفعہ دسمبر 1957ء میں طبع ہوا ،اور تاحال اسکے دنیا بھر میں متعدد ایڈیشن شائع کئے جاچکے ہیں۔ خالص تائید الٰہی سے مکمل ہونے والی اس کاوش سے کلام اللہ کے معنوی، لغوی اور ادبی کمالات کھل کر سامنے آتے ہیں۔ عربی متن سے وفا کرتے ہوئے اردو زبان کے محاسن، سلاست اور ادائیگی مفہوم کےاعتبار سے یہ تفسیر ایک اعجاز ہے جو بیک وقت تفسیر، کلام، فقہ، تاریخ اور مقارنہ بین الادیان پر مبتدی سےلیکر ثقہ عالم کیلئے علم ومعرفت کی راہیں وا کرنے والی ہے۔ اس تفسیر کے ساتھ طبع ہونے والا تفصیلی انڈیکس بھی مضامین قرآنی کی وسعت کو کماحقہ اجاگر کرنے والاہے۔ الغرض یہ تفسیر حسن ترجمہ وتفسیر کے ساتھ ساتھ حسن کتابت اور حسن طباعت کا بھی مرقع ہے۔
ذکر الٰہی
یہ کتابچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ذکر الٰہی کے موضوع پر روح پرور اور ایمان افروز تقریر ہے جوحضور نے28 دسمبر 1916ء کو جلسہ سالانہ قادیان بمقام مسجد نور ارشاد فرمائی۔ اس بصیرت افروز تقریر میں حضور نے ان مضامین پر کہ ذکر الٰہی سے کیا مراد ہے؟ ذکر الٰہی کی ضرورت کیا ہے؟ اسکی کتنی قسمیں ہیں؟ ذکر الٰہی میں کیا احتیاطیں برتنی ضروری ہیں ؟ ذکر الٰہی کے سمجھنے میں لوگوں نے کیا غلطیاں کھائی ہیں؟ جو لوگ کہتے ہیں کہ نماز پڑھتے وقت ہماری توجہ قائم نہیں رہتی اور شیطان وسوسے ڈال دیتا ہے ان کیلئے شیطان کو بھگانے اور توجہ کو قائم رکھنے کے کیا طریق اور کیا ذرائع ہیں؟ قرآن کریم اور احادیث اور بزرگان امت کے واقعات بیان کرتے ہوئے آپ نے اس اہم مضمون کو بیان فرمایا ہے۔
انوار العلوم
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓکا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام انسانیت کیلئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن رہے۔فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔
نظام نو
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے 27 ستمبر 1942 ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر نظام نو کی تعمیر کے عنوان پر یہ معرکۃ الآراء خطاب فرمایا جس میں آپ نے اہم معاصر سیاسی تحریکات، جمہوریت، اشتمالیت اور اشتراکیت وغیرہ پر سیر حاصل روشنی ڈالی اور ان تحریکات کے بنیادی نقائص کی نشاندہی کی۔ بعد ازاں غرباء کی حالت سدھارنے کیلئے یہودیت، عیسائیت اور ہندو مت کی پیش کردہ تجاویز کا جائزہ لیااور آخر پر اسلام کی بے نظیر تعلیم بیان کرکے اسلامی نکتہ نگاہ کے مطابق دنیا کے نئے نظام کا نقشہ ایسے دلکش اور موثر انداز میں پیش کیاکہ سننے والے عش عش کر اٹھے۔
اس ضمن میں حضورؓ نے نظام وصیت اور تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریکات کے مستقبل کا ذکر بھی فرمایا اور اس عظیم الشان لیکچر کے آخر پر پرشوکت الفاظ میں فرمایا:’’جب وصیت کا نظام مکمل ہوگا تو صرف تبلیغ ہی اِس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا او ردکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹا دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی، بے سامان پریشان نہ پھرے گا، کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہوگی، جوانوں کی باپ ہوگی، عورتوں کا سہاگ ہوگی، اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اسکے ذریعہ سے مدد کر ےگا اور اسکا دینا بے بدلہ نہ ہوگا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائیگا۔ نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب، نہ قوم قوم سے لڑے گی پس اسکا احسان سب دنیاپر وسیع ہوگا۔‘‘
اوڑھنی والیوں کیلئے پُھول
مستورات سے خطابات کا مجموعہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے اپنے دورخلافت میں مستورات کی تربیت کی خاطر ان کے مختلف جلسوں میں تقاریر فرمائیں جو علم کے خزائن اپنے اندر رکھتی ہیں۔ جن میں کہیں آپ نے ان کو روحانی علوم سے روشناس کروایا ہے اور کہیں تربیت نفس و اولاد پر زور دیا ہے، کہیں قومی ذمہ داریوں کی طرف ان کی توجہ دلائی ہے اور کہیں اولاد کی تربیت کے گُر بتائے ہیں اور کہیں ان کی صلاحیتوں کو ابھارا ہے۔ غرض یہ تقاریر مشعل راہ کا کام دیتی ہیں۔ ان تقاریر کا یہ مجموعہ بھی حضوررضی اللہ عنہ کی ہی خواہش کو پورا کرنے کیلئے مرتب کیا گیا ہے کیونکہ آپؓنے فرمایاتھاکہ ’’اس کیلئے تربیت کی ضرورت ہے، لیکچروں سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ اس کیلئے ضرورت ہے کہ قوم کیلئے دستور العمل بنایا جائے، ایک کتاب تیار کی جائے جس میں لکھا جائے کہ عورتوں کو بچوں کی تربیت اس طرح کرنی چاہئے تاکہ عورتیں اسے پڑھ کر اس پر عمل کریں ورنہ یہ کوئی نہیں کرسکتا کہ الفضل اور ریویو کی فائل اپنے پاس رکھ چھوڑے۔‘‘
سبیل الرّشاد-حصہ اول
یہ کتاب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مجلس انصار اللہ کے متعلق خطابات، ارشادات اور فرمودات کا مجموعہ ہے۔ دراصل آپؓنے جولائی 1940ء میں مجلس انصارا للہ کی بنیاد رکھنے سے لیکرہمیشہ ہی مجلس انصاراللہ کو توجہ اور رہنمائی عطافرمائی تا تعلیم قرآن وحکمت، تبلیغ اور خدمت خلق سے دین و انسانیت کی نصرت کا سفر جاری رہے اور مجلس انصاراللہ کے ممبران اپنے عمدہ ذاتی نمونہ، اور تربیت اولاد کے فریضہ کو احسن ترین رنگ میں بجا لاکر جماعتی ترقی کی رفتار میں اضافہ کرنے والے ہوں۔ زیر نظر مجموعہ میں انصاراللہ کیلئے مختلف مواقع پر عطا ہونے والی ہدایات کو جمع کرکے ایک مفید مجموعہ تیار کیا گیا ہے۔
سوچنے کی باتیں
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ سبق آموز ، تاریخی واقعات کو خدام و اطفال اور دیگر احباب کی تربیت کی غرض سے انتخاب کرکے’’سوچنے کی باتیں‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔
آپؓکا زمانہ خلافت نصف صدی پر محیط رہا اور اس دوران آپ نے سینکڑوں تقاریر اور خطبات ارشاد فرمائے۔ الہامی پیش گوئیوں کے عین مطابق آپ سخت ذہین و فہیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پروجود تھے ان الہامات کی شان و شوکت آپ کے پُر معارف خطبات و تقاریر سے عیاں ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ نے آپ کو زبردست قوت بیان کا غیر معمولی ملکہ عطا فرمایا تھا۔ آپ گھنٹوں تقریر فرماتے مجال ہے کہ کوئی سننے والا اکتائے یا تھکن کا اظہار کرے، مشکل سے مشکل مضمون کو بہت سادگی اور سلاست سے بیان کرنا آپ کی خوبی تھی، او رآٹھ آٹھ گھنٹے کی طویل تقریروں میں سامعین کو مسلسل محو اور متوجہ رکھنا اور ان کی دلچسپی و ذوق و شوق کے عالم کو برقرار رکھنا بھی آپ ہی کا کمال تھا۔ انہی تقاریر و خطابات میں آپکا یہ بھی انداز بیان تھا کہ دوران تقریر کوئی لطیفہ، چٹکلہ یا تاریخی واقعہ بیان فرماتے جس سے نہ صرف سننے والوں کی دلچسپی بڑھ جاتی بلکہ بعض اوقات زیر بحث مضمون سامعین کی ذہنی سطح کے قریب تر ہوکر بہت آسانی سے واضح ہوجاتا۔ ایسے واقعات کی ایک یہ بھی اہمیت ہوتی ہے کہ کبھی کبھی طویل مضمون سے بھی بڑھ کر اپنا اثر دکھاتے ہیں اور ذہنی انقلاب کیلئے ایک مہمیز کا کام دیتے ہیں۔
تحریک جدید ایک الٰہی تحریک
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے تحریک جدید کے قیام، اغراض و مقاصد اور عالمگیر ترقیات متعلق خطبات، خطابات اور ارشادات پر مشتمل یہ کتاب وکالت الدیوان تحریک جدید انجمن احمدیہ کی مرتب کردہ ہے۔ پہلی تین جلدوں میں خلافت ثانیہ کے دور کا مواد جمع کیا گیا ہے۔
دعوت الامیر
یہ کتاب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے امیر امان اللہ خان فرمانروائے افغانستان کیلئے اس زمانے میں بطور اتمام حجت بصورت مکتوب تحریر فرمائی تھی۔ اس کتاب کا فارسی ترجمہ کرواکر امیر امان اللہ خان کو بھیجوایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن فارسی زبان میں ہی شائع کیا گیا تھا۔ بعد میں اس کتاب کے اردو زبان میں متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔
اس کتاب میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے عقائد احمدیت بیان فرماتے ہوئے معاندین سلسلہ احمدیہ کے تمام چیدہ اور مایہ ناز اعتراضات کا انتخاب پیش کرکے ایسے مسکت اور تسلی بخش جواب تحریر فرمائے ہیں جو حق پسند طالبانِ تحقیق کو مطمئن ومسرور اور معاندین کو مبہوت و مفرور بنادینے والے ہیں نیز اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر بکثرت دلائل ساطعہ اور براہین قاطعہ کے ساتھ ایسے دلکش اور دل نشین پیرائے میں بالتفصیل بحث فرمائی گئی ہے جو اپنی نظیر آپ ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتاب تبلیغ احمدیت کے نکتہ نظر سے ایک خاص مقام اور اہمیت رکھتی ہے۔
کلام محمود
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک فصیح البیان مقرر، ایک منجھے ہوئے لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے، زیر نظر مجموعہ کلام میں آپ کی دو سو سے زیادہ نظموں کے علاوہ قطعات، الہامی مصرعوں وغیرہ کو جمع کردیا گیا ہے اور اس قیمتی مجموعہ میں ہر منظوم کلام کے نیچے ایک اس کا ماخذ و حوالہ بھی درج ہے نیز اس مجموعہ کلام کے مضامین کی وسعت اور گہرائی آپ کے دیگر لٹریچر کی طرح بہت ہی متنوع اورجذب وکیفیات سےپُر اور گہرا اثر لئے ہوئے ہے۔
فرموداتِ مصلح موعود-دربارہ فقہی مسائل
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے اپنی گوناں گوں مصروفیات کے باوجود وقتاً فوقتاً اپنے خطبات، تقاریر، قضائی فیصلوں، سوال و جواب کی مجلسوں اور خطوط کے جوابات میں جو دینی مسائل بیان فرمائے اور جو روزنامہ الفضل میں 1914ء سے 1963ء کے علاوہ جماعت کے دیگر اخبارات و رسائل مثلاً الحکم، رسالہ ریویو، مصباح، رپورٹ مجلس مشاورت وغیرہ اور حضور کی کتب اور تفاسیر میں شائع ہوگئے۔ نیز دیگر دفاتر، شعبہ جات اور ماخذوں کی فائلوں سے مطبوعہ و غیر مطبوعہ مواد مصنف نے اپنے ذوق کے مطابق یکجا کر دیا ہے۔ یوں قارئین کو بنیادی عقائد، عبادات، لین دین کے معاملات، انشورنس، سود کے مسائل، شادی بیاہ، رسوم و رواج ، حدود و تعزیرات وغیرہ پر رہنمائی کیلئے ایک ماخذ میسر آگیا ہے۔ ٭