قرآن مجید، احادیث، اور صحف سابقہ کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چودھویں صدی کے شروع میں جو کہ انتہائی تاریکی اور کفر و ضلالت کا زمانہ تھا امام مہدی اور مسیح موعود بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ کا عظیم الشان مشن قرآن مجید ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :
لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙیعنی دُنیا کے تمام مذاہب پر اسلام کو غالب کرنا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؑ کا عظیم الشان مشن ان الفاظ میں بیان فرمایا :
لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ اَوْرِجَالٌ مِنْ ھٰؤُلَاءِیعنی ایمان اگر زمین سے اُٹھ کر ثریّا ستارے پر بھی چلا گیا ہو تو امام مہدی دوبارہ اُسے زمین پر قائم کردیگا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ایسے وقت میںمَیں ظاہر ہوا ہوں کہ جب کہ اسلامی عقیدے اختلافات سے بھر گئے تھے۔اور کوئی عقیدہ اختلاف سے خالی نہ تھا… میرے لئے ضروری نہیں تھا کہ میں اپنی حقّیت کی کوئی اَور دلیل پیش کروں کیونکہ ضرورت خود دلیل ہے۔ (ضرورۃ الامام ،رُوحانی خزائن، جلد 13، صفحہ 495)
آپ نے فرمایا :خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دُنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راست بازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے کہ تا وہ دوبارہ دُنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے۔ (آئینہ کمالات اسلام ،رُوحانی خزائن، جلد 5، صفحہ 251)
فرمایا : مَیں تمام اُن لوگوں کیلئے بھیجا گیا ہوں جو زمین پر رہتے ہیں خواہ وہ ایشیا کے رہنے والے ہیں اور خواہ یورپ کے اور خواہ امریکہ کے۔(تریاق القلوب،رُوحانی خزائن، جلد 15، صفحہ 515)
آپ فرماتے ہیں : اگر تم ایماندار ہو توشکر کرو اور شکر کے سجدات بجا لائو کہ وہ زمانہ جسکا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آبا ء گزرگئے اور بیشمار رُوحیں اُسکے شوق میں ہی سفر کر گئیں وہ وقت تم نے پا لیا۔ اب اُسکی قدر کرنا یا نہ کرنا اور اُس سے فائدہ اُٹھانا یا نہ اُٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ میں اِسکو بار بار بیان کروں گا اور اِس کے اظہار سے مَیں رُک نہیں سکتا کہ مَیں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کیلئے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے۔(فتح اسلام ،رُوحانی خزائن، جلد 3، صفحہ 8)
معزز سامعین ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد ہمیں دعوت فکر دیتا ہے کہ ہم نے جو مسیح موعودؑ کا زمانہ پایا، ہم اس عظیم الشان مشن اور عظیم الشان سلسلہ کی ترقی اور اشاعت کیلئے بھر پور کوشش کررہے ہیں یا نہیں؟ یا صرف چندوں میں کچھ روپے دیکر اپنے آپ کو تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش سمجھتے ہیں۔
1864 تا 1867حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بادل نخواستہ سیالکوٹ میں ملازمت کی۔ یہاں سے آپ کی تبلیغی مہم کا آغاز ہوتا ہے۔مسیحی پادری مسلمان علماء کو شکست پر شکست دیتےلیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل اُن کی کچھ پیش نہیں جاتی۔ سیالکوٹ کی مذہبی فضا پر آپ چھائے ہوئے تھے۔ ایک نامی گرامی پادری، بٹلر آپ کا معتقد ہوگیا اور آپ کی باتیں سننے اکثرآپ کے پاس آیا کرتا۔ بعض متعصب لوگوں نے روکنا چاہا لیکن پادری نے انہیں جواب دیا :
’’یہ ایک عظیم الشان آدمی ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ تم اسے نہیں سمجھتے مَیں خوب سمجھتا ہوں۔ ‘‘(تاریخ احمدیت، جلد 1،صفحہ 93)
1872 میں آپؑنے قلمی جہاد کا آغاز کیا۔ بنگلور کے دس روزہ اخبار منشور محمدی میں 25؍اگست 1872 میں آپ کا پہلا مضمون شائع ہوا۔ مضمون کیا تھا اسلام کی تمام مذاہب پر فوقیت اور برتری کا اعلان تھا۔ آپ نے لکھا :
تمام انسانی معاملات میں سچائی ہی تمام خوبیوں کی بنیاد اور اِساس ہے۔ آپ نے تمام مذاہب کو چیلنج دیا کہ آپ ہر اُس غیر مسلم کو 500 روپیہ بطور انعام دینے کیلئے تیار ہیں جو اپنی مسلمہ مذہبی کتابوں سے اُن تعلیمات کے مقابل آدھی بلکہ تہائی تعلیمات بھی پیش کردے جو آپ اسلام کی مستند کتب سے سچائی کے موضوع پر نکال کر دکھائیں گے۔ (تاریخ احمدیت، جلد 1،صفحہ 118)
1876میں آپؑکے والد صاحب کی وفات ہوگئی۔ ایک لمحہ کیلئے آپ دل میں خیال گزرا کہ اب میرا کیا ہوگا۔ معاً اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کہ کیا اللہ اپنے بندے کیلئے کافی نہیں۔ اسکے بعد آپ مکمل طور پر خدائی کفالت میں آگئے۔
1877 میں آریہ سماجی لیڈر سوامی دیانند نے رُوح کے متعلق اپنا یہ عقیدہ شائع کیا کہ :
’’ارواح موجودہ بے اَنت ہیں(یعنی بے انتہا ہیں-ناقل) اوراِس کثرت سے ہیں کہ پرمیشر کو بھی اُن کی تعداد معلوم نہیں۔ اس واسطے ہمیشہ مکتی پاتے رہتے ہیں اور پاتے رہیں گے مگر کبھی ختم نہیں ہوویں گے۔‘‘ (تاریخ احمدیت ،جلد 1،صفحہ 153)
یہ اللہ تعالیٰ کی سخت توہین تھی۔اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ آپؑ نے سلسلہ وار مضامین کے ذریعہ اسکا دندان شکن جواب دیا۔ آپ نے چیلنج دیا :
’’اگر کوئی آریہ یہ ثابت کرے کہ اَرواح بے انت ہیں اور پرمیشر کو اُن کی تعداد معلوم نہیں تو مَیں اُس کو پانچ سو روپیہ انعام دوں گا۔ ‘‘ (ایضاً)
اِس چیلنج نے آریہ سماج کے کیمپ میں کھلبلی مچادی۔ یہاں تک کہ لاہور آریہ سماج کے سکریٹری لالہ جیون داس کو سوامی دیانند کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا پڑا اور انہوں نے یہ اعلان کرکے پیچھا چھڑایا کہ :
’’ یہ مسئلہ آریہ سماج کے اصولوں میں داخل نہیں ہے۔ اگر کوئی ممبر آریہ سماج کا اِس کا دعویدار ہو تو اُس سے سوال کرنا چاہئےاور اُسی کو جواب دینا لازم ہے۔ ‘‘ (ایضاً)
1878-1879 میں آپ نے آریہ سماج کے چوٹی کے لیڈروں کو دعوتِ مقابلہ دیا کہ اسلام اور ویدک دھرم کی مقدس جنگ میں مردِ میدان بن کر آئیںاور اسلام کےمقابلہ پر آریہ دھرم کی برتری ثابت کریں اور انعام پاویں۔ فیصلہ کیلئے آپؑنے اُن کے ہی آدمی پادری رجب علی اور پنڈت شِور نرائن اگنی ہوتری کا نام تجویز فرمایا۔معزز سامعین! پہلے انعامی چیلنج سے ہی ان میں سخت بے چینی و پریشانی تھی اس دوسرے چیلنج نے اُن پر سکتے کا عالم طاری کردیا۔
1880تا 1884 براہین احمدیہ کی چار جلدیں شائع ہوئیں۔ یہ کتاب آپ نے تمام مذاہب کے مقابلہ پر اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے تحریر فرمائی۔ اور اسے تین سو محکم اور قوی دلائل سے مزین فرمایا۔آپؑنے چیلنج دیا کہ اگر کوئی اس کے دلائل کو توڑ کر دکھادے خواہ نصف دلائل توڑ دے اور خواہ پانچواں حصہ ہی توڑ کر دکھادے تو اُس کو دس ہزار روپے انعام دیا جاوے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :
اس کتاب میں ایسی دھوم دھام سے حقانیت اسلام کا ثبوت دکھلایا گیا ہے کہ جس سے ہمیشہ کے مجادلات کا خاتمہ فتح عظیم کے ساتھ ہوجاوے گا۔(براہین احمدیہ رُوحانی خزائن، جلد 1صفحہ69)
آپؑنے فرمایا :
یہ کتاب طالبان حق کو ایک بشارت اور منکران دین اسلام پر ایک حجت الٰہی ہے کہ جسکا جواب قیامت تک ان سے میسر نہیں آسکتا اور اسی وجہ سے اس کے ساتھ ایک اشتہار بھی انعامی دس ہزار روپیہ کا شامل کیا گیا کہ تاہریک منکر اور معاند پر جو اسلام کی حقیت سے انکاری ہے اتمام حجت ہو اور اپنے باطل خیال اور جھوٹے اعتقاد پر مغرور اور فریفتہ نہ رہے۔(براہین احمدیہ، رُوحانی خزائن، جلد 1،صفحہ83)
آپؑنے فرمایا :
آپ سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں افلاطون بن جاویں بیکن کا اوتار دھاریں ارسطو کی نظر اور فکر لاویں اپنے مصنوعی خدائوں کے آگے استمداد کیلئے ہاتھ جوڑیں پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے آلہہ باطلہ اور جب تک اِس کتاب کا جواب نہ دیں تب تک بازاروں میں عوام کالانعام کے سامنے اسلام کی تکذیب کرنا یا ہنود کے مندروں میں بیٹھ کر ایک وید کو ایشرکرت اور ست ودیا اور باقی سارے پیغمبروں کو مفتری بیان کرنا صفت حیا اور شرم سے دور سمجھیں۔ (براہین احمدیہ ،رُوحانی خزائن ،جلد 1،صفحہ57)
1885 میں آپؑنے مامور اور مجدد وقت ہونے کا دعویٰ فرمایااور ایک بار پھر مذاہب عالم کے سربرآوردہ لیڈروںاور رہنماؤں کو نشان نمائی کی دعوت دی کہ اگر وہ طالب صادق بن کر آپ کے پاس ایک سال تک قیام کریں تو وہ ضرور اپنی آنکھوں سے دین اسلام کی حقانیت کے چمکتے ہوئے نشان مشاہدہ کرلیں گے ۔اور اگر کوئی نشان نہیں دکھایا جاسکا تو دو سو روپے ماہوار کے حساب سے چوبیس سو روپے بطور ہرجانہ پیش کیا جائے گا۔ اس کیلئے آپ نے بیس ہزار کی تعداد میں انگریزی اور اُردو میں اشتہارات شائع کئے اور ایشیا امریکہ اور یوروپ کے تمام بڑے بڑے مذہبی لیڈروں، فرمانرواؤں، مہاراجوں،عالموں، مصنفوں، نوابوںکو باقاعدہ رجسٹری کرکے بھجوائے۔لیکن کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ آئے اور نشان دیکھے۔
اسلام اور بانی اسلام اور قرآن کریم کی صداقت کیلئے ایک چیز جو آپؑ نے خصوصیت کے ساتھ اختیار فرمائی وہ نشان نمائی کی دعوت تھی۔ آپؑ پوری زندگی اور مسلسل اشتہارات کے ذریعہ اور تحریرات کے ذریعہ غیرقوموں کو نشان نمائی کی دعوت دیتے رہےکہ اگر کوئی شخص سچے دل سے اسلام کی صداقت کا متلاشی ہے تو وہ میری صحبت میں ایک سال رہے ضرور اللہ تعالیٰ اس کو کوئی نشان دکھلادیگاخواہ پیشگوئی کے رنگ میں ہو یا کسی اور رنگ میں۔ پھر آپؑنے ایک سال کے عرصہ کو چالیس دن کردیا۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غیرقوموں کو جو نشان نمائی کی دعوت دی اور چیلنج دیا اس تعلق میں چند ایک بہت ہی پُرشوکت اور ایمان افروز آپؑکے ارشادات پیش کرتاہوں۔ آپؑنے فرمایا :
ہم نے اس سے پہلے یہ اشتہار دیا تھا کہ جو معزز آریہ صاحب یا پادری صاحب یا کوئی اور صاحب مخالف اسلام ہیں اگر ان میں سے کوئی صاحب ایک سال تک قادیان میں ہمارے پاس آکر ٹھہرے تو درصورت نہ دیکھنے کسی آسمانی نشان کے چوبیس سو روپیہ انعام پانے کا مستحق ہوگا۔ سو ہر چند ہم نے تمام ہندوستان و پنجاب کے پادری صاحبان و آریہ صاحبان کی خدمت میں اسی مضمون کے خط رجسٹری کراکر بھیجے مگر کوئی صاحب قادیان میں تشریف نہ لائےبلکہ منشی اندرمن صاحب کیلئے تو مبلغ چوبیس سو روپیہ نقد لاہور میں بھیجا گیا تو وہ کنارہ کرکے فرید کوٹ کی طرف چلے گئے ہاں ایک صاحب پنڈت لیکھ رام نام پشاوری قادیان میں ضرور آئے تھے اور ان کو بار بار کہا گیا کہ اپنی حیثیت کے موافق بلکہ اُس تنخواہ سے دو چند جو پشاور میں نوکری کی حالت میں پاتے تھے ہم سے بحساب ماہواری لینا کرکے ایک سال تک ٹھہرو اور اخیر پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر ایک سال تک منظور نہیں تو چالیس دن تک ہی ٹھہرو تو انہوں نے ان دونوں صورتوں میں سے کسی صورت کو منظور نہیں کیا۔ (سرمہ چشم آریہ، رُوحانی خزائن، جلد 2،صفحہ 309)
سرسیّد احمد خان کو آپؑنے لکھا :
اگر آپ ایک صادق دل لیکر میری طرف متوجہ ہوں تو میں خدا تعالیٰ سے توفیق پا کر عہد کرتا ہوں کہ آپ کو مطمئن کرنے کیلئے اُس قادر مطلق سے مدد چاہوں گا اور میں یقین رکھتا ہونکہ وہ میری فریاد سنے گا اور آپکو اُن غلطیوں سے نجات دیگا جنکی وجہ سے نہ صرف آپ کی بلکہ ایک گروہ کثیر گرداب شبہات میں مبتلا نظر آتا ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ میں محض للہ اس کام کیلئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ کی رائے کا غلط ہونا آپ پر ثابت کر دکھائوں۔ (آئینہ کمالات اسلام، رُوحانی خزائن، جلد 5،صفحہ 240، حاشیہ)
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام عیسائیوں کو اور مسلمانوں کو نشان نمائی کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
بالآخر میں پھر ہریک طالب حق کو یاد دلاتا ہوں کہ وہ دین حق کے نشان اور اسلام کی سچائی کے آسمانی گواہ جس سے ہمارے نابینا علماء بے خبر ہیں وہ مجھ کو عطا کئے گئے ہیں ۔مجھے بھیجا گیا ہے تا میں ثابت کروں کہ ایک اسلام ہی ہے جو زندہ مذہب ہے… میں ہریک مخالف کو دکھلا سکتا ہوں کہ قرآن شریف اپنی تعلیموں اور اپنے علوم حکمیہ اور اپنے معارف دقیقہ اور بلاغت کاملہ کی رو سے معجزہ ہے۔ موسیٰ کے معجزہ سے بڑھ کر اور عیسیٰ کے معجزات سے صدہا درجہ زیادہ۔
میں بار بار کہتا ہوں، اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم ﷺسے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے… میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مُردے ان کے خدا مُردے اور خود وہ تمام پیرو مُردے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہوجانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ہرگز ممکن نہیں۔
اَے نادانوں! تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزہ ہے؟ اورمُردار کھانے میں کیا لذت؟!!! آئو میں تمہیں بتلائوں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے۔ وہ اسلام کے ساتھ ہے۔ اسلام اِس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہاہے۔ وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہوگیا، آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کررہا ہے۔ کیا تم میں سے کسی کو شوق نہیں؟ کہ اس بات کو پرکھے، پھر اگر حق کو پاوے تو قبول کر لیوے۔
دیکھو میں تمہیں کہتا ہوں کہ چالیس دن نہیں گذریں گے کہ وہ بعض آسمانی نشانوں سے تمہیں شرمندہ کرے گا۔ ناپاک ہیں وہ دل جو سچے ارادہ سے نہیں آزماتے اور پھر انکار کرتے ہیں۔ اور پلید ہیں وہ طبیعتیں جو شرارت کی طرف جاتی ہیں نہ طلب حق کی طرف۔او میرے مخالف مولویو! اگر تم میں شک ہو تو آئو چند روز میری صحبت میں رہو۔ اگر خدا کے نشان نہ دیکھو تو مجھے پکڑو۔ اور جس طرح چاہو تکذیب سے پیش آئو۔ میں اِتمام حجت کر چکا۔ اب جب تک تم اس حجت کو نہ توڑ لو، تمہارے پاس کوئی جواب نہیں۔ خدا کے نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں۔ کیا تم میں سے کوئی نہیں جو سچا دل لے کر میرے پاس آوے۔ کیا ایک بھی نہیں۔(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم ، روحانی خزائن، جلد 11، صفحہ345)
وہ اشتہار جو پیشگوئی مصلح موعود کا پیش خیمہ بنا وہ اشتہار یہ تھا، آپؑنے تحریر فرمایا :
بعد ماو جب گزارش ضروری یہ ہے کہ عاجز مؤلف براہین احمدیہ حضرت قادر مطلق جلشانہ‘ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی… کی طرز پر کمال مسکینی فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کیلئے کوشش کرے۔ اور اُن لوگوں کو جو راہ راست سے بے خبر ہیںصراط مستقیم دکھاوے۔ اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہےجس کی 37 جز چھپ کر شائع ہو چکی ہیں…لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرض ا تمام حجت یہ خط جس کی 240 کاپی چھپوائی گئی ہے، معہ اشتہارانگریزی، جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہے شائع کیا جائے اور اسکی ایک ایک کاپی بخدمت معزز پادری صاحبان پنجاب و ہندوستان و انگلستان وغیرہ بلادجہاں تک ارسال خط ممکن ہو، جو اپنی قوم میں خاص طور پر مشہور اور معزز ہوں، اور بخدمت معزز برہموں صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرات مولوی صاحبان جو وجودخوارق و کرامات سے منکر ہیں اور اس وجہ سے عاجز پر بد ظن ہیں، ارسال کی جاوے ۔
یہ تجویز نہ اپنےفکرو اجتہاد سے قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اسکی اجازت ہوئی ہے… یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں اس نظر سے کہ آپ اپنی قوم میںمعزز اورمشہوراور مقتدا ہیں، ارسال کیا جاتا ہے۔ اور آپ کے کمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ اس خط کے مضمون کی طرف توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گے… اصل مدعا خط جس کے اِبلاغ سے میں مامور ہوا ہوں، یہ ہے کہ دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجانب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے۔اس دین کی حقانیت اور قرآن کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوںکی شہادت بھی پائی جاتی ہے جس کو طالب صادق اس خاکسار کی صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعاینہ چشم تصدیق کر سکتا ہے۔ آپ کو اس دین کی حقانیت یا اُن آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر اُن آسمانی نشانوں کا بچشم خود مشاہدہ کر لیں و لیکن اس شرط نیت سے کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اسی جگہ (قادیان میں) شرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جائیں گے۔ اس شرط نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ تعالیٰ آسمانی نشان مشاہدہ کریں گے۔ اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلّف کا امکان نہیں ۔ اب آپ تشریف نہ لائیں تو آپ پر خدا کا مواخذہ رہا۔
اور اگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہرجانہ یا جرمانہ دیا جائے گا۔ اس دو سو روپیہ ماہوار کو آپ اپنے شایان شان نہ سمجھیں تو اپنے حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لایق قرار دیں گے ہم اسکو بشرط استطاعت قبول کریں گے۔ طالبان حرجانہ یا جرمانہ کیلئے ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور جو حرجانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ بذاتِ خودتشریف نہ لا سکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرماویں مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے اظہار اسلام یاتصدیق خوارق میں توقف نہ فرمائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا : ہم سے اپنی شرط دو سوروپیہ ماہوار جرمانہ یا حرجانہ عدالت میں رجسٹری کرالیں اوراسکے ساتھ ایک حصہ جائیداد بھی بقدر شرط رجسٹری کرالیں۔ (مجموعہ اشتہارات، اشتہار نمبر13، جلد 1، صفحہ 30، مطبوعہ قادیان ایڈیشن 2019)
جب قادیان کے ہندوؤں اور آریوں کو اس اشتہار سے آگاہی ہوئی تو اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا ، انہوں نے لکھا کہ :
مرزا صاحب مخدوم و مکرم مرزا غلام احمد صاحب سلمہ‘
بعد ما وجب بکمال ادب عرض کی جاتی ہے کہ جس حالت میں آپ نے لنڈن امریکہ تک اس مضمون کے رجسٹری شدہ خط بھیجے ہیںکہ جو طالب صادق ہو اور ایک سال تک ہمارے پاس آکر قادیان میں ٹھہرے تو خدائے تعالے اس کو ایسے نشان دربارئہ اِثبات حقیّت اسلام ضرور دکھائے گا کہ جو طاقت انسانی سے بالاتر ہوں، سو ہم لوگ جو آپ کے ہمسایہ اور ہم شہری ہیں لند ن اور امریکہ والوں سے زیادہ تر حق دار ہیں اور ہم آپ کی خدمت میں قسمیہ بیان کرتے ہیں جو ہم طالب صادق ہیں کسی قسم کا شر اور عناد جو بمقتضائے نفسانیت یا مغائرت مذہب نا اہلوں کے دلوں میں ہوتا ہے وہ ہمارے دلوں میں ہرگز نہیں ہے اور نہ ہم بعض نا منصف مخالفوں کی طرح آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہم صرف ایسے نشانوں کو قبول کریں گے کہ جو اس قسم کے ہوں کہ ستارے اور سورج اور چاند پارہ پارہ ہو کر زمین پر گرجائیں یا ایک سورج کی جگہ تین سورج اور ایک چاند کی جگہ دو چاند ہو جائیںیا زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو کر آسمان سے جا لگے۔ یہ باتیں بلاشبہ ضدیت اور تعصب سے ہیں نہ حق جوئی کی راہ سے ۔ لیکن ہم لو گ ایسے نشانوں پر کفایت کرتے ہیںجن میں زمین و آسمان کے زیر و زبر کرنے کی حاجت نہیں اور نہ قوانین قدرتیہ کے توڑنے کی کچھ ضرورت ۔ ہاں ایسے نشان ضرور چاہئیں جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہوں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ سچا اور پاک پر میشر بوجہ آپ کی راست بازی دینی کے عین محبت اور کرپا کی راہ سے آپ کی دعائوں کو قبول کر لیتا ہے اور قبولیت دعا سےقبل از وقوع اطلاع بخشتا ہے۔ یا آپ کو اپنے بعض اسرار خاصہ پر مطلع کرتا ہے اوربطور پیشگوئی اُن پوشیدہ بھیدوں کی خبر آپ کو دیتا ہے۔ یا ایسے عجیب طور پر آپ کی مدداورحمایت کرتا ہے جیسے وہ قدیم سے اپنے بر گزیدوں اور مقربوں اور بھگتوں اور خاص بندوں سے کرتا آیا ہے۔ سو آپ سوچ لیں کہ ہماری اس درخواست میں کچھ ہٹ دھرمی اور ضد نہیں ہے اور اس جگہ ایک اور بات واجب العرض ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ یہ بھی شرط لگاتے ہیں کہ مشاہدہ کنندہ کسی نشان کے دیکھنے کے بعد اسلام قبول کرے ۔ سو اس قدر تو ہم مانتے ہیں کہ سچ کے کھلنے کے بعد جھوٹھ پر قائم رہنا دھرم نہیں ہے ۔ اور نہ ایسا کام کسی بھلے منش اور سعید الفطرت سے ہو سکتا ہے لیکن مرزا صاحب آپ اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ ہدایت پا جانا خود انسان کے اختیار میں نہیں ہے جب تک توفیق ایزدی اسکے شامل حال نہ ہو۔ کسی دل کو ہدایت کیلئے کھول دینا ایک ایسا امر ہے جو صرف پر میشر کے ہاتھ میں ہے۔ سو ہم لوگ جو صد ہا زنجیروں قوم برادری ننگ وناموس وغیرہ میں گرفتارہیں کیونکریہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم خوداپنی قت سے ان زنجیروںکو توڑ کر اور اپنے سخت دل کو آپ ہی نرم کر کے آپ ہی دروازئہ ہدایت اپنے نفس پر کھول دیں گے اور جو پرمیشر سرب شکتیمان کا خاص کا م ہے وہ آپ ہی کر دکھائیں گے بلکہ یہ بات سعادت ازلی پر موقوف ہے جس کے حصہ میں وہ سعادت مقدر ہے اس کیلئے شرائط کی کیا حاجت ہے ۔ اسکو تو خودتوفیق ازلی کشاں کشاں چشمہ ہدایت تک لے آئے گی ایسا کہ آپ بھی اسکو روک نہیں سکتے ۔ اور آپ ہم سے ایسی شرطیں موقوف رکھیں۔ اگر ہم لوگ کوئی آپ کا نشان دیکھ لیں گے تو اگر ہدایت پانے کیلئے توفیق ایزدی ہمارے شامل حال ہوئی تو ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں اور پر میشر کی قسمکھا کر کہتے ہیں کہ اس قدر تو ہم ضرور کریں گے کہ آپ کے اُن نشانوں کو جو ہم بچشم خود مشاہدہ کرلیں گے، چند اخباروں کے ذریعہ سے بطور گواہ رؤیت شائع کرا دیں گے اور آپ کے منکرین کو ملزم و لاجواب کرتے رہیں گے اور آپ کی صداقت کی حقیقت کو حتی الوسع اپنی قوم میں پھیلائیں گے اوربلاشبہ ہم ایک سال تک عند الضرورت آپ کے مکان پر حاضر ہوکر ہر ایک قسم کی پیشگوئی وغیرہ پر دستخط بقید تاریخ و روز کر دیا کریں گے اور کوئی بد عہدی اور کسی قسم کی نا منصفانہ حرکت ہم سے ظہور میں نہیں آئے گی۔ ہم سراسر سچائی اور راستی سے اپنے پر میشر کو حاضر ناظر جان کر یہ اقرارنامہ لکھتے ہیں اور اسی سے اپنی نیک نیتی کا قیام کرنا چاہتے ہیں۔ اور سال جو نشانوں کے دکھانے کیلئے مقرر کیا گیا ہے وہ ابتدائے ستمبر1885سے شمار کیا جاوے گا جس کا اختتام ستمبر 1886 کے اخیر تک ہو جائے گا۔
راقم:: لچھمن رام بقلم خود:جو اس خط میں ہم نے لکھا ہے اس کے موافق عمل کریں گے۔
(1)پنڈت پھارا مل (2)بشن داس ولد رعدا ساہو کار (3)منشی تاراچندکھتری (4)پنڈت نہال چند (5)سنت رام (6)فتح چند (7)پنڈت ہر کرن (8)پنڈت بیجنا تھ چودھری (9)بشن داس ولد ہیرا نند بر ہمن۔ (مجموعہ اشتہارات، جلد 1 ،صفحہ 116، مطبوعہ قادیان ایڈیشن 2019)
اسکے جواب میں سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا :
عنایت فرمائے من !پنڈت نہال چند صاحب و پنڈت پھارا مل صاحب ولچھمی رام صاحب و لالہ بشنداس صاحب و منشی تارا چند صاحب و یگر صاحبان ارسال کنندگان درخواست مشاہدہ خوراق۔
بعد ما وجب ! آپ صاحبوں کا عنایت نامہ جس میں آپ نے آسمانی نشانوں کے دیکھنے کیلئے درخواست کی ہے، مجھ کو ملا۔ چونکہ یہ خط سراسر انصاف و حق جوئی پر مبنی ہے اور ایک جماعت طالب حق نے جو عشرہ کاملہ ہے اسکو لکھا ہے اس لئےبتمامترشکرگزاری اسکے مضمون کو قبول،منظورکرتاہوںاورآپ سے عہدکرتاہوں کہ اگر صاحبان ان عہود کے پابند رہیں گے کہ جو اپنے خط میں آپ لوگ کر چکے ہیں تو ضرور خدائے قادر مطلق جلشانہ کی تائیدو نصرت سے ایک سال تک کوئی ایسانشان آپ کو دکھلایا جائے گا جو انسانی طاقت سے بالا تر ہو۔ یہ عاجز آپ صاحبوں کے پُرانصاف خط کے پڑھنے سے بہت خوش ہوا اور اس سے بھی زیادہ تر اس روز خوش ہو گا کہ جب آپ بعد دیکھنے کسی نشان کے اپنے وعدے کے ایفاء کیلئے جس کو آپ صاحبوں نے اپنے حلفوں اور قسموں سے کھول دیا ہے، اپنی شہادت رؤیت کا بیان چند اخباروں میں مشتہر کر کے متعصب مخالفوں کو ملزم و لاجواب کرتے رہیں گے اور اس جگہ یہ بھی بخوشی دل آپ صاحبوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ایک سال تک کوئی نشان نہ دیکھیں یا کسی نشان کو جھوٹا پاویں تو بے شک اس کو مشتہر کر دیں اور اخباروں میں چھپوا دیں۔ یہ امر کسی نوع سے موجب ناراضگی نہ ہو گا اورنہ آپ کے دوستانہ تعلقات میں کچھ فرق آئے گا بلکہ یہ وہ بات ہے جس میں خدا بھی راضی اور ہم بھی اور ہر ایک منصف بھی اور چونکہ آپ لوگ شرط کے طور پر کچھ روپیہ نہیں مانگتے صرف دلی سچائی سے نشانوں کا دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے اس طرف سے بھی قبول اسلام کیلئے شرط کے طور پر آپ سے کچھ گرفت نہیں۔ بلکہ یہ بات بقول آپ لوگوں کے توفیق ایزدی پر چھوڑ دی گئی ہے۔ اور اخیر پر دلی جوش سے یہ دُعا ہے کہ خداوند قادر کریم بعد دکھلانے کسی نشان کے آپ لوگوں کو غیب سے قوت، ہدایت پانے کی بخشے، تا آپ لوگ مائدہ رحمت الٰہی پر حاضر ہو کر پھر محروم نہ رہیں۔ اَے قادر مطلق کریم و رحیم ہم میں اور ان میں سچا فیصلہ کر اور تو ہی بہترفیصلہ کرنے والا ہے اور کوئی نہیں کہ بجز تیرے فیصلہ کر سکے۔ آمین ثم آمین ۔ (مجموعہ اشتہارات، اشتہار نمبر 32 ،جلد 1، صفحہ 119، مطبوعہ قادیان ایڈیشن 2019)
اسکے بعد سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعاؤں اور استخاروں سے کام لینا شروع کر دیا کہ الٰہی بعض مقامات بھی خاص طور پر بابرکت ہوتے ہیں تو اپنے خاص فضل سے اس بارہ میں بھی میری رہنمائی فرما کہ میں یہ دعائیں کہاں کروں اور کس جگہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کیلئے دعائیں کرنے کیلئے جاؤں۔ ان دعاؤں اور استخاروں کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ ’’تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہو گی۔‘‘ (تذکرہ، صفحہ647)
اس الہام کی بنا پر سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام علیحدگی میں عبادت و ریاضت کیلئے ہوشیارپور تشریف لے گئے۔حضرت منشی عبد اللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب آپؑماہ جنوری 1886 میں ہوشیارپور جانے لگے تو مجھے خط لکھ کر حضور نے قادیان بلالیا۔ اور شیخ مہر علی رئیس ہوشیارپور کو خط لکھا کہ مَیں دو ماہ کے واسطے ہوشیار پور آنا چاہتا ہوں کسی ایسے مکان کا انتظام کردیں جو شہر کے ایک کنارہ پر ہو اور اس میں بالا خانہ بھی ہو۔ شیخ مہر علی نے اپنا ایک مکان جو طویلہ کے نام سے مشہور تھا خالی کروادیا۔ حضور بہلی میں بیٹھ کر دریائے بیاس کے راستے تشریف لے گئے۔(بہلی سے مُراد بیل گاڑی ہے) مَیں اور شیخ حامد علی اور فتح خاں ساتھ تھے۔ فتح خاں رسول پور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا اور حضور کا بڑا معتقد تھا مگر بعد میںمولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر کے نیچے مرتد ہوگیا۔ حضور جب دریا پہنچے تو چونکہ کشتی تک پہنچنے کے رستہ میں کچھ پانی تھا اس لئے ملاح نے حضور کو اٹھاکر کشتی میں بٹھایا جس پر حضور نے اسے ایک روپیہ انعام دیا۔ دریا میں جب کشتی چل رہی تھی حضور نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ میاں عبد اللہ کامل کی صحبت اس سفر دریا کی طرح ہے جس میں پار ہونے کی بھی امید ہے اور غرق ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ مَیں نے حضور کی یہ بات سرسری طور پر سنی مگر جب فتح خاں مرتد ہوا تو مجھے حضرت کی یہ بات یاد آئی۔ خیر ہم راستہ میں فتح خاں کے گاؤں میں قیام کرتے ہوئے دوسرے دن ہوشیار پور پہنچے وہاں جاتے ہی حضرت صاحب نے طویلہ کے بالاخانہ میں قیام فرمایا اور اس غرض سے کہ ہمارا آپس میں کوئی جھگڑا نہ ہو ہم تینوں کے الگ الگ کام مقرر فرمادئیے۔ چنانچہ میرے سپرد کھانا پکانے کا کام ہوا۔ فتح خاں کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ بازار سے سودا وغیرہ لایاکرے۔ شیخ حامد علی کا یہ کام مقرر ہوا کہ گھر کا بالائی کام اور آنے جانے والے کی مہمان نوازی کرے۔ اسکے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے بذریعہ دستی اشہارات اعلان کردیا کہ چالیس دن تک مجھے کوئی صاحب ملنے نہ آویں اور نہ کوئی صاحب مجھے دعوت کیلئے بلائیں۔ ان چالیس دن کے گزرنے کے بعد میںیہاں بیس دن اور ٹھہروں گا ۔ ان بیس دنوں میں ملنے والے ملیں ۔ دعوت کا ارادہ رکھنے والے دعوت کرسکتے ہیں اور سوال و جواب کرنے والے سوال و جواب کرلیں اور حضرت صاحب نے ہم کو بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اندر کی زنجیر ہر وقت لگی رہے اور گھر میں بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے۔ مَیں اگر کسی کو بلاؤں تو وہ اسی حد تک میری بات کا جواب دے جس حد تک کہ ضروری ہے اور نہ اوپر بالا خانہ میں کوئی میرے پاس آوے۔ میرا کھانا اوپر پہنچادیا جاوے مگر اسکا انتظار نہ کیا جاوے کہ مَیں کھانا کھالوں۔ خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جایا کریں۔ نماز مَیں اوپر الگ پڑھا کروں گا تم نیچے پڑھا لیا کرو۔ جمعہ کیلئے حضرت صاحب نے فرمایا کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کے ایک طرف ہو جہاں ہم علیحدگی میں نماز ادا کرسکیں۔ چنانہ شہر کے باہر ایک باغ تھا اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی وہاں جمعہ کے دن حضور تشریف لے جایا کرتے تھے اور ہم کو نماز پڑھاتے تھے اور خطبہ خود پڑھتے تھے۔
عبد اللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : مَیں کھانا چھوڑنے اوپر جایا کرتا تھااور احضور سے کوئی بات نہیں کرتا تھا مگر کبھی حضور مجھ سے خود کوئی بات کرتے تھے تو جواب دے دیتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت نے مجھ سے فرمایا میاں عبد اللہ ان دنوں میں مجھ پر بڑے بڑے خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے اگر ان کو لکھا جاوے تو کوئی ورق ہوجاویں … جب چالیس دن گزر گئے توپھر آپ حسب اعلان بیس دن اور وہاں ٹھہرے ان دنوں میں کئی لوگوں نے دعوتیں کیں اور کئی لوگ مذہبی تبادلہ خیالات کیلئے آئے… انہی دنوں مرلی دھر سے آپ کا مباحثہ ہوا۔ جب دو مہینے کی مدت پوری ہوگئی تو حضور اسی راستہ سے قادیان روانہ ہوئے۔ (تاریخ احمدیت، جلد اوّل، صفحہ 274)
ان چالیس روز کی عبادت و گریہ و زاری کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نےآپؑکو مصلح موعود کی پیشگوئی عنایت فرمائی، یہ پیشگوئی اسی شمارہ کےصفحہ نمبر40پر ملاحظہ فرمائیں۔
جب تک اللہ تعالیٰ نےسیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو نہیں بتایا کہ آپؓہی مصلح موعود ہیں، آپ نے مصلح موعود ہونے کا اعلان نہیں کیا۔بالآخر اللہ تعالیٰ کےحکم سے 1944 میں آپؓنےاعلان فرمایا :
اللہ تعالیٰ کے اذن اور اُسی کے انکشاف کے ماتحت مَیں اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ وہ مصلح موعود جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے ماتحت دنیا میں آنا تھااور جس کے متعلق یہ مقدر تھا کہ وہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام کو دُنیا کے کناروں تک پھیلائے گا اور اُس کا وجود خدا تعالیٰ کے جلالی نشانات کا حامل ہوگا۔ وہ مَیں ہی ہوں…
یاد رہے کہ مَیں کسی خوبی کا اپنے لئے دعویدار نہیں ہوں۔ مَیں فقط خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی شان کو دُنیا میں قائم کرنے کیلئے خدا تعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے۔ اس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعویٰ ہے نہ مجھے کسی دعویٰ میں خوشی ہے۔ میری ساری خوشی اسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول اللہ ﷺ کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آجائے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہوجائے اور میرا خاتمہ رسول کریم ﷺ کے دین کےقیام کی کوشش پر ہو۔ (سوانح فضل عمر، جلد 3، صفحہ 371، ناشر فضل عمر فاؤنڈیشن)
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین