الفضل 20؍فروری 1945ء میں سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے متعلق مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کا ایک مختصر مضمون ’’یہود کی کتب مقدسہ میں مصلح موعودرضی اللہ عنہ کا ذکر ‘‘کے عنوان سے شائع ہوا تھا جو قارئین بدر کے استفادہ کیلئے پیش ہے۔ (ادارہ)
مثل مشہور ہے ع ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات ۔میری فراست تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے بچپن ہی میں اس امر کو پہچانے ہوئے تھی کہ یہ وجود باجود نہایت عظیم الشان مراتب حاصل کرنے والا اور روحانیت کے اعلیٰ مقاموں پر پہنچنے والا ہے ۔حضرت استاذی المکرم حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جبکہ عاجزاخبار ’’بدر‘‘ کا ایڈیٹر تھا ،ایک دن دفتر اخبار بدر میں بیٹھے ہوئے چند دوست باتیں کر رہےتھے۔ حضرت عرفانی کبیر شیخ یعقوب علی صاحب نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جو لطف تھا وہ نہ رہاتو بے اختیار میرے منہ سے نکلا کہ جب میاں صاحب خلیفہ ہوں گے تو پھروہی لطف حاصل ہونے لگے گا ۔حضرت عرفانی صاحب کا اشارہ اس سلسلہ الہامات و وحی الٰہی کی طرف تھاجو حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہم سنتے رہتے اور اپنے ایمانوں کو تازہ کرتے رہتے تھے۔میرے اس خیال کی تائید بعض اہل کشف اصحاب، صاف قلب والوں کےرویاء اور عقائد سے بھی ہوتی تھی۔ہمارے پرانے وطن شہربھیرہ میں ایک بزرگ ولی اللہ حضرت میاں غلام حسن صاحب احمدی مرحوم تھے، جب پیغامی فتنہ شروع ہوا، تو پیغامی خیال کے چند لوگ ان سے ملنے گئے اور انہیںکہا کہ آپ نے کیوں میاں صاحب کی بیعت کر لی؟ وہ تو غلو کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نبی تھے ۔میاں غلام حسین صاحب نے انہیں جواب دیا کہ تم تو مسیح موعود کی نبوت کا انکار کر رہے ہو اور میں تو ان کے بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب میں بھی نبوت کےآثار پاتا ہوں ۔یہ بات سن کر وہ لوگ شرمندہ ہو کر چلے آئے غرض حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے متعلق سلسلہ کے نیک اور پاک لوگ شروع سے ہی حسنِ ظن رکھتے چلے آئے ہیں۔ میرے خیال میں سب سے پہلے حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب مصنف و موجد قاعدہ یسرنا القرآن نے اس مضمون پر ایک رسالہ شائع کیا تھا کہ مصلح موعود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ ہی ہیں۔آپکا موعود ہونا حضرت نعمت اللہ ولی اللہ نے بھی اپنے اشعار میں لکھا ہےبلکہ یہود کی کتب مقدسہ میں جہاں مسیح کی آمد ثانی کا ذکر ہے وہاں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ آمد ثانی کا مسیح شادی کرے گا اور اس کا بیٹا اس کا جانشین ہوگا۔ اگر یہ بیٹامصلح موعود ہونے کے اعلیٰ مقام و مرتبہ پر پہنچنے والا نہ ہوتا تو ہزارہا سال پہلے کی پیش گوئیوں میں اس کیلئے اتنی اہمیت نہ دی جاتی ۔آپ تو حضرت ممدوح نے اپنے مصلح موعود ہونے کے متعلق اللہ تعالیٰ کی وحی و الہام کا بھی اظہار کر دیا ہے۔ لیکن اگر یہ اظہار نہ ہوتا تب بھی شاندار اصلاحوں کے کام جوآپ نے احمدیوں کے نظام میں،اسلام کی اشاعت میں، اہل اسلام اور اہل ہند کی سیاسی رہنمائی میں اور دیگر امور میں کی ہیںاور جن کی اہمیت اور عظمت کو مخالف اور منافق سب تسلیم کر چکے ہیں ،وہ اصلاحی کام خود پکار رہے ہیں کہ یہی مصلح موعود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے کشف و الہام و مکالمہ سے مشرف کیا ہے اور یہ امر جماعت کے واسطے ایک نعمت عظمیٰ ہے جس کیلئے ہم اللہ تعالیٰ کے حضور شکرانہ میں سر بسجود ہیں۔ ٭