مصلح موعود کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قبولیت دعا کا ایک عظیم الشان نشان ہے۔ آپ کے بعض اور بھی نشان ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کے ذریعہ ظاہر ہوئے۔ مثلًا لیکھرام کا نشان۔ بے شک یہ نشان بھی اپنی جگہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ز بردست ثبوت ہے، لیکن نشان ظہورمصلح موعود اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیت دعا کے دوسرے نشانوں میں بہت بھاری فرق ہے ۔ اس نشان کےمتعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خاص اہتمام کیاکہ چالیس دن تک اپنے شہر سے باہر ایک بیرونی مقام میں کنج تنہائی میں تمام دنیا سے منقطع ہو کر حضور علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور میں گریہ وزاری سے دعاؤں اور ذکر الٰہی میں مصروف رہے،جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ رحمت کا نشان عطا فرمایا ۔ قبولیت دعا کے نتیجہ میں جو دوسرے نشان ظاہر ہوئے بے شک وہ بھی شاندار نشان تھے لیکن اس نشان کے نتائج ایسے وسیع ہیں کہ انکا اندازہ لگاناناممکن ہے۔
اس قسم کے نشان تاریخ دنیا میں دعا کے نتیجہ میں تین مرتبہ ظاہر ہوئے۔
(1) پہلا نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ظہور کا نشان تھاجو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے نتیجہ میں ظاہر ہوا۔ یہ نشان اس ذیل کے نشانوں میںاول نمبر پر ہے۔
(2) دوسرا نشان حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃو السلام کے ظہور کا نشان ہے، جوان دعاؤں کے نتیجہ میں ظاہر ہوا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کیلئے کیں ۔ یہ نشان اس قسم کے نشانوں میں اپنی شان کے لحاظ سے دوسرےنمبر پر ہے :
(3) تیسرا عظیم الشان نشان جو دنیا میں قبولیت دعا کے نتیجہ میں ظاہر ہوا ہے ،وہ مصلح موعود کے ظہور کا نشان ہے۔ یہ نشان اپنی عظمت کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔ وہ کیا عظیم الشان انسان ہے جو تیسری دعا کے نتیجہ میں پیدا ہوا ۔ اس کا اندازہ اس کلام الٰہی کے الفاظ سے ہو سکتا ہےجو اس چہل روزہ دعا کے بعد حضور علیہ السلام پر بمقام ہوشیار پور نازل ہوا، جو20؍ فروری کے اشتہار میں شائع کیا گیا۔خدا کے کلام میں مبالغہ نہیں ہو سکتا۔ پس اگر ہم مصلح موعود کی شان کا صحیح اندازہ لگانا چاہتے ہیں توہمیں اس پیشگوئی کےا لفاظ پڑھنے چاہئیں۔ کیا ہی شان ہے اس انسان کی جس کے اوصاف و کمالات اور کارناموں کا نقشہ اس پیشگو ئی میں کھینچا گیا ہے۔ پس تیسرا عظیم الشان انسان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد دعاؤں کے نتیجہ میں دنیا میں ظاہر ہوا وہ مصلح موعود ہے ، جسکا ذکر اس پیشگوئی کے الفاظ میں کیا گیا ہے ۔ یہ امر کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں، نہ صرف نشانات اور دلائل سے ثابت ہوتا ہےبلکہ خدا تعالیٰ کا فعل بھی بلند آواز سے اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ہی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت نمائی سے ان تمام امور کو جنکا ذکر اس پیشگوئی میں ہے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حق میں ایسے رنگ میں پور اکردیا اور پورا کر رہا ہے جسکا کوئی انصاف پسند انسان انکار نہیں کر سکتا۔ ان تمام باتوں کو جن کا ذکر اس پیشگوئی میں ہے پورا کرنا کسی انسان کا کام نہ تھا۔ خدا تعالیٰ ہی ایسا کر سکتا تھا۔ اس نے ان باتوں کو پورا کر کے آسمان سے اس بات کی گواہی دی کہ وہ آنے والا جس کی خبر اس پیشگوئی میں دی گئی تھی یہی محمود (فداہ ابی و امی) ہےپس سب سے بڑا ثبوت کسی شخص کی صداقت کا اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہوتی ہےاور یہ ثبوت یہاں نہایت ہی بین ر نگ میں موجود ہے۔
ایک اور امر جو حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کے مصلح موعود کی شہادت دے رہا ہے یہ ہے کہ جیسا سلوک آپ سے پہلے خدا کے موعودوں کے ساتھ ہوا۔ وہی سلوک آپ کے ساتھ ہوا ۔ خدا کی طرف سے جو موعود دنیا کی اصلاح کیلئے آتےرہے ہیں ، ان کے متعلق یہ سنت اللہ رہی رہے کہ ان کی قوم کے سر کردہ لوگ ان کی مخالفت پر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے انکو ناکام کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے زمانہ میں سب سے بڑا انسان فرعون تھا جو آپ کی مخالفت میں کھڑا ہوا اورجس نےآپ کو اور آپکی قوم کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں یہودیوںکا سب سے بڑا آدمی جو ان کا سردار کاہن تھا جس کا نام کا ئفا تھا، جو ان کو نا کام کرنے کے درپے ہو گیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں وادئ مکہ کا سردار ابوجہل تھا جس نے آپ کی مخالفت کا بیڑا اٹھا لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں مسلمانوں کے سرکردہ مولویوں محمد حسین بٹالوی اور نذیر حسین دہلوی نے مخالفت کا بیڑا اٹھانے کی وجہ سے خدا کے الہام میں فرعون اور ہامان کا لقب پایا۔ اسی طرح ٹھیک اسی طرح خدا کی قدیم سنت کے مطابق جب محمود کے کھڑے ہونے کا وقت آیا تو احمدی جماعت کے چوٹی کے آدمی آپ کے مقابل پر ٹھیک اسی طرح کھڑے ہو گئے، جس طرح پہلے مصلحین کے زمانہ میں ان کے زمانہ کے سرکردہ آدمی کھڑے ہو گئے تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنےفعل سے اس بات کا اعلان کیا کہ جو شخص اب کھڑا ہونے والا ہے، وہ وہی موعود ہےجس کی خبر جماعت احمدیہ کے بانی (علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے دی تھی ۔
ایک اور امر جو حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی حقیقی شان کو ظاہر کرتاہے، وہ یہ ہے کہ سلسلہ احمدیہ کی بنیاد آپ کی پیدائش کے ساتھ رکھی گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے متعلق جو لوگ حسن ظن رکھتے تھے اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریروں اور پیشگوئیوں کے نشانوں سے متاثر تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو اصلاح خلق اللہ کیلئے کھڑا کیا ہے، آپ سے بار بار درخواست کرتے تھے کہ آپ کو اپنی بیعت میں داخل کر لیں، لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام ان کو ہمیشہ یہ جواب دیتے تھے، ابھی تک مجھے بیعت لینے کاحکم نہیں ہوا۔ جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے بیعت لینے کا حکم نہیں ہوتا میں کسی سے بیعت نہیں لے سکتا۔ لیکن جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پیدا ہوئے تو اس وقت آپ کو بذریعہ الہام الٰہی سلسلہ بیعت شروع کرنے کا حکم ہوا۔ اور یہ وحی نازل ہوئی اِصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا۔ چنانچہ آپ نے اس اشتہار میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ولادت کی خبر شائع کی اور اس میں لوگوں کو بیعت کی دعوت دیکر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی۔ جب تک حضرت خلیفۃ المسیح الثانی پیدا نہ ہوئے، خدا تعالیٰ نےسلسلہ بیعت کو ملتوی رکھا۔ چنانچہ آپ کی پیدائش کے ساتھ ہی حکم نازل کر کے سلسلہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی۔ اس طرح آپ کی پیدائش کے ساتھ سلسلہ احمدیہ کا آغاز ہوا۔ اس میں اس بات کا اشارہ تھا کہ اس مولود مسعود کوسلسلہ احمدیہ کے ساتھ گہرا تعلق ہے، کیونکہ دونوں کی ابتداءاکٹھی ہوئی۔ تا معلوم ہوکہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کو آپ کے وجود کے ساتھ ایسی وابستگی ہےکہ دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں سمجھے جاسکتے۔ آخر میں میں اس بات کا اظہار کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس طرح ہم غیر احمدیوں سے یہ کہتے ہیں کہ تمہارے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قبول کرنااس لئے ضروری ہے کہ آپ کے ذریعہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیشگوئیاں پوری ہوئیں اور آپ کا وجود آپ کی صداقت کا نشان ہے، جس کے ذریعہ ہم مخالفین اسلام پر اتمام حجت کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم غیر مبائعین اصحاب کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت فضل عمر کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کو پورا کیا ہے اور آپ کی صداقت کا ایک جلیل القدر نشان ظاہر کیا ہے۔ اس لئے آپ صاحبان کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کر تے ہو فرض ہے کہ اس نشان کی صداقت پر ایمان لاؤ اور دنیا کو بتاؤ کہ دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جلیل القدر پیشگوئی کو اعجازی رنگ میں پورا کر کے آپ کی صداقت کا ایک شاندار ثبوت دیا ہے۔ اس کے آگے ہر ایک خدا ترس اورخشیت اللہ کے ساتھ تدبر کرنے والے کی گردن جھک جاتی ہے ۔ لیکن اگر آپ لوگ ضد اورتعصب کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس چمکتے ہوئے نشان کا انکار کریں گے تو آپ تو خدا تعالیٰ کے نزدیک اسی طرح زیر الزام ہوں گے جس طرح غیر احمدی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا انکارکر کے جن کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی اور جن کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر ایک جلیل القدر شہادت ہے ،خدا تعالیٰ کے نزدیک زیر الزام ہیں۔
(ماخوذ از الفضل 20؍فرورہ 1944ء)
…٭…٭…٭…